یہ بہت اہم سوال ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک تہذیبوں کے عروج وزوال کے پیچھے کارفرما اصول مادی ہیں یا ایمانی؟ یعنی ایک تہذیب مادی اصولوں سے دنیا میں عروج پاتی ہے یا ایمانی بنیادوں سے؟ اس سوال کے جواب میں روایتی اور جدیدیت پسند طبقات دو انتہاؤں پر کھڑے ہیں۔روایتی طبقے کے نزدیک کسی بھی مسلم تہذیب کے عروج کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایمانی اور اخلاقی اعتبار سے بلند کر لے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ تم ہی غالب رہو گے بشرطیکہ تم مومن ہو۔ اس بیانیے کے مطابق اگر امت کو حقیقی ایمان حاصل ہو جائے تو آج بھی نصرت کے لیے فرشتے اتر سکتے ہیں۔ ان کی دعاؤں سے دشمنوں کے برج الٹ سکتے ہیں۔ ان کی آہوں سے کافر قوم پر ایسا عذاب نازل ہو سکتا ہے جو انہیں جڑ سے اکھیڑ پھینک دے۔اس بیانیے کے دلائل اور شواہد قرآن مجید میں بہت زیادہ ہیں جیسا کہ اللہ عزوجل نے آل فرعون کو سمندر میں غرق دیا تو آج ہمیں بھی یہ امید رکھنی چاہیے کہ اللہ عزوجل سمندروں کو امریکہ پر یوں چڑھا لائیں کہ وہ نیست و نابود ہو جائے، بس صرف اللہ عزوجل سے تعلق کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ گروہ تہذیبوں کے عروج وزوال میں مادی ترقی اور مادی اصولوں کی کارفرمائی کو مادیت پرستی اور ایمان کے منافی سمجھتا ہے۔
دوسرا بیانیہ جدیدیت پسند طبقے کا ہے کہ جس کے نزدیک تہذیبوں کے عروج وزوال کے اصل اصول مادی ہیں لہذا مسلم تہذیب جب تک سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس سطح کی ترقی نہیں کرتی جیسا کہ اقوام مغرب نے کر لی تو اس وقت تک مسلمانوں کا دنیا میں عروج ممکن نہیں ہے۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا میں کامیابی کے اصول مادی ہی ہیں البتہ آخرت میں فوز و فلاح کا مدار ایمانی اور اخلاقی اصولوں پر ہے۔ اگر اقوام مغرب کی ترقی اور عروج مادی اصولوں کی بنا پر ہی ممکن ہوا تو مسلم تہذیب کے لیے بھی اس دنیا میں کوئی علیحدہ اصول کارفرما نہیں ہیں۔ جن جراثیم سے غیر مسلم بیمار پڑ جاتے ہیں، مسلمان بھی ان سے بیمار ہو جاتے ہیں۔ اور جن میڈیسن سے غیر مسلم صحت یاب ہوتے ہیں، مسلمان بھی انہی سے صحت یاب ہوتے ہیں۔ تو تہجد کی نماز میں پارہ پڑھتے ہوئے اگر اگلی آیت بھول گئے تو کوئی فرشتہ آ کر نہیں بتلائے گا، بھلے آدھی رات کھڑے رہیں، اس کے لیے آپ کو اپنی منزل پکی کرنی پڑے گی۔
مادی قوانین اور فزیکل لاز کہ جن کے تحت اس کے خالق نے اس دنیا کو پیدا کیا، مسلم اور غیر مسلم دونوں اس کے پابند ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے کہ جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ اور بنی اسرائیل کو جب قتال کا حکم ہوا اور انہوں نے اس سے انکار کر دیا اور کہا کہ موسی اور اس کا رب جا کر کافروں سے لڑیں۔ تویہاں آل فرعون کے غرق ہونے جیسا کوئی معجزہ رونما نہ ہوا بلکہ بنی اسرائیل معجزے کے انتظار اور امید لگانے کی سزا میں صحراء میں چالیس سال تک بھٹکتے رہے۔تو قرآن مجید کے مختلف مقامات کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم تہذیب کے عروج وزوال کے اصول مادی اور ایمانی دونوں بیان ہوئے ہیں۔ شروع میں جب ایمان زیادہ تھا تو سورۃ انفال میں قرآنی حکم یہ تھا کہ اگر دشمن کی تعداد تم سے دس گنا بھی ہو تو پھر بھی ٹکرا جاؤ لیکن جب ایمان کم ہو گیا تو پھر یہ حکم آ گیا کہ اب اگر دشمن کی تعداد تم سے دو گنا ہو تو ان سے ٹکرانے میں حرج نہیں ہے اور ایسی صورت میں اللہ عزوجل تمہیں ہی غلبہ دیں گے۔اس وقت جنگ میں اصل افرادی قوت تھی لہذا اس کے نصف ہونے کو بطور اصول بیان کر دیا۔ اور آج جنگ میں اصل ٹیکنالوجی ہے لہذا دشمن کے مقابلے میں تمہارے پاس اگر آدھی ٹیکنالوجی بھی ہے تو اس سے ٹکرانے میں حرج نہیں اور اللہ عزوجل غلبہ تمہیں ہی دیں گے۔تو یہ وہ مدد ہے کہ جس کے بارے قرآن میں کہا گیا ہے کہ کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ ایک چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آ گئی۔ تو شروع میں یہ ایک دس کی نسبت سے غالب آتی رہی ہے جبکہ ایمان بہت زیادہ ہوتا تھا اور اب یہ ایک دو کی نسبت سے غالب آتی ہے کہ ایمان کی سطح بہت زیادہ گر گئی ہے۔
تو مسلم تہذیب کے عروج کے لیے ایک دو کی نسبت سے مادی ترقی کرنا ضروری ہے یا پھر ہم اپنا ایمان السابقون الاولون صحابہ کرام جیسا بنا لیں تو پھر ایک دس کی نسبت میں بھی کامیابی کی بشارت ہے۔ اور یہ کہنا کہ محض ایمان و اخلاق سے مسلم تہذیب غالب آ جائے گی تو اس کی صورت پھر ایک ہی ہے کہ مغربی تہذیب ہمارے ایمان و اخلاق کو دیکھ کر مسلمان ہو جائے اور کعبے کو بت خانے سے پاسبان مل جائیں۔یہ دنیا مادی اصولوں کے تحت قائم ہے اور انہی اصولوں کے تحت چل رہی ہے۔ معجزات ایک استثناء ہیں، وہ اس دنیا کے خالق کی طرف سے اس دنیا کو چلانے کے بنیادی اصول نہیں ہیں، یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ہم معجزات کے انکاری نہیں ہیں لیکن اللہ عزوجل اس دنیا کو معجزات کے اصول پر نہیں چلا رہے ہیں، مادی اصولوں پر چلا رہے ہیں۔ البتہ اللہ عزوجل کی یہ مہربانی ہے کہ اہل ایمان اگر ایک حد تک بھی مادی ترقی کر لیں تو وہ اس میں اثر زیادہ ڈال دیتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں مسلم تہذیب کو نصف مادی ترقی سے بھی دنیا میں وہ عروج حاصل ہو جاتا ہے جو غیر مسلم تہذیب کو پوری مادی ترقی سے حاصل ہوا۔
امریکہ، روس، چین وغیرہ جیسی تہذیبیں خالص مادی اصولوں کی بنیاد پر ہی دنیا میں مقابلہ کر رہی ہیں۔ اور مسلمان اگر ان کے جیسی مادی ترقی حاصل کر لیں تو دنیا میں ان کا مقابلہ کر لیں گے، چاہے ان کے پاس ایمان و اخلاق نہ بھی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ترقی کے اصول یہی ہیں، کافر کے لیے بھی اور مسلمان کے لیے بھی۔ رہی آخرت تو اس میں کامیابی کی بنیاد ایمان اور اخلاق ہے، مسلم و غیر مسلم دونوں کے لیے۔ اور اگر دنیا میں مسلمانوں کے پاس ایمان و اخلاق بھی ہو تو وہ اس کے اثر سے کم مادی ترقی سے بھی عروج حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کل خلاصہ کلام ہے۔ واللہ اعلم