فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’ایجاب وقبول‘‘ offer and acceptance عقد نکاح marriage contract کے دو بنیادی ارکان primary elements ہیں یعنی اگر ایجاب و قبول میں سے کوئی ایک رکن بھی نہ ہو تو نکاح نہیں ہوتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایجاب سے کیا مراد ہے؟ اور قبولیت کس شے کی ہے؟

ایجاب باب افعال اوجب یوجب ايجابا سے مصدر ہے کہ جس کا معنی واجب کرنا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی قانونی معاہدہ legal contractایسا نہیں ہوتا ہے کہ جس میں حقوق اور ذمہ داری rights and responsibilities کی بحث موجود نہ ہو۔ تو عقد نکاح marriage contract میں ایجاب کی صورت میں کیا شے واجب کی جاتی ہے؟ اور کون اسے واجب کرتا ہے اور کس پر واجب کرتا ہے؟ در حقیقت عقد نکاح میں عورت کی سرپرستی اور ذمہ داری واجب کی جاتی ہے۔ عورت کا ولی یعنی باپ، اس کے ہونے والے خاوند سے یہ کہتا ہے کہ آج تک یہ لڑکی میری ذمہ داری اور سرپرستی میں تھی ، میں اس کے نان نفقہ، تعلیم، تربیت، رہائش کا ذمہ دار اور عزت کا محافظ تھا ، اب یہ ساری ذمہ داریاں اپنے کندھوں سے اتار کر تم پر واجب کرتا ہوں ، کیا تم میری اس لڑکی کی ان جمیع ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہو ؟تو لڑکا جب ولی کے جواب میں یہ کہتا ہے کہ میں قبول کرتا ہوں تو اس عقد(contract) کو ’’ایجاب وقبول‘‘ offer and acceptance کہتے ہیں۔

پس یہاں ایجاب (offer)کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب ایجاب (offer)سے مراد لڑکی کی ذمہ داری او ر سرپرستی کا ایجاب (offer)ہے تو یہ لڑکی کی طرف سے ہو ہی نہیں سکتا ہے کیونکہ مسلمان معاشروں کے 14 صدیوں کے عرف(custom) کے مطابق شادی سے پہلے لڑکی خود انحصار (independent) نہیں ہوتی بلکہ اپنے والدین پر انحصار کرتی ہے۔ پس جب لڑکی شادی سے پہلے اپنی ذمہ دار اور سرپرست خود نہیں ہے بلکہ اس کا والد اس کا ذمہ دار اور سرپرست ہے تو یہ ذمہ داری بھی لازماً والد ہی سے لڑکی کے ہونے والے شوہر کی طرف منتقل ہو گی۔ پس ایجاب یعنی لڑکی کی ذمہ داری اور سرپرستی کو واجب لڑکی کا ولی کرتا ہے اور اس ذمہ داری اور سرپرستی کو قبول لڑکا کرتا ہے اور اس ایجاب وقبول offer and acceptance کو عقد نکاح marriage contract کا بنیادی ترین رکن primary element قرار دیا گیا ہے۔

تو عقد نکاح ایک معاہدہ (contract)ہے، اسے ایک قانونی معاہدے کی نظر سے دیکھیں اور یہ تعین کریں کہ اس معاہدے کے فریقین (parties)کون ہیں تو سب معاملہ واضح ہو جائے گا۔ لڑکی اس معاہدے میں فریق(party) نہیں بلکہ وہ شیء (consideration)ہے کہ جس کے بارے دو فریقین میں معاہدہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شادی کے بعد جب میاں بیوی میں اختلاف ہوتا ہے تو لڑکی کے گھر والے اس کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس کی طرف سے ایک فریق (party) بنتے ہیں اور مسئلہ حل کرواتے ہیں۔

دوسرا جہاں تک ہمارے علم میں ہے تو کورٹ میرج ایک غلط اصطلاح ہے کیونکہ کورٹ میں کوئی میرج نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ہمارے جج حضرات اتنے فارغ ہیں کہ شادیاں کرواتے پھریں۔ ہوتا اصل میں یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی جج کے سامنے حاضر ہو کر یہ بیان حلفی دیتے ہیں کہ ہم نے اپنی آزاد مرضی سے نکاح کر لیا ہوا ہے۔ پس کورٹ میرج میں وہ جج کے سامنے نکاح پڑھواتے نہیں ہیں۔ یہ نکاح وہ کسی امام مسجد سے، دوست کے گھر میں، تھانے میں، یا وکیل کے آفس میں کروا چکے ہوتے ہیں اور جج کو صرف اس کی رپورٹ کرتے ہیں۔ اور اس رپورٹ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لڑکی کے گھر والے لڑکے پر اغوا کا مقدمہ نہ درج کروا دیں۔

