او۔سی۔ڈی obsessive compulsive disorder کے بارے ایک بات تو ذہن میں بٹھا لینی چاہیے کہ یہ کوئی نیوراتی اختلال neurological disorder نہیں ہے کہ اس کے لیے میڈیسن لی جائیں۔ لہذا بیماری کے علاج کے لیے میڈیسن لینا درست نہیں ہے تو سائیکیٹرسٹ سے بچ کر رہیں۔ ہماری نظر میں یہ ایک ذہنی اختلال psychological disorder ہے کہ جس کے لیے کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے۔ سائیکالوجی میں اس کے علاج کے لیے فیملی تھیراپی، گروپ تھیراپی، سی۔بی۔ٹی cognitive behavior therapy اور ای۔آر۔پی exposure response prevention وغیرہ استعمال کی جاتی ہے لیکن ہمیں اس وقت اسلامی تناظر میں اس موضوع پر گفتگو کرنی ہے۔
کچھ عرصے سے بہت سے نوجوان اس مرض کی شکایت کر رہے ہیں اور اس کے حوالے سے رہنمائی چاہ رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں تقریبا 3 فی صد افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ اس مرض میں مبتلا شخص کو وسوسے بہت زیادہ آتے ہیں۔ اگر ہم ان وسوسوں کو کیٹیگرائز کریں تو وہ دو قسم کے ہیں؛ ایک کا تعلق انسان کی خواہش نفس (desire) سے ہے اور عموما یہ وساوس سیکس سے متعلق ہوتے ہیں۔ مثال کے طور ایک نوجوان کو یہ وسوسہ بہت زیادہ آتا ہے کہ اس کے والدین سیکس کر رہے ہیں۔ ایک نوجوان کو یہ وسوسہ بہت زیادہ آتا ہے کہ مشت زنی (mastubation) طاق عدد میں یا طاق دنوں میں نہیں کرنی ہے۔ ایک نوجوان کو یہ وسوسہ بہت زیادہ آتا ہے کہ پورن ویڈیوز دیکھنے کے بعد اگر وہ دو گھنٹے تک نہایا نہیں تو پاک نہیں ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ دوسری قسم کے وساوس وہ ہیں کہ جن کا تعلق شبہے (doubt) سے ہے جیسا کہ ایک نوجوان کو خدا کے بارے وسوسے آنا کہ خدا ہے یا نہیں۔ ایک نوجوان کو شرک کے بہت وسوسے آتے ہیں۔ ایک نوجوان کو کفر کے وسوسے بہت زیادہ آتے ہیں۔ ایک نوجوان کو نبی کے بارے بہت عجیب وسوسے آتے ہیں۔
ہماری رائے میں ماڈرن سائیکالوجی میں اگر کچھ سمجھدار لوگ موجود تھے تو وہ سائیکو اینالیسس والے اسکول آف تھاٹ میں تھے یعنی فرائیڈ اور اس کے ساتھی مثلا ایڈلر اور یونگ وغیرہ۔ ان لوگوں میں گہرائی بہت تھی اور وہ مسئلے کو بہت گہرائی میں جا کر پکڑتے تھے۔ اس کے بعد سائیکالوجی میں جو اسکولز آف تھاٹس پیدا ہوئے، تو ہمیں ذاتی طور ان کی ایپروچیز دل کو نہیں بھاتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں پاکستان میں تو کلینکل سائیکالوجی والے چھائے ہوئے ہیں جبکہ سائیکو اینالیسس والے ہیں ہی نہیں۔ اور یورپ میں بھی ان کی ایپروچ کو غیر سائنسی کہہ کر انہیں سائیڈ لائن لگا دیا گیا۔ لہذا او۔سی۔ڈی کا مسئلہ نہ تو نفسیات سے پکڑ میں آ رہا ہے اور نہ ہی مذہب سے۔
