یہ مان لینا بہت ضروری ہے کہ مسلم معاشروں میں لوئر کلاس میں عورت کی عزت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس طبقے کی عورت مظلوم ہے، ظلم سہتی ہے، مار کھاتی ہے، گالیاں سنتی ہے، مزدوری کر کے اپنے مردوں کو کھلاتی ہے، مردوں کے لیے ایک خادمہ ہے، چاہے وہ ماں ہو، بیٹی ہو، بہن ہو یا بیوی۔ ان مظلوم عورتوں کے حق میں آواز بلند کرنا جہاد کے مترادف ہے اور اسلامی تحریکوں اور مذہبی طبقات کی یہ دینی ذمہ داری ہے کہ ایسی این۔جی۔اوز (NGO’s) بنائیں جو اس مظلوم عورت کی داد رسی کر سکیں۔

رہی مردوں کی مڈل کلاس تو وہ ماں کے صدقے وارے جاتی ہے، بیٹی پر جان چھڑکتی ہے، بہن کا حصہ کھانا چاہتی ہے اور بیوی کو فریق مخالف سمجھ کر دباتی ہے۔ اس طبقے میں بہنوں اور بیویوں کے حقوق کسی قدر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا ذریعہ مردوں کے لیے ایسی تربیتی ورکشاپس کا انعقاد ہے کہ جن میں ان کے رویوں کی اصلاح کی جا سکے۔ اس طبقے میں بیوی اپنے مرد کو پورا پڑنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس کے نتیجے میں زیادہ مار کھاتی ہے۔ یہاں مار کھانا نقصان اٹھانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

رہی بات ہائر کلاس کی تو وہاں مرد مظلوم ہے۔ اس کے لیے اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو مردوں کے حقوق کے تحفظ Men Rights کی کوئی این۔جی۔او بنا لیں۔ اور عجب تماشا یہ ہے کہ حقوق نسواں کی تحریکیں چلانے والی ساری خواتین اسی طبقے سے ہیں۔ یہ تینوں تقسیمات ایک عمومی مشاہدے کے تحت کی گئی ہے یعنی ان میں استثناءات (exceptions) ہو سکتے ہیں۔

نوٹ: اس طبقے میں مرد کو بھی اور عورت کو بھی عورت کے ظلم سے بچانے کی ضرورت ہے۔ اگر عورت مارچ کرنا ہے تو اس طبقے کی خواتین کے گھروں میں کام کرنے والی میڈز کا کروایا جائے کہ انہیں ان کی مالکائیں کتنے حقوق دیتی ہیں۔