یہ زمانہ فتنوں کا زمانہ ہے، آئے دن کسی نہ کسی نئے فتنے کا ظہور ہوتارہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ اس دنیا کو ’دارالابتلا‘ بنایا ہے، اس لیے یہ تو ممکن نہیں ہے کہ دنیا سے شر بالکل ختم ہو جائے۔ اگر ایک برائی اپنے انجام کوپہنچے گی تو اس کی جگہ دوسری برائی لے لے گی، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ کسی بھی باطل یاشر کو دوام نہیں بخشتے۔ دوام، ہمیشگی، تسلسل اور بالآخر غلبہ، چاہے وہ دلیل کی بنیاد پر ہو یا قوت کی بنیاد پر، صرف حق ہی کے لیے ہے۔
اُمت ِمسلمہ کی تاریخ میں اہل سنت کے بالمقابل ہر دور میں فرقِ باطلہ اپنے گمراہ کن نظریات پھیلاتے رہے، لیکن ہر گروہ یا تو اپنی طبعی عمر گزارنے کے بعد مر گیا اور اس کا نام صرف کتابوں میں باقی رہ گیا جیسا کہ ’خوارج و معتزلہ‘ وغیرہ ہیں یا وہ دلیل و برہان کے میدان میں اہل سنت سے مغلوب ہو گیااور اس کی نشوونما رُک گئی جیسا کہ ’یہود و نصاریٰ‘ ہیں یا اُمت ِمسلمہ نے اسے اپنے وجود سے کاٹ کر علیحدہ کر دیا جیسا کہ ’قادیانی‘ ہیں ۔
عصر حاضر کی آزمائشوں میں سے ایک بڑی آزمائش وہ تجدد پسند دانشور ہیں جو ائمہ سلف کے بالمقابل علومِ اسلامیہ میں ان جیسا ’رسوخ فی العلم‘ تونہیں رکھتے لیکن اس کے باوجودسلف صالحین کی تحقیق پر اپنی جہالت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ان ’اہل علم‘ میں بعض وہ بھی ہیں جو براہِ راست تو احادیث کا انکار نہیں کرتے، لیکن جو احادیث بھی ان کو اپنی عقل و فکر سے متعارض نظر آئیں ، ان کی تَضعِیف کے لیے نت نئے اُصول وضع کر لیتے ہیں جیسا کہ بعض معاصر علما نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی بعض ایسی احادیث کو ضعیف یا موضوع قرار دے دیا، جن کے صحیح ہونے پر ائمہ سلف کا اتفاق ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے ان ناقدین میں زیادہ جری تو سرسید احمد خان، غلام احمد پرویز، عبد اللہ چکڑالوی ، مولوی چراغ علی، علامہ تمنا عمادی، علامہ عنایت اللہ مشرقی، مولانا حبیب الرحمن کاندھلوی، مولانا حبیب اللہ ڈیروی، جاوید احمد غامدی اور شبیر ازہر میرٹھی وغیرہ ہیں تا ہم متاثرین میں سید جمال الدین افغانی
، مفتی محمد عبدہ
، مولانا عبید اللہ سندھی
، مولانا محمد اسحق سندھیلوی
(صدیقی ندوی)مولانا مودودی
، علامہ اسد
، علامہ اقبال
جیسے دفاعِ حدیث کرنے والے بھی شامل ہیں ۔
بخاری و مسلم کی احادیث کی تضعیف کا یہ فتنہ اس حدتک آگے بڑھا کہ ہر دوسرا شخص جو عربی زبان کے دو چار لفظ پڑھ لیتا ہے، بخاری و مسلم کی احادیث کے بارے میں رائے دینے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔
اب تو بخاری و مسلم کی احادیث کی تضعیف کا یہ فتنہ اس حدتک آگے بڑھ گیا ہے کہ ہر دوسرا شخص جو عربی زبان کے دو چار لفظ پڑھ لیتا ہے، بخاری و مسلم کی احادیث کے بارے میں رائے دینے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی بعض روایات پر خود ائمہ سلف میں سے بعض اہل علم نے نقد کی ہے، اس لیے یہ عقیدہ رکھنا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کا ایک ایک شوشہ بھی قطعی طور پر صحیح ہے اور اس کی صحت پر اجماع ہے، ایک قابل اصلاح عقید ہ ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ فکر بھی غلط ہے کہ صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں ضعیف روایات بھی ہیں ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم پر ائمہ سلف کی نقد اور ان ہی میں سے بعض کی طرف سے اس کے جوابات آنے کے بعد ان کتابوں کی قدر وقیمت اور منزلت بہت بڑھ گئی ہے اور یہ نقد اس درجے کی نہیں ہے کہ اس سے صحیحین کی کسی روایت کا ضعف ثابت ہوتا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ اس نقد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحیحین کی ایسی زیر نقد روایات صحت کے اس درجے کو نہیں پہنچتی کہ جس کا امام بخاری
اور امام مسلم
نے اپنی کتابوں میں التزام کیا ہے۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم کی مسلمہ احادیث کو دوسری کتب ِسنن کی صحیح احادیث پر کئی اعتبار سے فضیلت حاصل ہے، اس لیے کہ صحیحین کی تمام احادیث الخبر المُحتف بالقرائن(جس کی تصدیق قرائن بھی کرتے ہوں ) کی قبیل سے ہیں ، کا درجہ عام خبر ِواحد(جسے روایت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ (متواتر) نہ ہو) سے بڑھ کر ہے۔ حافظ ابن حجر
لکھتے ہیں :
والخبر المحتف بالقرائن أنواع: منھا ما أخرجه الشیخان في صحیحیھما مما لم یبلغ حد التواتر فإنه أحتف به قرائن: منھا جلالتھما في ھذا الشأن وتقدمھما في تمییز الصحیح علی غیرھما وتلقي العلماء لکتابیھما بالقبول
[۱]
الخبر المحتف بالقرائن کی کئی اقسام ہیں :ان میں ایک وہ ہے جسے امام بخاری
اور امام مسلم
نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہو اور وہ تواتر کی حد کو نہ پہنچی ہو۔ایسی خبر واحد کے ساتھ بہت سے قرائن ملے ہوتے ہیں : جن میں ایک فنِ حدیث میں امام بخاری
و امام مسلم
کا عظیم المرتبت ہونا ہے۔ دوسرا، ان حضرات کو صحیح احادیث کو ضعیف سے الگ کر کے بیان کرنے میں باقی ائمہ پر فوقیت حاصل ہے۔ تیسراان کی کتب کو علما کی طرف سے تلقی بالقبول
[ج]
(مقبولیت عامہ) حاصل ہے۔
کیاصحیح بخاری و صحیح مسلم کی تمام روایات صحیح ہیں ؟
امام بخاری
اور امام مسلم
دونوں کا اپنی صحیحین کے بارے میں دعویٰ یہ ہے کہ ان کی صحیحین میں موجود تمام روایات صحیح حدیث کے درجے کو پہنچتی ہیں ۔
امام بخاری اپنی کتاب صحیح بخاری کے بارے میں فرماتے ہیں :
ما أدخلت في ھٰذا الکتاب إلا ما صحَّ
[۲]
میں نے اپنی اس کتاب میں صرف صحیح روایات ہی کو بیان کیا ہے۔
ما أدخلت في الصحیح حدیثًا إلا بعد أن استخرت اﷲ تعالی وتیقَّنتُ صحَّتَه
[۳]
میں نے اپنی ’صحیح‘ میں کوئی حدیث اس وقت تک نہیں لکھی جب تک میں نے اللہ سے استخارہ نہیں کر لیا اور مجھے اس حدیث کی صحت کا یقین نہیں ہو گیا۔
ما أدخلت في کتابِي الجامع إلامَاصَحَّ
[۴]
میں نے اپنی کتاب ’الجامع‘ میں صرف صحیح احادیث ہی بیان کی ہیں ۔
امام مسلم اپنی کتاب صحیح مسلم کے بارے میں فرماتے ہیں :
لیس کل شيء عندي صحیح وضعتُه ھٰھنا، إنما وضعت ھٰھنا ما أجمعوا علیه
[۵]
میں نے ہر صحیح حدیث اپنی کتاب میں بیان نہیں کی بلکہ میں نے اس کتاب میں وہ حدیث بیان کی ہے کہ جس کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔
عرضت کتابي ھذا (المسند) علی أبی زرعة فکل ما أشار علی في ھذا الکتاب أن له علة وسببًا ترکتُه، وکل ما قال: إنه صحیح لیس له علة فھو الذي أخرجتُ
[۶]
میں نے اپنی کتاب (معروف نقاد محدث) ابو زرعہ
پر پیش کی تو اُنہوں نے میری اس کتاب میں جس حدیث کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اس میں کوئی ضعف کا سبب یا علت ہے تو میں نے اس حدیث کو چھوڑ دیا اور جس کے بارے میں بھی اُنہوں نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی علت (خفی کمزوری) نہیں ہے تو اسکو میں نے اپنی اس کتاب میں بیان کیا ہے۔
إنَّما أخرجتُ ھٰذا الکتاب وقلتُ: ھو صحاح ولم أقل أن ما لم أخرجه من الحدیث في ھذا الکتاب ضعیفٌ ولکن إنما أخرجتُ ھٰذا من الحدیث الصحیح لِیَـکون مجموعًا عندي وعند من یکتبه عني فلایرتاب في صحتھا
[۷]
میں نے تو صرف یہی کتاب لکھی ہے اور اس کو صحیح کا نام دیا ہے اور میں یہ نہیں کہتا کہ جس حدیث کو میں نے اپنی اس کتاب میں بیان نہیں کیا، وہ ضعیف ہے۔ میں نے تو اس کتاب میں صحیح احادیث کا ایک حصہ بیان کیا ہے تاکہ خود میرے اور مجھ سے آگے نقل کرنے والوں کے لیے ایک صحیح احادیث کا مجموعہ تیار ہو سکے جس کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہ ہو۔
امام ابو عبد اللہ حمیدی (بخاری ومسلم کے استاذ حدیث )فرماتے ہیں :
لم نجد من الأئمة الماضین من أفصح لنا في جمیع ما جمعه بالصحة إلا ھذین الأمامین
[۸]
ہم نے پچھلے ائمہ میں سے، امام بخاری
و امام مسلم
کے علاوہ کسی ایک کو بھی ایسا نہیں پایا کہ جس نے یہ وضاحت کی ہو کہ اس کی تمام جمع کردہ روایات صحیح ہیں ۔
کیا صحیح بخاری و صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے؟
بعض محدثین کا یہ دعویٰ ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔
ابن الصّلاح (متوفی643ھ) کہتے ہیں :
جمیع ما حَکَمَ مسلمٌ بصحَّته من ھٰذا الکتاب فھو مقطوع بصحته والعلم النظري حاصل بصحته في نفس الأمر وھٰکذا ما حَکَمَ البخاري بصحته في کتابه وذلك لأن الأمة تلقَّتْ ذلك بالقبول سوٰی من لا یعتد بخلافه ووفاقه في الإجماع
[۹]
وہ تمام احادیث جن کو امام مسلم
نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے، ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں (حتمی)علم نظری حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے جن کو امام بخاری
نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اُمت کے نزدیک ان کتابوں کو ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہے، سواے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اِجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
معروف محدث شیخ ابو اسحاق اسفرائینی
نے بھی اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں اور ان سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
الأستاذ أبو إسحق الإسفرائیني فإنه قال: أھل الصُّنعة مجمَّعُون علی أن الأخبار التي اشتمل علیھا الصحیحان مقطوع بھا عن صاحب الشرع وإن حصل الخلاف في بعضھا فذٰلك خلاف في طُرُقھا ورُوَاتھا
[۱۰]
اُستاذ ابو اسحق اسفرائینی
نے کہا:اہل فن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں جو احادیث موجود ہیں ، وہ قطعیت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ، اگر ان میں موجود بعض روایات میں اختلاف ہے تو یہ ان احادیث کے طرق اور راویوں کے بارے میں اختلاف ہے۔ (اگرچہ ان احادیث کی روایت دوسرے طرق سے مسلم ہو جاتی ہے)۔
امام الحرمین جوینی فرماتے ہیں :
لو حَلَف إنسان بطلاق امرأته أن ما في کتابي البخاري ومسلم ممَّا حَکَمَا بصحته من قول النبيﷺ لما ألزمته الطلاق ولا حنثته لإجماع المسلمین علی صحتھما
[۱۱]
کوئی شخص یہ قسم اُٹھا لے کہ اگر صحیح بخار ی و صحیح مسلم کی تمام روایات صحیح نہ ہوں تو اس کی بیوی کو طلاق ہے، تو ایسی صورت میں اس کی بیوی کو نہ تو طلاق ہو گی اور نہ وہ شخص ’حانث‘ (قسم توڑنے والا)ہو گا کیونکہ مسلمانوں کا صحیح بخار ی و صحیح مسلم کی صحت پر اجماع ہے ۔
ابو نصر سجزی فرماتے ہیں :
أجمع أھل العلم الفقهاء و غیرھم أن رجلا لوحلف بالطلاق أن جمیع ما في کتاب البخاري مما رُوِی عن النبيﷺ قد صح عنه ورسول اﷲ ﷺ قالہ لا شک فیه أنه لا یحنث و المرأة بحالھا في حبالته
[۱۲]
تمام اہل علم فقہاوغیرہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اس بات پر حلف اٹھا لے کہ جو کچھ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کردہ روایات موجود ہیں ، وہ آپؐ ہی سے ثابت ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ آپ ؐ ہی کے فرامین ہیں ، تو ایسا شخص حانث نہ ہو گا اور عورت اس کے عقد میں ہی باقی رہے گی۔
علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں :
وجاء محمد بن إسمٰعیل البخاري إمام المحدثین في عصرہ فخرج أحادیث السنة علی أبوابھا في مسندہ الصحیح بجمیع الطرق التي للحجازیین والعراقیین والشامیین واعتمدوا منھا ما أجمَعوا علیه دون ما اختلفوا فیه۔۔۔ ثم جاء الإمام مسلم بن الحجاج القشیري فألَّف مسندہ الصحیح حذا فیه حذو البخاري في نقل المجمع علیه
[۱۳]
اس کے بعد امام محدثین محمد بن اسمٰعیل بخاری
اپنے زمانے میں سامنے آئے۔ اُنہوں نے اپنی صحیح مسند میں احادیث کو ابواب کی ترتیب پر بیان کیا اور اپنی کتاب میں حجازیوں ، عراقیوں اور شامیوں کے ان طرق سے احادیث کو نقل کیا جن پر ان کا اجماع تھااور جن طرق میں اختلاف تھا ان کو نہ لیا۔۔۔ پھر امام مسلم بن حجاج قشیری
آئے، اُنہوں نے صحیح مسند میں امام بخاری
کے طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے صرف انہی احادیث کو بیان کیا جن کی صحت پر اجماع تھا۔
امام شوکانی فرماتے ہیں :
فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقه بالقبول المجمع علی ثبوته وعند ھذہ الإجماعات تندفع کل شبھة وتزول کل تشکیك
[۱۴]
اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کی تمام احادیث کا صحیح ہونااُمت میں ان کتابوں کے ’تلقی بالقبول‘ سے ثابت ہے اور اس ’تلقی بالقبول‘ کے ثابت ہونے پر اجماع ہے ۔ اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور شک دور ہو جاتا ہے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی صحیحین کی صحت پر اجماع نقل کیا ہے ۔ فرماتے ہیں :
أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع وأنھما متواتران إلی مصنفیھما وأنه کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین
