تو پچھلی دو اقساط سے ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ “قلب” کو “دماغ” کے معنی میں لینا قرآن مجید کے ادنی سے طالب علم کے لیے بھی ممکن نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ باطنی تاویلات شروع کر دے یعنی ایسی تاویلات کہ جن کا کوئی سر پیر ہی نہ ہو۔ اور لوگوں نے قرآن مجید کی تفسیر وبیان میں ایسی تاویلات ہر دور میں کی ہیں۔ اس حوالے سے عصر حاضر میں سرسید اور پرویز کی مثالیں ہی کافی ہیں۔ دیکھیں، وہ کتنے اعتماد سے قرآن مجید کے الفاظ کی ایسی تاویل کر رہے ہوتے ہیں کہ جسے زبان سے کچھ ادنی سی بھی نسبت ہو گی تو وہ اسے سن کر قے کر دے گا لیکن وہ اسے کسی گہرے علمی نکتے کے طور بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ تو اگر آپ نے “قلب” کا معنی “دماغ” کر لیا ہے تو بھی سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کا کانٹیکسٹ یعنی عبارت کا سیاق وسباق، اس کی زبان کی ابانت، خود فصیح عربی کا اسلوب اور رسول اللہ کا بیان وغیرہ اس معنی کو کتنا قبول کرتا ہے؟ تو اس سب کا جواب نفی میں ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے۔
اب معاصرین میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن مجید کا محاورہ ہے۔ لگتا ہے، انہیں محاورے کا مفہوم بھی نہیں پتا کہ محاورہ کہتے کسے ہیں۔ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ محاورہ مراد لینے سے حقیقت ختم نہیں ہو جاتی ہے۔ اب یہ جملہ اسے سمجھ آئے گا کہ جس کی لسانیات (linguistics) میں کچھ نظر ہو گی۔ اور آسان الفاظ میں مجاز مراد لینے سے حقیقت ختم نہیں ہو جاتی، وہ قائم رہتی ہے کیونکہ اس حقیقت کی وجہ سے ہی تو مجاز قائم ہے۔ اور اس پر تفصیل سے مستقل گفتگو ہم کسی اور مقام پر کر چکے ہیں۔ اور آسان الفاظ میں یوں سمجھاتا ہوں کہ جیسا قرآن مجید میں ہے:
تو اب اس کا محاورتا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ کلیجے منہ کو آ گئے۔
تو وہ یہ کہتے ہیں کہ کلیجہ حقیقت میں تو منہ کو نہیں آتا۔ عجیب لوگ ہیں، تھوڑا سا بھی غور نہیں کرتے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آ گیا تو محاورے میں بھی کلیجے سے مراد کلیجہ ہی ہوتا ہے، پھیپھڑا نہیں۔ اور کلیجے کی کل محاورے کے ساتھ جو نسبت ہے، اس کے پیچھے ایک عقلی یا نقلی مناسبت موجود ہوتی ہے جیسا کہ کلیجہ یعنی جگر کو اہل زبان کے ہاں عموما طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے لہذا سختی کے مواقع پر کلیجہ منہ کو آنا کہا جاتا ہے، پھیپھڑا منہ کو آنا نہیں۔ تو مجاز میں بھی کوئی نہ کوئی علاقہ یعنی مناسبت ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے مجازی معنی مراد لیا جاتا ہے۔ اور آسان الفاظ میں لفظ کے حقیقی اور مجازی معنی میں ایک نسبت ہوتی ہے۔ دل سیاہ ہو جانا ایک محاورہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ دل سیاہ ہونے سے مراد ہاتھ سیاہ ہو جانا ہے یعنی یہاں دل کی سیاہی سے مراد ہاتھ کی سیاہی ہے یا دل، ہاتھ کے معنی میں استعمال ہوا ہے یا دل ہاتھ کے معنی میں اردو زبان میں استعمال ہو جاتا ہے۔
