حاملہ (pregnant) اور مرضعہ یعنی بچے کو دودھ پلانے والی خاتون کے بارے سلف صالحین اور فقہاء کا اتفاق ہے کہ اگر اس کی ذات یا اس کے بچے کے لیے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ روزہ چھوڑنے کو مریض اور مسافر کے لیے مختص کر دینا بالاتفاق ممنوع ہے۔ اب یہاں بعض علماء نے یہ کہا کہ حاملہ اور مرضعہ دراصل مریض ہی ہیں، حالانکہ یہ ایک دھکے کے سوا کچھ نہیں ہے کہ آپ مرضعہ، دودھ پلانے والی ماں کو مریض بنا دیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں بھی مسافر اور مریض جتنی مشقت پیدا ہو گی تو آپ کو روزہ چھوڑنے کی رخصت نکالنی پڑے گی۔ اور حاملہ اور مرضعہ کے لیے سلف صالحین اور فقہاء نے تکلیف ما لا یطاق(unbearable-burden) کے سبب سے رخصت نکالی ہے کہ وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے۔ اب سلف صالحین میں اس بارے میں اختلاف ہو گیا کہ حاملہ اور مرضعہ اگر روزہ چھوڑ دے گی تو کیا صرف اس کی قضاء ادا کرے گی یا قضاء کے ساتھ فدیہ بھی دے گے یا صرف فدیہ دے گی؟
جمہور کا موقف یہ ہے کہ حاملہ اور مرضعہ روزوں کی قضاء دے گی یعنی دوسرے دنوں میں ان کی گنتی پوری کرے گی جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن عمر کا موقف یہ ہے کہ حاملہ اور مرضعہ کو قضاء کا حکم دینا تکلیف ما لا یطاق ہے لہذا وہ صرف فدیہ ادا کرے گی کہ حمل کی وجہ سے ایک سال ایک ماہ کے روزے اور دودھ پلانے کی وجہ سے اگلے سال ایک ماہ کے روزے جمع ہو کر ساٹھ روزے بن جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی خاتون لگاتار ہر سال حاملہ ہونے لگیں تو روزوں کی تعداد سینکڑوں میں چلی جاتی ہے اور ان کی قضاء تکلیف ما لا یطاق ہے۔ تفسیر طبری میں اس قسم کے اقوال حضرت علی، حضرت عائشہ، عکرمہ، مجاہد، سعید بن جبیر وغیرہ سے بھی مروی ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس وغیرہ کا کہنا ہے کہ اس رخصت کی دلیل اللہ عزوجل کا قول وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ہے۔ سلف کی ایک رائے کے مطابق یہ آیت منسوخ ہے۔ دوسری رائے میں اس آیت میں رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے ہر ماہ تین روزوں کی فرضیت کا حکم بیان ہوا ہے جو کہ ایام بیض یعنی ہر ماہ چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے تین روزے تھے۔ اور صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کی رائے کے مطابق یہ آیت نہ تو منسوخ ہے اور نہ ہی اس میں غیر رمضان کے روزوں کی بات ہو رہی ہے بلکہ اس آیت میں يطيقونه سے مراد يطوقونه ہے کہ جس کا معنی یہ ہے کہ جنہیں روزہ رکھنے میں شدید مشقت اٹھانی پڑے تو وہ روزے کی جگہ فدیہ ادا کر سکتے ہیں اور وہ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کے قول کے مطابق حاملہ، مرضعہ اور شیخ کبیر یعنی بہت ہی بوڑھا شخص ہیں۔ مجموع الفتاوی اور بیان تلبیس الجہمیۃ میں امام ابن تیمیہ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔
پس ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ﴾ [البقرة: 182] اور ﴿أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ﴾ [البقرة: 183] سے معلوم ہوا کہ رمضان کے روزوں کی بات ہے لہذا غیر رمضان کے روزوں والا قول درست نہیں ہے۔ اور جہاں تک نسخ والے قول کی بات ہے تو قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی موجود نہیں ہے کہ جو ہر پہلو سے منسوخ ہو گئی ہو۔ ہاں! البتہ بعض نسخ کے شائقین ایسے بھی ہیں جو جہاد کی آیات سے دعوت تبلیغ کی آیات تک کو منسوخ کر کے ایک تہائی قرآن کو بھی منسوخ قرار دینے سے باز نہیں آتے۔ پس یہ آیت مقیم کے حق میں منسوخ ہے لیکن حاملہ، مرضعہ اور شیخ کبیر کے حق میں باقی ہے، یہ سلف صالحین کے اقوال میں بہترین جمع ہے۔ پس حاملہ، مرضعہ اور شیخ کبیر اگر روزہ رکھ لیں تو بہت بہتر ہے کہ یہی جمہور کا موقف ہے اور محتاط قول ہے۔ اور اگر فدیہ دے دیں تو اس کی بھی اجازت اور گنجائش ہے۔ اور کم از کم فدیہ ایک روزے کے بدلے مسکین کو دو وقت کا وہ کھانا کھلانا ہے جو کہ خود سے کھاتے ہوں اور زیادہ جتنا مرضی دے دیں۔