دوست نے سوال کیا ہے کہ مالکن کے پاس چار کروڑ کے ہیرے ہیں اور اس کے گھر میں کام کرنے والی خادمہ کے پاس چالیس ہزار روپے ہیں جو اس نے دو ہزار کی کمیٹی ڈال کر جمع کیے تھے، دونوں پر ایک سال گزر چکا، تو مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ مالکن پر زکوۃ نہیں ہے کہ فقہاء کے نزدیک ہیروں اور قیمتی پتھروں پر کوئی زکوۃ نہیں ہے اور خادمہ پر زکوۃ فرض ہے کہ خادمہ ”صاحب نصاب“ ہے کہ اس کے پاس اتنی رقم ہے جو 52.5 تولے چاندی کے برابر ہے۔ اس بارے آپ کیرائے درکار ہے کہ کیا خادمہ اپنی زکوۃ اپنی مالکن کو دے سکتی ہے؟

جواب: فتاوی کے نام پر عجب تماشے لگے ہوئے ہیں۔ بعض علماء کا یہ شکوی بجا ہے کہ مدرسوں میں اصول فقہ کے نام پر اصول اجتہاد کی بجائے، اصول تقلید پڑھائے جا رہے ہیں۔ ہمارے معاصر مفتی صاحب کو اصول فقہ کی کتابوں کے متون زبانی یاد ہوں گے لیکن مجال ہے کہ ایک اصول کی تطبیق بھی بیسیوں فتاوی میں نظر آ جائے الا ما شاء اللہ۔ مفتی صاحبان اپنے فتاوی میں شرعی مقاصد کو بری طرح پامال کر رہے ہیں کہ جس سے احکام شریعت مذاق بنتے چلے جا رہے ہیں لیکن کسی کو احساس ہی نہیں ہے۔ تیس تیس جلدوں کے فتاوی میں سے دو چار فتاوی ایک ساتھ سامنے رکھ کر دیکھ لیں تو کسی صاحب عقل کے لیے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو جائے۔

تو ہمارے فقہاء نے ایک دور میں کہا تھا کہ ہیروں اور قیمتی پتھروں پر زکوۃ نہیں ہے جبکہ اس دور میں ان کی کوئی ”مارکیٹ ویلیو“ نہیں ہوتی تھی۔ آج ہیروں اور قیمتی پتھروں کی باقاعدہ عالمی مارکیٹ اور ”ری سیل ویلیو“ ہوتی ہے۔ وہ سونے اور چاندی جیسی دھاتوں سے بھی بیسیوں گنا مہنگے ہوتے ہیں لہذا ان پر زکوۃ فرض نہ کرنا تقلیدی جمود اور مقاصد شریعت کے خلاف ہے کہ زکوۃ ایسے مال پر ہی فرض ہوتی ہے کہ جس کے بدولت ایک شخص معاشرے میں امیر اور غنی شمار ہو۔

اور دوسری بات یہ کہ آپ ﷐ کے زمانے میں 7.5 تولے سونے کی قیمت اور 52.5 تولے چاندی کی قیمت تقریبا برابر تھی لہذا نقدی کے لیے کسی کو بھی نصاب بنا لیا جاتا تو کوئی حرج نہیں تھا۔ آج دونوں دھاتوں کی قیمتوں میں بہت نمایاں فرق ہے۔ ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت (35,000) جتنی کرنسی رکھنے والا ہمارے معاشرے میں ہر گز امیر نہیں ہو سکتا البتہ ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت (370,000) کے برابر نقدی رکھنے والا امیر کہلانے کا مستحق ہے لہذا نقدی کا نصاب 7.5 تولے سونے کی قیمت کو بنایا جائے گا نہ کہ 52.5 تولے چاندی کی قیمت کو۔

آپ ﷐ کے زمانے میں دینار سونے کا سکہ تھا اور درہم چاندی کا سکہ اور یہ دھاتیں کرنسی اور زیور کے طور مستعمل تھیں۔ آج چاندی کا استعمال بطور کرنسی اور زیور کے نہ ہونے کے برابر ہے لہذا چاندی کسی طور بھی کرنسی کا نصاب بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔ اور ماضی قریب میں پیپر کرنسی چھاپنے کے لیے اصلاً معیار سونے کو ہی بنایا جاتا رہا ہے لہذا پیپر کرنسی میں زکوۃ کے لیے بھی زیادہ بہتر معیار سونا ہی ہے۔ اور 52.5 تولے چاندی والے مالک کو آج ہمارے معاشرے اور عرف میں کوئی شخص بھی امیر نہیں سمجھتا ہے۔

اسی طرح اللہ کے رسول ﷐ کا فرمان ہے کہ زکوۃ تمہارے اغنیاء سے لی جائے گی اور فقراء میں تقسیم کی جائے گی اور یہ زکوۃ کا مقصد عظیم ہے۔ اب تو ایسے فتاوی سامنے آ رہے ہیں کہ غریب زکوۃ دے رہے ہیں اور امیر وصول فرما رہے ہیں، انا للہ وانا الیہ رجعون۔ یہ اللہ کے دین کے ساتھ مذاق اور کھلواڑ ہے، اور کچھ نہیں۔ اور دین کے ہر شعبہ میں اس قسم کے فتاوی کی ایک ہی وجہ ہے کہ مقاصد شریعت اور اصول فقہ صرف کتابوں میں پڑھنے اور مقالات علمیہ میں بحث کے لیے رہ گئے ہیں، علماء ان کی تطبیق سے کوسوں دور ہیں۔

ایک دوست کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں سونے کی ڈیمانڈ اور قیمت میں اتار چڑھاؤ اور سپر پاورز کا سونے کے ذخائر کو جمع کرنے اور بڑھانے میں رغبت رکھنا واضح طور یہ بتلا رہا ہے کہ سونا آج بھی چیزوں کو ماپنے کے لیے ایک قدر ہے جبکہ چاندی کا معاملہ کسی طور ایسا نہیں ہے۔ میرے علم میں نہیں پاکستان میں کون سا گاؤں یا شہر ایسا ہے کہ جہاں کی عورتیں سونے کی نسبت چاندی کے زیورات میں زیادہ دلچسپی رکھتی یا پہنتی ہوں۔

کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے بڑوں کے فتاوی پر اعتماد کرنا چاہیے، چاہیے کیسے بھی ہوں۔ تو عرض یہ ہے کہ ہمارے فقہاء نے کبار صحابہ سے اختلاف کیا، حضرت عمر بن خطاب ﷜ تک کے اجتہادات سے اختلاف کیا کہ جنہیں حدیث کے مطابق علم نبوت سے سیراب کیا گیا تھا، تو کیا کہیں گے کہ فقہاء نے اپنے بڑوں پر اعتماد نہیں کیا تھا؟ تو ایسی کج بحثی کی بجائے اس پر غور کر لیا جائے کہ خود فقہاء کے نزدیک عرف کے بدل جانے سے فتوی بدل جاتا ہے لہذا فقہاء کے اسی اصول کی روشنی میں زیادہ مناسب رائے یہی معلوم ہوتی ہے کہ ہیروں پر زکوۃ کی فرضیت کا فتوی نہ جاری کیا جائے۔

کچھ دوستوں کا کہنا یہ ہے کہ 35 ہزار پر زکوۃ ہی کیا بنتی ہے کہ فتوی کو ریوائز کرنے کی ضرورت پیش آئے؟ تو عرض یہ ہے کہ مشکل تو یہ بھی نہیں ہے کہ بیس ہزار روپے پر پانچ سو دے دے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ نہیں مانیں گے کہ یہ دینا اس پر فرض کر دو۔ دینے کو تو وہ پانچ سو پر بھی دے دے لیکن یہ دینا اس پر فرض ہے یا نہیں، اس کے لیے مضبوط دلیل چاہیے ہو گی۔