تو لفظ مجازی معنی میں استعمال ہو بھی تو بھی حقیقت سے اس کا تعلق قائم رہتا ہے، ٹوٹتا نہیں ہے کیونکہ حقیقت اس کا اوریجن ہے۔ اگر اوریجن سے تعلق ٹوٹ جائے گا تو پھر لفظ کا کوئی معنی باقی نہ رہے گا اور وہی بات ہو جائے گی جو پوسٹ ماڈرن ازم والے کہتے ہیں کہ لفظ کا کوئی معنی نہیں ہے۔ تو یہ تو اس بات کا جواب ہوا کہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں، یہ محاورہ ہے۔ تو آپ اس کو محاورہ لے بھی لیں تو بھی دل سے مراد دل ہی رہتا ہے۔ محاورے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ کل جملہ اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہے، یہ نہیں کہ لفظ سے مراد بھی اس کا حقیقی معنی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر لفظ کو بھی آپ ثابت کر دیں کہ وہ حقیقی معنی میں نہیں تو بھی حقیقت ختم نہیں ہو جاتی، وہ اپنی جگہ موجود رہتی ہے، صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ فی الحال یعنی اس وقت یہ لفظ اپنے حقیقی معنی میں استعمال نہیں ہو رہا ہے، حقیقت کے ساتھ جڑے رہتے ہوئے۔
رہا یہ اعتراض کہ ہارٹ ٹرانسپلانٹیشن سے شخصیت کیوں نہیں بدل جاتی تو اس کا جواب بھی سامنے کا ہے کہ دین اسلام میں انسانی وجود دو حصوں میں منقسم ہے؛ جسمانی اور روحانی۔ اور انسان کی اصل شخصیت اس کا روحانی وجود ہی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
تو نفس، اس روح کو کہتے ہیں جو جسم میں موجود ہو۔ تو مکین اور مکان میں اصل اہمیت مکین یعنی مکان میں رہنے والے کی ہوتی ہے اور ظرف اور مظروف میں اصل اہمیت مظروف یعنی جو برتن میں ہے، اس کی ہوتی ہے نہ کہ ظرف یعنی برتن کی۔ لیکن برتن کی اہمیت بھی اس لیے مسلم ہو جاتی ہے کہ مظروف کا وجود اس کے بغیر ممکن نہیں ہے جیسا کہ برتن میں پانی، شہد یا دودھ وغیرہ۔ تو اصل اہمیت تو پانی، دودھ اور شہد کی ہی ہے لیکن ان کا وجود چونکہ کسی ظرف کے بغیر ممکن نہیں ہے تو ظرف کی اہمیت بھی مسلم ہو جاتی ہے۔
تو انسان کی روح مظروف ہے اور جسم اس کا ظرف ہے۔ اور یہ روح انسانی وجود میں ایسے ہی پھیلی ہوئی ہے جیسے کہ گلاب کی پتی میں سرخ رنگ اور کوئلے میں آگ۔ البتہ اس روح کا مرکز انسان کا دل ہے جس طرح کہ جسمانی وجود کا مرکز انسان کا دل ہے۔ انسان کی جسمانی حیات کا دارومدار اس کے دل کی حرکت پر ہے، اگر وہ حرکت میں ہے تو انسان زندہ ہے اور اگر وہ رک گیا تو انسان مر گیا جسے میڈیکل سائنس میں قلبی موت (cardiac death) کہتے ہیں، چاہے اس کا دماغ کام کر بھی رہا ہو۔ تو یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی انسان کا دل آپ نکال لیں اور وہ زندہ رہے کیونکہ وہ زندگی کا مرکز ہے۔ البتہ آنکھ، گردہ اور ہاتھ وغیرہ کے بغیر بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے۔ اسی طرح انسان کی روح نیند میں بھی اس کے جسم سے نکل جاتی ہے لیکن اپنا مرکز نہیں چھوڑتی یعنی دل سے نہیں نکلتی، بقیہ اعضاء سے نکل جاتی ہے لہذا انسان زندہ رہتا ہے۔ جب روح دل کو چھوڑ جائے یعنی اس سے نکل جائے تو انسان مر جاتا ہے۔
تو ہارٹ ٹرانسپلانٹیشن میں آپ جس ڈونر کا دل لے رہے ہوتے ہیں، وہ مر چکا ہوتا ہے یا مرنے کے قریب ہوتا ہے مثلا اس کی برین ڈیتھ (brain death) ہو چکی ہو۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ کسی زندہ انسان کا دل نکال کر ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہو اور وہ شخص کہ جس کا دل نکالا گیا ہے، دل کے بغیر بھی زندہ رہ رہا ہو۔ تو وہ تو مر چکا ہے۔ جب وہ مر چکا ہے تو اس کی روح آسمانوں کو چڑھ گئی۔ اب تو صرف ایک عضو کی ٹرانسپلانٹیشن ہو رہی ہے کہ جس میں روح موجود نہیں ہے کیونکہ وہ تو ڈونر کی وفات کے ساتھ ہی نکل چکی ہے۔ تو انسان کا دل جذبات کا مخزن ہے کہ جس طرح کان سننے کے کام آتے ہیں، آنکھیں دیکھنے کے تو دل محبت اور نفرت کے کام آتا ہے۔ تو وہ ایک آلہ (organ) ہے اور اس آلے کا جو کام ہے، وہ وہی کام کرے گا۔
