خوابوں میں ہم جس دنیا کی سیر کرتے ہیں، اس دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ کیا وہ ہمارے اپنے نفس کی تخلیق کردہ دنیا ہوتی ہے یا ہم واقعی میں کسی دوسری دنیا parallel world میں پہنچ جاتے ہیں۔ تو بعض اوقات ہم اپنے لا شعور کی دنیا میں ہی گھوم رہے ہوتے ہیں اور جن کرداروں (characters) سے ہماری ملاقات ہوتی ہے، وہ ہمارے لا شعور کے تخلیق کردہ کردارہی ہوتے ہیں اور ایسا ان خوابوں میں ہوتا ہے جو کہ نفسی ہوں۔اور بعض اوقات ہم جن کرداروں سے ملاقات کرتے ہیں، وہ اپنی حقیقت رکھتے ہیں، وہ ہمارے لا شعور کی تخلیق نہیں ہوتے جیسا کہ خوابوں میں جنات اور شیاطین کا آنا،ان سے ملاقات کرنا، ان کی طرف سے اذیت کا ملنا، نہ صرف مذہب سے ثابت ہے بلکہ مشاہدے اور تجربے کی دلیل سے بھی ثابت ہے۔ اسی طرح نیک لوگوں کے خوابوں میں فرشتے آتے ہیں جو انہیں خوشخبری دیتے ہیں جیسا کہ ہم خواب میں انبیاء، صحابہ کرام، اپنے آباء واجداد میں سے فوت شدگان سے ملاقات کرتے ہیں اور بعض اوقات یہ ملاقات واقعتاً ان سے ہی ہوتی ہے لیکن یہ کس دنیا میں ہوتی ہے، عالم برزخ میں کہ ہماری ارواح سوتے میں ان کی چڑھ جاتی ہوں، یا اسی دنیا میں کہ فوت شدگان کی ارواح یہاں مادی دنیا میں اتر آتی ہوں، اس بارے کوئی حتمی رائے دینا مشکل ہے۔ البتہ یہ احساس بیان کیا جا سکتا ہے کہ خوابوں میں جن حقیقی کرداروںسے ہماری ملاقات ہوتی ہے، وہ کبھی اس دنیا میں،اور کبھی کسی اور دنیا میں ہوتی ہے۔ اور اُس دنیا کی حقیقت خوابوں پر سائنسی تحقیق کے ذریعے معلوم کرنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے۔
ایک خوابوں کی تعبیر کا علم ہے، یہ علیحدہ سے ایک مستقل علم ہے کہ جس کی ایک تاریخ ہے۔اور ایک علم خوابوں کے سائنسی مطالعے (oneirology) پر مشتمل ہے کہ جس میں خواب کے میکانزم کو ڈسکس کیا جاتا ہے۔ لیکن خوابوں کے سائنسی مطالعے میں دماغ کی اسٹڈی کو فوکس کیا جاتا ہے۔ اور خوابوں کا یہ سائنسی مطالعہ خواب کی ایک قسم یعنی نفسی مطالعے کے تجزیے کے لیے مفید ہے۔ رہی خواب کی دوسری اور تیسری قسم کہ جس میں شیطان یا فرشتہ شامل (involve) ہو تو اس کا تعلق انسان کی روح سے ہوتا ہے جو کہ سوتے میں انسان کے جسم سے نکل جاتی ہے اور اب اس کا سامنا (interaction) کبھی کسی شیطان اور کبھی کسی فرشتے سے ہوتا ہے یا کسی فوت شدہ انسان سے بھی ہو جاتا ہے۔ خواب کی ان قسموں کے سائنسی مطالعے کے لیے روح کے علم پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔ قدیم مصادر میں امام ابن قیم الجوزیہ کی کتاب الروح اور جدید مصادر میں نبیلہ نازلی کی علم الانسان کی اس موضوع پر اچھی کتب ہیں کہ جن سے اس موضوع پر تحقیق کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ نبیلہ نازلی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی اس کتاب کو مرتب کرنے میں سترہ سال لگائے ہیں۔ دونوں کتب کو گوگل کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں کتابوں میں محض اقوال کو جمع کیا گیا ہے یعنی بنیادی طور یہ اس حوالے سے جمع و تدوین کا کام ہے نہ کہ کسی قسم کا تخلیقی کام کہ جس میں خوابوں کے بارے کوئی اصولی کام پیش کیا گیا ہو یا کسی قسم کی تھیورائزیشن کی گئی ہو۔البتہ ابن سیرین کتاب الرؤیا میں کچھ اصولی کام موجود ہے لیکن خوابوں کو سمجھنے کے ان کلاسیکل اصول و ضوابط میں سے اب بہت سے تہذیب و تمدن کے ارتقاء و تبدیلی سے غیر متعلق ہو کر رہ گئے ہیں۔
جدید سائنسی تحقیق کے مطابق انسان کی نیند کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ ایک وہ کہ جسے این۔آر۔ای۔ایم (Non-Rapid Eye Movement) اور دوسری وہ کہ جسے آر۔ای۔ایم Rapid Eye Movement والی نیند کہتے ہیں۔ پہلی نیند کو پھر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن ہم ان کی تفصیل میں نہیں جا رہے البتہاس کا دورانیہ کوئی 90 منٹس ہوتا ہے بلکہ یہ 90 منٹس کے چکر ہوتے ہیں جو وقفے وقفے سے آتے رہتے ہیں۔اس نیند میں انسان کے قلب کی حرکت آہستہ ہو جاتی ہے اور انسان کی آنکھیں جھپکتی نہیں ہیں ۔ تو انسان کے سو جانے کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد آر۔ای۔ایم (REM) شروع ہو جاتی ہے جو نیند کا دوسرا مرحلہ ہے اور یہ تقریباً دس منٹس تک جاری رہتا ہے۔ اور دس منٹس بعد پھر این۔آر۔ای۔ایم (NREM) شروع ہو جاتی ہے جو 90منٹس تک جاری رہتی ہے۔ پھر اس ڈیڑھ گھنٹے کے بعد آر۔ای۔ایم (REM) آتی ہے جو دس سے بیس منٹس تک رہتی ہے۔ اس طرح نیند کے چکر (cycles) چلتے رہتے ہیں۔ اور اسی یعنی آر۔ای۔ایم (REM) کی نیند میں ہی انسان خواب دیکھتا ہے۔ اس نیند میں انسان کی حرکت قلب اور سانس کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور دماغ کی ایکٹوٹی بھی اپنے ہائیسٹ لیول پر ہوتی ہے۔ یہ نیند انسان کو نصیب ہو جائے تو اس کی نیند پوری ہو جاتی ہے۔ بچوں کی کل نیند کا یہ 50فی صد جبکہ بڑوں کی کل نیند کا 20 فی صد ہوتی ہے۔ تو ماڈرن سائیکالوجی کے مطابق خوابوں کے کردار اور دنیا انسان کے شعور کی تخلیق ہیں۔ اور خوابوں کی وجہ کبھی انسان کے خیالات بن جاتے ہیں اور کبھی جذبات۔
خیر اب تو اس ساری سائنسی تحقیق کا رخ ایک نقطے کی طرف مڑ گیا ہے کہ انسان اپنی مرضی کے خواب کیسے دیکھ سکتا ہے۔ اب ساری بحث اس پر ہو رہی ہوتی ہے کہ میں اگر اپنے محبوب کو خواب میں دیکھنا چاہوں تو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ میں اگر خواب میں یہ یہ دیکھنا چاہوں تو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ اور پہلے تو صرف تجاویز ہوا کرتی تھیں کہ جو آپ نے خواب میں دیکھنا ہے تو رات سونے سے پہلے اسے اچھے سے سوچنا شروع کر دیں تو ممکن ہے کہ وہ خواب میں آ جائے۔ لیکن اب تو ایسی مشینیں ایجاد ہو چکی ہیں جو آپ کو آپ کی مرضی کے خواب دکھلا سکتی ہیں۔ لیکن یہ سب وہ ہے جو نفس کے خواب کے تجربات ہیں۔ اور خواب کا بڑا تجربہ وہ ہے جو روح کو جسم سے نکلنے کے بعد ہوتا ہے۔ تو نیند کی حالت میں اکثر روح جسم سے نکل جاتی ہے جبکہ کچھ باقی رہ جاتی ہے۔ جو جسم میں باقی رہ جاتی ہے تو یہ بھی خواب دیکھتی ہے اور اس کے خواب کا مصدر انسان کا نفس ہوتا ہے۔ اور جو روح جسم سے نکل جاتی ہے تو وہ بھی خواب دیکھتی ہے۔ اور یہ وہ روح ہوتی ہے جو کسی دوسری دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔ اس لیے اس کا خواب کا تجربہ بڑا ہوتا ہے۔ جو روح جسم سے نکل جاتی ہے تو پھر ان میں سے کچھ روحیں نیک ہوتی ہیں یعنی انہیں ضبط نفس حاصل ہوتا ہے تو وہ اوپر تک چلی جاتی ہیں۔ اور جو روحیں نیک نہیں ہوتیں اور انہیں ضبط نفس حاصل نہیں ہوتا تو وہ نیچے ہی کہیں رہ جاتی ہیں۔
اسے رسول اللہ کے بیان میں یوں کہا گیا ہے کہ خواب کا مصدر کبھی انسان کا نفس ہوتا ہے۔ اور نفس میں خیالات اور جذبات دونوں ہی شامل ہیں کیونکہ نفس ، انسان کی روح کو اس وقت کہتے ہیں جبکہ وہ جسم میں موجود ہو یعنی جب وہ جسم انسانی کی کثافت میں لتھڑی ہوتی ہے۔اور جب روح انسان کے جسم سے نکل کر علیحدہ ہو جاتی ہے تو اسے روح کہا جاتا ہے۔ اب یہ مکمل طور ایک لطیف شیء ہے۔ نیند میں بھی روح جسم سے نکل جاتی ہے لیکن اپنی جڑیں جسم میں چھوڑ جاتی ہے جبکہ موت کے وقت جب روح نکلتی ہے تو مکمل طور نکل جاتی ہے۔ اور اس طرح سے جب روح جسم سے نکلے تو پھر جسم میں واپس نہیں آتی ہے۔ اور نیند کی حالت میں جو روح نکل جاتی ہے تو اب اس کی ملاقات مختلف کرداروں سے ہوتی ہے۔ کبھی وہ کردار انسان کے باطن میں موجود ہوتے ہیں یعنی انسانی ذہن کے اپنے تخلیق کردہ ہوتے ہیں اور کبھی ان کا تعلق خارجی دنیا سے ہوتا ہے یعنی فرشتے، شیطان اور فوت شدگان سے انسان کی روح کی ملاقات ہوتی ہے۔ تو موت کے وقت جو روح تو اوپر آسمانوں کی طرف چڑھ گئی ہے جیسا کہ مسند احمد کی ایک روایت میں نیک روح کے بارے یہی بیان موجود ہے کہ اس کے لیے ساتوں آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اس کی اللہ سے ملاقات ہوتی ہے تو پھر وہ اگر خواب میں آئے تو غالب گمان یہی ہے کہ ہماری روح اس کی طرف چڑھی ہے کیونکہ وہ نیچے اس دنیا میں نہیں آ سکتی۔ اور جو روح کافر کی ہے تو وہ یہیں زمین میں بھٹکتی پھرتی ہیں جیسا کہ مسند احمد ہی کی روایت میں ہے کہ خبیث روح کے لیے آسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جاتے ہیں۔ یہ روحیں موت کے بعد انسان کے خواب میں آئیں تو امکان ہے کہ اسی دنیا میں ان سے ملاقات ہوئی ہو۔