روایت اور جدیدیت

قسط ۵، شیخ ابن عربی اور ڈاکٹر اسرار احمد کا نظریہ وحدت الوجود

روایت اور جدیدیت کے پروگرام کے تحت اس سیشن میں شیخ ابن عربی اور ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے نظریہ وحدت الوجود کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ وحدت الوجود کی مختلف تعبیریں ہمیں ملتی ہیں، جن میں سے بعض کفر وشرک ہیں، بعض بدعت ہیں، اور بعض توحید ہی کا ایک پہلو ہیں۔ لیکن وحدت الوجود کی سٹینڈرڈ تعبیر وہی ہے جو شیخ ابن عربی نے پیش کی ہے اور وہ کفر وشرک ہے۔ اڑھائی سو فقہاء نے اس تعبیر پر نقد کیا، بہتوں نے کفر وشرک کہا۔ چالیس کے قریب حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی فقہاء اور بعض صوفیاء کی بھی مستقل کتابیں موجود ہیں کہ جن میں اس نظریے کو کفر اور شرک قرار دیا گیا ہے۔ حنفی فقہاء اور صوفیاء کی معتد بہ تعداد نے ابن عربی کو کافر تک قرار دیا ہے۔ تو اپنا مطالعہ بڑھائیں تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ وحدت الوجود کی مخالفت اہل حدیثوں کا نہیں امت کا مسئلہ ہے، فقہائے اربعہ اور ان کے متبعین کا مسئلہ ہے۔ محقق صوفیاء کا مسئلہ ہے۔ محدثین اور اہل الحدیث کا مسئلہ ہے۔ اور یہ بات پورے وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ اس امت کی تاریخ میں اتنی تکفیر کسی شخص یا نظریے کی نہیں ہوئی جتنی ابن عربی اور اس کے نظریے وحدت الوجود کی ہوئی ہے۔ برصغیر میں شیخ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے اس کی شد ومد سے مخالفت کی اور اسے اپنے مکاتیب میں 'ہم اوست' یعنی ہر چیز خدا ہے، کا نظریہ قرار دیا اور یہ کہا کہ شیخ ابن عربی نچلے درجات میں رہ گیا تھا، اگر اسے اوپر جانا نصیب ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ اصل وحدت الوجود نہیں بلکہ وحدت الشہود ہے۔ وحدت الشہود ہماری نظر میں نہ تو کفر ہے اور نہ ہی شرک البتہ بدعی نظریہ ہے کہ کتاب وسنت، صحابہ وتابعین، ائمہ اربعہ اور فقہاء ومحدثین کا نظریہ، نظریہ تخلیق ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کا نظریہ وحدت الوجود نہ ابن عربی کا نظریہ وحدت الوجود ہے اور نہ ہی شیخ مجدد کا وحدت الشہود بلکہ یہ انہی کی تخلیق ہے۔ ہماری نظر میں یہ نظریہ بھی کفر اور شرک نہیں البتہ بدعت ہے کہ نظریہ تخلیق کی بدعی شرح ہے۔ رہا وحدت الوجود کے بارے متاخرین صوفیاء کی ایک بڑی جماعت کا موقف کہ یہ ایک حال ہے کہ جس میں انسان کو خدا کی طرف اتنی کامل یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے کہ ہر چیز اس کے لیے مثل معدوم ہو جاتی ہے تو یہ توحید کے احوال میں سے ایک حال ہے جیسا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فصوص الحکم کی شرح لکھنی شروع کی تھی لیکن انقباض قلب کی وجہ سے لکھ نہ پائے کہ ایسی تکلیف ہوتی تھی کہ عمر بھر یاد رہی۔ وجہ یہی تھی کہ صریح کفریہ اور شرکیہ عبارات کی شرح ممکن نہ تھی کہ خدا کو کیا جواب دیں گے! پھر ابن عربی کے دفاع میں ایک تحریر لکھ دی۔ تو اہل حال بھی شخصیت کا دفاع کرتے ہیں، کفریہ اور شرکیہ عبارات کا نہیں ہے۔ تو بعض اہل علم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ ان کی اپنی عبارات نہیں ہیں یعنی ان کی کتابوں میں ایڈیشن ہوئی ہے تو یہ اہل علم تو اللہ کے ہاں معذور ہیں۔ اور جو ابن عربی کی کفریہ اور شرکیہ عبارات کی تاویل کرتے ہیں تو یہ ابن عربی ہی کے حکم میں ہیں۔ اب اس تاویل سے بڑھ کر کیا کفر ہو گا کہ اللہ عزوجل نے فرعون یعنی نفس لعین کو اس کے کمال ایمان کی جزا کے طور وحدت الوجود کے سمندر میں غرق کر دیا۔ اور اس تاویل کے بعد داد طلب نظروں سے ہم سے پوچھتے ہیں کہ اب سمجھ آئی کہ ابن عربی کیوں فرعون کے کمال ایمان کے قائل تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔




پلے لسٹ