ازدواجی مسائل پر وقتا فوقتا لکھتا رہتا ہوں تو میاں بیوی دونوں میں سے کوئی ایک رابطہ کرتے رہتے ہیں اور اپنے مسائل میں مشورہ بھی چاہ رہے ہوتے ہیں۔ تو جو سمجھ میں آتا ہے، عرض کر دیتا ہوں۔ لیکن میں اکثر میاں بیوی کو کہتا ہوں کہ اگر مسئلے کا حل چاہتے ہیں تو دونوں رابطہ کریں اور ایک ساتھ کریں۔ صحیح بات اسی وقت سامنے آتی ہے جب دونوں طرف سے سنی جائے۔ اور مسائل بھی اسی وقت صحیح طور حل ہو پاتے ہیں جب آپ دونوں کو سمجھنے کے بعد دونوں کو ہی کچھ مشورہ ایک ساتھ دیں کہ مسائل دونوں نے پیدا کیے ہیں تو دونوں کے حل کرنے سے حل ہوں گے۔ ایک کے ولی اللہ بننے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھ جاتے ہیں۔

تو میاں بیوی کے اختلاف میں ایٹی چیوڈ پرابلم ایک طرف نہیں ہوتا، دونوں طرف ہوتا ہے۔ ایک کاؤنسلر کا کام یہ ہے کہ دونوں طرف کی بات سن کر دونوں کو کچھ مشورہ دے دے کہ جس سے ان کی گاڑی آگے چل سکے۔ میاں بیوی میں سے اکثر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پارٹنر سے اختلاف میں ہمدردی چاہ رہے ہوتے ہیں اور ان سے ہمدردی کرنے میں کوئی ایشو بھی نہیں ہوتا۔ ہمدردی چاہنے کا مطلب یہ ہے کہ کاؤنسلر اس کا قائل ہو جائے کہ میرا پارٹنر غلط ہے اور میں درست ہوں۔ یہ بات بھی جزوی طور درست ہو سکتی ہے کہ کسی معاملے میں پارٹنر غلط ہو اور آپ درست ہوں۔

لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دونوں طرف کی لڑائی اور اختلاف میں اگر معاملہ طلاق اور علیحدگی تک پہنچا ہے تو اب دونوں طرف کچھ مسائل ہیں۔ لہذا دونوں طرف کے مسائل جب تک ایڈریس نہیں ہوں گے، مسائل حل نہیں ہوں گے۔ میں تو کہہ دوں گا کہ آپ کا شوہر بڑا ظالم ہے یا آپ کی بیوی بہت زیادتی کرتی ہے، اس سے آپ کو وقت طور سکون بھی مل جائے گا کیونکہ آپ کو ایک حمایت مل گئی لیکن اس سے آپ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ تو میاں بیوی دونوں اپنے خاندان میں اپنی حمایت ڈھونڈنے یا اپنے آپ کو مظلوم منوانے میں ہی لگے رہتے ہیں کہ جس سے ان کو وقتی ذہنی سکون مل جاتا ہے لیکن مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔

تو اگر مسائل حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمدردی لینے پر اکتفا نہ کریں بلکہ مسائل کو متعین کریں کہ وہ ہیں کیا، اور پھر ان کا حل تلاش کریں، اور پھر اس کے لیے کوشش کریں۔ کہنے کو تو میں بھی کہہ دوں گا کہ آپ کا شوہر بڑا ظالم ہے، آپ کی بیوی بہت بری ہے، لیکن ایسا کہنے سے آپ کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ آپ کو صرف ذہنی سکون ملا ہے اور وہ بھی وقتی۔ اور لائف پارٹنر اسی ذہنی سکون کو ہی مسئلے کا حل سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن سال دو سال بعد معلوم پڑتا ہے کہ مسئلہ تو حل نہیں ہوا اور پین بھی وہیں موجود ہے۔ تو ہمدردی ایک پین کلر ہے لیکن مسئلے کا حل نہیں یعنی بیماری اس سے ختم نہیں ہوتی۔ اور یہ ماڈرن سائیکالوجی والے میرج کاؤنسلنگ نہیں کر سکتے، بالکل بھی نہیں کر سکتے۔ ان کے پاس وقت اور پیسہ برباد کرنے کی ضرورت نہیں۔ میرج کاؤنسلنگ ایک مربی کر سکتا ہے۔

تو اگر اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں تو کسی تیسرے کے پاس چلیں جائیں اور دونوں اس کے سامنے اپنے مسائل رکھیں۔ بعض پارٹنرز کو میں مشورہ دیتا ہوں کہ اگردونوں کسی کے پاس نہیں جا سکتے تو تین افراد میاں بیوی اور تیسرا کاؤنسلر کا ایک واٹس ایپ گروپ بنا لیں۔ ازدواجی مسائل حل کرنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ کسی ایسے تیسرے کی رہنمائی لے لیں کہ جس پر دونوں کا اعتماد ہو۔ اور دونوں اس پر متفق ہوں کہ جو وہ مشورہ دیں گے ہم اس پر عمل کریں گے تا کہ ہماری گھریلو زندگی بہتر ہو جائے۔ یہ کاؤنسلر تھرڈ پرسن ہو، سمجھدار ہو اور بڑی عمر کا ہو۔