او۔سی۔ڈی کی وجہ اگر خواہش نفس ہے تو مسئلہ نفسیاتی ہے اور اسے سائیکو اینالیسس والے بہتر حل کر سکتے ہیں۔ میرے نزدیک اگر او۔سی۔ڈی کی وجہ خواہش نفس ہے تو وہ سیکس یا رومانس کی جبلت ہے۔ یہ دونوں بھی ہماری نظر میں ایک ہی جبلت ہیں لیکن ہم مردوں کے لیے سیکس اور عورتوں کے لیے رومانس کا لفظ استعمال کرتے ہیں، کچھ وجوہات سے۔ اگرچہ فرائیڈ نے دونوں کے لیے سیکس کا لفظ ہی استعمال کیا ہے اور اس لفظ کو وسیع معنی میں استعمال کیا ہے۔ لیکن اس سے بہت غلط فہمی پیدا ہوئی کہ بعد میں آنے والوں نے فرائیڈ کے لفظ سیکس کا معنی سیکس ہی لیا اور اس کے وسیع معانی کا اعتبار نہ کیا۔ تو اگر نوجوان غیر شادی شدہ ہے اور او۔سی۔ڈی کی وجہ خواہش نفس یعنی سیکس یا رومانس کی جبلت ہے تو اس کا حل شادی ہی ہے اور کچھ نہیں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ او۔سی۔ڈی والے کی شادی ناکام رہے گی تو یہ بات کسی حد تک درست ہے اور کسی حد تک نہیں۔ او۔سی۔ڈی کا مریض دراصل حد درجے منفی سوچنے negative thinking کا عادی ہوتا ہے، یہ اس کی کمی ہے۔ اور حد درجے حساس ہوتا ہے، یہ اس کی خوبی ہے کہ اس کی وجہ سے اسے دوسروں کے احساسات سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔
میرا مشورہ تو یہی ہو گا کہ او۔سی۔ڈی کا مریض، کسی ایسے سے ہی شادی کرے کہ جو او۔سی۔ڈی کا مریض ہو یا رہ چکا ہو۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی صورت حال، سوچ اور احساس کو سمجھ سکتے ہیں، دوسرا نہیں۔ پھر ان کا اصل مسئلہ یہ بھی نہیں ہے کہ ان کی سیکس یا رومانس کی جبلت پوری ہو جائے۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی سیکس یا رومانس کی جبلت ویسے پوری ہو جائے جیسا کہ وہ چاہتے ہیں اور اسے ہم ایک لفظ میں احترام کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ اپنی سیکس یا رومانس کی جبلت کو ایک ضرورت کے پورا کرنے کے طور نہیں لے رہے ہوتے ہیں بلکہ اپنی شخصیت کی تکمیل کا لازمی سمجھ لیتے ہیں۔ تو ایسے افراد شادی کے بعد بھی او۔سی۔ڈی کا شکار رہ سکتے ہیں۔ تو سیکس اور رومانس انہیں نہ بھی ملے تو توجہ اور احترام سے ان کا مسئلہ کسی قدر حل ہو جاتا ہے لہذا کسی لَو افیئر میں کامیاب ہو جائیں کہ جس میں ان کو توجہ اور احترام مل جائے تو وقتی طور ان کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ لیکن ان کا اصل مسئلہ صرف توجہ اور احترام بھی نہیں ہے بلکہ متعلقہ جبلت کا اس توجہ اور احترام سے پورا ہونا ہے۔
تو اگر وجہ نفسیاتی ہے تو اس کا حل شادی ہے۔ وقت پر شادی نہ ہونا بھی او۔سی۔ڈی کی بیماری کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دوسری وجہ مذہبی ہوتی ہے اور یہ طہارت کا لحاظ نہ کرنے یا بہت زیادہ لحاظ کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ طہارت کا لحاظ نہ کرنے والا اپنے اعتقادی نظام belief system کو توڑنا چاہتا ہے کیونکہ اس کی سوچ کے مطابق اعتقادی نظام اس کی سیکس یا رومانس کی خواہش کی تکمیل میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ اور جو طہارت کا بہت زیادہ لحاظ رکھتا ہے تو وہ اپنی جنسی خواہشات کو بہت زیادہ دبائے ہوئے ہوتا ہے یا اگر اس کی خواہش نفس یعنی اڈ اور اس کا اعتقادی نظام یعنی سپر ایگو آپس میں ٹکرا جائے اور ایگو درمیان میں کمزور ہو کہ مفاہمت نہ پیدا کر سکے تو وہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ مشت زنی بھی کر بیٹھے گا، پورن ویڈیو بھی دیکھ لے گا، اس کے بعد اپنے مضبوط اعتقادی نظام کی وجہ سے اس قدر پریشان ہو جائے گا کہ اب اسے لگے گا کہ جیسے مجھے اپنے آپ کو گناہ سے پاک کرنے کے لیے بہت طہارت کی ضرورت ہے۔
تو او۔سی۔ڈی میں اگر بظاہر وساوس مذہبی بھی ہوں تو ان کے پیچھے بھی وجہ وہی خواہش نفس یعنی سیکس اور رومانس کی ضرورت ہی ہوتی ہے۔ تو او۔سی۔ڈی کی تمام صورتوں میں وجہ ایک ہی جبلت ہے یعنی سیکس اور رومانس کی جبلت۔ جب اس کی اچھے سے تسکین نہیں ہو پا رہی تھی یا جیسے انسان کا نفس چاہ رہا ہوتا ہے، ویسے تسکین نہیں ہو رہی ہوتی ہے تو نفس انتشار (disorder) کا شکار ہو جاتا ہے۔ حل کیا ہے؟ وجہ کو ختم کر دیں۔ اور اسلامی تناظر میں اس کا حل شادی ہی ہے۔ اگر ایک شادی سے مسئلہ حل نہیں ہو رہا یعنی سیکس یا رومانس کی جبلت پوری نہیں ہو رہی تو دوسری شادی کر لے۔ باقی او۔سی۔ڈی کے مریضوں میں اصل ڈس آڈر یہ نہیں ہے کہ ان میں سیکس یا رومانس کی جبلت ہے، یہ تو سب میں ہے۔ اصل ڈس آڈر یہ ہے کہ وہ اپنی جبلت کو ویسا پورا کرنا چاہتے ہیں جیسے پورا کرنا آئیڈیلزم ہے، حقیقت نہیں۔
اب یہ آئیڈیلزم ان میں کیوں پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی جبلت کو آئیڈیل صورت میں پورا کریں۔ اس کی وجہ ان کے گھر کے حالات ہوتے ہیں۔ اگر تو بروکن فیملی ہے یا ماں باپ کی آپس میں لڑائیاں زیادہ ہوتی ہیں، اور وہ بھی بچوں کے سامنے، تو اس فیملی میں کوئی بچہ او۔سی۔ڈی کا شکار ہو سکتا ہے۔ تو یہ وہ وجہ ہے جو بچپن میں ہی پیدا ہو جاتی ہے کہ بچے میں والدین کی بے توجہی سے توجہ کی طلب بڑھ جاتی ہے اور ان کی آپس کے گالم گلوچ اور لعن طعن سے تعلق میں احترام کی طلب حد سے بڑھ جاتی ہے۔ اور یہ یعنی بچپن میں پیدا ہونے والی بیماری کی صورت زیادہ خطرناک ہے۔ دوسری صورت میں اس کی وجہ ذہانت ہے۔ دو ذہین لوگ جب ایک رشتے کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو ایک دوسرے کے ایٹی چیوڈ کو جس ذہانت سے جانچتے ہیں، وہ ذہانت آہستہ آہستہ او۔سی۔ڈی میں بدل جاتی ہے۔
دو ذہین میاں بیوی میں دونوں کا بہت با اخلاق ہونا ضروری ہے ورنہ دونوں مریض بن جائیں گے یا کوئی ایک تو لازما بنے گا۔ او۔سی۔ڈی کے مریض کو سادہ مزاج اور سادہ ذہن والے سے شادی راس آئے گی ورنہ تو ساری زندگی ایک دوسرے کی چالاکیاں پکڑتے گزر جائے گی۔ اور اگر اللہ کی طرف سے پارٹنر بھی ذہین ہے تو پھر فنا فی اللہ ہو جائے تو گزارا ہو جائے گا ورنہ تو ایمان بھی جاتا رہے گا۔ اگر او۔سی۔ڈی بچپن سے ہے تو سائیکو اینالسسٹ سے تھیراپی کی ضرورت ہے۔ اور اگر بعد میں پیدا ہوئی ہے تو اپنی زندگی میں سادگی پیدا کر لیں یعنی کپڑوں کی سادگی مراد نہیں ہے، ذہن کے سادہ بن جائیں اور شعوری طور پر بن جائیں۔ پہلی قسم کی او۔سی۔ڈی سویئر ہوتی ہے جبکہ دوسری مائلڈ ہوتی ہے۔ اور علاج کے لیے رقیہ شرعیہ یعنی شرعی دم ضرور سنتے رہا کریں اور اپنے کام کاج میں بیگ گراؤنڈ تلاوت قرآن مجید کو تو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں کہ وسوسے میں شیطان کا بھی بڑا حصہ ہوتا ہے اور وہ آپ کی خواہش اور شک کے ذریعے آپ سے کھیلتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب