حنفی دوست کا کہنا ہے کہ یہ فتوی تو آپ دے رہے ہیں کہ مزارات کے لیے دیا گیا مال، مال حرام ہے اور وما اھل بہ لغیر اللہ میں شامل ہے۔ اور کس عالم دین نے یہ بات کی ہے؟
جواب: امر واقعہ یہ ہے کہ اب احناف کی اکثریت ہر مسئلے کو بس اہل حدیث کے رد عمل میں جائز ناجائز قرار دینے میں لگی ہے یعنی انہوں نے اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لی ہے کہ ان کے مسلک میں حق بات وہی ہو گی کہ جو اہل حدیث کہہ رہے ہیں، اس کے خلاف کہہ دو، باقی اپنوں کو بھی پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اہل حدیث ہو کر احناف کے فتاوی سے ناواقف نہیں ہوتے لیکن ہمارے حنفی بھائی جب بات کر رہے ہوتے ہیں تو صاف معلوم پڑ رہا ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں اپنی ہی فقہ اور مسلک کے ابتدائی اور ثانوی مصادر کا مطالعہ کیے بغیر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ تو یہ علمی رویہ نہیں ہے، کم از کم اپنی فقہ اور مسلک کا مطالعہ تو بڑھا لیں کہ کم از کم اعتماد کے ساتھ کوئی معقول تبصرہ تو کر سکیں۔
فتاوی دینیہ میں ہے: ”مزاروں کے گلوں میں جو پیسے، پھول وغیرہ چیزیں چڑھائی جاتی ہیں وہ حرام ہیں۔ اور اس طرح جمع ہوئی رقم کی مالک نہ درگاہ بنتی ہے، نہ درگاہ کی کمیٹی بلکہ پیسے ڈالنے والوں کی ملکیت باقی رہتی ہے۔ اس لئے پیسے ڈالنے والوں کو چاہئے کہ سب سے پہلے اپنے کام سے توبہ کریں، اور پھر وہ اسے اپنے کام میں لا سکتے ہیں۔ بہتر طریقہ تو یہ تھا کہ اللہ کے واسطے یہ پیسے غریب محتاجوں کو دے کر اس کا ثواب درگاہ کے بزرگ کو بخش دیا جاتا تو دونوں کو فائدہ ہوتا۔ مسؤلہ صورت میں پیسے ڈالنے والے شخص کون کون تھے؟ یہ معلوم نہیں ہو سکتا ہے، اس لئے یہ پیسے حرام مال کے حکم میں شمار ہو کر وہ پیسے خاص محتاجوں اور نادار غرباء کو مالک بنا کر ثواب کی نیت کے بغیر دے دئے جائیں۔ اور وہ لوگ اگر محتاج ہوں تو اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں، جیسا کہ سخت مجبوری کے وقت مردہ جانور کا گوشت اپنی جان بچانے کے لئے کھا سکتے ہیں۔ آئندہ ایسی حرام آمدنی جمع نہ ہو، اسی طرح لوگوں کا ایمان سلامت رہے، اس کے لئے یہ طریقہ بہتر ہے کہ درگاہ پر سے گلہ ہٹا لیا جائے، اور جماعتی کاروائی کے لئے چندہ کا نظم کیا جائے۔ (بحر: ۲/۲۹۸، در مختار: ۲/۱۲۸) فقط واللہ تعالی اعلم“ [فتاوی دینیہ: ص ۲۷۹]
فتاوی محمودیہ میں ہے: ”اگر چڑھاوا پیروں اور مزاروں کے نام کا ہے تو اس کا چڑھانا اور کھانا ناجائز ہے، اور اگر وہاں کے فقراء کے لیے ہے تو فقرا کو کھانا درست ہے۔“ [فتاوی محمودیہ: ۱/۳۱۶]۔ ایک اور جگہ ہے: ”جو عوام بزرگوں کے نام کی نذر ونیاز مانتے اور مزارات پر چڑھاتے ہیں، وہ سخت گناہ گار ہیں اور وہ نذر حرام ہے، اس کا کھانا بالکل ناجائز ہے ۔۔۔ اگر نذر مانتے وقت بزرگوں کے نام کی نذر مانی اور پھر اس کو بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر ذبح کیا جاوے، وہ حرام ہے۔“ [فتاوی محمودیہ: ۱/۳۴۱]۔
ایک اور جگہ لکھا ہے: ”طحطاوی میں ان کے حرام اور ناجائز ہونے کی کئی وجہ لکھی ہیں: ایک تو یہ کہ مخلوق کے لیے نذر ماننا حالانکہ نذر عبادت ہے جو خالق کے ساتھ مخصوص ہے۔ دوسرے یہ کہ جس کے لیے نذر مانی ہے وہ مردہ ہے تو بھلا وہ کسی چیز کا کیسے مالک ہو سکتا ہے اور تیسرے یہ کہ اس میت کے ساتھ یہ اعتقاد بھی کیا جاتا ہے کہ وہ عالم میں تصرف کرتا ہے اور یہ عقیدہ رکھنا تو کفر ہے۔“ [فتاوی محمودیہ: ۱/۳۴۳]
جناب پروفیسر غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں: ”آج کل جس طرح اَن پڑھ عوام اپنی حاجات میں اولیاء اللہ کی نذریں اور منتیں مانتے ہیں اور حاجات پوری ہونے کے بعد مزارات پر نذریں پیش کرتے ہیں، اور بعض لوگ اس کو لغوی نذر کہہ کر سند جواز پیش کرتے ہیں، اس کا قرآنِ مجید، احادیث صحیحہ اور آثارِ صحابہ میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کتب فتاویٰ میں اس نذر کو حرام کہا گیا ہے۔ یہ ایک خالص فقہی مسئلہ ہے۔ اس میں کتب فقہیہ کو چھوڑ کر بعض غیر معصوم اور غیر معروف صوفیوں کے اقوال اور احوال سے استدلال کرنا کوئی فقاہت نہیں ہے، بلکہ عدل و انصاف سے بعید ہے۔“ [شرح صحیح مسلم: ۴/۵۴۳]
جن بریلوی علماء پر حضرت نقد کر رہے ہیں، وہ دراصل اس نذر کو لغوی نذر بنا کر جائز بنا لیتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ کتب فقہ میں شرعی نذر کی ممانعت ہے جبکہ یہ لغوی نذر ہے اور یہ جائز ہے جیسا کہ جاء الحق کے مصنف نے یہی کام کیا ہے۔ پروفیسر غلام رسول سعیدی صاحب ان کی اس تقسیم والی دلیل کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: