بہت سے مرد اور خواتین اپنی ازدواجی زندگی سے متعلق مسائل پوچھتے ہیں تو ان کی کاؤنسلنگ سے بعض اوقات احساس پیدا ہوتا ہے کہ اپنے مشاہدے اور تجربات کی روشنی میں ازدواجی زندگی کے مسائل اور حل پر کچھ نہ کچھ تھیورائزیشن کر سکتا ہوں۔ فرائیڈ وغیرہ نے بھی کون سی سائیکالوجی پڑھی تھی لیکن انہوں نے اپنے کلائينٹس کے کیس اسٹڈیز کے مطالعے سے سائیکالوجی کے ایک اسکول آف تھاٹ کی بنیاد ضرور رکھ دی۔ اور فی زمانہ یہ کام وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ سائیکالوجی میں بھی اصلاً تخلیقی کام یہی ہے۔ لوگوں کے رویوں پر غور کر کے ان کے پیچھے موجود ذہن کی ورکنگ کو سمجھ جانے والا ہر شخص ایک اچھا سائیکالوجسٹ ہو سکتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے لوگ ان موضوعات پر میرے اس طرح بات کرنے کو پسند کرتے ہیں تو بعض نہیں بھی کرتے۔ تو جو نہیں کرتے تو میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ میں ایک شریعہ اسکالر کے طور پر نہیں بلکہ ایک سائیکالوجسٹ کی نظر سے ان موضوعات پر بات کرتا ہوں کہ شریعہ اسکالر سے لوگوں کو اس قسم کی باتوں کی امید نہیں ہوتی۔

شریعہ اسکالر یا تو اس وجہ سے ان موضوعات پر بات نہیں کرتے کہ انہیں ان باتوں کی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی یا اس وجہ سے کہ سوجھ بوجھ تو ہوتی ہے لیکن ایسی باتیں کرنا ان کے مقام اور تقدس کے منافی ہوتی ہیں۔ تو بہرحال جو بھی وجہ ہو، اس سے انکار ممکن نہیں کہ سوسائٹی میں یہ مسائل موجود ہیں اور کسی نہ کسی کو ان پر بات کرنی ہے۔ تو میں بھی اسی لیے کرتا ہوں۔ تو ہمارا موضوع یہ ہے کہ کیا ایک ہی شخص سے آپ ایک وقت میں محبت اور نفرت کر سکتے ہیں؟ تو یہ عین ممکن ہے۔ میرے پاس ایسے بہت سے کیسز آتے ہیں کہ جن میں میاں بیوی ایک ہی وقت میں اپنے پارٹنر کے ساتھ محبت اور نفرت کے تعلق میں بندھے ہوتے ہیں لہذا میں تو اس کا بالکل انکار نہیں کرتا۔ اب کچھ لوگ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی شخص سے دو متضاد قسم کے تعلق کا ہونا چونکہ منطقی طور ممکن نہیں لہذا پارٹنر سے نفرت بھی دراصل محبت ہی ہوتی ہے تو میرے نزدیک یہ تشریح درست نہیں۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پارٹنر سے نفرت کی وجہ اس سے محبت ہوتی ہے۔ اور محبت جتنی شدید ہو، نفرت بھی اتنی ہی شدید ہوتی ہے۔

اپنے پارٹنر کو قتل کرنے والے بعض قاتلوں سے جب قتل کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے قتل کی وجہ محبت بتلائی نہ کہ نفرت۔ تو محبت کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیرت نے انہیں قتل پر اکسایا۔ پس محبت کا تعلق مجرد نہیں رہتا بلکہ مزید کچھ تعلق پیدا کرتا ہے یا بچے جنتا ہے اور اس عمل کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ ہمارے ہاں عموماً سات سے چودہ سال کے مابین کی ازدواجی زندگی میں یہ تعلق (love-hate relationship) ڈویلپ ہوتا ہے۔ اور اس عرصے میں اس تعلق کے بننے کی کچھ معاشرتی اور نفسیاتی وجوہات ہیں لیکن میں ان میں فی الحال نہیں جانا چاہتا البتہ اس کی ایک بڑی وجہ ایک پارٹنر کا دوسرے کو دبانا یا چڑھائی کرنا ہے یا دوسرے کا یہ محسوس کرنا کہ وہ مجھے دبا رہا ہے یا بلا وجہ چڑھائی کر رہا ہے۔

اگر آپ ایک وقت میں اپنے پارٹنر سے بہت خوش ہیں اور دوسرے وقت میں اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے تو آپ محبت اور نفرت کے تعلق میں مبتلا ہیں۔ اور اگر آپ کی ازدواجی زندگی میں ناراضگی، علیحدگی اور پھر صلح صفائی ( break-ups & make-ups) کا عمل جاری رہتا ہے تو آپ اپنے پارٹنر کے ساتھ اس ریلیشن شپ میں مبتلا ہیں۔ اسی طرح اگر آپ اپنے پارٹنر سے علیحدگی یعنی طلاق یا خلع چاہتے ہیں اور عملا ًعلیحدہ ہوتے نہیں ہیں تو آپ اس ریلیشن شپ میں مبتلا ہیں۔ اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے حالات کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے اور آپ اچھی ازدواجی لائف سے مایوس ہیں تو آپ اس ریلیشن شپ میں مبتلا ہیں۔ دیکھیں، یہ نفرت کا تعلق چھوٹے چھوٹے غلط رویوں کے سبب سے چھٹانک بھر جمع ہوتا رہتا ہے اور پھر ایک وقت میں بغض کا ایک تناور درخت بن جاتا ہے کہ جسے آپ اکھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ اتنا قدر آور ہو چکا ہوتا ہے کہ اکھڑتا نہیں کہ اس کے پھلنے پھولنے میں کئی سال گزرے ہیں۔

حل اس کا کیا ہے؟ دو کام کر لینے سے کافی بہتری آئے گی کہ نفرت کے اس درخت کی جڑیں کھوکھلی ہونا شروع ہو جائیں گی۔ اور اس کے لیے ہمت میرے خیال میں شوہر کو کرنی چاہیے کہ وہ بڑا ہے۔ ایک تو جب کھانے پر بیٹھیں، پہلا لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنے کو فرض سمجھ لیں، بھلے ناراضگی ہو یا صلح۔ اور دوسرا روزانہ ایک بستر پر ایک دوسرے سے چپک کر سونا شروع کریں کہ جسم کا مس کرنا اندر کی نفرت کو کھوکھلا کرتا ہے۔ اب اس میں بیویوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ شوہروں کو اور توقعات لگ جاتی ہیں کہ جن کو پورا کرنے کے لیے ان کا ذہن تیار نہیں ہوتا یعنی ازدواجی تعلق۔ تو شوہروں کو اس معاملے میں یعنی ازدواجی تعلق قائم کرنے کے لیے دنوں کی تخصیص کر لینی چاہیے جیسا کہ تیسرے یا چوتھے یا ساتویں یا دسویں دن کی تخصیص۔ اور درمیان کے دنوں میں چپک کر سونے سے میری مراد صرف سونا ہے، ازدواجی تعلق قائم کرنا نہیں۔ پھر ضرور بہتری آئے گی، ان شاء اللہ عزوجل۔