دوست کا سوال ہے کہ مزدور جو کہ تعمیراتی کاموں یا اینٹوں کے بھٹوں پر مزدوری کرتے ہیں، ان کے لیے جون جولائی کے مہینوں کی گرمی میں روزہ رکھنا بہت مشکل ہے، تو ان کے روزے کا کیا حکم ہے؟

جواب: اللہ عزوجل نے دو وجوہات سے روزہ چھوڑنے کی رخصت دی ہے؛ سفر اور مرض۔ بس مریض اور مسافر کے لیے روزہ چھوڑنے میں رخصت ہے لیکن اس کے لیے حکم یہی ہے کہ دوسرے دنوں میں جبکہ وہ صحت مند ہو یا مقیم ہو، روزوں کی قضا ادا کرتے ہوئے ان کی گنتی پوری کرے۔ مریض اور مسافر کے لیے روزے میں جو رخصت ہے، اس کی حکمت مشقت ہے کہ اللہ عزوجل اپنے بندوں پر شریعت کے نام پر ایسی سختی نہیں کرنا چاہتے کہ جس کے وہ مکلف نہ ہوں جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ [البقرة: 185]
اللہ عزوجل تمہارے ساتھ آسانی چاہتے ہیں، نہ کہ تنگی۔

پس اگر کسی شخص کا پیشہ یا روزگار ایسا ہو کہ جس میں روزہ رکھنے کی صورت میں اسے مسافر اور مریض سے بھی زیادہ مشقت برداشت کرنی پڑتی ہو تو کیا ایسے شخص کے لیے بھی یہ رخصت موجود ہے کہ وہ دوسرے دنوں میں روزہ رکھ لے؟

جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ مریض اور مسافر کے علاوہ روزہ دوسرے دنوں میں رکھنے کی رخصت کسی کے لیے بھی نہیں ہے جبکہ امام ابن تیمیہ ﷫ یہ کہتے ہیں کہ یہ حکمت کے خلاف ہے کہ آپ مریض اور مسافر کو روزہ دوسرے دنوں میں پورا کرنے کی اجازت دیں اور اس سے زیادہ مشقت والے افراد کو روزہ رکھنے پر پابند کریں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ لاہور سے اسلام آباد بذریعہ ڈائیوو (Daewoo) سفر کرنے والے کو روزہ چھوڑنے کی رخصت ہو لیکن بھٹے پر سارا دن محنت مزدوری کرنے والے کو اس کی رخصت نہ ہو تو یہ حکمت کے منافی ہے۔

امام ابن تیمیہ ﷫ کے نزدیک اس قسم کے فتاوی اس وقت صادر ہوتے ہیں جبکہ قیاس کا اصول کہ جس کی اصل حرکت ہے، فقہی جمود کا شکار ہو جائے۔ امام صاحب کا کہنا ہے کہ شرعی احکام کی بنیاد اگرچہ علتیں ہوتی ہیں لیکن بعض مسائل میں حکمت (wisdom) کو علت (cause) پر ترجیح دینی چاہیے تا کہ قیاس کا اصول جمود کا شکار ہو کر بے اعتدالی کی طرف نہ چلا جائے۔

لہذا ان کے نزدیک اگر کسی شخص کو مریض اور مسافر سے زیادہ مشقت در پیش ہو تو اسے رمضان میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے لیکن وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے گا یعنی مزدور چھٹی والے دن یا سردیوں کے چھوٹے دنوں میں روزہ رکھ کر گنتی پوری کر لے۔ راقم کا اسی موقف پر اطمینان ہے لیکن کسی شخص کی مشقت، مسافر یا مریض کے برابر ہے یا اس سے زائد، اس کا تعین مفتی صاحب کریں ، نہ کہ وہ خود۔

اور امر واقعہ یہ ہے کہ مزدوروں کی اکثریت بلکہ سب ہی روزہ نہیں رکھتے ہیں۔ ایسے میں اگر انہیں رخصت کا رستہ دکھا دیا جائے تو ان کی ایک اچھی خاصی تعداد آسانی کے اوقات میں اپنے روزوں کی گنتی پوری کرنے پر آمادہ ہو سکتی ہے۔ اور مریض اور مسافر کے علاوہ مزدوروں کو روزہ چھوڑنے کی رخصت نہ دینے پر اصرار کرنے والے مفتی حضرات کو ایک دن بھٹے پر اینٹیں ڈھونے اور سڑک پر روڑی کوٹنے کی مزدوری کے ساتھ روزہ رکھوانا چاہیے۔

جو لوگ بھی مزدور کو روزہ رکھوانے پر زور لگا رہے ہیں، کبھی انہیں جون جولائی میں آٹھ گھنٹے کی ٹوکری اٹھا کر روزہ رکھنے کا اتفاق بھی ہوا یا نہیں؟ باقی مزدور کو رات کو مزدوری کرنی چاہیے، مزدور کو چھٹی کر لینی چاہیے، یہ ساری تجویزیں یا تو حکومت کو دینے کی ہیں یا پھر چھٹی والے دن مزدور کے گھر راشن بھیجنے کا انتظام معاشرہ لے تا کہ وہ رمضان میں اطمینانسے روزے رکھ سکے۔ وہ تو کسی نے کرنا نہیں ہے، البتہ مزدور کو مزدوری کے ساتھ روزہ بھی رکھوانا ہماری ایمانی ذمہ داری ہے۔

کچھ دوستوں نے مثالیں بیان کی ہیں کہ فلاں مزدور نے روزہ بھی رکھا اور مزدوری بھی کی ہے۔ اس بارے عرض یہ ہے کہ مزدور ایک بہت وسیع اصطلاح ہے کہ آپ کے گھر میں رنگ روغن کرنے والا بھی مزدور ہی کہلاتا ہے لیکن یہاں بات ان مزدوروں کی ہو رہی ہے جو آٹھ گھنٹے جون جولائی میں سر پر ٹوکری اٹھاتے ہیں یا بھٹے میں تپتی آگ میں آٹھ گھنٹے اینٹیں ڈھونے کا کام کرتے ہیں وغیرہ۔ اس پر کسی نے کوئی مثال بیان نہیں کی کہ ان کی کسی ایسے مزدور سے ملاقات ہوئی ہو کہ جو روزہ بھی رکھتا ہو، البتہ لوگ ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ہو گئے ۔پس کچھ تو ملازمت پیشہ افراد کو بھی رخصت دینے کے طعنے مارنے میں مصروف ہیں اور کچھ ٹھیکیداری کو ٹوکری اٹھانے کے برابر لا رہے ہیں۔اور بعض کا تو خیال ہے کہ مزدور اگر دوسرے شہر سے مزدوری کرنے آیا ہے تو وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے کہ مسافر ہے اور جو اسی شہر کا ہے، تو اس کو رخصت نہیں ہے، یہ بھی عجب فرق ہے!