اگرچہ ہمارے قانون میں اس کا ایک طریق کار مقرر ہے کہ جب کسی پر توہین کا الزام لگایا جائے تو اس کی تحقیق کیسے ہو؟ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام الناس کو اب نہ حکومتوں پر اعتماد رہا ہے اور نہ ہی عدالتوں پر۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں بھی یہی کہوں گا کہ توہین کے بعض کیسز میں حکومتوں اور عدالتوں دونوں کی بدنیتی اور تعصب بالکل صاف نظر آ رہا ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے عوام الناس کا اعتماد اب ان سے اٹھ گیا ہے۔ ہمارے ایک دوست عابد حسین صاحب نے یہ تجویز دی ہے کہ توہین کے الزامات کی تحقیق کے لیے ایک غیر جانبدار کمیٹی تشکیل دینی چاہیے کہ جس پر عوام الناس کو بھی اعتماد ہو اور حکومت وقت کو بھی۔ ہماری نظر میں یہ ایک اچھی تجویز ہے اور قابل عمل ہے۔ اور ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کی سربراہی میں ایسی کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے کہ ان کی فقہ اور قانون دونوں پر گہری نظر ہے۔

دیکھیں، مسائل دونوں طرف ہیں۔ حکومت بدنیت ہے تو عوام الناس کی طرف بھی کرپشن موجود ہے کہ بہت دفعہ توہین کا الزام محض الزام ہوتا ہے اور بہت دفعہ اس کی وجہ مسلکی مخالفت بھی ہوتی ہے جیسا کہ جنوری 2011ء تحصیل کوٹ ادو، ضلع مظفر گڑھ میں ایک مقامی عدالت نے دیوبندی امام مسجد محمد شفیع اور ان کے بیٹے اسلم کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اور دونوں پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے اپنی کریانے کی دکان کے سامنے برآمدے میں لگا میلاد اور مصطفیٰ کانفرنس کا پوسٹر پھاڑ دیا تھا جو بقول استغاثہ توہین رسالت ہے۔ تو اس طرح کے جشن میلاد کو جیسے تم مناتے ہو، وہ بدعت سمجھتے ہیں اور ان کے مسلک کا ایک بیانیہ ہے، تو انہیں چڑانے کے لیے کیوں ان کی املاک کی دیواروں پر ایسے پوسٹر لگاتے ہو؟ اگر اس طرح ہی توہین رسالت ثابت کرنی ہے تو سارے دیوبندیوں پر ایک ہی مرتبہ فتوی لگا دو۔

اسی طرح جون 2006ء میں چھونا والا، تحصیل حاصل پور میں کہ جہاں بریلویوں کی اکثریت تھی، اہل حدیث کی مسجد زیر تعمیر تھی کہ جس پر دونوں طرف گرما گرمی تھی کہ عموما گاؤں کے ماحول میں جب ایک مسلک کی اکثریت ہو تو دوسرے مسلک والوں کی مسجد برداشت نہیں کرتے ہیں اور شدید مخالفت کرتے ہیں۔ اور یہ بات میرے مشاہدے بھی ہے اور بہت سے لوگوں کے مشاہدے میں ہے۔ تو مسجد کے امام قمر جاوید پر مخالف مسلک کے امام کی طرف سے الزام لگا کہ انہوں نے قرآن مجید کے اوراق جلائے ہیں کہ جس پر مشتعل ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا۔ ماسٹر محمد صادق انہیں بچانے کے لیے آئے تو ان پر بھی حملہ ہوا اور دونوں کو مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ اور بات سامنے کی ہے کہ مساجد میں اور گھروں میں بھی بعض اوقات قرآن مجید کے پھٹے پرانے اور بوسیدہ اوراق موجود ہوتے ہیں تو ان کا کیا جائے؟

بعض اہل علم کہتے ہیں کہ انہیں جلا دیا جائے اور اس کی دلیل حضرت عثمان ﷜ سے ملتی ہے کہ انہوں نے جب اپنے دور خلافت میں قرآن مجید کا ایک سرکاری نسخہ تیار کیا تھا تو صحابہ کے ذاتی مصاحف جلوا دیے تھے تا کہ ایک ہی قرآن مجید باقی رہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ان کو نہر میں بہا دے۔ تو بعضوں کو اس میں توہین لگتی ہے کہ ہماری نہریں تو گٹر بنی ہوئی ہیں۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ قبرستان میں دفنا دیں۔ تو اس میں بھی بعضوں کو توہین محسوس ہوتی ہے کہ لوگ اس کے اوپر چلیں گے۔ تو کریں تو کریں کیا؟ تو کچھ تو کرنا ہے ناں۔ میں جب تبلیغی جماعت میں چل رہا تھا تو ایک نوجوان میری طرف پیٹھ نہیں کرتا تھا تو میں نے اسے پکڑ لیا کہ کیا مسئلہ ہے؟ کہنے لگا کہ آپ حافظ قرآن ہو، آپ کے سینے میں قرآن ہے، توہین ہو جائے گی۔ میں نے سوچا، شکر ہے اسے یہ سوچ نہیں آئی کہ میں واش روم بھی جاتا ہوں کہ قرآن میرے سینے میں ہوتا ہے اور میں توہین کا مرتکب ہوتا ہوں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عوام الناس نے اس علمی مسئلے کو اپنی جہالت سے بہت الجھا دیا ہے اور ایسی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں کہ ان کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔

1947ء سے 1987ء تک چالیس سال میں توہین رسالت کے کل 7 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے دو کا ماورائے عدالت قتل بھی ہوا۔ لیکن 1987ء میں جب یہ قانون بنا تو اس کے بعد سے لے کر 2017ء تک یعنی تیس سال میں 1335ء کیسز رپورٹ ہوئے کہ جن میں سے 62 کا ماورائے عدالت قتل ہوا۔ اور اس میں طرفہ تماشا یہ ہے کہ سب سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ ہندوؤں کے خلاف 21، عیسائیوں کے خلاف 187، قادیانیوں کے خلاف 494 اور مسلمانوں کے خلاف 633 کیسز سامنے آئے ہیں۔ اب یہ عجب تماشا ہے کہ سب سے زیادہ توہین خود مسلمان ہی کر رہے ہیں یا مسلمان توہین کے جھوٹے کیسز اپنوں پر ہی درج کروا رہے ہیں، تیسری تو کوئی آپشن نہیں ہے۔ تو ظاہری بات ہے کہ دوسری بات ہی سچ ہے۔ تو ہم توہین رسالت کے قانون کے حق میں ہیں لیکن یہ ماننا پڑتا ہے کہ اس قانون کا مسلکی استعمال ہوا ہے اور مسلمانوں کے خلاف ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا جب تک کہ توہین کا الزام لگانے والوں کو الزام نہ ثابت ہونے پر سخت سزائیں جاری نہ کی جائیں گی۔

باقی توہین رسالت ثابت کیسے ہو گی؟ تو اس پر ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کا ایک مختصر لیکن بہت ہی وقیع اور جامع مقالہ ہے جو سہ ماہی مجلہ تعلیم وتحقیق کے تحفظ ناموس رسالت نمبر میں پبلش ہوا ہے کہ جس کا لنک پہلے کمنٹ میں شیئر کر رہا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں فقہائے احناف کی نظر بہت گہری ہے اور انہوں نے اسے ایک جامع نظام فکر کے طور پر پیش کیا ہے۔ اگرچہ بعض دوسرے اہل علم کو اور خود مجھے بھی بعض مسائل میں اس بیانیے سے اختلاف ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ ذمی کی سزا، امام کا حق ہے نہ کہ اللہ کا حق، اور اس کی سزا سیاستہ ہے نہ کہ شرعا، لہذا امام معاف بھی کر سکتا ہے۔ تو ہماری نظر میں یہ بیان درست نہیں ہے لیکن کم از کم مسلمان کے بارے جو انہوں نے فقہائے احناف کے حوالے سے بحث کی ہے، وہ میری نظر میں بہت مدلل بھی ہے اور منطقی بھی۔

باقی اختلاف کو ختم کرنے کے لیے کسی بیانیے پر تو آنا پڑے گا لہذا رفع نزاع کے لیے ذمی کے بارے بھی اگر کسی بیانے پر اتفاق نہ ہو سکے تو انہی کا بیان کردہ بیانیہ لے لینا چاہیے۔ اگرچہ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ احناف کے ہی نظام فکر میں کچھ گنجائش ہے کہ جس پر اتفاق کرتے ہوئے ذمی کے بارے میں دونوں طرف کے علماء کے اختلاف کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کا یہ مقالہ ضرور پڑھیں، خاص طور مسلمان کے حوالے سے جو بحث انہوں نے کی ہے، اور اسے عام بھی کریں۔ جب تک ہم اس مسئلے میں علمی بحث کا آغاز نہیں کریں گے تو جذباتی لوگ چھائے رہیں گے اور ماورائے عدالت معصوم لوگوں کا قتل ہوتا رہے گا، اس نبی کے نام پر جو رحمۃ للعالمین ہیں، اور جو اپنے خون کے دشمنوں کو معاف کر دیتے تھے، اور آج ان کے شیدائی اور عاشق، گستاخی کے الزام میں قتل ہو رہے ہیں۔ اب جنید جمشید جیسے نعت خواں کو بھی وضاحت دینی پڑتی ہے کہ اس نے توہین نہیں کی ہے تو اور کس کی بات کریں۔ اور بعضے بریلوی مولیوں نے تو ان کی نعتوں سے بھی توہین نکال لی لیکن ایسی توہین تو بریلویوں کی نعتوں سے بھی نکلتی ہے لیکن شاید دیوبندیوں اور اہل حدیثوں میں وہ حس نہیں ہے۔