اس مرتبہ ذی الحجہ کے چاند کے بارے فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر ایک تصویر لگاتے ہوئے تبصرہ کیا کہ دیکھیں، کتنا بڑا چاند ہے اور یہ دوسرے دن کا چاند ہے۔ فواد چوہدری کے اس بیان کی بہت سے صحافیوں نے تائید کی کہ چاند بڑا لگ رہا ہے لہذا دوسرے دن کا چاند ہی ہے لہذا رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ غلط تھا۔ دوسری طرف رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن صاحب نے جواب میں کہا کہ چاند کی پیدائش یعنی طلوع ہونے اور رویت یعنی نظر آنے میں فرق ہے۔ بعض اوقات چاند کی تخلیق یعنی پیدائش ہو جاتی ہے لیکن وہ نظر دوسرے دن آتا ہے لہذا وہ سائز میں بڑا ہوتا ہے۔ یہ امکان ہے کہ پہلے دن کا چاند بھی سائز میں بڑا ہو کیونکہ اس کی پیدائش کافی پہلے ہو چکی ہوتی ہے۔ اور مفتی صاحب کی یہ بات بہت لاجیکل ہے۔

چاند کے بارے جو روایات اور احادیث منقول ہیں، ان میں واضح طور رویت کا حکم موجود ہے یعنی یہ حکم ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو۔ اس بات کو یوں بھی سمجھ لیں کہ نماز مغرب کے لیے شریعت نے سورج کے غروب ہونے کو سبب بنایا ہے نہ کہ اس کے غروب ہونے کے دیکھنے کو لہذا سورج غروب ہو گیا تو آپ نماز پڑھ سکتے ہیں، بھلے اس دن میں کسی نے بھی اسے غروب ہوتا نہ دیکھا ہو۔ اسی طرح فجر کی نماز کا آخر وقت سورج طلوع ہونے کو مقرر کیا گیا ہے، اب کسی نے اسے طلوع ہوتے نہ بھی دیکھا ہو تو بھی اگر سورج طلوع ہونے کا وقت ہو گیا ہے، تو اسے فجر کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ ساری دنیا میں مسلمان اپنے علاقے کے سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے کے اوقات کا اعتبار کریں گے۔

لیکن روزے کا معاملہ، نماز سے ایک اعتبار سے مختلف ہے۔ نماز شمسی تقویم پر ہے لہذا اس کی ادائیگی کے اصول وضوابط شمسی تقویم والے ہیں جبکہ روزہ قمری تقویم پر ہے لہذا اس کی ادائیگی کے اصول وضوابط قمری تقویم والے ہیں۔ روزے میں یہ حکم دیا گیا کہ چاند کا طلوع ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اس کی رویت یعنی دیکھنا ضروری ہے۔ اس کو اصول فقہ کی اصطلاح میں یوں بھی سمجھ لیں کہ مغرب کی نماز کا سبب غروب آفتاب ہے نہ کہ رویت غروب آفتاب جبکہ روزہ رکھنے کا سبب طلوع قمر نہیں بلکہ رویت قمر ہے۔ چاند اگر سائنسی اعتبار سے طلوع ہو گیا ہے یعنی پیدا ہو گیا ہے لیکن نظر نہیں آ رہا تو روزہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی عید ہو گی۔ اب ظاہری بات ہے کہ روزہ اور عید ایک شرعی حکم ہے۔ جب یہ شرعی حکم ہے تو یہاں دلیل سائنس نہیں، شریعت بنے گی۔ اب اللہ عزوجل کی مرضی ہے کہ چاند کی پیدائش یا طلوع ہونے کو اپنے حکم سبب قرار دیں یا اس کی رویت کو۔ وہ حاکم ہے تو ہم کون اعتراض کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ یہ سائنسی سے زیادہ شرعی مسئلہ ہے، یہ واضح رہنا چاہیے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ سورج جب طلوع ہوتا ہے تو نظر آتا ہے جبکہ چاند کا معاملہ ایسا نہیں ہے، چاند بعض اوقات طلوع ہو جاتا ہے لیکن نظر نہیں آتا کیونکہ آپ کے علاقے کے طول اور عرض بلد کی وجہ سے اور شفق کی سرخی کے دورانیے کی وجہ سے اس کا اینگل اور زاویہ وہ نہیں بن رہا ہوتا کہ اس پر سورج کی لائٹ پڑے اور آپ کو چاند نظر بھی آئے۔ آسان الفاظ میں چاند کے بارے دو باتیں اہم ہیں؛ ایک اس کی پیدائش اور دوسرا اس کی رویت۔ مہینے میں دو مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ سورج، چاند اور زمین ایک لائن یعنی سیدھ میں آ جاتے ہیں۔ جب زمین، چاند اور سورج کے درمیان ہو تو چودہویں کا چاند ہوتا ہے۔ اور جب چاند، زمین اور سورج کے درمیان ہو تو عموما اٹھائیسیویں رات ہوتی ہے اور اس وقت میں چاند مکمل طور غائب ہو جاتا ہے۔

یہ لمحے بھر کا وقت ہوتا ہے جیسا کہ زوال کا وقت لمحے بھر کا ہوتا ہے۔ تو اس لمحے کو اصطلاح میں ’’قران‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے بعد سائنسی اعتبار سے نیا چاند پیدا ہو جاتا ہے۔ ’’قران‘‘ کبھی ستائیس اور کبھی انتیس دن کا بھی ہو جاتا ہے یعنی یہ امکان ہوتا ہے کہ کبھی چاند ستائیس دن بعد ہی پیدا ہو چکا ہو یعنی طلوع ہو چکا ہو۔ لہذا جب یہ انتیس کو نظر آئے گا تو سائز میں بڑا ہو گا۔ اور کبھی ’’قران‘‘ انتیس کا ہوتا ہے یعنی چاند کی پیدائش ہی انتیس دن بعد ہوتی ہے لہذا اگر اگلے دن یعنی تیس کو بھی چاند نظر آئے گا تو سائز میں چھوٹا ہو گا۔ یہ واضح رہے کہ ساری دنیا میں چاند کی پیدائش یعنی طلوع کا وقت ایک ہی ہوتا ہے البتہ اس کی رویت ہر علاقے کے عرض اور طول بلد کی وجہ سے مختلف ہوتی ہے۔

صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْا الْهِلَالَ وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ ۔ چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی افطار کرو۔ حدیث میں ’’ہلال‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور ہلال کا تعلق بھی رویت سے ہی ہے نہ کہ پیدائش سے کیونکہ اس کا معنی ہی آواز کو بلند کرنا ہے۔ جب نیا چاند نظر آتا تھا تو اہل عرب کے ہاں خوشی میں آواز بلند کی جاتی تھی جس وجہ سے اس کا نام ہلال پڑ گیا جیسا کہ آج کل بھی عید وغیرہ کا چاند نظر آنے پر خوشی میں فائرنگ ہوتی ہے۔ تو آسمان میں چاند طلوع ہوا ہے یا نہیں تو اس کا شریعت نے اعتبار نہیں کیا بلکہ اس کا اعتبار کیا ہے کہ زمین پر بسنے والوں کو نظر آیا ہے یا نہیں۔ یہ اہم نکتہ ہے۔ چاند تو بعض اوقات ستائیس یا اٹھائیس دنوں کے بعد بھی طلوع ہو جاتا ہے۔

صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلَاثِينَ کہ اگر انتیس کو بادل چھائے ہوں تو تیس روزے پورے کر لو۔ تو یہاں بھی رویت کو اصل بنایا گیا ہے اور بادلوں کی وجہ سے اگر رویت ممکن نہ رہی ہو تو تیس روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابو کریب رحمہ اللہ شام گئے، وہاں جمعہ کی رات چاند نظر آ گیا، سب نے روزہ رکھ لیا۔ وہ واپس مدینہ آئے تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم نے کب روزہ رکھا تو انہوں نے کہا کہ جمعہ کو رکھا کیونکہ شام میں جمعہ کو چاند نظر آیا، سب نے روزہ رکھا، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی رکھا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جوابا کہا کہ ہم نے ہفتے کو روزہ رکھا کیونکہ ہمیں ہفتے کو چاند نظر آیا ہے۔ تو ابو کریب رحمہ اللہ نے کہا کہ آپ کو کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رویت کا بھی اعتبار نہیں ہے! حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا کہ نہیں ایسی بات نہیں ہے کہ ہمیں ان کی رویت کا اعتبار نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے یعنی یہ کہ ہم چاند دیکھ کر روزہ رکھا رکھیں۔

تو یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ’’اختلاف مطالع‘‘ کا اعتبار ہے یعنی اگر دنیا میں ایک جگہ چاند نظر آ جائے تو تمام دنیا کے مسلمانوں کو ہم پابند نہیں بنا سکتے کہ اسی دن روزہ رکھیں۔ اور یہ الاجیکل بھی ہے۔ مثال کے طور اگر ہم سعودی عرب کو اسلامی دنیا کا مرکز بنا کر اس کی رویت کو ساری دنیا پر نافذ کرنا چاہیں تو کیا نتیجہ نکلے گا کہ اگر شام ساڑھے پانچ بجے سعودی عرب میں عید کا چاند نظر آ جاتا ہے تو شمالی امریکہ میں اس وقت صبح کے ساڑھے نو بجے ہوں گے کیونکہ سعودی عرب، میکسیکو وغیرہ سے آٹھ گھنٹے آگے ہیں۔ تو اب چونکہ عید کا چاند سعودی عرب میں نظر آ گیا ہے تو رمضان ختم ہو گیا۔ جب رمضان ختم ہو گیا اور عید کا دن شروع ہو گیا تو شمالی امریکہ کے لوگ عید کے دن روزہ کیسے رکھ سکتے ہیں جبکہ عید کے دن روزہ رکھنا تو حرام ہے لہذا انہیں دن میں ساڑھے نو بجے افطار کر کے عید منانی پڑے گی۔ بہر حال اس موضوع پر کسی وقت میں تفصیلی پروگرام کرتے ہیں، ان شاء اللہ۔ آپ کے سائنس پڑھے ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ سائنسی طور درست بھی ہوں۔