فیمینزم کی تحریکوں کے منشور کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ مرد اور عورت برابر ہیں۔ اگر تو برابری سے یہ مراد لی جائے کہ دونوں انسان ہیں تو کس کو اس برابری سے اختلاف ہو گا! دیکھیں، انسان ہونے کے اعتبار سے امیر المومنین حضرت عمر اور اسلامی ریاست کا ایک عام شہری دونوں برابر تھے لیکن ایک امیر ہے دوسرا مامور۔ بات اس وقت نظم کی ہو رہی ہے۔ دنیاوی نظم ہو یا دینی، دونوں میں عورت مرد کی ماتحت ہے اور رہے گی۔ یہ امر واقعہ بھی ہے اور شرعی حکم بھی۔ یہ تاریخ کا فیصلہ بھی ہے اور شرع کا مطالبہ بھی۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مرد گھر کا بڑا ہے اور عورت گھر میں چھوٹی۔ مرد امیر ہے اور عورت مامور۔ عورت کو نہ تو گھر جیسے چھوٹے سے ادارے کا سربراہ بنایا گیا اور نہ ہی ریاست کا سربراہ بنانے کی اجازت دی گئی ہے بلکہ آپ کا فرمان ہے کہ ’’وہ قوم کبھی کامیاب نہ ہو گی کہ جس کی سربراہ عورت بن جائے۔‘‘ سارے نبی مردوں میں ہو گزرے ہیں۔ آخری نبی ایک مرد ہیں، ۔ تو دینی سرداری بھی مردوں کو دی گئی۔ مسجود ملائک حضرت آدم ہیں نہ کہ اماں حوا۔ تو دنیا میں جنہیں خلیفہ مقرر کر کے انہیں دنیا کا انتظام وانصرام سونپا گیا، وہ مرد ہے۔ اسی طرح مرد کے بارے قرآن مجید نے کہا کہ ایک درجہ عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ قرآن مجید میں براہ راست خطاب مردوں سے ہوتا ہے، خواتین تبعا اس میں شامل ہوتی ہیں۔ نماز کی صفوں میں عورتوں کو پیچھے کھڑا کیا گیا۔ اگر شوہر کے ساتھ بھی نماز پڑھے تو ساتھ صف میں کھڑی نہیں ہو سکتی۔ مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی، عورت کو نہیں۔ عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم دیا، مرد کو نہیں۔ مرد کا وراثت میں حصہ عورت سے زیادہ رکھا گیا۔ مرد کی گواہی عورت سے زیادہ رکھی۔ عورت کی عقل اور دین کو ناقص کہا، مرد کی نہیں۔ مرد، عورت کا ولی ہوتا ہے نہ کہ عورت مرد کی ولی۔ کیا کیا بیان کروں۔
تاویل کسی ایک آدھ بات کی ہوتی ہے، مرد کی فضیلت کی اتنی شرعی نصوص کی تاویلوں سے یہ دین خداوند نہیں رہ جائے گا، آپ کا دین بن جائے گا۔ عورت چھوٹی ہے، یہی اس مذہب کا بیانیہ ہے۔ اور یہی عورت کی آزمائش ہے کہ اپنے آپ کو چھوٹا مان لے اور بنا بھی لے۔ اور اس آزمائش میں وہ بری طرح ناکام ہے، یہ بھی ایک امر واقعہ ہے۔ اور فیمینزم کے بیانیوں نے ہمارے مذہبی ذہن کو بھی بگاڑ دیا ہے، یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ اچھا خاصا طبقہ مرد وزن کی مساوات ثابت کرنے میں لگا ہے جو مذہب نہ بھی ہو تو بھی ثابت نہیں ہو سکتی کہ امر واقعہ کے خلاف ہے۔ مرد کی آزمائش یہ ہے کہ اس چھوٹی کے ساتھ حسن سلوک کرے کہ قوت اور اختیار ظلم کو پیدا کرتا ہے۔ تو مرد کو اللہ عزوجل نے عورتوں پر اتھارٹی کی فضیلت دی ہے۔ اور جہاں اتھارٹی ہو، وہاں ہی اس کا اے بیوز بھی ہوتا ہے، یہ بات درست ہے۔ تو اس پس منظر میں مردوں کو عورتوں پر ظلم سے روکنے کا حکم دینا اور انہیں یہ کہنا کہ شریعت نے انہیں عورتوں سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے، بالکل یہ کرنے کا کام ہے۔ تو حسن سلوک تو ہوتا ہی چھوٹے سے ہے۔
ماں سے باپ سے بڑھ کر حسن سلوک کا حکم ہے لیکن اس کا یہ مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ گھر کی سربراہ ماں ہے۔ باپ نہ ہو تو بیٹا ہی گھر کا سربراہ ہو گا بلکہ ماں اگر دوسری شادی کرے گی تو اس کا ولی اس کا بیٹا ہو گا۔ مجھے بیٹی سے حسن سلوک کا حکم ہے تو اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آتا ہے کہ وہ مجھ سے بڑی ہے یا میرے برابر کی ہے۔ تو حسن سلوک اور چیز ہے اور اطاعت اور چیز۔ ماں سے حسن سلوک کا حکم ہے، اطاعت باپ کی ہو گی۔ اور ہمارے دین میں مردوں سے زیادہ عورتوں سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا۔ اسی وجہ یہی ہے کہ وہ کمزور ہیں، فطری طور بھی اور دینی طور بھی۔ اسی لیے حدیث میں ان کے لیے قیدی کا لفظ آیا ہے۔ تو مرد کو حکم ہے کہ عورت کا کرے، اس لیے نہیں کہ وہ اس کے برابر ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اس سے چھوٹی ہے یعنی اس کے ماتحت ہے۔ تو وہ عورت کامیاب ہے جو مرد کی اطاعت کو دل و جان سے مان لے۔ اور وہ مرد کامیاب ہے جو ایسی عورت کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ تو نازک آبگینے ہیں لیکن نازک آبگینے کا سربراہی اور برابری سے کیا تعلق۔ نازک آبگینے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ اس کے ساتھ ہینڈلنگ میں نرمی ہونی چاہیے۔ اور یہ بھی اسی بات کی دلیل ہے کہ مرد بڑا ہے۔
تو دین نے تو اسے یوں متوازن کیا ہے کہ عورت چھوٹی بن کر اطاعت کرے اور مرد بڑا بن کر حسن سلوک۔ فیمنسٹوں کے پیچھے چلیں گی تو پھر یورپی معاشروں میں ہونے والے تحقیقی سروے اٹھا کر دیکھ لیں۔ برطانیہ میں ستر فی صد عورتوں کو دوران سیکس مردوں کا تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اور چالیس فی صد کہتی ہیں کہ انہیں مردوں کے اس تشدد سے کوئی ایشو نہیں ہے۔ وہ دوران سیکس ان کے منہ پر تھوکتا ہے، چہرے پر تھپڑ مارتا ہے، جسم پر دانتوں سے کاٹتا ہے، سیگریٹ سے جسم کو جلاتا ہے لیکن اسے کوئی ایشو نہیں ہے۔ کیوں نہیں ہے، اس کے لیے میری کتاب دیکھیں، سیکس سائیکالوجی اور سوسائٹی۔ انہوں نے مردوں کی برابری چاہی تو انہیں یہ برابری میسر آئی ہے اور وہ اس پر خوش بھی ہیں۔ کوئی انسان ایسی برابری پر خوش ہو سکتا ہے!