صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜ نے حضرت عبد اللہ بن حارث ﷜ کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں اور انہوں نے اپنے بالوں کو جمع کر کے جوڑا بنا رکھا ہے۔ تو حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜ نے نماز میں ہی ان کے بال کھول دے۔ تو انہوں نے نماز کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜ سے کہا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜ نے کہا کہ اس طرح جوڑا بنا کر نماز پڑھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے ساتھ باندھ کر نماز پڑھنا۔ یعنی نماز کی حالت میں بالوں کو بھی سجدہ کرنا چاہیے اور یہی اس حکم کی حکمت ہے جو حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜ بیان کی ہے۔

ہمیں حکم ہے کہ سات اعضاء پر سجدہ کریں تو جس کے ہاتھ کندھوں سے بندھے ہوں گے تو اس کے ہاتھ سجدہ نہیں کریں گے۔ اسی طرح بالوں کو بھی سجدے میں جانا چاہیے اور جس کے بال اس طرح بندھے ہوں گے تو اس کے بال سجدہ نہیں کریں گے جبکہ اللہ عزوجل کو یہ پسند ہے کہ انسان کا عضو عضو سجدے میں جائے جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ اپنے بالوں کو سمیٹ کر نہ رکھو۔ البتہ اگر کسی نے اس طرح نماز پڑھ لی یعنی جوڑا بنا کر تو اس کی نماز ہو جائے گی یعنی نماز میں ایسا کرنا مکروہ ہے۔ دوسرا یہ عمل عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے لہذا نماز کے علاوہ بھی ناپسندیدہ امر ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ نماز میں جوڑا بنانے کی ممانعت کا حکم مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے نہیں جیسا کہ امام غزالی نے احیاء العلوم اور امام شوکانی نے نیل الاوطار میں اس کی وضاحت کی ہے۔

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷐ نے فرمایا کہ مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا اور یہ بھی کہ میں نماز میں اپنے کپڑے اور بال نہ سمیٹوں۔ تو کپڑے سمیٹنے کا اصلا حکم نماز میں ہے، نماز سے باہر نہیں جیسا کہ امام بخاری نے اس حدیث میں جو باب باندھا ہے یعنی بَابُ لاَ يَكُفُّ ثَوْبَهُ فِي الصَّلاَةِ، اس میں اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔ اور بال سمیٹنے کا حکم نماز اور نماز کے علاوہ دونوں سے ہے اور مرد اور عورت کے لیے فرق ہے جیسا کہ امام بخاری نے بال سیمٹنے کے لیے باب کے جو الفاظ نقل کیے ہیں حالانکہ روایت یہی بیان کی ہے، وہ بَابُ لاَ يَكُفُّ شَعَرًا ہیں۔ اس سے امام بخاری ﷫ کی فقاہت اور گہرائی کا اندازہ لگائیں کہ ایک ہی روایت کے ایک ہی جیسے الفاظ سے کپڑوں اور بالوں کے حکم میں فرق کر لیا۔

تو نماز کی حالت میں کپڑے سمیٹنا منع ہے کہ یہ خشوع وخضوع کے منافی ہے اور اگر نماز سے پہلے کپڑے سمیٹ لیے جائیں جیسا کہ ٹخنوں سے پینٹ فولڈ کر لی تو کوئی حرج نہیں بلکہ اسے ایسا کرنا چاہیے کہ شلوار اور تہبند وغیرہ کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے منع کیا گیا۔ تو مرد کے لیے نماز اور غیر نماز میں بالوں کو سمیٹ کر جوڑا بنانا منع ہے کہ نماز میں تو یہ ایک تعبدی حکم ہے یعنی اس کا مقصد اور علت عبادت ہی ہے جبکہ نماز سے باہر اس کی ممانعت کی وجہ عورتوں سے مشابہت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜ ہی سے صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷐ نے ان مردوں پر اللہ کی لعنت فرمائی جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہوں اور ان عورتوں پر بھی لعنت فرمائی جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہوں۔

اور عورتوں کے لیے نماز میں جوڑا بنانے میں حرج نہیں یعنی بال سمیٹ کر نماز پڑھنے میں کیونکہ ان کے بال ستر میں شامل ہیں اور ستر کو اچھے سے ڈھانپنا نماز کی شرائط میں داخل ہے۔ اور نماز کے علاوہ میں عورت کا جوڑا بنانا اس وقت منع ہے جبکہ وہ بے حجاب ہو یا اس جوڑے کے ذریعے مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا باعث بن رہی ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں کہ وہ عورتیں جنت کی خوشبو بھی نہ پائیں گی کہ جن کے سر بختی نسل کے اونٹ کے کوہان کی مانند ہوں اور وہ مردوں کو مائل کرنے والی ہوں۔ تو اگر عورت گھر میں کام کاج کرنے کے لیے جوڑا بنا لے تو اس میں حرج نہیں۔ لیکن اگر تبرج یعنی اظہار زینت اور مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے اپنے سر کے بالوں کا جوڑا بنائے تو یہ حرام ہے اور اس کے لیے بہت سخت وعید ہے کہ ایسی عورت جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گی۔