خیال ہی خیال میں اپنے محبوب یا عاشق کے ساتھ سیکس یا رومانس کے مسئلے کو دیکھنے کے دو تناظر ہیں؛ ایک نفسیاتی اور دوسرا مذہبی۔ کل ہم نے نفسیاتی تناظر میں کچھ گفتگو کی تھی اور آج مذہبی پہلو سے کچھ عرض کریں گے۔ اصل قاعدہ تو یہی ہے کہ گناہ کا خیال گناہ نہیں ہے اور اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے جیسا کہ متفق علیہ روایت میں ہے:
صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اگر گناہ کے بارے سوچا اور گناہ کیا نہیں تو ایک تو گناہ نہیں لکھا جائے گا، دوسرا اس نہ کرنے کا ثواب بھی ہو گا۔ روایت کے الفاظ ہیں:
تو کسی پر غصہ آنے کی صورت میں اسے گالی دینے یا لعن طعن کرنے کے بارے خیال آیا لیکن اسے گالی نہ دی تو اس پر اجر ہے۔ چوری کرنے کے بارے خیال آیا لیکن چوری نہ کی تو اس پر اجر ہے۔ زنا کے بارے خیال آیا، زنا نہ کیا تو اس پر اجر ہے۔ لیکن ایک معاملہ یہ ہے کہ خیال ہی خیال میں کسی مرد یا عورت سے سیکس یا رومانس کر گزرنا اور اس کے اثرات بھی اپنے جسم میں محسوس کرنا جیسا کہ اس قسم کے تخیلات سے انسان کے جسم سے مذی خارج ہو جائے اور انسان اس کو اپنا معمول بھی بنا لے تو یہ تھوڑا مختلف کیس ہے۔ بعض فقہاء کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے جیسا کہ ابن عابدین الحنفی اور ابن المفلح الحنبلی کا کہنا ہے۔ شوافع کے نزدیک یہ بھی معاف ہے جیسا کہ امام سیوطی اور امام سبکی نے کہا ہے۔
ہماری رائے میں یہ حرام نہ بھی ہو تو بھی مکروہ ضرور ہے۔ مکروہ سے مراد ناپسندیدہ امر ہے کہ اگر اس کو چھوڑ دے گا تو ثواب ملے گا لیکن اگر کسی وجہ سے اس میں مبتلا رہے گا تو گناہ نہ ہو گا۔ حرام تو اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ اس بارے جو روایت بیان کی جاتی ہے، خود اس میں عمل اور کلام کا ذکر ہے نہ کہ خیال اور سوچ کا۔ اور دوسرا اس روایت میں بھی اسے گناہ صغیرہ کہا گیا ہے۔ صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ ہیں:
تو کچھ زنا تو تقدیر میں لکھا ہے جیسا کہ بد نظری یا فحش گفتگو کہ انسان کے لیے اس سے بچنا ناممکن ہے۔ اور یہ گناہ صغیرہ ہے۔ اسی طرح دل میں زنا کا خیال پیدا ہونا بھی ابن عباس کے بقول قرآنی اصطلاح میں لمم یعنی گناہ صغیرہ ہی ہے۔ گناہ کبیرہ وہ ہے کہ جس میں وہ شرم گاہ سے زنا کر لے۔ گناہ صغیرہ سے بچنا ممکن نہیں ہے لیکن انسان نے اس کی کوشش ضرور کرنی ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق 95 فی صد مردوں اور عورتوں کو سیکس اور رومانس کے خیالات آتے ہیں تو سائیکالوجی بھی اسی کی تصدیق کرتی ہے۔ اب کچھ لوگ ایسے خیالات کو کنٹرول کر لیتے ہیں، کچھ نہیں کر پاتے۔ لیکن ان خیالات پر دوام اور استمرار بہرحال درست نہیں ہے اور کم از کم مکروہ ضرور ہے۔