قرآن مجید میں قلب سے متعلقہ تین اور اصطلاحات کثرت سے استعمال ہوئی ہیں؛ فواد، صدر اور لُب۔ قرآن مجید اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ ایمان کا محل اور مقام انسانی ذہن نہیں بلکہ دل ہے جیسا کہ مسلمان اور مومن کا فرق بیان کرتے ہوئے ایمان کے دعویدار نئے نئے مسلمانوں سے یوں ارشاد ہے:
ایک اور جگہ اصحاب رسول کی تعریف میں فرمایا:
قلب سے مراد ہارٹ ہے تو صدر سے مراد انسان کا سینہ ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ کو ان کے لغوی معانی میں ہی استعمال کیا ہے اور یہی ان الفاظ کی حقیقت ہے۔ اور حقیقت کی موجودگی میں مجاز مراد لینا جائز نہیں ہے الا یہ کہ اس کی کوئی صریح دلیل موجود ہو۔ قرآن مجید نے اسلام کی نسبت صدر کی طرف کی ہے بلکہ علم کی نسبت بھی صدر ہی کی طرف ہے۔ پھر اس صدر میں قلب ہے کہ ایمان کی نسبت اس قلب کی طرف ہے۔ پھر اس قلب کی کئی حالتیں ہیں، جن میں ایک فواد بھی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اسی طرح قرآن مجید میں علم کی نسبت جا بجا صدر کی طرف کی گئی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
تو انسان کا دل، ایمان اور اخلاق حسنہ کا محل اور مقام ہے جیسا کہ کفر، نفاق اور رذائل کا محل اور مقام بھی دل ہی ہے۔ قلب میں ایمان اور اخلاق کی روشنی جب بڑھتی ہے تو وہ ایک نور کی صورت اختیار کر لیتی ہے کہ جس نور سے انسان کا سینہ منور ہو جاتا ہے اور اسی نور سے وہ خیر اور شر میں تمیز کرتا ہے۔ اور اسی تمیز کا نام علم ہے۔ سورۃ النور کی آیت 35 میں اسے تفصیل سے واضح کیا گیا ہے کہ بندہ مومن کے دل میں ایمان کے نور کی مثال ایک طاقچے کی سی ہے کہ جس میں چراغ ہو۔ تو یہاں طاقچے سے مراد سینہ ہے اور چراغ سے مراد دل ہے۔ اسی لیے علم کی نسبت سینے کی طرف ہے۔ اسی طرح بعض اوقات انسان کا کفر، نفاق اور رذائل کہ جن کا محل اور مقام قلب ہے، بھی حد سے بڑھ جائیں تو ان کی تاریکی اور ظلمت انسان کے سینے کو کور کر لیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض رذائل کی نسبت سینے کی طرف کی گئی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
شیطان کا وسوسہ انسان کے علم میں پڑتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
تو اسی وسوسے کو ہم شکوک وشبہات (doubts) کہتے ہیں جبکہ انسانی خواہشات کا محل اور مقام انسان کا دل ہے کہ جنہیں ہم نفسانی خواہشات (desires) کہتے ہیں۔ انسان کو دونوں طرح سے آزمایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ایک مقام پر قلب اور صدر دونوں کو جمع کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
تو ابتلاء اور تمحیص میں فرق ہے۔ ابتلاء تو علم کی ہے اور تمحیص جذبات کی ہے۔
جہاں تک فواد کی بات ہے تو یہ دل کی ایک کیفیت اور حالت ہے۔ فواد کا لغوی معنی توقد ہے جیسا کہ توقدت النار یعنی آگ کا بھڑکنا، شعلہ مارنا۔ تو فواد سے مراد جذبات کا بھڑکنا بھی ہو سکتا ہے اور معرفت کا پہلو بھی مراد ہو سکتا ہے جو کہ آگ کے بھڑکنے کا نتیجہ ہے یعنی روشنی جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: مَا كَذَبَ الفُؤَادُ مَا رَأَى۔ ترجمہ: آپ کے دل نے اس کو نہیں جھٹلایا کہ جس کو آپ نے دیکھا۔ تو یہاں مراد مقام معرفت ہے جو دل کی ایک حالت اور کیفیت ہے۔ قرآن مجید کی ایک آیت میں فواد اور قلب کو جمع کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: