بہت خوش آئند بات ہے کہ ایک بڑی تعداد قرآن مجید اور احادیث نبویہ کا ترجمے سے مطالعہ کر رہی ہے اور لوگ کتاب وسنت سے جڑ رہے ہیں۔ تو جو لوگ تو قرآن مجید اور احادیث نبویہ کا مطالعہ ایک ترتیب سے کرتے ہیں اور علم حاصل کرنے کی غرض سے کرتے ہیں تو انہیں اس کا واقعی میں فائدہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنہوں نے قرآن کی کچھ آیات یا چند احادیث کا ترجمہ دیکھ لیا ہے، یا کہیں سے کچھ لیکچرز اصول حدیث یا اصول فقہ پر سن لیے ہیں اور کچھ اڑتی اڑتی اصطلاحات ان کے ذہن میں سما گئی ہیں، یا انہوں نے کوئی دینی حلقہ جوائن کر لیا ہے، یا کچھ اہل علم کے علمی محاضرات اور لیکچرز کا مطالعہ کر لیا ہے تو اب انہیں یہ سب کچھ ہضم نہیں ہو رہا۔ اور وہ اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ عالم فاضل بن چکے ہیں بلکہ شیطان نے ان کو یہ وسوسہ ڈال رکھا ہے کہ وہ تو علماء اور فضلاء کو اپنے آگے لگا سکتے ہیں۔

دیکھیں، ہمیں یہ فرق کرنا پڑے گا کہ کون دین کا سنجیدہ طالب علم ہے اور اس نے دین کی تعلیم وتحقیق اور درس وتدریس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے اور کون وہ ہے کہ جس کا دین کا مطالعہ سرسری سا ہے اور دین اس کا اوڑھنا بچھونا نہیں ہے۔ آپ نے سوال کرنا ہے، ضرور کریں لیکن کٹہرے میں مت کھڑا کریں کہ ابھی آپ کی وہ دینی صلاحیت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دینی بنیاد ہے۔ سوال کے الفاظ اور انداز بیان سے واضح معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ شخص سوال کر رہا ہے یا اعتراض کر رہا ہے، یہ پڑھنا چاہتا ہے یا پڑھا رہا ہے، یہ آپ سے سیکھنا چاہتا ہے یا اس نے آپ کو سکھانے کی پوزیشن لی ہوئی ہے۔ ٹھیک ہے، ہم بھی سیکھتے ہیں لیکن ابھی ہمارا حال اتنا پتلا بھی نہیں ہے کہ ہر دوسرا ہمارا استاذ بن سکے۔

دیکھیں، ہم نے علم دین میں بیس سال لگائے ہیں، پچھلے بیس سال کے عرصے میں کوئی کام نہیں کیا، صرف دین کی درس وتدریس اور تعلیم وتحقیق کا کام کیا ہے، اپنی راتیں اور اتواریں علم دین کے حصول میں لگائی بلکہ کھپائی ہیں۔ اتنی کچھ تحقیق کر دی ہے کہ آپ کے اگلے بیس سال پڑھنے اور ہضم کرنے کو کافی ہے۔ تو تھوڑا حفظ مراتب کا اعتبار کریں۔ ہم اور آپ برابر نہیں ہیں۔ ہمارا دینی مقام برابر نہیں ہے جیسا کہ آپ اگر میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور پچھلے بیس سال سے اس پروفیشن میں ہیں تو ہم آپ کے برابر نہیں ہیں۔ اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ حفظ مراتب کا یہ فرق بیان کرنا تکبر ہے تو بھئی پھر آپ وہ دشمن خدا ہیں کہ جن کے حق میں میدان جنگ میں ایسے تکبر کو جائز قرار دیا گیا ہے۔

ٹھیک ہے، آپ انجینیئر ہیں، آپ میڈیکل ڈاکٹر ہیں، آپ سوشل سائنسز یا سائنسز میں پی ایچ ڈی ہیں لیکن اسلامک اسٹڈیز میں آپ کہاں پر ہیں، ذرا یہ سوچیں۔ سیکولر اور یونیورسٹی کی تعلیم کا المیہ یہ ہے کہ انسان کو اعتماد بہت دے دیتی ہے لہذا دینی مدارس کے طلباء کی طرف سے کبھی ایسے رویوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو ایک یونیورسٹی گریجویٹ کی طرف سے کرنا پڑتا ہے جبکہ وہ دین کا تھوڑا بہت علم حاصل کر لیتا ہے۔ کہیں میں نے حزبیوں کے بارے لکھا تھا کہ انتہائی درجے کی جہالت اور انتہائی درجے کی خود اعتمادی کو جمع کر لیں تو حزبی بنتا ہے۔ یہاں کوئی پاپائیت نہیں ہے، آپ نے دینی رائے دینی ہے تو دین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں، دس بیس سال لگائیں۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو علماء سے پوچھ پوچھ کر چلیں اور ان کا احترام کریں۔ ایک عالم دین پسند نہیں تو دوسرے کی اتباع کر لیں۔ یہی آپ کا مقدر ہے اور اس کے علاوہ ہر رستہ گمراہی کا ہے۔ تو خود عالم بنیں یا علماء کی اتباع کریں، تیسرا رستہ تو شیطان کا ہے۔

یہاں تو ایسے شگوفے ہیں کہ اصول فقہ کی کسی درسی کتاب کی بھی دو لائنیں نہیں پڑھ سکتے ہوں گے لیکن اصول فقہ پر ایسے عالمانہ گفتگو کر رہے ہوں گے کہ جیسے وقت کے امام شافعی ہوں اور یہ اعتماد بلکہ بد اعتمادی یونیورسٹی گریجویٹس میں زیادہ ہے۔ اخلاق ایسے گرے ہوئے ہیں کہ کسی طالب علم کے سامنے ذرا سی عاجزی کا اظہار کر لیں تو وہ آپ کا استاذ بن جاتا ہے۔ ہمارے ایک استاذ مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور تفسیر میں پی ایچ ڈی کہتے ہیں کہ درس قرآن کے دوران میں نے کہہ دیا کہ میں تو طالب علم ہوں، مجھے کیا آتا ہے؟ تو درس کے بعد درس میں شریک ایک صاحب پاس تشریف لائے اور دلاسہ دیتے ہوئے کہنے لگے کہ کوئی بات، محنت کریں، کچھ بن جائیں گے۔ تو وہ کہتے ہیں کہ میں ہکا بکا رہ گیا کہ یہ کہہ کیا رہے ہیں۔

تو وقت کی اہم ضرورت ہے کہ یہ گلی گلی کے مفکرین ختم ہوں۔ اگر انہوں نے دین میں کلام کرنا ہے تو دین کے سنجیدہ طالب علم بنیں ورنہ علماء کی اتباع کریں نہ کہ چند کتابیں پڑھ کر ان کی اصلاح شروع کر دیں۔ ہم لوگوں نے بھی اصلاح لی ہے لیکن اپنے اساتذہ سے۔ اب آپ کو اصلاح کی ضرورت ہے، جو آپ کو لینا ہے۔ تو ابھی آپ کے ابا بننے کا وقت نہیں ہے، وہ وقت بھی آ جائے گا۔ لیکن وقت سے پہلے ابا بننے کا فائدہ نہیں ہے۔ گڈے گڈیوں کے کھیل میں تو بن سکتے ہیں، حقیقت میں نہیں۔ تو دین کے سنجیدہ طالب علم بنیں، کسی دن استاذ بھی بن جائیں گے۔ لیکن وہ کسی دن دس بیس سال بعد ہی آتا ہے، یہ ذہن میں رہے۔ تو اختلاف کرنے میں اور اصلاح کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ ابھی آپ کی عمر اختلاف کرنے کی ہے، اصلاح کرنے کی نہیں۔ اختلاف ضرور کر لیں، کس نے منع کیا ہے۔ اصلاح کرنے کے لیے آپ کو دین کا استاذ بننا ہے۔ اور آپ ابھی اس کے اہل ہیں یا نہیں، اس کے لیے اپنے گریبان میں جھانک لیں۔