دوست کا سوال ہے کہ اگر روزے کی حالت میں نفس غالب آ جائے اور انسان مشت زنی کر لے تو اس کا کیا کفارہ ہے؟
جواب: اگر تو روزے کی حالت میں کسی نے اپنی بیوی سے جماع (intercourse) کر لیا تو دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور دونوں اگر اس عمل کے لیے رضامند تھے تو دونوں اس روزے کی قضاء بھی ادا کریں گے اور اس کا کفارہ بھی دیں گے۔ قضاء تو یہ ہے کہ رمضان کے بعد اس کی جگہ ایک روزہ رکھیں۔ اور کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کریں یا اس کے برابر رقم صدقہ کریں۔ اب وہ ممکن نہیں ہے تو دو مہینے کے لگاتار روزے رکھیں۔ اگر وہ بھی ممکن نہیں ہے کہ نفس پر اتنا قابو نہیں ہے تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا دیں۔ اور یہ مسئلہ فقہاء کے ہاں متفق علیہ agreed upon ہے۔ اسی طرح اگر کسی کو روزے کی حالت میں احتلام wet dream ہو جائے یا بیماری کے سبب یا اچانک نظر پڑنے سے منی خارج ہو جائے تو اس کا روزہ بھی نہیں ٹوٹتا ہے۔
اور اگر شوہر نے روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لیا یا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کہ جس سے اس کا انزال ہو گیا تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔ اب اسے اس روزے کی قضاء ادا کرنی ہے یعنی رمضان کے بعد ایک روزہ رکھنا ہے۔ رہا کفارہ تو جمہور علماء حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس پر کفارہ نہیں ہے۔ مالکیہ کا کہنا یہ ہے کہ اس پر کفارہ ہے کیونکہ وہ اس کو جماع پر قیاس کرتے ہیں۔ اسی طرح کا اختلاف مشت زنی میں بھی ہے۔ اگر کسی شخص نے مشت زنی سے انزال کر لیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ مذاہب اربعہ کے قفہاء کا یہی قول ہے۔ رہا کفارہ تو حنفی، شافعی اور حنبلی اس کے لیے کفارے کا فتوی نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیں کہ وہ اس کی قضاء ادا کرے گا جبکہ مالکی اس کی قضاء اور کفارے دونوں کا فتوی دیتے ہیں اور اسے جماع پر قیاس کرتے ہیں۔
ہماری نظر میں مسئلے میں ذرا تفصیل ہے۔ اگر تو کسی شخص نے اتفاقا یا کسی سبب سے روزہ توڑ لیا جیسا کہ اس نے بیوی کا بوسہ لیا اور اسے احساس نہیں تھا کہ اس کے جذبات اس قدر بھڑک اٹھیں گے کہ اس کا انزال ہو جائے گا یا کسی رات بیوی سے ہم بستری کرنی چاہی لیکن بیوی نے انکار کر دیا یا ٹال مٹول کر دی اور اس نے روزہ رکھ لیا لیکن دن میں نفس سے مغلوب ہو کر مشت زنی کر لی تو اس کے لیے صرف قضاء ہے، کفارہ نہیں ہے۔ لیکن جس نے جان بوجھ کر اس طرح سے روزہ توڑا کہ اسے مشت زنی کی عادت اور لت پڑی ہوئی ہے یا اسے معلوم تھا کہ وہ بیوی کے پاس جائے گا تو اس کا انزال ہو جائے گا کہ وہ سرعت انزال کا شکار ہے یا بیوی کے منع کرنے کے باوجود بڑھتا ہی چلا گیا تو ایسی صورت میں اس پر قضاء بھی ہے اور اس کا کفارہ بھی۔ اور کفارے میں وہ ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے گا۔
صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کے پاس حاضر ہوا کہ میں نے روزے کی حالت میں بیوی سے جماع کر لیا ہے۔ تو آپ نے کہا کہ ایک غلام آزاد کر سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے کہا کہ ساٹھ روزے رکھ سکتے ہو؟ تو اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے کہا کہ ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ تو اس نے کہا کہ نہیں۔ اتنے میں ایک شخص صدقے کی کھجوروں کا ٹوکرا لے آیا۔ آپ نے وہ ٹوکرا اس شخص کو دیا اور کہا کہ یہ غریبوں میں تقسیم کر دو۔ تو وہ کہنے لگا کہ مدینہ میں مجھ سے زیادہ غریب گھر کوئی نہیں ہے۔ آپ مسکرا پڑے اور اسے کہا کہ جاؤ، یہ اپنے گھر لے جاؤ اور گھر والوں کو کھلا دو۔