فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ وفات کے ساتھ نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ اگر نکاح ختم نہ ہو تو عدت کے بعد بیوہ کے لیے شادی کیسے جائز ہو؟ اگر بیوہ سابقہ شوہر کے نکاح میں بھی ہے اور عدت کے بعد اس نے شادی کر لی تو اب اس کے دو خاوند ہو گئے تو یہ درست نہیں ہے لہذا وفات سے نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح شوہر اپنی بیوی کی وفات کے بعد اس کی بہن سے نکاح کر سکتا ہے۔ اگر پہلی بہن سے نکاح ختم نہیں ہوا تو دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر اس نے دنیا میں اس طرح دونوں بہنوں کو نکاح میں جمع کر لیا تو کیا جنت میں وہ دونوں ایک ساتھ اس کے نکاح میں ہوں گی؟ تو ہماری رائے میں دونوں اس کے نکاح میں ہوں گی کہ جنت میں حرام لغیرہ نہیں رہے گا۔
رہی یہ بات کہ بیوی اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے تو اس کی وجہ عدت ہے کہ عدت ختم ہونے تک نکاح باقی رہتا ہے لہذا وفات کے بعد عدت تک وہ اس کی بیوی ہے۔ اور جمہور فقہاء کے نزدیک شوہر بھی اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے لیکن احناف اس کے قائل نہیں ہیں کہ نکاح ختم ہو گیا ہے۔ ہماری رائے میں نکاح ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ احناف کی رائے ہے لیکن شوہر اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے کہ مسند احمد کی روایت کے مطابق رسول اللہ نے حضرت عائشہ کو کہا تھا کہ میں تمہاری وفات کے بعد تمہیں غسل دوں گا۔ تو یہ نکاح کے اثرات ہیں جو زوجین میں سے کسی ایک کی وفات کے بعد بھی جاری ہوں گے جیسا کہ وراثت بھی جاری ہوتی ہے۔ تو وفات کے ساتھ نکاح ختم ہو جاتا ہے البتہ اس کے کچھ اثرات جاری ہوتے ہیں جیسا کہ وراثت ہے یا زوجین کا ایک دوسرے کو غسل دینا وغیرہ۔
تو جب نکاح ختم ہو گیا تو اب جنت میں بغیر نکاح کے کیسے رہیں گے؟ تو جنت میں دوبارہ نکاح ہو گا، یہی بات سمجھ میں آتی ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ جنت میں کوئی کنوارہ نہیں رہے گا۔ تو دنیا میں جن کی شادی نہیں ہوئی، ان کی جنت میں شادی ہو جائے گی لیکن فریقین کی رضامندی سے۔ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں جب حور عین کا تذکرہ کیا ہے تو وہاں یہ تعبیر اختیار کی ہے کہ ہم حور عین کو اہل جنت کے نکاح میں دے دیں گے۔ تو حور عین سے بھی پہلے نکاح ہو گا۔ اور یہی معاملہ دنیا کے میاں بیوی کا ہو گا کہ جنت میں ان کا دوبارہ نکاح ہو گا اگر تو یہ دونوں اہل جنت میں سے ہوں گے اور دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہوں گے۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے بارے بغض اور کینہ ہو گا کہ جس کے سبب وہ اکٹھے نہ رہنا چاہتے ہوں تو وہ نکال دیا جائے گا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے تو یہ بات درست ہے۔
تو جنت میں جب میاں بیوی کا دوبارہ نکاح ہو گا تو اس وقت دوبارہ دونوں کی رضامندی مطلوب ہو گی۔ وہ عورت کہ جس کے دو یا چار پانچ خاوند تھے، ایک روایت کے مطابق وہ اپنے آخری خاوند کے پاس ہو گی لیکن اس روایت کی صحت میں اختلاف ہے۔ اہل علم کی دوسری رائے یہ ہے کہ ایسی عورت کو اختیار حاصل ہو گا کہ جس خاوند کے ساتھ مرضی رہے۔ یہی رائے معقول معلوم ہوتی ہے۔ البتہ ایک تیسری رائے بھی ہے کہ جس کے اخلاق اچھے ہوں گے، وہ اس خاوند کے ساتھ ہو گی۔ یہ رائے بھی معقول ہے۔ ہمیں یہی بات سمجھ آتی ہے کہ یہ اختیار صرف اس عورت کو حاصل نہیں ہو گا کہ جس کے ایک سے زائد خاوند ہوں بلکہ ہر عورت کو حاصل ہو گا، اگر وہ چاہے گی تو۔ اور یہی حال شوہروں کا بھی ہو گا۔ تو جنت کو جنت ہی رہنے دیں، جیل نہ بنائیں۔ واللہ اعلم بالصواب