اب جو نکاح تھانے، وکیل کے آفس یا کسی دوست کے گھر میں ہوتا ہے، تو مختلف کیسز میں مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ اکثر وکیل تو ما شاء اللہ سے امام مسجد اور گواہوں کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے البتہ نکاح کی رجسٹریشن کے لیے فارم وغیرہ پُر کروا لیتے ہیں۔ اور اب بعض وکلاء نے آن لائن نکاح کروانے کی سہولت بھی میسر کر رکھی ہے کہ جس کی باقاعدہ ویب سائیٹس بنی ہوئی ہیں کہ بس آپ وکیل کی فیس ادا کریں اور وکیل لڑکا اور لڑکی کے نکاح کے رجسٹریشن فارم مکمل کروا دے گا اور جج کے سامنے بیان حلفی دلوا دے گا اور یہی کورٹ میرج ہے بس۔ اور گواہان میں لڑکے کے دوستوں یا وکیل کے منشیوں کے نام ڈال دیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں کورٹ میرج کے حوالے کوئی قانون پہلے سے موجود نہیں ہے کہ یہ قا نوناً جائز بھی ہے یا نہیں حالانکہ اس کے بارے قانون ہونا چاہیے تھا کیونکہ نکاح ایک معاہدہ ہے اور اس معاہدے کی قانونی حیثیت بھی ہے لہذا اس معاہدے کی قانونی حیثیت ہونے کے سبب اس بارے قانون بھی واضح طور ہونا چاہیے۔ ابھی تک عدالتیں صائمہ وحید کیس میں ایک عدالتی فیصلے کو بنیاد بنا کر فیصلے سناتی چلی آ رہی ہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو بیٹیوں کے حقوق کے بارے حدیثیں سنا سنا کر باپوں کا بیٹیوں سے اتنا تعلق پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ اپنا سب کچھ ان کے لیے قربان کر دیتے ہیں اور جب بیٹی گھر سے بھاگ جاتی ہے تو ہمیں بیٹی کے حقوق یاد آ جاتے ہیں۔ ہمیں صرف یہی کہنا ہے کہ اگر آپ لوگوں نے اسے گھر سے بھاگنے کا حق دینا ہی ہے تو باپ کو اس کے حقوق سنا سنا کر اس کی محبت میں پاگل مت بنائیں۔ اور باپوں کو تعلیم دیں کہ بیٹیوں سے ضرورت کی محبت رکھیں یعنی اتنی ہی جتنی کہ چرند پرند اپنی اولا د سے رکھتے ہیں تا کہ اس کے گھر سے بھاگنے کے بعد نفسیاتی مریض نہ بن جائیں کیونکہ نفسیاتی امراض تعلق ہی کی شدت سے پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ آپ دو چیزوں کو ایک ساتھ نہیں چلا سکتے۔ باپ کو بیٹی کے لیے محبت اور ایثار کی تعلیم اور بیٹی کو گھر سے بھاگ کر نکاح کرنے کا حق۔ ہم یہ دونوں کام کر کے منافقت کا ارتکاب کریں گے کہ ایک طرف باپ کی بیٹی کے لیے ایسی محبت جگا رہے ہیں کہ وہ اپنا سب کچھ اس کے لیے قربان کر دے اور دوسری طرف اسی بیٹی کو یہ حق دے رہے ہیں کہ وہ گھر سے بھاگ کر اس سے بے وفائی کا ثبوت دے اور باپ کیا پورے خاندان کو معاشرے میں ذلیل و رسوا کر کے رکھ دے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض اوقات ہمیں محض عدالتی فیصلے کی بجائے کسی مسئلے میں سماجی، معاشرتی، خاندانی، نفسیاتی اور جذباتی پہلوؤں کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو فیصلہ تو چل جائے گا لیکن خاندان کا ادارہ تباہ ہو جائے گا۔ اور خاندانی مسائل کو تو ایک نہیں دس زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ کتاب وسنت اس مسئلے میں واضح ہیں کہ عورت اپنا نکاح اپنے ولی کی اجازت سے ہی کرے گی۔ یہی موقف صحابہ اور تابعین کے فتاوی سے بھی ہمیں ملتا ہے۔ اور یہی موقف فقہاء اور محدثین کا بھی رہا ہے۔ ذیل میں کتاب وسنت، صحابہ اور تابعین کے آثار اور فقہاء اور محدثین کے فتاوی کا ذکر آ رہا ہے۔ تو عورت جہاں نکاح کرنا چاہتی ہے، اس کی پسند کا لحاظ کرنا چاہیے لیکن اس جگہ نکاح اس کا ولی کرے گا، وہ خود نہیں کرے گی۔ البتہ بعض اوقات صورت حال ایسی ہو جاتی ہے کہ عورت ایسی جگہ نکاح کرنا چاہتی ہے جو اس کا کفو یعنی برابری کا نکاح نہیں ہے اور دونوں یعنی ولی اور عورت میں اختلاف ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں ولی کی رائے کو ترجیح دینی چاہیے اور عورت کا ایسی جگہ نکاح نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس میں ایک تو پورے خاندان کے لیے عار ہے اور دوسرا ایسا رشتہ عموماً چلتا نہیں ہے اور لڑکی اپنا نقصان کر دیتی ہے اور تیسرا یہ بھی کہ مرد مردوں کے بارے عورتوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اگر عورت کسی ایسی جگہ نکاح کر لے جو اس کا کفو یعنی برابر کا نکاح نہ ہو تو ولی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایسا نکاح ختم کروا دے۔ اور فقہ حنفی میں بھی اس قول پر ہی فتوی دیا جاتا ہے۔