[۱۵]
جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ جو بھی متصل مرفوع احادیث صحیحین میں موجود ہیں ، وہ قطعاًصحیح ہیں اور ان دونوں کتابوں کی سند اپنے مصنّفین تک متواتر ہے اور جو کوئی بھی ان کتابوں کی قدر و قیمت کم کرنا چاہتا ہے، وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔
تحفة الاحوذی کے مؤلف علامہ عبد الرحمن مبارکپوری بھی شاہ ولی اللہ کے الفاظ دہراتے ہیں :
أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع وأنھما متواتران إلی مصنفیھما وأنه کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین
[۱۶]
جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جتنی متصل مرفوع احادیث موجود ہیں ، وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنّفین تک متواتر ہیں اور جو کوئی بھی ان دونوں کتابوں کا درجہ کم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔
معروف دیوبندی عالم مولانا سرفراز خان صفدر لکھتے ہیں :
بخاری و مسلم کی جملہ روایات کے صحیح ہونے پراُمت کا اجماع واتفاق ہے۔ اگر صحیحین کی ’معنعن‘ حدیثیں صحیح نہیں تو اُمت کا اتفاق اوراجماع کس چیز پرواقع ہواہے جبکہ راوی بھی سب ثقہ ہیں ۔
[۱۷]
پس معلوم ہوا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی جمیع روایات کی صحت پر ائمہ محدثین کا اتفاق ہے اور یہ اتفاق ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی اجتہادی مسئلے میں فقہا کا اتفاق ہوتا ہے۔ اور یہ بات واضح رہے کہ کسی حدیث کی تصحیح یا تضعیف میں محدثین کا اجماع ہی معتبر ہو گا اور اس میں کسی فقیہ کی مخالفت سے اجماع کا دعویٰ متاثر نہ ہوگا، جس طرح کے کسی فقہی مسئلے میں اصل اعتبار فقہا کے اتفاق کا ہو گا اور کسی محدث کے اختلاف سے اجماع ختم نہیں ہو گاکیونکہ ہر فن میں اہل فن کا ہی اتفاق و اجماع معتبر ہو تا ہے۔
کیا صحیحین کی بعض روایات پر ا ئمہ سلف کی طرف سے تنقید ہوئی ہے ؟
صحیحین کی اکثر و بیشتر روایات وہ ہیں جن کی صحت پر ائمہ سلف میں سے کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا ۔ہاں چند ایک مقامات ایسے ہیں جن پر بعض محدثین نے نقد کیا ہے۔
امام ابن الصلاح فرماتے ہیں :
أن ما انفرد به البخاري أو مسلم مندرج في قبیل ما یقطع بصحته لتلقي الأمة کل واحد من کتابیھما بالقبول۔۔۔ سوٰی أحرف یسیرة تکلَّم علیھا بعض أھل النقد من الحفاظ کالدارقطني وغیرہ وھي معروفة عند أھل ھذا الشأن
[۱۸]
جس حدیث کو بھی امام بخاری
یا امام مسلم
نے اپنی کتاب میں روایت کیا ہے وہ قطعی طور پر صحیح ہے کیونکہ اُمت میں ان دونوں ائمہ کی کتب کو ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہے۔۔۔سواے چند کلمات کے جن پر بعض حفاظ مثلاً اما م دار قطنی
وغیرہ نے کلام کیا ہے اور یہ مقامات اہل فن کے ہاں معروف ہیں ۔
حافظ زین الدین عراقی (متوفی 806ھ)کے نزدیک صحیح بخاری و صحیح مسلم کے وہ مقامات جن پر تنقید ہوئی ہے وہ تھوڑے نہیں بلکہ زیادہ ہیں ، اپنی کتاب میں فرماتے ہیں :
أن ما استثناہ من المواضع الیسیرة قد أجاب عنھا العلماء أجوبة ومع ذلك فلیست بیسیرة بل ھي مواضع کثیرة وقد جمعتھا في تصنیف مع الجواب عنھا
[۱۹]
ابن الصلاح
نے ’تلقی با لقبول‘ سے جن چندمقامات کو مستثنیٰ قراردیا ہے ان کا بھی علماء نے (صحیح بخاری و صحیح مسلم کا دفاع کرتے ہوئے)جواب دیا ہے اور ایسے مقامات تھوڑے نہیں بلکہ کافی ہیں ، میں نے ان تمام مقامات کو جمع کرکے ان کا جواب بھی دیا ہے۔
امام ابن تیمیہ کے نزدیک صحیحین کی جن روایات پر بعض محدثین نے نقد کی ہے، ان میں سے صرف بیس روایات ایسی ہیں کہ جن پر کلام کی گنجائش تھی۔ امام ابن تیمیہ
لکھتے ہیں :
قد نظر أئمة ھذا الفن في کتابیھما ووافقوھما علی تصحیح ماصحَّحاہ إلا مواضع یسیرة نحو عشرین حدیثًا غالبھا في مسلم
[۲۰]
فن حدیث کے علما نے امام بخاری
و امام مسلم
کی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور اُنہوں نے ان دونوں کتابوں کی احادیث کی صحت پر ان حضرات کی تصحیح سے اتفاق کیا ہے، سوائے چند مقامات کے جو تقریباً بیس کے قریب روایات ہیں اور ان میں سے بھی اکثر صحیح مسلم میں ہیں ۔
نقاد فن علی بن مدینی ، امام احمد بن حنبل اور امام یحییٰ بن معین و غیرہم کے نزدیک صحیح بخاری میں صرف چارروایات معلول تھیں ۔حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
لما صنَّف البخاري کتاب الصحیح عرضه علی ابن المدیني وأحمد بن حنبل ویحیٰی بن معین وغیرھم فاستحسنوہ وشھدوا له بالصحة إلا أربعة أحادیث
[۲۱]
جب امام بخاری
نے اپنی ’صحیح‘ مکمل کر لی تو اُنہوں نے اس کتاب کو امام علی بن مدینی
، امام احمد بن حنبل،
امام یحییٰ بن معین
وغیرہ پر پیش کیا تو اُنہوں نے اس کتاب کو عمدہ کتاب قرار دیا اور سوائے چار احادیث کے باقی تمام روایات کی صحت کی توثیق کی۔
حافظ دارقطنی وغیرہم نے صحیحین کے تقریباً دو سو مقامات پر بعض اعتراضات وارد کیے ہیں ۔ نووی لکھتے ہیں :
قد استدرك جماعة علی البخاري ومسلم أحادیث أخلا بشرطھما فیھا ونزلت عن درجة ما التزماہ ۔۔۔ و قد ألَّف الإمام الحافظ أبو الحسن علي بن عمر الدارقطني في بیان ذلك کتابه المسمّٰی بالاستدراکات والتتبع وذلك في مائتي حدیث مما في الکتابین
[۲۲]
محدثین کی ایک جماعت نے صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی بعض ایسی روایات کو جمع کیا ہے جن میں دونوں اماموں نے اپنی اعلیٰ شرائط کا لحاظ نہیں رکھا اور ایسی روایات بھی اپنی کتب میں نقل کر دیں جو باعتبارِ صحت صحیحین کی عام روایات سے درجے میں کم ہیں ۔۔۔ حافظ علی بن عمر دارقطنی
نے اس موضوع پر الاستدراکات والتـتبُّع کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس میں اُنہوں نے صحیحین کی ایسی دو سو روایات کو جمع کیا ہے۔
حافظ ابن حجر کے نزدیک صحیح بخاری کے ایک سو دس مقامات ایسے ہیں جن پر امام دارقطنی وغیرہ نے نقد کی ہے ۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
وعدة ما اجتمع لنا من ذلك مما في کتاب البخاري وإن شارکه مسلم في بعضه مائة وعشرة أحادیث منھا ما وافقه مسلم علی تخریجه وھو اثنان وثلاثون حدیثًا ومنھا ما انفرد بتخریجه وھو ثمانیة وسبعون حدیثا
[۲۳]
اور صحیح بخاری میں ’ متکلم فیہ‘ روایات کی تعداد ایک سودس ہے کہ جن میں سے بتیس روایات ایسی ہیں جو صحیح مسلم میں بھی موجود ہیں اور اٹھہتر (۷۸) روایات ایسی ہیں جو صرف بخاری میں ہیں ۔
