خیال ہی خیال میں اپنے محبوب یا عاشق کے ساتھ سیکس یا رومانس کے مسئلے کو دیکھنے کے دو تناظر ہیں؛ ایک نفسیاتی اور دوسرا مذہبی۔ کل ہم نے نفسیاتی تناظر میں کچھ گفتگو کی تھی اور آج مذہبی پہلو سے کچھ عرض کریں گے۔ اصل قاعدہ تو یہی ہے کہ گناہ کا خیال گناہ نہیں ہے اور اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے جیسا کہ متفق علیہ روایت میں ہے:

إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لأُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنفُسَهَا مَا لَمْ يَتَكَلَّمُوا أَوْ يَعمَلُوا بِهِ
ترجمہ: میری امت سے ان تمام خیالات کو معاف کر دیا گیا ہے کہ جن سے وہ اپنے نفس میں باتیں کرے جب تک کہ وہ ان خیالات پر عمل نہ کر لے یا ان کے مطابق گفتگو نہ کر لے۔

صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اگر گناہ کے بارے سوچا اور گناہ کیا نہیں تو ایک تو گناہ نہیں لکھا جائے گا، دوسرا اس نہ کرنے کا ثواب بھی ہو گا۔ روایت کے الفاظ ہیں:

فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً
ترجمہ: جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور نیکی کی نہیں تو اس کے لیے بھی نیکی کرنے جتنا ہی اجر لکھا جاتا ہے۔ اور اگر وہ نیکی کے ارادے کے بعد نیکی کر بھی لے تو اس کا اجر دس گنا سے سات سو گنا تک لکھا جاتا ہے۔ اور جس نے گناہ کا ارادہ کیا لیکن گناہ کیا نہیں تو اس کے لیے بھی نیکی کرنے کا اجر لکھا جاتا ہے [کہ گناہ کے ارادے کے بعد گناہ نہ کرنا بھی ایک نیکی ہے]۔ اور جس نے گناہ کے ارادے کے بعد گناہ کر لیا تو اس کے لیے اس گناہ جتنا ہی گناہ لکھا جاتا ہے۔

تو کسی پر غصہ آنے کی صورت میں اسے گالی دینے یا لعن طعن کرنے کے بارے خیال آیا لیکن اسے گالی نہ دی تو اس پر اجر ہے۔ چوری کرنے کے بارے خیال آیا لیکن چوری نہ کی تو اس پر اجر ہے۔ زنا کے بارے خیال آیا، زنا نہ کیا تو اس پر اجر ہے۔ لیکن ایک معاملہ یہ ہے کہ خیال ہی خیال میں کسی مرد یا عورت سے سیکس یا رومانس کر گزرنا اور اس کے اثرات بھی اپنے جسم میں محسوس کرنا جیسا کہ اس قسم کے تخیلات سے انسان کے جسم سے مذی خارج ہو جائے اور انسان اس کو اپنا معمول بھی بنا لے تو یہ تھوڑا مختلف کیس ہے۔ بعض فقہاء کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے جیسا کہ ابن عابدین الحنفی اور ابن المفلح الحنبلی کا کہنا ہے۔ شوافع کے نزدیک یہ بھی معاف ہے جیسا کہ امام سیوطی اور امام سبکی نے کہا ہے۔

ہماری رائے میں یہ حرام نہ بھی ہو تو بھی مکروہ ضرور ہے۔ مکروہ سے مراد ناپسندیدہ امر ہے کہ اگر اس کو چھوڑ دے گا تو ثواب ملے گا لیکن اگر کسی وجہ سے اس میں مبتلا رہے گا تو گناہ نہ ہو گا۔ حرام تو اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ اس بارے جو روایت بیان کی جاتی ہے، خود اس میں عمل اور کلام کا ذکر ہے نہ کہ خیال اور سوچ کا۔ اور دوسرا اس روایت میں بھی اسے گناہ صغیرہ کہا گیا ہے۔ صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ ہیں:

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَشْبَهَ بِاللَّمَمِ مِمَّا قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا، أَدْرَكَ ذَلِكَ لاَ مَحَالَةَ، فَزِنَا العَيْنِ النَّظَرُ، وَزِنَا اللِّسَانِ المَنْطِقُ، وَالنَّفْسُ تَمَنَّى وَتَشْتَهِي، وَالفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ كُلَّهُ وَيُكَذِّبُهُ
ترجمہ: ابن عباس فرماتے ہیں کہ صغیرہ گناہوں سے مشابہ میرے سامنے ابو ہریرۃ کی روایت سے بڑھ کر کوئی مثال نہیں ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرۃ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷐ نے فرمایا کہ آدم کے ہر بیٹے کی تقدیر میں کچھ زنا لکھ دیا گیا ہے اور جسے وہ لازماًکر کے رہے گا۔ آنکھ کا زنا، بد نظری ہے۔ زبان کا زنا، فحش گفتگو ہے۔ انسان کا نفس خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔

تو کچھ زنا تو تقدیر میں لکھا ہے جیسا کہ بد نظری یا فحش گفتگو کہ انسان کے لیے اس سے بچنا ناممکن ہے۔ اور یہ گناہ صغیرہ ہے۔ اسی طرح دل میں زنا کا خیال پیدا ہونا بھی ابن عباس کے بقول قرآنی اصطلاح میں لمم یعنی گناہ صغیرہ ہی ہے۔ گناہ کبیرہ وہ ہے کہ جس میں وہ شرم گاہ سے زنا کر لے۔ گناہ صغیرہ سے بچنا ممکن نہیں ہے لیکن انسان نے اس کی کوشش ضرور کرنی ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق 95 فی صد مردوں اور عورتوں کو سیکس اور رومانس کے خیالات آتے ہیں تو سائیکالوجی بھی اسی کی تصدیق کرتی ہے۔ اب کچھ لوگ ایسے خیالات کو کنٹرول کر لیتے ہیں، کچھ نہیں کر پاتے۔ لیکن ان خیالات پر دوام اور استمرار بہرحال درست نہیں ہے اور کم از کم مکروہ ضرور ہے۔