علامہ ابن جوزی نے ایک کتاب لکھی، تلبیس ابلیس کے نام سے، یعنی شیطان کا جال۔ اس کتاب میں انہوں نے مختلف طبقات مثلا علماء، صوفیاء، مجاہدین، قراء وغیرہ کو شیطان کس طرح گمراہ کرتا ہے، اس پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر بہت ہی عمدہ کتاب ہے۔
شیطان کے بارے ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ وہ بہت ذہین ہے یا ایک معاملے میں کم از کم بہت ذہین واقع ہوا ہے اور وہ انسان کو گمراہ کرنے کا معاملہ ہے۔ جیسے عورتیں گھریلو سیاست میں ذہین ہوتی ہیں کہ یہ ان کا میدان ہے تو اسی طرح شیطان گمراہ کرنے میں ذہین ہوتا ہے کہ دن رات اس کا یہی کام ہے۔ شیطان کی پیروی سے بچنے کے لیے تقوی کے ساتھ ذہانت کی بھی ضرورت ہے۔ وہ مذہبی ذہن کو مذہب کےنام پر الجھن میں ڈالتا ہے۔
آجکل مذہبی لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کی چالیں کیسی ہوتی ہیں مثلا ایک انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی زبان کو ذکر سے تر رکھے تو شیطان اس کو کبھی وسوسہ ڈالے گا کہ بہت گناہ گار ہے، استغفار پڑھ۔ تھوڑی دیر بعد اس کے ذہن میں خیال ڈالے گا کہ زیادہ بہتر ہے کہ درود شریف کا ورد کیا کرو کہ اللہ کی رحمت بھی نازل ہو گی۔ کچھ دیر بعد اسے کہے گا کہ اللہ کے تجھ پر اتنے انعامات ہیں تو کچھ ان کا شکر بھی ادا کر لو۔ اب انسان اسی سوچ میں الجھ جائے گا کہ میں استغفار کروں، درود شریف پڑھوں یا تسبیح وتہلیل کو ترجیح دوں، الجھن آگے آ جائے گی اور ذکر پیچھے رہ جائے گا۔
وہ مدرسہ کے ایک استاذ کے ذہن میں یہ بات ڈالے گا کہ دینداروں کو دین دار بنانا بھی کرنے کا کوئی کام ہے، کام کرنے کا میدان تو یونیورسٹی کا ہے، وہاں جا کر دین کا کام کرنا چاہیے۔ اور جو مدرسے کا فارغ یونیورسٹی پہنچ جائے گا، اسے وہ یہ وسوسہ ڈالے گا کہ یہاں تو اتنی بے حیائی ہے، نہ ہی طلبا میں دین کا شوق ہے تو بے طلبوں کو پڑھانے کا کیا فائدہ؟ قربانی دو اور مدرسہ میں جا کر پڑھاؤ۔
وہ ایک مدرسہ کے طالب علم کے دل میں وسوسہ ڈالے گا کہ یہاں کے استاذ اچھے نہیں ہیں، دوسرے مدرسہ میں جانا چاہیے، وہاں بہت اچھی پڑھائی ہے۔ اور یونیورسٹی میں گریجویشن کرنے والے کے دل میں وسوسہ ڈالے گا کہ دنیاوی تعلیم کس کام کی؟ اسے درمیان میں چھوڑو اور مدرسہ جوائن کرو۔ مدرسہ کے طالب علم کے دل میں وسوسہ ڈالے گا کہ اگر دین کا کام کرنا چاہتے ہوں تو جدید تعلیم ہونی چاہیے لہذا مدرسہ چھوڑو اور یونیورسٹی جوائن کرو۔
وہ تبلیغی کے ذہن میں یہ بات ڈالے گا کہ سوشل میڈیا پر تبلیغ کرو کہ ساری دنیا تو وہاں بیٹھی ہے اور سوشل میڈیا پر بیٹھے ہوئے کو کہے گا کہ اب فیس بک پر کیا خاک تبلیغ ہو گی، تبلیغ تو میدان میں جا کر دھکے کھانے سے ہوتی ہے۔ وہ اسلامی تحریک کے کارکن کے ذہن میں یہ بات ڈالے گا کہ تمہاری زیادہ ضرورت تزکیہ نفس کے لیے بیعت ہونا ہے اور رہا بیعت ہونے والا مرید، تو اسے وہ نہیں چھیڑتا جیسا کہ کچھ اور لوگوں کو بھی نہیں چھیڑتا کہ وہ اپنے آپ سے مطمئن ہیں۔ اور یہ انہیں چھیڑتا ہے جو اپنے آپ سے مطمئن نہ رہتے ہوں۔ بھئی، واقعی میں کوئی دین کا کام کرنا چاہتے ہو تو جس حالت میں ہو، اسی میں سب سے بہتر کام کر سکتے ہو، بس احسان پیدا کر لو اور مریدوں والا اطمینان۔