اوپر کی بحث سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ علما کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں تنقیدی مقامات کم ہیں یا زیادہ، ہمارے خیال میں یہ اختلاف لفظی ہے جن محدثین نے صحیحین کے تنقید شدہ مقامات کو بذاتہ دیکھا جیسا کہ حافظ عراقی
وغیرہ، تو اُنہوں نے ان کو مواضع کثیرة قرار دیا اور جن ائمہ نے متکلم فیہ مقامات کو صحیحین کی غیر متکلم فیہ روایات کی نسبت سے دیکھا تو اُنہوں نے ان مقامات کو مواضع یَسِیرة (چند)قرار دیا جیسا کہ حافظ ابن الصلاح
وغیرہ کی رائے ہے ۔
امام نووی
کے نزدیک صحیحین کی تقریباً ساڑھے بارہ ہزار روایات میں دو سو احادیث ایسی ہیں جن پر تنقید ہوئی ہے اور امام ابن تیمیہ
کے قول کے مطابق صحیحین کی تقریباً بیس روایات ایسی ہیں جن پر نقد صحیح ہوا ہے او ر ان میں سے بھی اکثر روایات صحیح مسلم کی ہیں ۔لہٰذا اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے کہ صحیحین کی کتنی احادیث یا مقامات پر تنقید ہوئی تو یہ احادیث یا مقامات مواضع کثیرةمعلوم ہوتے ہیں اور اگر دوسرے پہلو سے غور کیا جائے کہ ا یسی کتنی احادیث ہیں کہ جن پر نقد صحیح
(valid)
ہوئی ہے تو یہ مواضع یسیرة معلو م ہوں گی۔
صحیحین کی نقد شدہ احادیث کا درجہ کیا ہے؟
صحیحین پر امام دارقطنی
، ابو مسعود دمشقی
اور ابو علی غسانی
وغیرہم کی تنقید سے ان کتب کا رتبہ بہت بڑھ گیاہے، کیونکہ صحیحین پر جلیل القدر ائمہ محدثین کی تنقید کے بعد ان مقامات ا ور روایات کی وضاحت ہو گئی جن میں کوئی علت محسوس ہوتی تھی یا کسی علت کے پائے جانے کا امکان تھا۔صحیحین پر ہونے والی اس تنقید کا جواب امام نووی
نے شرح مسلم، حافظ ابن حجر
نے شرح بخاری اور اس کے علاوہ بہت سے علماے عظام نے مستقل اپنی کتابوں میں دیا ہے۔ صحیحین پر ہونے والی اس تمام تنقید اور اس کے جواب کے بعد ان دونوں کتب میں وہ مقامات متعین ہو گئے ہیں جن میں کوئی علل پائے جانے کا خیال تھااور ان علل کے درجہ کا تعین بھی ہو گیا ہے کہ وہ علل قادحہ ہیں یا نہیں ہیں ۔اب عصر حاضر میں کسی بھی عالم کے لیے یہ گنجائش باقی نہیں رہی کہ وہ صحیحین کی کسی ایسی روایت پر کلام کرے جس پر سلف نے کلام نہ کیا ہو، کیونکہ حافظ دارقطنی
وغیرہ کے کام سے یہ متعین ہو گیا کہ صحیحین میں صرف یہ مقامات ایسے ہیں جن میں کلام کی گنجائش موجود ہے۔ اب اگر کوئی شخص امام دارقطنی
یاائمہ سلف میں سے کسی اور محدث کی بیان کردہ تحقیقات کی روشنی میں صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی کسی حدیث پر نقد کرتا ہے تو اس کی یہ تنقیدصحیحین پر کوئی مستقل بالذات تنقید شمار نہ ہو گی اور ایسی تنقید کاائمہ سلف ہی میں سے بہت سے ائمہ نے کافی و شافی جواب دے دیا ہے ۔اور اگر کوئی شخص صحیحین کی کسی ایسی روایت پر تنقید کرتا ہے جس پر ائمہ سلف میں سے کسی نے بھی کلام نہ کیا ہو تو ایسا شخص اجماعِ محدثین کی مخالفت کر رہا ہے، کیونکہ جن روایات پر محدثین نے تنقید نہ کی تو اس سے یہ طے ہو گیا کہ تمام محدثین کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں لہٰذا ان روایات پر کلام کرنا جمیع محدثین کے دعوی صحت کو چیلنج کرنا ہے اور ایسا دعویٰ مردود ہے چہ جائیکہ اس کی تحقیق کی جائے۔
