سوال : ایک مجلس میں یا ایک ساتھ تین طلاق کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب :

طلاق دینے کا صحیح طریق کار

شریعت اسلامیہ میں طلاق دینے کا صحیح شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ

 1) بیوی کو ایک وقت میں ایک ہی طلاق دی جائے۔
 2) اور یہ طلاق بھی حالت طہر میں ہو۔
 3) اور اس طہر میں ہو کہ جس میں بیوی سے مباشرت یا تعلق زوجیت قائم نہ کیا ہو۔
پس ایسے طہر میں کہ جس میں بیوی سے مباشرت نہ کی ہو، ایک طلاق دیناطلاق سنی کہلاتا ہے جبکہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا یا حیض و نفاس کی حالت میں طلاق دینا یا جس طہر میں بیوی سے تعلق قائم کیا ہو، اس میں طلاق دینا ، طلاق بدعی ہے یعنی سنت کے مطابق نہیں ہے اور بدعت ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ طلاق بدعی کوئی سی بھی ہو، یہ طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

ہمارا بھی اس حوالے سے یہی موقف ہے کہ حیض ونفاس کی طلاق واقع نہیں ہوتی، اور ایک وقت میں ایک سے زائد طلاق واقع نہیں ہوتیں یعنی صرف ایک ہی واقع ہوتی ہے، اور جس طہر میں بیوی سے تعلق زوجیت قائم کر لیا ہو، اس طہر میں اگر طلاق دی ہو تو وہ طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ، اور اسی طرح اگر ایک طلاق دینے کے بعد رجوع نہ کیا ہو اور دوسری طلاق دے دی ہو، چاہے کسی دوسری مجلس میں، یا دوسرے طہر میں، تو یہ بھی واقع نہیں ہوتی کہ دوسری طلاق سے پہلے رجوع کرنا سنت ہے ۔

چونکہ طلاق کی یہ سب صورتیں بدعت ہیں اور بدعت ہمارے دین میں ثابت نہیں ہے لہذا بدعت کی بنیاد پر شرعی حکم بھی جاری نہیں ہو سکتا ہے۔ کتاب وسنت میں طلاق کا جو طریقہ بیان ہو چکا، اسی طریقے کے مطابق طلاق ہو گی تو طلاق واقع ہو گی جس طرح کہ کتاب وسنت میں نکاح کا جو طریقہ بیان ہو چکا، اسی طریقے کے مطابق نکاح ہو گا تو نکاح ہو گا۔ لہذا یہ کہنا کہ کتاب وسنت میں طلاق کا ایک طریقہ مقرر ہے لیکن اس طریقے سے ہٹ کر طلاق دی جائے تو طلاق بدعی تو ہو گی لیکن پھر بھی ہو جاتی ہے، یہ نہ سمجھ آنے والی بات ہے کہ دین میں بدعت کیسے دینی حکم بن کر واقع ہو سکتی ہے۔ اس طرح تو نکاح بھی کتاب وسنت کے طریقے سے ہٹ کر کر لیں تو منعقد ہو جانا چاہیے۔ تو یا تو اسے بدعت نہ کہیں لیکن جب اسے بدعت مان لیا تو اس بدعت کا دین ماننے کا معنی کیا ہےسوائے کنفیوژن کے۔

تو شریعت نے طلاق کا ایک وقت مقرر کیا ہے، اس وقت میں طلاق ہو گی جس طرح کہ نماز کا ایک وقت ہے، اگر فجر کے وقت ظہر کی نماز پڑھ لیں گے تو نماز نہیں ہو گی جیسا کہ ایک طلاق کا وقت ایک طہر ہے تو دوسری طلاق کا وقت دوسرا طہر ہے لہذا اسے پہلے طہر میں دے دینا، اسے اپنے وقت سے پہلے لے آنا ہے۔ اور اسی طرح زوال کے وقت نماز پڑھنے سے بھی نماز نہیں ہو گی کہ یہ نماز کے لیے ممنوع اوقات ہیں تو حیض ونفاس، طلاق کے لیے ممنوع اوقات ہیں۔ اور شریعت نے تین طلاق کے لیے جو تین طہر کے متعین اوقات مقرر کیے ہیں تو ان میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں جو طلاق بدعی کو نافذ کر دینے سے ضائع ہو جاتی ہیں۔ اس بارے مزید تفصیل ہماری کتاب ’’مکالمہ‘‘ میں موجود ہے جو یہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جا سکتی ہے۔

تو جب عورت کو حالت طہر میں ایک وقت میں ایک طلاق دی جائے تویہ طلاق، طلاق رجعی کہلاتی ہے اور اس کی عدت تین حیض ہے۔(البقرۃ : 228) اگر اس عد ت میں خاوند رجوع کر لے توعورت اس کے نکاح میں باقی رہے گی ۔ اور اگر خاوند حالت طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد رجوع نہ کرے تو عدت گزرنے کے بعد عورت اپنے خاوند سے جدا ہو جاتی ہے لیکن اس صورت میں عورت کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں :

 1) چاہے تواپنے سابقہ خاوند سے دوبارہ نکاح کر لے۔
 2) اگر چاہے تو کسی اور مرد سے نکاح کر لے۔
طلاق کی یہ صورت طلاق احسن کہلاتی ہے کہ جس میں ایک طلاق کے ذریعے دوران عدت رجوع نہ کر کے بیوی کو فارغ کر دیا جاتا ہے اور اس میں آپس میں دوبارہ نکاح کا آپشن بھی موجود ہے۔ ہمارے ہاں جہالت کے سبب سے عوام، بلکہ عرضی نویس اور وکلا تک بھی ایک ہی وقت میں تین طلاقوں کے تحریری نوٹس بھجوا دیتے ہیں حالانکہ یہ طرزعمل سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:

محمود بن لبید قال : أخبر رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضبانا ثم قال : أیلعب بکتاب اللہ وأنا بین أظھرکم حتی قام رجل وقال : یا رسول اللہ ألاأقتله (سنن النسائی، کتاب الطلاق، باب الثلاث المجموعة ومافیه من التغلیظ)
محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے بار خبر دی گئی کہ جس نے ایک ہی ساتھ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (یہ سن کر ) غصے سے کھڑے ہو گے اور آپ نے فرمایا : کیا کتاب اللہ کو کھیل تماشہ بنا لیا گیا ہے جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔ (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر شدید غصے میں دیکھ کر حاضرین مجلس میں سے) ایک شخص نے کہا: کیا میں اسے (یعنی ایک ساتھ تین طلاقیں دینے والے کو) قتل کر دوں؟

اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ (البقرۃ : 229)
طلاق دو مرتبہ ہے۔

اس آیت مبارکہ میں’طلقتان‘یعنی دو طلاقیں نہیں کہا ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ طلاق دو مرتبہ ہے یعنی ایک بار ایک طلاق ہے اور پھر دوسری بار کسی دوسرے وقت میں دوسری طلاق ہو گی۔ پس ایک وقت میں ایک ہی طلاق جائز ہے ۔(تفسیر احسن البیان : ص ۹۴، مولانا صلاح الدین یوسف، مطبع شاہ فہد کمپلیکس، مدینہ منورہ، مملکت سعودی عرب)

ایک وقت کی تین طلاقوں کاشرعی حکم

ایک وقت کی تین طلاقوں کے بارے اہل علم میں اختلاف ہے ۔ بعض اہل علم کے نزدیک ایک وقت کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں اور پاکستان میں عام طور حنفی علما کا موقف یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا طلاق بدعی ہے اور ایسا کرنے والا گنا گار ہے لیکن تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی جبکہ اہل علم کی ایک دوسری جماعت کا موقف یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں ، طلاق بدعی ہیں اوراس کا مرتکب گناہ گار ہو گا لیکن یہ تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوں گی۔ پاکستان میں بعض حنفی علما اور عام طور اہل حدیث علما کا یہی موقف ہے۔ ہماری رائے میں دوسرا موقف ہی راجح ، کتاب وسنت اور مقاصد شریعت کے مطابق ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:

’’عن ابن عباس قال طلق رکان بن عبد یزيد أخو بن مطلب امرأته ثلاثا فی مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا، قال : فسأله رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :کیف طلقتھا؟ قال : طلقتھا ثلاثا، قال : فقال : فی مجلس واحد؟ قال : نعم، قال : فانما تلک واحدۃ، فارجعھا ان شئت، قال : فرجعھا، فکان ابن عباس یری انما الطلاق عند کل طھر۔‘‘ (مسند احمد : 4/215، مؤسسة الرسالة، بیروت)
حضرت عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور اس پر شدید غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابی سے دریافت فرمایا : تم نے اپنی بیوی کو کیسے طلاق دی ہے؟ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے اسے تین طلاقیں دی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا ایک ہی وقت میں تین طلاقیں ؟ رکانہ نے عرض کی : جی ہاں ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ صرف ایک ہی طلاق ہے۔ پس اگر تو چاہتا ہے تو اپنی بیوی سے رجوع کر لے۔ پس رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ ہر طہر میں ایک طلاق ہو گی۔ (یعنی خاوند نے اگر تین طلاقیں دینی ہو تو ایک ساتھ دینے کی بجائے ہر طہر میں ایک طلاق دے گا یعنی ایک ایک مہینے کے وقفے کے ساتھ دوسری اور تیسری طلاق دے گا)۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ،حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایک ہی وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے کا رجحان بہت بڑھ گیا تو حضرت عمر نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ ایسے شخص کی کیا سزا تجویز کرنی چاہیے جو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دیتا ہے جبکہ شریعت نے سختی سے اس سے منع فرمایا ہے۔ صحابہ کی باہمی مشاورت سے یہ طے پایاکہ ایسے شخص کی سزا یہ ہے اس پر تین طلاقیں قانوناً نافذ کر دی جائیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:

’’عن ابن عباس قال: کان الطلاق علی عھد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم وأبي بکر و سنتین من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدۃ۔ فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر، کانت لھم فیه أناۃ، فلو أمضیناہ علیھم، فأمضاہ علیھم ۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے طلاق کے معاملے میں جلدی کی ہے(یعنی ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے لگے ہیں) حالانکہ انہیں اس بارے مہلت دی گئی تھی( کہ وہ تین طہر یا تین مہینوں میں تین طلاقیں دیں)۔ پس اگر ہم ایسے لوگوں پر تین طلاقیں جاری کر دیں۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں تین طلاقوں کے طور جاری کر دیا۔

پس اس وقت سے اہل علم میں یہ اختلاف چلا آ رہا ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی یا تین۔ حنفی اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ (judgement)اگرچہ سیاسی اور قانونی نوعیت کا تھا لیکن چونکہ اس میں صحابہ کی ایک بڑی جماعت کی مشاورت بھی شامل تھی لہذا ہمارے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ حجت (binding)ہے جبکہ اہل علم کی دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ سیاست و قضا سے تعلق رکھتا ہے جو اس وقت کے لوگوں کے لیے تو بطور قانون لازمی امر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بعد میں آنے والے علما، مفتیان کرام اور جج حضرات کے لیے اس فیصلے کی حیثیت ایک عدالتی نظیر (precedent)سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور جب یہ عدالتی فیصلہ اصل قانون (primary source of Islamic law)سے ٹکرا رہا ہو گا تو اس صورت میں اصل قانون کو ترجیح دی جائے گی یعنی حدیث رکانہ رضی اللہ عنہ کو ترجیح ہو گی۔ اور اس فیصلہ(judgement) کی یہ توجیح کی جائے گی کہ یہ فیصلہ ضرورت کے نظریہ کے تحت عبوری اور وقت دور کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس (ordinance)کی حیثیت رکھتا تھا۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صحابہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس، زبیر بن عوام، عبد الرحمن بن عوف، ایک روایت کے مطابق حضرت علی اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کابھی یہی فتوی ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔ تابعین میں سے حضرت عکرمہ، طاؤس اور تبع تابعین میں محمدبن اسحاق، خلاص بن عمرو، حارث عکلی، داؤد بن علی اور بعض اہل ظاہر، بعض مالکیہ، بعض حنفیہ اور بعض حنابلہ کا بھی یہی موقف رہاہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی۔ (إعلام الموقعین: 3/44، إغاثة اللھفان : 1/339-341)

یہ بیان کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ 1929ء میں مصر میں حنفی، مالکی، شافعی او رحنبلی اہل علم کی ایک جماعت کی سفارشات پر وضع کیے جانے والے ایک قانون کے ذریعے ایک وقت کی متعدد طلاقوں کو قانونا ایک ہی طلاق شمار کیاجاتا ہے۔ اسی قسم کا قانون سوڈان میں 1935ء میں، اردن میں 1951ء میں، شام میں 1953ء میں، مراکش میں 1958ء میں، عراق میں 1909ء میں اور پاکستا ن میں 1961ء میں نافذ کیا گیا۔(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل :ص 219، مطبع دار السلام، لاہور)

ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمارکرنے والوں میں معاصر حنفی علما میں معروف دیوبندی عالم دین مولانا سعید احمد اکبر آبادی(انڈیا)،مولانا عبد الحلیم قاسمی (جامعہ حنفیہ گلبرگ، لاہور) اور جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل بریلوی حنفی عالم دین مولانا پیر کرم شاہ (سابق جج سپریم اپیلیٹ شریعت بنچ، پاکستان) وغیرہ بھی شامل ہیں۔ معاصر علمائے عرب میں شیخ ازہر شیخ محمود شلتوت حنفی (جامعہ ازہر، مصر) ، ڈاکٹر وہبہ الزحیلی شافعی (دمشق، شام) ، شیخ جمال الدین قاسمی ،شیخ سید رشید رضا مصری اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے بھی ایک وقت کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا ہے۔ ان اہل اعلم کے تفصیلی فتاوی جات کے لیے درج ذیل کتاب کی طرف رجوع کریں:

(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل ، حافظ صلاح الدین یوسف، مشیر وفاقی شرعی عدالت، پاکستان، مطبع دار السلام، لاہور)

حلالہ کی شرعی حیثیت

ضمنی فائدہ کے طور پر ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک ہی وقت کی تین طلاقوں کی صورت میں پہلے سے طے شدہ حلالہ کا مروجہ طریق کار یا حیلہ ،شرعاً ناجائز اور نکاح باطل (void)ہے کیونکہ یہ وقتی نکاح ہے اور وقتی نکاح اسلام میں جائز نہیں ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:

’’عقبة بن عامر قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ألاأخبرکم بالتیس المستعار؟ قالوا : بلی یا رسول اللہ ! قال : ھو المحلل، لعن اللہ المحلل والمحلل له۔‘‘ (سنن ابن ماجة، کتاب النکاح، باب المحلل والمحلل له)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں کرائے کے سانڈ کے بارے خبر نہ دوں۔ صحابہ نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ٓپ نے فرمایا : وہ حلالہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالی حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے، دونوں پر لعنت فرمائے۔

حضر ت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:

’’ لا أوتى بمحلل ولا محلل له إلا رجمتها ۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبة، کتاب الرد علی ابی حنیفة، باب لعن المحلل)
اگر میرے پاس حلالہ کرنے والے اور کروانے والے کو لایا گیا تو میں انہیں سنگسار کر دوں گا۔

خلاصہ کلام یہی ہے کہ ہماری رائے میں اہل علم کے راجح اور صحیح موقف کے مطابق شریعت اسلامیہ میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