دوست کا سوال ہے کہ کیا مجرم کو پھانسی دینے کے بعد لاش کو لٹکانا جائز ہے؟ کیا اس میں انسانیت کی توہین نہیں ہے؟

جواب: بلاشبہ بعض جرائم انسانیت کے خلاف اس قدر غلیظ اور نجس اقدام شمار ہوتے ہیں کہ ان کی سزا کے طور مجرم کی لاش کو عبرت کے لیے لٹکایا جا سکتا ہے لیکن یہ جرم کی نوعیت پر منحصر ہے۔ مورخین کے بقول سولی دینے یعنی لٹکانے کے طریقے کو اہل فارس نے چار پانچ سو سال قبل مسیح میں ایجاد کیا تھا۔ پھر رومیوں کے ہاں باغیوں کو سزا دینے کے لیے یہ طریقہ کافی معروف تھا کہ بغاوت کرنے والوں کو بھوکا پیاسا ٹانک دیتے تھے یہاں تک کہ مر جائے۔ قرآن مجید میں سورۃ یوسف میں ہے کہ حضرت یوسف ﷤ نے ایک شخص کو خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے کہا تھا کہ تمہیں صلیب یعنی سولی دی جائے گی تو قرآن مجید کے بقول سولی دینے کا رواج تقریبا دو ہزار قبل مسیح مصریوں میں رائج تھا۔

تو فارس وروم، وقت کی دونوں سپر پاورز کے ہاں باغیوں کے لیے سولی دینے کا طریقہ کار رائج تھا اور قرآن مجید نے بھی باغیوں کی چار سزاؤں میں سے ایک سزا یہی بیان کی ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ المائدۃ کی آیت 33 میں بعض جرائم کی سزا سولی دینا بیان ہوا ہے اور اسے تصلیب (crucifixion) کہا گیا ہے اور اسی سے لفظ صلیب بھی بنا ہے۔ قرآن مجید میں جس جرم کے لیے سولی دینے کی سزا بیان ہوئی ہے تو اس کے لیے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں؛ حرابہ اور فساد فی الارض۔ تو مجرم کے جرم کی نوعیت اگر ایسی ہو کہ اس سے معاشرے میں دہشت پھیلتی ہو اور فساد برپا ہو تو اسے یہ سزا دی جا سکتی ہے جیسا کہ فقہاء نے کہا ہے کہ باغیوں اور ڈاکوؤں کو یہ سزا دی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷐ نے بعینہ یہی تو نہیں لیکن عکل اور عرینہ قبیلے کے مجرموں کو اس سے ملتی جلتی سزا دی تھی۔

صحیح روایات کے مطابق آپ صلی ﷐ کے پاس عکل اور عرینہ قبیلے لوگ آئے اور بظاہر اسلام قبول کر لیا اور مدینہ کی آب وہوا کو بنیاد بنا کر پیٹ کی خرابی کا بہانہ کیا۔ آپ ﷐ نے انہیں مدینہ کے گرد ونواح میں موجود ایک چراگاہ میں بھیج دیا کہ جہاں بیت المال کے اونٹ موجود تھے۔ انہوں نے وہاں کے نگران مسلمانوں کو بری طرح قتل کیا کہ ان کی آنکھوں میں لوہے کی سلاخیں پھیر دیں اور اونٹ لوٹ کر بھاگ گئے۔ آپ ﷐ کو اطلاع ملی تو مسلمانوں کے گھڑ سواروں کا ایک دستہ ان کے پیچھے بھیجا جو انہیں پکڑ لائے۔ ان مجرموں کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیے گئے، آنکھوں میں لوہے کی سلاخیں پھیری گئیں، اور انہیں حرۃ کی زمین میں بھوکا پیاسا مرنے کے لیے پھینک دیا گیا۔ بس آپ ﷐ نے ان کو لٹکایا نہیں تھا، باقی نشان عبرت ضرور بنایا تھا جو کہ سولی کا مقصد ہوتا تھا۔

قرآن مجید کی درج بالا آیت مبارکہ کی تفسیر میں فقہاء میں یہ ضرور اختلاف ہوا ہے کہ مجرم کو عبرت بنانے کے لیے سولی دینے کا کون سا طریقہ مناسب رہے گا؟ تو سولی دینے پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ سولی دینا جائز ہے البتہ اس کے طریق کار میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ اور امام مالک کا کہنا ہے کہ مجرم کو بھوکا پیاسا زندہ لٹکایا جائے گا اور پھر اسے اسی حالت میں یعنی لٹکے لٹکے نیزے یا تیر وغیرہ سے قتل کر دیا جائے یعنی زندہ کو سولی دی جائے گی۔ ان فقہاء کا کہنا یہ ہے کہ سولی دینا ایک سزا ہے اور سزا زندہ کو ہوتی ہے، مردہ کو نہیں کہ لاش کو سزا دینے کا فائدہ نہیں ہے۔ امام شافعی اور امام احمد کا کہنا یہ ہے کہ پہلے مجرم کو قتل کیا جائے گا اور پھر لٹکایا جائے گا کیونکہ قرآن مجید میں أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا کے الفاظ ہیں یعنی پہلے قتل کرنے اور پھر سولی دینے کا ذکر ہے۔ اور سولی دینے کا مقصد مجرم کو سزا دینا نہیں بلکہ نشان عبرت بنانا ہے تا کہ دوسرے اس جیسے جرم کے ارتکاب سے رک جائیں۔

باقی امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک سولی تین دن تک دی جائے گی جبکہ امام مالک کہتے ہیں کہ جب تک لاش کے تبدیل ہونے کا اندیشہ ہو تو اس وقت تک دی جا سکتی ہے۔ اور امام احمد کے نزدیک کوئی مدت طے نہیں ہے بلکہ اس کے جرم کی نوعیت سے مدت طے کی جائے گی۔ رہی یہ بات کہ ایسی سزا انسانیت کے خلاف ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ساری باتیں کہ یہ سزا انسانیت کے خلاف ہے اور یہ نہیں، ریلیٹو ہیں۔ یورپ تو قاتل کے لیے پھانسی کی سزا کو بھی انسانیت کے خلاف شمار کرتا ہے تو ختم کر دیں کیا؟ ۱۰۴ ممالک نے ہر قسم کے جرم کے لیے قتل کی سزا death penalty ختم کر دی ہے جبکہ ۵۵ ممالک میں یہ آج بھی لاگو ہے کہ جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔ رہی یہ بات کہ لٹکانے کی سزا ہمارے قانون میں نہیں ہے تو یہ اعتراض قابل غور ہے۔ تو اس کا حل یہ ہے کہ جب تین سال کی ایکٹینشن کے لیے اگلے چھ ماہ میں ایک قانون سازی ہونے جا رہی ہے تو اس کے ساتھ اس مسئلے میں بھی قانون سازی کی جا سکتی ہے۔