میڈیا میں خلیل الرحمن قمر پر بار بار یہ اعتراض ہو رہا ہے کہ اس کے نظریات کے مطابق عورت، مرد کے برابر نہیں ہے اور وہ ہوتا کون ہے ایسی بات کرنے والا۔ ہم اس پر لکھ چکے کہ عورت، مرد کے برابر نہیں ہے بلکہ اس سے چھوٹی ہے؛ جسمانی اعتبار سے بھی، دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی پہلو سے بھی۔ مرد عورت کی نسبت فیزیکلی مضبوط ہے، اس میں کیا شک ہے۔ ہم یہاں نوع مرد اور نوع عورت کی بات کر رہے ہیں یعنی اوور آل بات ہو رہی ہے جبکہ کوئی خاص عورت کسی خاص مرد سے فزیکلی بلکہ دینی اعتبار سے بھی مضبوط ہو سکتی ہے لیکن عموما ایسا نہیں۔ تو مرد پیدائشی اعتبار سے عورتوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کشتی، باکسنگ، مارشل آرٹ بلکہ ہر قسم کے کھیلوں میں مرد ہی چھائے ہوئے ہیں۔

دنیاوی اعتبار سے دیکھ لیں تو اس دنیا کا نظام چلانے والے کون ہیں، مرد ہی ہیں۔ پچھلے دنوں ایک معروف یونیورسٹی میں عورتوں کی خدمات پر ایک کانفرنس تھی۔ میں نے آرگنائزرز میں سے کسی سے ازراہ تفنن پوچھ لیا کہ منتظم کون ہے؟ تو جواب ملا کہ مرد ہیں۔ مقالہ پڑھنے والوں میں سے زیادہ تر کون ہیں؟ جواب ملا کہ مرد ہیں۔ یعنی عورت کو یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اس کی بھی کچھ خدمات ہیں، مرد کا سہارا چاہیے تو مرد کی برابری کا کیسے دعوی کر سکتی ہے! ایک انٹرویو میں طاہرہ عبد اللہ فرما رہی تھیں کہ ہمیں مردوں سے حقوق نہیں مانگنے کہ یہ مانگنے سے ہم گویا ان کو بڑا مان لیں گے اور ہمارے فیمینزم کے تصور پر زد پڑے گی جو برابری کا دعویدار ہے۔ تو خلیل الرحمن قمر نے بجا طور جوابا کہا کہ یہ عورت مارچ میں پلے کارڈ اٹھائے جو آزادی مانگتی ہیں، یہ مردوں سے نہیں تو کیا گدھوں گھوڑوں سے یہ سب مانگ رہی ہوتی ہیں؟

آپ عورتوں کی خدمات گنوانا چاہیں، ہمیں اس سے انکار نہیں کہ عورتوں کی بہت خدمات ہیں۔ لیکن آپ کہیں کہ عورت، مرد کے برابر ہے تو یہ جھوٹ ہے۔ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دینے کا دعویدار کوئی بھی ملک اپنی افواج کی سپہ سالاری عورتوں کو دینے کو تیار نہیں۔ کیا عورت جنگیں نہیں جیت سکتی؟ کیا وہ دنیا کو فتح نہیں کر سکتی؟ کیا وہ گلیڈیئیٹر نہیں بن سکتی؟ وہ اسکندر اعظم کیوں نہیں بن سکتی؟ تو عورتوں کے حقوق کا نعرہ لگائیں، ہم عورتوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن مغربی ایجنڈے کے تحت عورتوں کو جو سبق پڑھائے جا رہے ہیں کہ مردوں سے وہ حقوق مانگیں جو اللہ عزوجل نے مردوں کو دیے ہیں تو یہ فساد ہے۔ عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم ہے نہ کہ مرد کو عورت کی اطاعت کا۔ یہ ہمارے دین نے کھول کر بیان کر دیا ہے۔ تو جو گھر کا خرچ چلائے گا، اس کی اطاعت ہو گی، یہ لاجیکل بات ہے۔

باقی مرد ظلم کرتا ہے، بالکل کرتا ہے۔ اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، بالکل اٹھانی چاہیے۔ لیکن عورت بھی ظلم کرتی ہے، اس کے خلاف بھی آواز اٹھانی چاہیے، یہ بات منافق میڈیا کرنے ہی نہیں دیتا۔ اور جو بے غیرت اینکرز اس بات کو دبانے میں لگے ہیں، سب سے زیادہ ظلم ان کے گھروں میں عورتوں پر آپ کو ملے گا۔ خلیل الرحمن قمر صحیح کہتا ہے کہ ان کی ماں، بہن، بیٹی یا بیوی کبھی اسکرین پر نظر کیوں نہیں آتی؟ انہوں نے انہیں کیا آزادی دے رکھی ہے جو یہ مرد کے ظالم ہونے کے بیانیے کے ڈھنڈورے پیٹ رہے ہیں۔ ایک اینکر نے خبر چلائی کہ ایک شوہر نے ایک بیوی پر تشدد کیا لیکن ساتھ ہی دوسری خبر کسی نے نہیں چلائی کہ ایک بیٹی نے اپنے باپ کو اس لیے قتل کر دیا کہ وہ اس کے آشنا سے اسے ملنے سے منع کرتا تھا۔ تو یہاں ایک عورت کا ظلم مرد سے بڑھ کر ہے لیکن کوئی اسے بیان کرنے تک کو تیار نہیں۔ تو ظلم کے خلاف بات کرو، سب تمہارے ساتھ ہیں۔

اصل جینڈر ڈسکریمینیشن تو یہ ہے کہ عورت کو مرد کے حقوق چاہییں لیکن ذمہ داریاں نہیں اور وہاں مذہب یاد آ جاتا ہے۔ تو یہ منافقت چھوڑ دو۔ چینلز پر عورتوں کی گفتگو دیکھ لیں، انہوں نے مرد کے بارے ایک غصہ، بغض اور نفرت عورت کے دل میں پیدا کر دی ہے۔ وہ بات شروع نہیں کرتیں کہ جیسے مرد پر پھںکار رہی ہوں۔ انہوں نے نوع مرد کو ظالم بنا دیا ہے کہ مرد تو ہوتا ہی ظالم ہے جبکہ مرد تو جوابا اس طرح بحث نہیں کر رہا کہ نوع عورت ایسی ہے۔ وہ تو دو ٹکے کی عورت کی بات کر رہا ہے۔ تو عورت مرد کے تابع رہ کر جو حقوق حاصل کر سکتی ہیں، وہ تم اس کے خلاف کھڑا کر کے اسے نہیں دلوا سکتے۔ تو یہ مذہبی عورت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن عورتوں کی اکثریت کو یہ بات سمجھ نہیں آئے گی۔ اسی لیے تو ایک سندا صحیح حدیث میں ہے کہ دجال کے ساتھ یا تو یہودی ہوں گے یا پھر عورتیں۔