قرآن مجید فصحیح عربی زبان میں نازل ہوا، اس عربی زبان میں کہ جسے اہل عرب بولتے تھے اور جس سے وہ واقف تھے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
ترجمہ: ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تا کہ تم سمجھ سکو۔

تو عرب اسی صورت قرآن مجید کو سمجھ سکتے تھے جبکہ یہ ان کی بولی میں نازل ہوتا لہذا قرآن مجید کے معانی ومفاہیم کو متعین کرنے میں ادب جاہلی کو ایک مصدر کی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس ﷜ فرماتے ہیں کہ جب تم قرآن مجید کے کسی لفظ کے معنی معلوم کرنے سے عاجز آ جاؤ تو جاہلی شعر کی طرف توجہ دو کہ وہ عربوں کا دیوان ہے۔ تو ادب جاہلی میں غزل میں “قلب” کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے کہ جسے ہم آج کل انگریزی میں ہارٹ (heart) کہتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ قرآن مجید کا معنی قرآن مجید سے متعین کیا جائے تو بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ قرآن مجید نے قلب کا لفظ ہارٹ (heart) کے معنی میں ہی استعمال کیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى القُلُوبُ الَتِي فِي الصُّدُورِ
ترجمہ: آنکھیں اندھی نہیں ہو جاتی بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

تو قرآن مجید نے دل کا مقام متعین کر دیا کہ وہ سینے میں ہے۔ اور اسے اصول فقہ کی اصطلاح میں مفسر کلام کہتے ہیں کہ متکلم خود ہی اپنے کلام کی شرح کر دے۔ ایک اور مقام پر غزوہ احزاب کی سختیوں کے تناظر میں فرمایا:

وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ۔
ترجمہ: اور یاد کرو جبکہ آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور دل، گلوں میں پہنچ گئے تھے۔

اب اس کاجواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ محاورتا کلام ہے۔ بھئی، محاورتا کلام بھی ہو تو کیا ناک بھی کبھی پتھراتا ہے کہ ہم آنکھ سے مراد ناک لے لیں۔ تو محاورہ بھی ایک معنی میں استعمال ہوتا ہے، یہ تو نہیں کہ اس سے جو مرضی مراد لے لیں۔ تو جس طرح آنکھوں سے مراد ناک کان نہیں ہو سکتے، اسی طرح دل سے مراد دماغ نہیں ہو سکتا۔ یہ قرآن مجید کی غلط تاویل ہے جسے خود قرآن مجید کی فصیح زبان تسلیم نہیں کر رہی۔ تو قرآن مجید کی تفسیر ہم خود قرآن مجید سے کریں تو قرآن نے واضح کر دیا کہ دل وہی ہے جو سینے میں دھڑک رہا ہے۔ اور قرآن مجید نے دل کی صفات میں تقلب یعنی دھڑکنے کو بھی بیان کیا ہے اور قلب کا لفظ تو خود دھڑکنے کے معنی میں ہی ہے۔ دوسرا ادب جاہلی سے یہ متعین ہوتا ہے کہ فصیح عربی زبان میں قلب، دل کو ہی کہتے ہیں۔

تیسرا رسول اللہ ﷐ سے سنت میں قلب کی جو تفیسر ملتی ہے، وہ یہی ہے کہ قلب اسی کو کہتے ہیں کہ جو سینے میں ہو جیسا کہ مسند احمد کی ایک صحیح حدیث میں ہے کہ آپ ﷐ نے فرمایا کہ تقوی یہاں ہوتا ہے اور آپ ﷐ اپنے سینے کی طرف اشارہ فرما رہے تھے اور ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ اور قرآن مجید نے تقوی کو بھی قلب کی صفات میں شمار کیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ
ترجمہ: اور جو اللہ عزوجل کے شعائر کی تعظیم کرے گا تو یہ قلوب کا تقوی ہے۔

ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷐ نے اسے مضغة کہا ہے یعنی وہ ایک جسمانی عضو ہے، محض لطیفہ ربانی نہیں ہے۔ البتہ لطیفہ ربانی اس جسمانی عضو میں مان لیا جائے تو اس میں حرج نہیں کہ یہ لفظی اختلاف ہے جیسا کہ بعض اہل علم کا قول ہے۔

چوتھا یہ کہ سلف اور خلف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے لفظ “قلب” سے مراد ہارٹ ہی ہے۔ اگرچہ ان میں سے بعض نے “قلب” کا معنی “عقل” بھی لیا ہے لیکن جو اہل علم اس سے “عقل” مراد لیتے ہیں، ان کے نزدیک محل عقل یعنی جسم انسانی میں عقل کا مقام کہ جہاں عقل موجود ہے، وہ قلب ہی ہے لہذا سلف اور خلف کا اس مسئلے میں آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور وہ قلب سے مراد ہارٹ ہی لے رہے ہوتے ہیں، چاہے اس کا معنی عقل کر رہے ہوں۔ تو میری نظر میں یہ کہنا درست ہے کہ اس بات پر سلف وخلف کا اجماع ہے کہ قلب کا معنی ہارٹ ہے۔ اختلاف دو باتوں میں ہوا ہے؛ ایک یہ کہ عقل کا محل ومقام کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ روح کا محل اور مقام کیا ہے؟

قرآن مجید سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عقل کا محل اور مقام بھی دماغ نہیں، قلب ہے اور روح کا محل اور مقام بھی قلب ہی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا۔
ترجمہ: تو ان کافروں کے پاس دل ہوتے کہ جن سے یہ سوچتے۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے:

لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا۔
ترجمہ: ان کے دل ہیں، مگر ان سے سمجھتے نہیں ہیں۔

تو قرآن مجید نے سوچنے سمجھنے کی نسبت دل کی طرف کی ہے کہ جس سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہوئی کہ یہ کام تو دماغ کا ہے لہذا قلب سے مراد دماغ ہے۔ حالانکہ ذرا سا غور کریں تو قرآن مجید اس معاملے میں واضح ہے کہ انسان کا سوچنا سمجھنا دو سطح پر ہے؛ حیوانی سطح پر اور انسانی سطح پر۔

حیوانی سطح پر انسان کا دیکھنا، سننا اور سوچنا اس کا تعلق کان، آنکھ اور دماغ سے ہے لیکن انسانی سطح پر دیکھنے، سننے اور سوچنے کا تعلق انسان کی روح سے ہے کہ جس کا محل، قلب ہے اگرچہ وہ سارے جسم میں برابر طور پھیلی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى القُلُوبُ الَتِي فِي الصُّدُورِ۔
ترجمہ: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

تو اس آیت میں دیکھنے کی نسبت آنکھوں اور دل دونوں کی طرف ہے لیکن قرآن مجید نے یہ واضح کیا ہے کہ اصل بینا وہ ہے کہ جس کا دل بینا ہو۔ آنکھوں سے دیکھنے کا کام تو جانور بھی کر رہے ہیں کہ سڑک پار کرتے ہوئے وہ بھی ادھر ادھر دیکھ لیتے ہیں، شکاری جانور کو دیکھ کر وہ بھی بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