اور کفو یعنی برابری سے مراد یہ ہے کہ عورت جس مرد سے شادی کرے، وہ مرد دینداری، خاندان، حسب نسب، مال و دولت، تعلیم اور سوشل اسٹیٹس میں اس کے برابر ہو۔ اگر عورت اپنے سے کم دیندار، کم وجاہت والے خاندان، کم حسب نسب والے مرد، کم مال و دولت والے مرد، کم تعلیم یافتہ مرد یا کم سوشل اسٹیٹس والے مرد سے نکاح کر لیتی ہے تو ولی کو یہ اختیار ہے کہ ایسے نکاح کو ختم کروا دے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ صدر کی بیٹی اپنے ڈرائیور کے ساتھ بھاگ کر نکاح کر لے، وزیر اعظم کی بیٹی اپنے گارڈ سے بھاگ کر نکاح کر لے، وزیر اعلی کی بیٹی آفس بوائے کے ساتھ بھاگ کر نکاح کر لے، ایم این اے یا ایم پی اے کی بیٹی کسی نائی، موچی یا قصائی کے بیٹے کے ساتھ بھاگ کر نکاح کر لے، سیکریٹری کی بیٹی اپنے گھر کے مالی کے ساتھ بھاگ کر نکاح کر لے، چیف جسٹس کی بیٹی کسی منشی کے ساتھ بھاگ کر نکاح کر لے۔ جب یہ سب لوگ اپنے حسب نسب اور خاندانی وجاہت کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کے لیے یہ ہر گز پسند نہیں کریں گے کہ وہ ایسی جگہ اور اس طرح سے نکاح کریں تو یہی معاملہ ہر اس شخص کا بھی ہے کہ جسے معاشرے میں خاندانی وجاہت حاصل ہے تو وہ اپنے سوشل اسٹیٹس سے نیچے میں اپنی بیٹی کا نکاح نہیں کرنا چاہتا ہے کہ اس میں اس کے لیے اور اس کے پورے خاندان کے لیے شرمندگی اور عار ہے۔ تو اگر اس کی بیٹی ایسی جگہ نکاح کرنا چاہتی ہے تو ولی کو یہ اختیار ہے کہ وہ اسے روک سکے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ لڑکی اپنے سوشل اسٹیٹس اور ہم کفو یعنی برابری میں نکاح کرنا چاہتی ہے۔ جس مرد سے نکاح چاہتی ہے، وہ دینداری، تعلیم، خاندانی وجاہت، حسب ونسب اور مال ودولت وغیرہ میں اس کے ہم پلہ ہے۔ تو ایسی صورت میں لڑکی کی بات کو ترجیح حاصل ہو گی اور اگر ولی اس لڑکی کا نکاح اس جگہ نہیں کرتا تو اس کی ولایت منتقل ہو جائے گی یعنی دوسرے ولی کو یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ اس لڑکی کا نکاح اس جگہ کر دے۔ ایسی صورت حال میں لڑکی کا نکاح اسی جگہ ہو گا لیکن کرے گا ولی ہی۔ تو اگر باپ راضی نہیں ہو رہا تو دادا ایسی جگہ نکاح کر دے تو جائز ہے۔ اور اگر دادا نہیں ہے یا وہ بھی راضی نہیں ہے تو تایا یا چچا اس جگہ نکاح کر دے تو جائز ہے۔ اگر وہ بھی نہیں ہے یا راضی نہیں ہیں تو لڑکی کا بھائی جو کہ قانونی طور بالغ ہو، اس جگہ اس کا نکاح کر دے۔ اور اگر وہ بھی نہیں ہے یا راضی نہیں ہے تو لڑکی کا چچا زاد جو کہ قانونی طور بالغ ہو، اس جگہ اس کا نکاح کر دے۔ اور اگر وہ بھی نہیں ہے اور خاتون بیوہ ہے اور اس کی جوان اولاد ہے تو وہ اس جگہ اس کا نکاح کر دے۔ اگر وہ بھی نہیں ہے یا راضی نہیں ہے تو لڑکی کا ماموں اس جگہ اس کا نکاح کر دے۔ اور اگر کوئی بھی نہیں ہے تو پھر حدیث میں ہے کہ جس کا کوئی ولی نہیں ہے تو اس کا سلطان ولی ہے یعنی عدالت کا قاضی اس کا ولی بن کر اس جگہ اس کا نکاح کر سکتا ہے۔

تو اصل میں شریعت شادی کے بعد بھی عورت کے حقوق کا تحفظ چاہتی ہے، اس لیے اس کے لیے ولی کی حمایت تلاش کرنے پر زور دیا گیا ہے تا کہ اگر شادی کے بعد مرد بیوی کے ساتھ ظلم کرے تو خاندان میں کوئی تو ہو جو اس مظلوم عورت کو اسپورٹ کرے۔ اب تو صورت حال یہی ہے کہ پچانوے فی صد گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی عورتیں اپنے شوہروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں کیونکہ وہ اپنے گھر والوں سے تو زندگی بھر کے لیے بگاڑ چکی ہوتی ہیں لہذا شوہر کا ظلم زندگی بھر کے لیے انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جدائی اس لیے نہیں لے سکتیں کہ پیچھے کس کے پاس کس منہ سے واپس جائیں۔ اور برداشت اس لیے کرتی ہیں کہ اب پیچھے ان کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ ایسے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ قانون ایسی خواتین اپنے شوہروں کے ظلم وستم کے مقابلے میں تحفظ فراہم کرے گا تو اس بارے لاہور کی کورٹ کے ایک جج کا قول ہمیں یاد آ رہا ہے کہ بلوچستان سے بھاگنے والے ایک جوڑے نے جج صاحب سے درخواست کی کہ ہمارے خاندان والے غیرت کے نام پر ہمیں قتل کر دیں گے تو ہماری جان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ تو جج صاحب نے جواب دیا کہ جس ملک میں ایک سابقہ وزیر اعظم کو شاہراہ عام پر قتل کر دیا جاتا ہے، اس میں تم مجھ سے اپنی جان کا تحفظ مانگ رہے ہو۔ تو یہ کام کرنے سے پہلے سوچنا تھا کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔ تو قانون ہر عورت کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتا، یہ ہمیں ماننا پڑے گا، یہ خاندان ہی ہے جو ایک عورت کے حقوق کا تحفظ کر سکتا ہے۔ اگر ہم نے عورت کو اس کے خاندان سے کاٹ دیا تو ہم نے اسے بھیڑیوں کے حوالے کر دیا۔ تو شوہر کو بھی یہی بات سمجھ آتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ظلم نہ کرے کیونکہ اس کے پیچھے اس کا خاندان موجود ہے۔ تو لڑکی کو اگر ہم نے بھاگ کر شادی کروانی ہے تو وہ اپنے خاندان کی حمایت سے محروم ہو جائے گی۔ اور ایسی صورت میں ہم اس عورت کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں نہ کہ انصاف۔

قرآن مجید میں ولی کا حکم

وَإِذا طَلَّقْتُمُ النِّساءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْواجَهُنَّ إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذلِكُمْ أَزْكى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (232) قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ طَلْقَةً أَوْ طَلْقَتَيْنِ، فَتَنْقَضِي عِدَّتُهَا، ثُمَّ يَبْدُو لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا وَأَنْ يُرَاجِعَهَا، وَتُرِيدَ الْمَرْأَةُ ذَلِكَ فَيَمْنَعُهَا أَوْلِيَاؤُهَا مِنْ ذَلِكَ، فَنَهَى اللَّهُ أَنْ يمنعوها. وكذا روى العوفي عنه عن ابن عباس أيضا، وَكَذَا قَالَ مَسْرُوقٌ وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ وَالزُّهْرِيُّ وَالضَّحَّاكُ: إِنَّهَا أُنْزِلَتْ فِي ذَلِكَ، وَهَذَا الَّذِي قَالُوهُ ظَاهِرٌ مِنَ الْآيَةِ، وَفِيهَا دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ لَا تَمْلِكُ أَنْ تُزَوِّجَ نَفْسَهَا، وَأَنَّهُ لا بد في النكاح مِنْ وَلِيٍّ، كَمَا قَالَهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ جَرِيرٍ عِنْدَ هَذِهِ الْآيَةِ [1]
قرآن مجید کی آیت ’’ اور جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو ان کو مت روکو کہ وہ اپنے سابقہ خاوندوں سے نکاح کر لیں جبکہ وہ اس پر باہمی طور رضامند ہوں معروف طریقے سے، اس کی نصیحت اس کو کی جا رہی ہے جو تم میں سے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اور یہی تمہارے لیے پاکیزہ اور عمدہ ہے، اور اللہ تعالی جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے‘‘ کے بارے علی بن ابی طلحہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت مبارکہ اس شخص کے بارے نازل ہوئی ہے جو اپنی بیوی کو ایک طلاق یا دو طلاقیں دے دیتا ہے اور رجوع نہیں کرتا یہاں تک کہ بیوی اپنی عدت پوری کر لیتی ہے تو پھر اس شخص کو احساس ہوتا ہے تو وہ یہ چاہتا ہے کہ دوبارہ اپنی سابقہ بیوی سے نکاح کر لے اور اس کی بیوی بھی یہی چاہتی ہے لیکن بیوی کے اولیاء درمیان میں آڑے آ جاتے ہیں تو اللہ عزوجل نے اولیاء کو منع کیا ہے کہ وہ بیوی کو اپنے سابقہ شوہر سے نکاح سے نہ روکیں۔ اسی طرح عوفی نے علی سے اور انہوں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔ اس طرح کی تفسیر تابعین میں سے مسروق، ابراہیم نخعی ، زہری اور ضحاک رحمہم اللہ نے بھی کی ہے کہ یہ آیت ایسے ہی شخص کے بارے ناز ل ہوئی ہے۔ تو ان صحابہ اور تابعین نے جو بات کی ہے، وہی اس آیت کا ظاہری مفہوم ہے۔ اور اس آیت کا معنی ومفہوم یہ بھی نکلتا ہے کہ عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنا نکاح خود کرے اور اس کے نکاح میں ولی کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ امام ترمذی اور امام ابن جریر طبری رحمہما اللہ نے اس آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے ۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب آیت مبارکہ میں اولیاء کو منع کیا گیا کہ وہ بیوی کو اپنے سابقہ خاوند سے دوبارہ نکاح کرنے سے نہ روکیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ روک سکتے ہیں لہذا اسی لیے منع کیا کہ وہ نہ روکیں۔ تو روکنا ان کا قانونی حق تھا لیکن یہ کہہ دیا گیا کہ اس جگہ یعنی سابقہ خاوند سے نکاح سے روکنا ان کا حق نہیں کیونکہ اس جگہ انہی اولیاء نے پہلی مرتبہ اس عورت کا نکاح کیا تھا لہذا ان کی رضامندی سے یہ نکاح ہوا تھا ۔

احادیث مبارکہ میں ولی کا حکم

عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ» [2]
’’حضرت ابو موسی ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولی (سرپرست) کے بغیر نکاح نہیں۔‘‘
عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وعَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ» ، وَفِي حَدِيثِ عَائِشَةَ: «وَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ» [3]
ام المومنین حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھم سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سرپرست (کی اجازت) کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ حضرت عائشہ‬ ؓ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: جس کا ولی نہ ہو، بادشاہ اس کا ولی ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ لَمْ يُنْكِحْهَا الْوَلِيُّ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ أَصَابَهَا، فَلَهَا مَهْرُهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا، فَإِنِ اشْتَجَرُوا، فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ» [4]
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس عورت کا نکاح سر پرست نے نہیں کیا، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل (کالعدم) ہے۔ اگر مرد اس سے مقاربت کر لے تو اس کی مقاربت کی وجہ سے اس عورت کو حق مہر ادا کیا جائے گا۔ اگر ان (سرپرستوں) میں باہم اختلاف ہو جائے تو جس کا کوئی ولی (سرپرست) نہ ہو، بادشاہ اس کا ولی (سرپرست) ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا» [5]
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے، نہ عورت خود اپنا نکاح کرے۔ بدکار عورت ہی اپنا نکاح خود کرتی ہے۔

آثار صحابہ اور تابعین میں ولی کا حکم

عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: أُتِيَ عُمَرُ: بِامْرَأَةٍ قَدْ حَمَلَتْ، فَقَالَتْ: تَزَوَّجَتِ الشَّهَادَةُ مِنْ أُمِّي وَأُخْتِي، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا وَدَرَأَ عَنْهُمَا الْحَدَّ، وَقَالَ: «لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ، وَلَا نِكَاحَ بِشُهُودٍ» [6]
طاوس رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت لائی گئی کہ جو حاملہ تھی اور کہہ رہی تھی کہ میرے نکاح کی گواہ میری والدہ اور میری بہن ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں میاں بیوی میں نکاح ختم کروا دیا اور ان پر کوئی حد جاری نہیں کی۔ اور یہ کہا کہ ولی کے بغیر اور گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: «مَا كَانَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ فِي النِّكَاحِ بِغَيْرِ وَلِيٍّ مِنْ عَلِيٍّ حَتَّى كَانَ يَضْرِبُ فِيهِ» [7]
امام شعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں ولی کے بغیر نکاح کے مسئلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی سختی کرنے والا نہیں ہے یہاں تک کہ وہ ایسا کرنے والے کو مارا بھی کرتے تھے۔
عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَنَّ رَجُلًا تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَلَهَا وَلِيٌّ هُوَ أَدْنَى مِنْهُ بِدُرُوبِ الرُّومِ، فَرَدَّ عُمَرُ النِّكَاحَ، وَقَالَ: «الْوَلِيُّ وَإِلَّا فَالسُّلْطَانُ» [8]
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت کا نکاح کروا دیا جبکہ اس کا قریبی ولی روم کی سرحد پر موجود تھا۔ تو عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اس نکاح کو ختم کروا دیا اور کہا کہ ولی کا ہونا ضروری ہے، یا پھر سلطان ولی ہو گا۔
عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، وَالْحَسَنِ، فِي امْرَأَةٍ تَزَوَّجَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا، قَالَ: «يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا». وَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ: «إِنْ أَجَازَهُ الْأَوْلِيَاءُ فَهُوَ جَائِزٌ» [9]
حضرت سعید بن مسیب اور حضرت حسن بصری رحمہا اللہ سے مروی ہے کہ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا تو دونوں میاں بیوی کے درمیان جدائی کروا دی جائے گی۔ اور قاسم بن محمد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اگر اولیاء نکاح کے بعد اجازت دے دیں تو جائز ہے ۔

فقہاء کے نزدیک ولی کا حکم

مالکیہ کا موقف:

«قَالَ أَبُو عُمَرَ فَقَدْ صَرَّحَ الْكِتَابُ وَالسَّنَةُ بِأَنْ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ فَلَا مَعْنَى لِمَا خَالَفَهُمَا» [10]
امام ابن عبد البر المالکی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ کتاب وسنت سے صراحت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوتا۔ اور جو موقف کتاب وسنت کے خلاف ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

شافعیہ کا موقف:

«مذهب الشافعي منها: أَنَّ الْوَلِيَّ شَرْطٌ فِي نِكَاحِهَا لَا يَصِحُّ الْعَقْدُ إِلَّا بِهِ وَلَيْسَ لَهَا أَنْ تَنْفَرِدَ بالعقد على نفسها» [11]
امام أبو الحسن الماوردی الشافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ ولی نکاح کی شرائط میں سے ہے اور ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اور عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا نکاح خود کر لے۔

حنابلہ کا موقف:

«باب شرائط النكاح وهي خمسة. أحدها: الولي، فإن عقدته المرأة لنفسها، أو لغيرها بإذن وليها، أو بغير إذنه لم يصح، لما روت عائشة أن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قال: "لا نكاح إلا بولي" قال أحمد ويحيى: هذا حديث صحيح» [12]
امام ابن قدامہ الحنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ نکاح کی شرائط پانچ ہیں؛ ان میں سے ایک ولی ہے۔ پس اگر عورت نے مرد سے اپنا نکاح خود کر لیا یا ایک عورت نے دوسری عورت کا نکاح کسی مرد سے کر دیا بھلے ولی کی اجازت سے کیا ہو یا بغیر اجازت کیا ہو تو ہر صورت وہ نکاح جائز نہیں ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نقل کیا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ اور امام احمد بن حنبل اور یحی بن معین رحمہما اللہ کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

ظاہریہ کا موقف:

«مَسْأَلَةٌ: وَلَا يَحِلُّ لِلْمَرْأَةِ نِكَاحٌ - ثَيِّبًا كَانَتْ أَوْ بِكْرًا - إلَّا بِإِذْنِ وَلِيِّهَا الْأَبِ، أَوْ الْإِخْوَةِ، أَوْ الْجَدِّ، أَوْ الْأَعْمَامِ، أَوْ بَنِي الْأَعْمَامِ - وَإِنْ بَعُدُوا - وَالْأَقْرَبُ فَالْأَقْرَبُ أَوْلَى» [13]
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت کے، بھلے کنواری ہو یا مطلقہ و بیوہ، اپنے ولی یعنی باپ، بھائیوں، دادا، چچا، چچا زاد وغیرہ کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں۔ اور ولی ہونے میں قریبی رشتہ دار کو دور کے رشتہ دار پر فوقیت حاصل ہے۔

حنفیہ کا موقف: [14]

«قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَذَهَبَ إِلَى هَذَا قَوْمٌ، فَقَالُوا: لَا يَجُوزُ تَزْوِيجُ الْمَرْأَةِ نَفْسَهَا إِلَّا بِإِذْنِ وَلِيِّهَا. وَمِمَّنْ قَالَ ذَلِكَ أَبُو يُوسُفَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهِمَا، وَاحْتَجُّوا فِي ذَلِكَ بِهَذِهِ الْآثَارِ.» [15]
امام طحاوی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ بعض اہل علم کا موقف ہے کہ عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنا نکاح خود کرے، ولی کی اجازت کے بغیر، اور جن اہل علم کا یہ موقف ہے، ان میں قاضی أبو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ بھی ہیں۔ اور ان کے دلائل وہ روایات ہیں، جو اوپر گزر چکی ہیں۔
«وَهَذَا قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللهُ أَيْضًا، إِلَّا أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: إِنْ زَوَّجَتِ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا مِنْ غَيْرِ كُفْءٍ فَلِوَلِيِّهَا فَسْخُ ذَلِكَ عَلَيْهَا، وَكَذَلِكَ إِنْ قَصَّرَتْ فِي مَهْرِهَا، فَتَزَوَّجَتْ بِدُونِ مَهْرِ مِثْلِهَا، فَلِوَلِيِّهَا أَنْ يُخَاصِمَ فِي ذَلِكَ، حَتَّى يَلْحَقَ بِمَهْرِ مِثْلِ نِسَائِهَا. وَقَدْ كَانَ أَبُو يُوسُفَ رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهِ كَانَ يَقُولُ: إِنَّ بُضْعَ الْمَرْأَةِ إِلَيْهَا الْوَلَاءُ فِي عَقْدِ النِّكَاحِ عَلَيْهِ لِنَفْسِهَا دُونَ وَلِيِّهَا. يَقُولُ: إِنَّهُ لَيْسَ لِلْوَلِيِّ أَنْ يَعْتَرِضَ عَلَيْهَا فِي نُقْصَانِ مَا تَزَوَّجَتْ عَلَيْهِ عَنْ مَهْرِ مِثْلِهَا، ثُمَّ رَجَعَ عَنْ قَوْلِهِ هَذَا كُلِّهِ إِلَى قَوْلِ مَنْ قَالَ: لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ. وَقَوْلُهُ الثَّانِي هَذَا قَوْلُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ رَحْمَةُ اللهِ تَعَالَى عَلَيْهِ.» [16]
امام طحاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے لیکن وہ ساتھ میں یہ بھی کہتے تھے کہ اگر عورت اپنا نکاح غیر کفو میں کر لے تو اس کے ولی کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایسا نکاح ختم کروا دے۔ اسی طرح اگر عورت کم حق مہر پر اپنا نکاح کر لے یا مہر مثل سے کم پر نکاح کر لے تو اس کا ولی اس معاملے میں فریق بن سکتا ہے تا کہ عورت کو مہر مثل ملے۔ اور قاضی أبو یوسف رحمہ اللہ پہلے پہل یہ کہتے تھے کہ عورت اپنی ولی خود ہے لہذا وہ اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کر سکتی ہے اور ولی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ یہ اعتراض کرے کہ اس نے کم حق مہر پر کیوں نکاح کر لیا، لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنی ان تمام باتوں سے رجوع کر لیا تھا اور یہ فتوی دیا کرتے تھے کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوتا۔ اور ان کے اسی آخری قول کے مطابق امام محمد بن حسن رحمہ اللہ بھی فتوی دیتے تھے۔

شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کا موقف: [17]

«صفة النِّكَاح قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’لَا نِكَاح إِلَّا بولِي‘‘ اعْلَم أَ نه لَا يجوز أَن يحكم فِي النِّكَاح النِّسَاء خَاصَّة لنُقْصَان عقلهن وَسُوء فكرهن، فكثيرا مَا لَا يهتدين الْمصلحَة، وَلعدم حماية الْحسب مِنْهُنَّ غَالِبا، فَرُبمَا رغبن فِي غير الْكُفْء وَفِي ذَلِك عَار على قَومهَا، فَوَجَبَ أَن يَجْعَل للأولياء شَيْء من هَذَا الْبَاب لتسد الْمفْسدَة، وَأَيْضًا فَإِن السّنة الفاشية فِي النَّاس من قبل ضروره جبلية أَن يَكُونُوا الرِّجَال قوامين على النِّسَاء، وَيكون بيدهم الْحل وَالْعقد وَعَلَيْهِم النَّفَقَات وَإِنَّمَا النِّسَاء عوان بِأَيْدِيهِم، وَهُوَ قَوْله تَعَالَى: «الرِّجَال قوامون على النِّسَاء بِمَا فضل الله بَعضهم» . الْآيَة، وَفِي اشْتِرَاط الْوَلِيّ فِي النِّكَاح تنويه أَمرهم، واستبداد النِّسَاء بِالنِّكَاحِ وقاحة مِنْهُنَّ، منشؤها قلَّة الْحيَاء واقتضاب على الْأَوْلِيَاء وَعدم اكتراث لَهُم، وَأَيْضًا يجب أَن يُمَيّز النِّكَاح من السفاح بالتشهير، وأحق التشهير أَن يحضرهُ أولياؤها. [18]
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ پس یہ بات واضح رہے کہ کسی طور بھی یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی عورت اپنے نکاح کے بارے اکیلے کوئی فیصلہ کرے کیونکہ [مردوں کے بارے جانکاری کے حوالے سے] عورتوں کی عقل کم اور ان کی سوچ سطحی ہوتی ہے۔ پس اکثر اوقات وہ مصلحت کا دھیان نہیں رکھتیں اور اپنے حسب نسب کا خیال نہ کرتے ہوئے اپنے سے کم درجے والے مرد کی طرف بھی راغب ہو جاتی ہیں اور عورت کی طرف سے ایسا اقدام اس کے پورے خاندان کے لیے عار اور شرم کا باعث بن جاتا ہے۔ پس اس مسئلے میں یہ ضروری ہے کہ عورت کے اولیاء کو اس کے نکاح میں کچھ اختیار دیا جائے تا کہ اس فساد کا رستہ بند کیا جائے۔ علاوہ ازیں جبلی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق بھی عام رواج اور طریقہ کار یہی رہا ہے کہ مرد عورتوں پر ذمہ دار اور نگران ہوں اور مردوں کے ہاتھوں میں عورتوں کے معاملات اور مسائل کی باگ دوڑ ہو۔ اور اس کے بدلے ان پر عورتوں کے خرچ کی ذمہ داری بھی عائد ہو اور حدیث رسول کے مطابق عورتیں مردوں پر انحصار کرنے میں قیدیوں کی مانند ہیں۔ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ مرد عورتوں کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے۔ عورت کے نکاح میں ولی کی شرط لگانے سے مقصود مردوں کی قدر افزائی ہے اور عورتوں کا اپنے نکاح میں خود مختار ہونا بے حیائی اور بے شرمی ہے جس کی وجہ حیاء کی کمی، اولیاء کی مخالفت اور ان سے بے پرواہی برتنا ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اس کا بھی لحاظ ہونا چاہیے کہ نکاح اور زنا میں نکاح کی تشہیر کے ذریعے فرق ہو سکے اور تشہیر کا حق اس صورت ادا ہوتا ہے جبکہ اس میں لڑکی کے اولیاء موجود ہوں۔

بعض اہل علم نے یہ فتوی دیا کہ عورت اگر اپنے کفو یعنی برابری میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لے تو ایسا نکاح جائز ہے تو اس بارے عرض ہے کہ ایک تو یہ فتوی بھی کفو یعنی برابری میں نکاح کے بارے ہے جبکہ عدالتیں اس کا بھی لحاظ نہیں کرتیں کہ عورت نے نکاح اپنے کفو یعنی برابری میں کیا بھی ہے یا نہیں اور عموماً گھر سے بھاگ کر جو شادی کی جاتی ہے، وہ غیر کفو میں ہوتی ہے کیونکہ عام طور خاندان کو یہ اعتراض نہیں ہوتا کہ عورت اپنے ہم پلہ سے نکاح کرنا چاہتی ہے۔ دوسرا جن اہل علم نے کفو یعنی برابری میں نکاح کو جائز قرار دیا ، انہوں نے ساتھ میں یہ بھی فتوی دیا ہے کہ گھر سے بھاگ کر ایسا نکاح کرنا سخت معیوب اور ناپسندیدہ ہے اور اس سے اجتناب کرنا چاہیے جیسا کہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے ایک فتوی کا لنک ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے۔ اس فتوی کے مطابق ایسا نکاح اسی وقت ہوتا ہے جبکہ لڑکے اور لڑکی میں عرصہ دراز تک خفیہ معاشقہ چلے اور اس خفیہ معاشقے کی کسی بھی فقہ میں اجازت نہیں بلکہ یہ زنا کے مقدمات میں سے ہے۔ اور ایسا تو کہیں نہیں ہوتا کہ پہلی ہی ملاقات میں کورٹ میرج ہو جائے۔ کورٹ میرج کے لیے کورٹ تک پہنچنے سے پہلے جن جن مراحل سے ایک لڑکا اور لڑکی گزرتے ہیں یعنی موبائلز فون پر خفیہ رابطے، پارکوں میں خفیہ ملاقاتیں، نکاح سے پہلے بوس وکنار وغیرہ وغیرہ تو وہ سب کے نزدیک حرام ہی ہیں ۔ [19]

حواشی

[1] ابن كثير، إسماعيل بن عمر (المتوفى: 774هـ)، تفسير القرآن العظيم، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1419 هـ، 1/ 476
[2] سنن ابن ماجه: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ) 1881/2
[3] سنن ابن ماجه: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ) 1880/2
[4] سنن ابن ماجه: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ) 1879/2
[5] سنن ابن ماجه: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ)1882/2
[6] ابن أبي شيبة، عبد الله بن محمد (المتوفى: 235هـ)، مصنف ابن أبي شيبة، مكتبة الرشد، الرياض، الطبعة الأولى، 1409ھ، 3/ 455
[7] مصنف ابن أبي شيبة: 3/ 454
[8] مصنف ابن أبي شيبة: 3/ 456
[9] مصنف ابن أبي شيبة: 3/ 456
[10] ابن عبد البر، يوسف بن عبد الله (المتوفى: 463هـ)، التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية، المغرب، 1387 هـ، 19/ 90
[11] الماوردي، أبو الحسن علي بن محمد (المتوفى: 450هـ)، الحاوي الكبير، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1419 هـ، 9/ 38
[12] ابن قدامة، عبد الله بن أحمد (المتوفى: 620ه)، الكافي في فقه الإمام أحمد، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1414 ه، 3/9
[13] ابن حزم الأندلسي، أبو محمد علي بن أحمد (المتوفى: 456هـ)، المحلى بالآثار، دار الفكر، بيروت، 9/ 25
[14] عورت کا نکاح ولی کے بغیر ہوتا ہے یا نہیں، اس بارے فقہ حنفی میں سات اقوال مروی ہیں جیسا کہ شرح ہدایہ فتح القدیر میں یہ ساتوں روایات موجود ہیں۔ دو امام ابو حنیفہ سے ہیں، دو امام محمد سے اور تین قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ سے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ باکرہ کا اپنے ولی کے بغیر نکاح کرنا مطلقاً جائز ہے اور یہ ظاہر الروایہ ہے۔ امام صاحب سے مروی دوسری روایت کے مطابق کفو اور برابری میں جائز ہے جبکہ غیر کفو میں نہیں اور اسی پر فقہ حنفی میں فتوی دیا جاتا ہے کہ یہی ان کا آخری قول ہے جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ سے ایک روایت ہے کہ ولی کے بغیر نکاح مطلقاً جائز ہے جیسا کہ ظاہر الروایہ ہے لیکن دوسرا قول یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا تھا اور یہ فتوی دیا تھا کہ ایسا نکاح ولی کی اجازت پر موقوف ہو جائے گا یعنی ولی اجازت دے گا تو منعقد ہو جائے گا اور اگر نہیں دے گا تو باطل رہے گا اور یہی ان کا آخری قول ہے جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نےذکر کیا اور مختصر القدوری میں بھی ان کے اسی قول کو ان کا اصل فتوی قرار دیا گیا ہے۔ قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ کے ایک قول کے مطابق ولی کے بغیر نکاح مطلقاً جائز ہے ، دوسری روایت ہے کہ کفو اور برابری میں جائز ہے اور غیر کفو میں نہیں، تیسری روایت ہے کہ ولی کے بغیر نکاح بہر صورت باطل ہے ۔ قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ کا آخری فتوی یہی ان کا تیسرا قول ہے جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اور مختصر القدوری کے متن سے بھی اسی کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہی ان کا اصل فتوی تھا۔
[15] أبو جعفر الطحاوي، أحمد بن محمد بن سلامة (المتوفى: 321هـ)، شرح معاني الآثار، عالم الكتب، الطبعة الأولى، 1414 هـ ، 3/ 7
[16] شرح معاني الآثار: 3/ 13
[17] شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ ایسی بڑی شخصیت ہیں کہ بر صغیر پاک وہند میں تینوں بڑے مسالک یعنی بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کے ہاں معتبر شخصیت ہیں اور ان سب مسالک کے علماء ان کو بڑا مانتے ہیں بلکہ بر صغیر پاک وہند میں کسی بھی مسلک کے کسی بھی عالم دین کی سند انہی سے ہو کر گزرتی ہے لہذا ان کی رائے کو اہمیت سے بیان کیا گیا ہے۔
[18] شاه ولي الله الدهلوي، أحمد بن عبد الرحيم (المتوفى: 1176هـ)، حجة الله البالغة، دار الجيل، بيروت، الطبعة الأولى، 1426 هـ ، 2/ 196
[19] دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، 20 جولائی 2020 کو ایکسس کیا گیا۔