تو ایسا نہیں ہے کہ ہارٹ ٹرانسپلانٹیشن سے پرسنیلیٹی بالکل تبدیل نہیں ہوتی۔ ایک ریسرچ کے مطابق آسٹریا میں 47 کے قریب ہارٹ ٹرانسپلانٹیشن کروانے والے لوگوں پر سروے کیا گیا اور ان سے پوچھا گیا تو چھ فی صد کا جواب تھا کہ ہارٹ ٹرانسپلانٹیشن کی وجہ سے ان کی پرسینیلیٹی تبدیل ہو گئی ہے بلکہ انہوں نے جذباتی ساخت (emotional structure) کی بات کی کہ انہیں اپنے میں وہ پہلے سے تبدیل نظر آتی ہے۔ تو یہ تعداد اگرچہ کم ہے لیکن اس سے یہ ثابت ضرور ہوتا ہے کہ یہ کہنا غلط ہو گا کہ شخصیت میں بالکل تبدیلی نہیں آتی ہے۔ 2015ء میں برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں ایک اسٹوری پبلش ہوئی کہ دو بچوں کے ایک باپ کہ جسے ایک سائیکلسٹ نے اپنا ہارٹ ڈونیٹ کیا تھا، کو سائیکلنگ کا جنون لاحق ہو گیا۔ تو پرسینیلیٹی کے تبدیل ہونے کے شواہد موجود ہیں اگرچہ کم ہیں۔
اسی طرح ڈاکٹرز عام طور پر خواتین کا ہارٹ، مردوں کو ٹرانسپلاٹ نہیں کرتے ہیں کیونکہ اس سے لائف کم ہو جاتی ہے اور وہ اس کی وجہ ہارٹ کا سائز بتلاتے ہیں لیکن یہ اسٹڈیز ابھی آگے بڑھیں گی تو سائز کے علاوہ فیکٹرز بھی لازما سامنے آئیں گے جیسا کہ عورت کا ایموشنل اسٹرکچر، مرد سے مختلف ہوتا ہے وغیرہ۔ تو اب تک کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ پرسنیلیٹی دراصل اس روحانی وجود کا نام ہے جو اس جسمانی وجود کے ساتھ موجود ہے۔ جسمانی دل کے ساتھ ایک روحانی دل موجود ہے، جسم کی آنکھ کے ساتھ ایک روح کی آنکھ بھی موجود ہے۔ جسمانی یا حیوانی سطح پر دیکھنا، سننا اور سوچنا یہ جانوروں کو بھی حاصل ہے لیکن روحانی سطح پر دیکھنا، سننا اور سوچنا یہ صرف روحانی وجود کا خاصہ ہے۔ تو بلاشبہ انسانی دماغ سوچنے کا کام کرتا ہے لیکن حیوانی سطح پر۔ روحانی سطح پر تعقل اور تفکر صرف دل کا کام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ کو قرآن مجید میں مردہ کہا گیا ہے اور آپ کو کہا گیا کہ کیا آپ ان مردوں کو کچھ سنوا سکتے ہیں؟ تو سن تو وہ رہے تھے اور زندہ بھی تھے یعنی میڈیکل سائنس کی زبان میں لیکن ان کا سننا کانوں کا سننا تھا جیسا کہ جانور بھی گاڑی کے ہارن کی آواز سن کر رستہ چھوڑ دیتا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے ان لوگوں کو جو کہ کافر ہیں یہ کہا:
یعنی یہ اپنی اصل حقیقت اور اپنے حقیقی وجود سے غافل ہیں اور وہ ان کا روحانی وجود ہے۔
تو اس میں بھی شک نہیں کہ کچھ شخصیت ہم پیدائشی طور لے کر آتے ہیں لیکن اکثر وبیشتر ہماری شخصیت وہی ہوتی ہے جو ہم یہاں بناتے ہیں کیونکہ اسی بنانے ہی کا تو اجر ہے۔ تو پیدائشی شخصیت کا تعلق آپ کے جسمانی اعضاء سے ہو سکتا ہے لیکن جو شخصیت ہم بناتے ہیں، اس کا تعلق روحانی وجود سے ہے۔ کچھ لوگ پیدائشی طور نرم دل ہوتے ہیں اور کچھ سخت دل جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اللہ عزوجل نے آدم کی مٹی زمین سے مختلف جگہ سے لی تو کہیں سے وہ زمین نرم تھی تو اولاد آدم میں نرمی آ گئی اور کہیں سے وہ زمین سخت تھی تو اولاد آدم میں سختی آ گئی۔ لیکن انسانوں کی طبیعتوں میں پیدائشی فرق کافی کم ہوتا ہے، عموما وہ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، اور خاص طور اگر ایک ہی علاقے اور نسل کے ہوں تو ماحول، کلچر اور مذہب بھی ایک ہی ہونے کی وجہ سے ان کی طبیعتوں میں بہت حد تک یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تو یہی وجہ ہے کہ اگر ہم دل کو بطور ایک عضو کے لیں تو زیادہ تر اس عضو کی منتقلی میں شخصیت کی تبدیلی زیادہ نظر نہیں آتی ہے۔