ایک ایسے نوجوان نے فون کیا کہ جو اپنی بیوی سے علیحدگی چاہ رہا تھا۔ اس کی آدھے گھنٹے کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اس لیے نہیں رہ سکتا کہ اس کی بیوی دانشور (intellectual) بالکل نہیں ہے۔ اس کا کسی علمی اور فکری بحث میں دل بالکل بھی نہیں لگتا۔ وہ ہر وقت کپڑے لتے کی باتیں کرتی ہے۔ اسے بننے سنورنے میں دلچسپی ہے۔ شاپنگ اس کا پسندیدہ ٹاپک ہے۔ دوسری عورتوں کو ڈسکس کرنے میں وہ خوب دلچسپی رکھتی ہے۔ میں نے کہا کہ فکری بحث کرنی ہے تو دانشور دوست تلاش کر لو۔
میں نے اس نوجوان کو بہت سمجھایا کہ بیویاں ایسی ہی ہوتی ہیں اور ایسی ہی بیویاں اچھی لگتی ہیں۔ تمہاری اس سے توقعات (expectations) درست نہیں ہیں۔ تو نوجوان مجھے کہنے لگا کہ میں نے تو شادی ہی اس غرض سے کی تھی کہ اپنی بیوی سے فکری بحث کیا کروں گا۔ تو میں نے کہا کہ دانشور بیوی لے کر کرو گے کیا۔ وہ تو نری مصیبت ہے۔ نہ گھر کے کام کاج کرے گی اور نہ صفائی ستھرائی۔ بس بیٹھ کر ہر وقت فلسفے بگھارے گی۔ ان فلسفوں سے نہ تو تمہارا ناشتا تیار ہو گا، نہ کپڑے دھلیں گے اور نہ ہی استری ہوں گے۔ معلوم نہیں لوگوں کے کیسے کیسے مسائل ہیں! انسان کسی حال میں مطمئن نہیں ہے۔ اس کے پاس گھریلو بیوی ہے تو اسے فلسفی چاہیے۔ اور اس کے پاس فلسفی ہے تو اسے گھریلو بیوی پسند ہے۔
وہ کہنے لگا کہ کام تو یہ بھی پورا سارا ہی کرتی ہے، تو مجھے اس شادی سے کیا فائدہ ہوا۔ میں نے کہا کہ دانشور بیوی کا تمہیں کیا فائدہ ہو گا۔ کہنے لگا کہ اس سے بحث سے ذہنی سکون اور اطمینان ملے گا۔ میں نے کہا کہ دانشور بیوی سے بحث کے لیے بہت حوصلہ چاہیے جو مجھے تم میں نظر نہیں آ رہا۔ اس کے سامنے ذرا کوئی فلسفہ بیان کرنا شروع کرو گے تو آدھا لیکچر تو سن لے گی لیکن پھر آدھا لیکچر تمہیں سننا پڑے گا کہ جس میں وہ اسی فلسفے کی تطبیق (application) تم پر ہی فرما رہی ہو گی۔ اور ایک تجربے کی بات یاد رکھو کہ بیوی سے بحث ممکن نہیں ہے، چاہے دانشور ہو یا نہ ہو۔ تو بیوی سے بحث میں جیت جائیں گے تو پھر بھی مسائل ہیں۔ اور نہ جیت پائے تو پھر تو مسائل ہیں ہی۔