دوست کا سوال ہے کہ مسند احمد کی اس روایت کے بارے میں کیا رائے ہے کہ جس میں ام المومنین عائشہ پر حوآب کے کتوں کے بھونکنے کا تذکرہ ہے ؟
جواب: مسند احمد کی روایت میں ہے کہ قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ جب رات کے وقت بنو عامر کے چشمے پر پہنچیں تو کتے بھونکنے لگے۔ ام المومنین نے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے؟ انہیں بتلایا گیا کہ یہ حوآب کا چشمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے واپس جانا چاہیے۔ ان کے بعض ساتھیوں نے کہا کہ آپ کو آگے بڑھنا چاہیے تا کہ آپ کے ذریعے مسلمانوں میں صلح قائم ہو۔ ام المومنین نے کہا کہ ازواج مطہرات سے ایک دن رسول اللہ نے کہا تھا کہ تمہارا اس دن کیا حال ہو گا جبکہ تم میں سے کسی پر حوآب کے کتے بھونکیں گے؟
اس حدیث کی تصحیح وتضعیف میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے جبکہ بعض کے نزدیک صحیح ہے۔ جنہوں نے اس روایت ہر ضعف کا حکم لگایا ہے تو ان میں سے ایک بہت بڑا نام یحی بن سعید القطان کا ہے۔ یحی بن سعید، علی بن المدینی کے استاذ ہیں اور علی بن المدینی، امام بخاری کے استاذ ہیں۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل، یحی بن معین اور ابن مہدی وغیرہ کا شماربھی یحی بن سعید کے شاگردوں یا ان سے روایت کرنے والوں میں ہوتا ہے، ۔ تو اس سے بھی آپ یحیی بن سعید کے مقام اور مرتبے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
تو علی بن المدینی کہتے ہیں کہ مجھے یحی بن سعید نے کہا کہ قیس بن حازم منکر الحدیث ہے اور پھر انہوں نے قیس کی کئی ایک منکر روایات کا تذکرہ کیا اور ان منکر روایات میں حوآب کے کتوں والی روایت کو بھی منکر کہا۔ جن اہل علم نے حوآب کے کتوں والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے، ان میں علامہ ابن حجر اور علامہ البانی وغیرہ شامل ہیں۔ علامہ البانی نے تو اس بنیاد پر اس روایت کو صحیح کہا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں، صحاح ستہ کے راوی ہیں، جبکہ علامہ ابن حجر کے نزدیک یہ روایت بخاری کی شرط پر ہے۔ دونوں باتوں کا تقریبا ایک ہی مطلب ہے کیونکہ اہل علم کے ہاں کسی روایت کے بخاری کی شرط پر ہونے کا معروف مطلب یہی ہے کہ اس روایت کے راوی، بخاری کے راوی ہیں۔
تو بلاشبہ قیس بن ابی حازم ثقہ راوی ہے کہ کبار صحابہ سے روایت کرتا ہے۔ بخاری اور مسلم کے علاوہ صحاح ستہ کے تمام مصنفین نے اس سے روایت نقل کی ہے۔ لیکن کسی روایت کے صحیح ہونے کا دارومدار صرف یہ نہیں ہے کہ راوی ثقہ ہو۔ راوی بھلے بخاری مسلم کا ہو، اس کی روایت بھی ضعیف ہو سکتی ہے کہ ثقہ ہونا صحیح حدیث کی پانچ شرائط میں سے دو شرائط کا بیان ہے۔ مستدرک حاکم کو دیکھ لیں، کیا اس کے راوی بخاری مسلم کے راوی نہیں ہیں کیا؟ لیکن کیا مستدرک کو وہ مقام حاصل ہے جو بخاری اور مسلم کا ہے؟ تو مسئلہ صرف بخاری اور مسلم کے راویوں کا ہوتا تو مستدرک حاکم کی احادیث کا درجہ بھی بخاری اور مسلم جتنا قرار پاتا لیکن ایسا نہیں ہے۔
علی بن المدینی سے سوال ہوا کہ کیا قیس بن ابی حازم جنگ جمل میں شریک تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔ یہاں سے بعض اہل علم نے یہ نکتہ اٹھایا کہ جب وہ جنگ جمل میں شریک نہیں تھا تو سند میں انقطاع ہے۔ اگرچہ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ قیس بن ابی حازم نے بعد میں سن لیا ہو گا؟ لیکن روایت کا متن اس احتمال کی نفی کرتا ہے کہ متن کے مطابق راوی کا بیان یہی کہہ رہا ہے کہ جیسے وہ موقع پر موجود تھا۔ پھر یحی بن سعید نے جو بات کی ہے کہ یہ روایت منکر ہے تو اس پر غور کرنا چاہیے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کتوں کا کام تو بھونکنا ہی ہے، وہ بھونکے گا نہیں تو کیا کرے گا؟ رسول اللہ سے یہ بعید ہے کہ آپ ایسا کلام فرمائیں کہ کسی پر کتوں کا بھونکنا اس کی اجتہادی خطا کی دلیل ہو۔ مطلب آپ فجر کی نماز کے لیے نکلیں، کتے بھونکنا تو درکنار آپ کے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں تو کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ مسجد جانے کی غلطی کر رہے ہیں؟ اسے اصطلاح میں نکارت کہتے ہیں کہ بات میں بہت اجنبی پن ہے کہ وہ کلام نبوی معلوم نہیں پڑتا۔
یہ بات درست ہے کہ ام المومنین جنگ جمل میں نکلی تھیں اور ان کے ساتھ حضرت طحہ اور زبیر بھی تھے جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ یہ سب صحابہ کرام حضرت علی کی خلافت سے خروج کے ارادے سے نہیں بلکہ قاتلان عثمان سے قصاص لینے کا مطالبہ لے کر نکلے تھے۔ اور اس طرح سے نکلنے میں ان کا مقصد سیاسی دباؤ ڈالنا تھا۔ اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس میں بھی نکلنے کا مقصد صلح ہی بیان ہوا ہے کہ فریقین میں قاتلان عثمان سے قصاص لینے کے معاملے میں کوئی معاہدہ ہو جائے۔ ان حضرات کا کہنا یہ تھا کہ حضرت علی پہلے قاتلان عثمان سے قصاص لیں جو کہ ان کے لشکر میں موجود تھے جیسا کہ مالک اشتر نخعی کا نام قاتلان عثمان میں بہت نمایاں تھا اور وہ حضرت علی کے لشکر کے کمانڈرز میں سے تھا۔
لیکن حضرت علی کا موقف یہ تھا کہ پہلے یہ حضرات میری بیعت کریں، مجھے مضبوط کریں، پھر میں قاتلان عثمان سے بدلہ لے سکوں گا، کیونکہ قاتلان عثمان دار الخلافہ میں ایک خلیفہ وقت کو شہید کر چکے تھے، تو اس سے ان کی عسکری اور سیاسی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تو ابھی بات چیت چل رہی تھی اور حضرت علی اس بات پر آمادہ ہو گئے تھے کہ پہلے قصاص لے لیا جائے تو پھر وہ بیعت کر لیں تو حضرت علی کے لشکر میں موجود ان شر پسندوں کو اس کا اندازہ ہوا تو انہوں نے رات کی تاریکی میں حضرت طلحہ اور زبیر کے لشکر پر حملہ کر دیا۔ اور ان حضرات نے سمجھا کہ یہ حملہ حضرت علی نے کیا ہے تو انہوں نے جوابی بڑا حملہ کر دیا کہ جس سے نا قابل تلافی نقصان ہوا۔
اس جنگ میں حضرت علی کا پلڑا بھاری رہا اور انہوں نے ام المومنین کو پوری عزت واحترام کے ساتھ گھر واپس کیا۔ اور حضرت عائشہ نے بھی بعد ازاں اپنے گھر سے نکلنے پر بارہا افسوس کا اظہار کیا کہ بھلے ان کا مقصد نیک تھا لیکن اس وجہ سے مسلمانوں میں خون خرابہ ہوا۔ اہل سنت والجماعت کا کہنا یہی ہے کہ جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی احق تھے یعنی زیادہ حق پر تھے اور دوسرے ان کے مقابلے میں اجتہادی خطا پر تھے۔ تو یہ حق وباطل کی جنگ نہ تھی، یہ حق اور احق کی جنگ تھی۔ جس میں جو احق پر تھے وہ اللہ کے ماجور ہیں اور جو حق پر تھے تو وہ معذور ہیں۔ اور دونوں کو اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں جنت کی بشارت دے دی ہے۔