رمضان کے آخری عشرے میں رسول اللہ دو قسم کی عبادتوں کا اہتمام کرتے تھے، ایک اعتکاف اور دوسرا لیلۃ القدر کی تلاش۔ اعتکاف اتنی بڑی اور فضیلت والی عبادت ہے کہ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں اپنے دو جلیل القدر انبیاء حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کو حکم دیا کہ وہ اللہ کے گھر بیت اللہ کو اعتکاف کرنے والوں کے لیے پاک کریں۔ یعنی اعتکاف کرنا اتنی بڑی عبادت ہے کہ اعتکاف کرنے والوں کی خدمت بھی بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔
پس اگر حالات ایسے نہیں ہیں کہ اعتکاف کر سکیں تو کم از کم کسی اعتکاف کرنے والے کی خدمت کر دیں کہ اسے گھر سے سحری اور افطاری وغیرہ لا دی یا اس کے گھر کے کچھ کام کاج کر دیے وغیرہ۔ اور اعتکاف میں دو باتیں اہم ہیں؛ ایک نیت اور دوسرا مقصد۔ اعتکاف رمضان کے آخری عشرہ میں اللہ کی خاطر مسجد میں جم کر بیٹھنے کا نام ہے تو اس کے لیے پہلے نیت خالص کر لیں۔
رسول اللہ ایک مرتبہ رمضان میں اعتکاف کے لیے اپنے حجرے میں داخل ہونے لگے تو آپ نے کچھ اور خیمے دیکھے۔ آپ نے پوچھا تو بتلایا گیا کہ فلاں فلاں ازواج کے ہیں۔ تو آپ نے اس سال کا اعتکاف ترک فرما دیا کہ آپ کو محسوس ہوا کہ ازواج آپ کی وجہ سے اعتکاف کر رہی ہیں اور اس سال شوال میں اعتکاف فرمایا۔
اور دوسرا یہ کہ اعتکاف کا مقصد اللہ کی عبادت کے لیے اپنے آپ کو یکسو کرنا ہے یعنی ہر چیز سے کٹ کر صرف اللہ کا ہی ہو کر رہ جانا تو اس مقصد کو کسی صورت فوت نہ ہونے دے۔اب تو عجب صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے کہ لوگ اعتکاف کی حالت میں اخبار پڑھ رہے ہیں، موبائل فون پر گیم کھیل رہے ہیں، لیپ ٹاپ پر فیس بک استعمال کر رہے ہیں، تو یہ سب باتیں اعتکاف کے مقصد کے منافی ہیں۔ اعتکاف در اصل دس دنوں کی رہبانیت ہے کہ جس میں انسان اپنی دنیا سے بالکل غافل ہو جائے اور اس دوران اپنے اندر عبادت کا ذوق بیدار کرے۔ یہ المیہ کیا کم ہے کہ ہمیں سجدے میں وہ لذت نہیں ملتی جو مووی دیکھنے میں حاصل ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ عبادت کا ذوق موجود نہیں ہے۔ اور اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے کہ جو عبادت کا ایسا ذوق بیدار کر دیتی ہے کہ مسجد میں رہنا انسان کو زیادہ محبوب ہو جاتا ہے، سجدے اور دعاء میں اس کا دل زیادہ لگتا ہے۔ اور اگر عبادت کا ذوق نہ ہو تو عبادت بوجھ بن جاتی ہے، اعتکاف میں بیٹھ کر یوں لگے گا کہ جیسے قید خانے میں آ گئے ہوں، اس لیے عبادت کا ذوق بیدار کرنا بہت ضروری ہے۔ اور عبادت کا ذوق اس وقت بیدار ہوتا ہے جب تنہائی اچھی ہو جائے تو اعتکاف اپنی تنہائی کو اچھا بنانے کی ایک مشق ہے۔
اور دوسری اہم چیز کہ جس کا ہمیں اہتمام کرنا ہے، وہ طاق راتوں میں لیلۃ القدر کی تلاش ہے۔ لیلۃ القدر کی رات طاق راتوں میں گردش کرتی رہتی ہے اور یہ فکس نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کو وہم ہے کہ ستائیس کی رات لیلۃ القدر کی رات ہوتی ہے حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اور لیلۃ القدر کی ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینے یعنی 80سال کی عبادت سے بہتر ہے، قرآن مجید نے یہ نہیں کہا کہ 80 سال کی عبادت کے برابر ہے بلکہ کہا کہ اس سے بہت بہتر ہے۔ تو اس رات میں جاگنے کا اہتمام کرے اور کچھ اعمال تو ہر طاق رات میں لازماً کرے کہ لیلۃ القدر کو پالینے کا آسان طریقہ ہے۔
مثال کے طور اگر ہر طاق رات میں ایک سو روپیہ صدقہ کرے گا تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے 80سال صدقہ کیا۔ اور اگر ہر طاق رات میں ایک سیپارہ تلاوت کر لے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے 80سال قرآن مجید کے ایک سیپارے کی تلاوت کی۔ اور اگر ہر طاق رات میں دو رکعت نفل نماز یا کوئی تسبیح پڑھ لے گا تو یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے اس نے 80سال دو رکعت نقل نماز یا تسبیح پڑھی۔ تو بس خود بھی جاگیں اور اپنے گھر والوں کو بھی جگانے کا اہتمام کریں کہ یہ رسول اللہ کی اہم ترین سنت ہے۔