یہ آپ کی اپنی بیوی ہے، اس پر بلا وجہ کی ٹینشن نہ نکالیں۔ آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاشرے کا ہر فرد افراتفری کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے۔ ہر شخص عجلت میں ہے، اگر کوئی دعوت ولیمہ پر جا رہا ہے تو گاڑی ایسے ڈرائیو کر رہا ہوتا ہے جیسے کسی کے جنازے پر پہنچنا ہو۔ یہ معاشرہ جلد بازوں اور عجلت پسندوں کا معاشرہ بن چکا ہے۔ اور جہاں عجلت اور جلد بازی ہوتی ہے، وہاں ٹینشن بڑھ جاتی ہے۔ہماری معاشرتی زندگی کا دوسرا برا پہلو کاموں کا دباؤ ہے۔ ایک جان اور لاکھوں کام۔ معاشرت کے جدید اسٹائل نے ہمارے کاموں کو بہت بڑھا دیا ہے۔ خاص طور شہروں میں تو لوگوں کے پاس سوچنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ گھر سے چھوٹا سا کام کرنے نکلتے ہیں تو ٹریفک کے ہجوم کی وجہ سے گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ بے برکتی اتنی ہے کہ کوئی کام وقت پر نہیں ہو پاتا اور ہر کام میں سے دو کام نکل آتے ہیں۔ اور جب کام ہاتھ میں نہیں آ پا رہے ہوتے تو ٹینشن بڑھتی ہے۔ یہ میاں بیوی دونوں کے ساتھ ہوتا ہے، خاص طور جبکہ بیوی ملازمت کرتی ہو۔مردوں کی ٹینشن بڑھنے کی اور بھی وجوہات ہوتی ہیں، لیکن فہرست لمبی ہو جائے گی۔ کام کی بات یہ ہے کہ ٹینشن بڑھنے سے انسان کی برداشت کم ہو جاتی ہے اور اسے جلدی غصہ آنے لگتا ہے کہ جسے ہم کہتے ہیں کہ وہ ”شارٹ ٹمپرڈ“ short tempered ہو گیا ہے۔ اور جب انسان کو غصہ جلدی آنے لگے تو وہ نکلتا بھی جلدی ہے۔ اور جب غصہ جلدی نکلتا ہے تو ظاہری بات ہے کہ غلط ہی نکلتا ہے، وہ صحیح جگہ نہیں نکلتا۔ اور غصہ اگر غلط جگہ کیا گیا ہے تو اس کا حساب تو دینا ہو گا۔

عموماً ایسا ہوتا ہے کہ کاموں کے دباؤ یا تاخیر کی وجہ سے انسان ٹینشن کی کیفیت میں ہوتا ہے اور لا شعوری طور پر یہ ٹینشن اپنے بیوی بچوں پر نکالتا رہتا ہے۔ اور ظاہری بات ہے کہ ٹینشن، ٹینشن ہی پیدا کرتی ہے۔ بیوی بھی اس سے ٹینس ہو جاتی ہے۔ اور اگر بیوی شریف النفس ہو تو دبی رہتی ہے اور سن لیتی ہے لیکن اس کے اندرونی نفسیاتی مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ اور اگر دبنگ ہو تو جواب میں وہ بھی ٹینشن نکالتی ہے اور بعض اوقات تو سیر کو سوا سیر کا جواب مل جاتا ہے۔ اور آہستہ آہستہ ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ ایسے میاں بیوی عوامی مقامات public places پر آپ کو ایک دوسرے پر چیختے چلاتے اور شاؤٹ کرتے بھی مل جائیں گے۔

اسی طرح بعض بیویاں ایسی ہوتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر اپنی فرسٹریشن اپنے شوہر پر نکال باہر کرتی ہیں، انہیں بھی اپنے رویے کو ریوائز کرنا چاہیے۔ کبھی کبھی تو دل کرتا ہے کہ میاں بیوی کی کاؤنسلنگ کا کوئی ادارہ ہی کھول لوں۔ نفسیات تو ساری اب سائکیاٹری (Psychiatry) بن چکی ہے کہ ڈاکٹر کے پاس آسان علاج ہے کہ نیند اور سکون کی دوائیاں دے کر جان چھڑوا لو اور میاں بیوی کو ڈرگ ایڈکشن میں مبتلا کر دو۔ بھئی، نیند اور سکون سے ان کا مسئلہ تو حل نہیں ہونا۔ میاں بیوی کو پہلے ان کا مسئلہ بتاؤ، معاشرت پر غور کرو، دماغ لڑاؤ، پھر ذہن کے کام کرنے کے طریقوں پر غور کرو، پھر ان کی کاؤنسلنگ کرو تو مسئلہ حل ہو گا۔جدید معاشرتی لائف اسٹائل، کام کے دباؤ کی وجہ ہے۔ کام کا دباؤ یا کوئی کام وقت پر نہ ہو سکنا، غصے کی وجہ ہے۔ غصہ کرنا، لڑائی کی وجہ ہے۔ اور لڑائی، دماغی مسائل کی وجہ ہے۔ سکون آور گولیاں کھانے کی بجائے اپنے لائف اسٹائل اور کاموں کی فہرست کو ریوائز کریں۔ شوہر اپنے کام کم کر لے اور بیوی اپنے کام کم کر لے۔ شوہر، بیوی کو وقت دے اور بیوی، شوہر کو وقت دے۔ اور دونوں اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ کا وقت بچوں کو دیں۔ ہم بھی کتنے سادہ ہیں کہ دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد ریلیکس ہونے کے لیے واٹس ایپ اور فیس بک پر بیٹھتے ہیں اور اپنے آپ کو مزید تھکا لیتے ہیں کہ یہ بھی ایک ذہنی کام ہی ہے۔