اور بعض کا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر غریب دو مرلے کا مکان بنانے کے لیے کمیٹیاں ڈال کر دس لاکھ جمع کرے تو اس رقم پر تو زکوۃ ہے اور امیر دس کنال میں دس کروڑ کا بنگلہ بنا لے تو زکوۃ ہی نہیں ہے، عجب نہیں ہے! پس جو رقم یا اثاثہ (asset) کسی بنیادی ضرورت مثال کے طور گھر وغیرہ کو پورا کرنے کے لیے جمع کیا گیا ہے تو اس پر نہ تو زکوۃ ہے اور نہ ہی قربانی۔ یہی اصول، اصول کہلانے کے لائق اور درست ہے، باقی تو انتشار ہے نہ کہ اصول۔ ایک فتوی ادھر جا رہا ہے تو دوسرا ادھر، بنیاد تو کوئی ہے ہی نہیں کہ جس پر ایک موضوع کے تمام فتاوی کھڑے ہو سکیں۔

چند احباب کا خیال ہے کہ سال بھر چالیس ہزار روپے پڑے رہے ہیں اور خرچ نہیں ہوئے تو یہ دلیل ہے کہ یہ زائد از ضرورت مال ہے لہذا اس پر زکوۃ دینا بنتی ہے۔ ایک اور دوست نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ گزارش ہے کہ یہ خیال ضروری نہیں کہ درست ہو۔ انسان کو مکان بنانے یا گاڑی خریدنے کے لیے بهی تو رقم درکار ہو سکتی ہے۔ اور یہ رقم متوسط طبقہ عموما پائی پائی جوڑ کر جمع کرتا ہے۔ آج وہ اپنی کمائی میں سے اگر ابھی تک چالیس ہزار ہی جمع کر پایا ہے جب کہ بنیادی ضرورتیں ابھی باقی ہیں تو گزارش ہے کہ اسے غنی تصور نہ کیا جائے بلکہ ابھی بے چارہ اپنی بنیادی ضروریات کی تگ و دو ہی میں ہے۔ اس شخص کا معاملہ اس فرد سے یقینا مختلف ہونا چاہیے جس کی تمام بنیادی ضرورتیں پوری ہو چکی ہیں اور اب اسکے پاس چالیس ہزار یا اس سے زیادہ رقم ہے۔

کچھ دوستوں نے أنفع للفقراء کا اصول بھی بیان کیا کہ چاندی کو نصاب بنانے میں غریبوں کا فائدہ ہے۔ ایک اور دوست نے تبصرہ کیا کہ یہ بات درست ہے، تاہم یہ صرف ایک پہلو ہے کہ زیادہ زکوۃ تقسیم ہو گی۔ دوسرا پہلو اگر دیکھا جائے تو دینے والا بھی بے چارہ فقیر ہی تو ہے جیسا کہ اوپر میں نے اشارہ کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ چالیس ہزار رکھنے والا ہر شخص غنی ہی ہو بلکہ وہ تو خود بعض صورتوں میں فقیر ہی شمار ہو گا۔ تو کیا اس فقیر کا فائدہ شریعت میں مطلوب نہیں ہونا چاہیے ؟

یہ آخری نکتہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ بہت سے دلائل اضافی ہوتے ہیں، قطعی نہیں جیسا کہ اسی دلیل کو لے لیں۔ زکوۃ کے لیے چاندی کو نصاب نہ بنانے کی صورت میں بھی غریبوں ہی کا بھلا ہے، کتنی سامنے کی بات ہے لیکن لوگ جب ایک ہی زاویے سے دیکھنے کے عادی بنا دیے جائیں تو انہیں دوسرے رخ سے دکھائی دینا بند ہو جاتا ہے اور بات سمجھ ہی نہیں آتی۔