اب اس مسئلے کی طرف آتے ہیں کہ محدثین مثلاً امام دارقطنی
وغیرہ نے صحیحین کی روایات پر جو کلام کیاہے، کیا اس سے صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی روایات کو ضعیف قرار دیا جا سکتا ہے ؟ امام نووی
کے نزدیک اما م دارقطنی
وغیرہ نے صحیحین کی بعض روایات پرجن اُصولوں کی روشنی میں کلام کیا ہے، وہ اُصول جمہور محدثین اور فقہا کے ہاں قابل قبول نہیں ہیں ۔
جمال الدین قاسمی ا مام نووی کا قول نقل کرتے ہیں :
وقال النووي في شرح البخاري: ما ضعف من أحادیثھما مبني علی علل لیست بقادحة
[۲۴]
امام نووی
نے صحیح بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ صحیحین کی جن احادیث کو ضعیف قرار دیا گیا ہے وہ ایسی علل پر مبنی ہیں جو کہ ’علل قادحہ‘ نہیں ہیں ۔
ایک اورجگہ حافظ ابن حجر امام نووی کے حوالے سے لکھتے ہیں :
وذلك الطعن ذکرہ مبني علی قواعد لبعض المحدثین ضعیفة جدًّا مخالفة لما علیه الجمھور من أھل الفقه والأصول وغیرھم
[۲۵]
امام دارقطنی
وغیرہ نے صحیحین کی احادیث پر جو طعن کیا ہے، وہ بعض محدثین کے ایسے قواعد پر مبنی ہے جو بہت ہی ضعیف ہیں اور ان قواعد کے مخالف ہیں کہ جن کوجمہور فقہا اور اُصولیین وغیرہ نے بیان کیا ہے۔
خطیب بغدادی
کے نزدیک صحیح بخاری و صحیح مسلم کے جن رواة پربعض دوسرے محدثین کی طرف سے جرح ہوئی ہے، وہ ایسی جرح نہیں ہے جو موجب ِ طعن ہو۔
خطیب بغدادی فرماتے ہیں :
ما احتج البخاري ومسلم وأبوداود به من جماعة علم، الطعن فیھم من غیرھم محمول علی أنه لم یثبت الطعن المؤثر مفسر السبب
[۲۶]
جن رواة سے امام بخاری
امام مسلم
اور ابوداودنے اپنی کتابوں میں حدیث لی ہے، ان میں سے بعض پر ان کے علاوہ محدثین کی طرف سے جو جر ح ہوئی ہے، اس سے ان رواة پر کوئی ایسامؤثر طعن ثابت نہیں ہوتاجو کہ سبب طعن کی وضاحت کرنے والابھی ہو ۔
امام ابن تیمیہ کے نزدیک صحیح بخاری کی نقد شدہ احادیث بھی کئی فوائد کی حامل ہیں ۔ لکھتے ہیں :
(البخاري) فإنه أبعد الکتابین عن الانتقاد۔۔۔وفي الجملة من نقد سبعة آلاف درھم فلم یرج فیھا إلا دراھم یسیرة ومع ھذا فھي مغیّرة لیست مغشوشة محضة فھذا إمام في صنعته۔
[۲۷]
صحیح بخاری دونوں کتابوں (یعنی صحیحین)میں سے تنقید سے زیادہ دور ہے او ر من جملہ جو شخص سات ہزاردراہم کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور ان میں چند(پرانے) دراہم کے علاوہ کسی چیز کی ملاوٹ نہیں کرپاتاباوجودیکہ یہ (پرانے)دراہم بھی محض کھوٹے سکے نہیں ہیں بلکہ معتبرہیں ، کیونکہ امام بخاری
اس فن کے امام تھے۔
سخاوی کے نزدیک صحیحین کی روایات پر ہونے والی نقد سے اس کی کسی روایت کا ضعف ثابت نہیں ہوتا ۔چنانچہ وہ امام ابو اسحق اسفرائینی کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں :
أھل الصنعة مجمعون علی أن الأخبار التي اشتمل علیھا الصحیحان مقطوع بصحته أصولھا ومتونھا لایحصل الخلاف فیھا بحال وإن حصل فذاك اختلاف في طرقھا ورواتھا۔ قال: فمن خالف حکمه خبرًا منھا ولیس له تأویل سابغ للخبر نقضنا حکمه لأن ھذہ الأخبار تلقَّتْھا الأمة بالقبول
[۲۸]
اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین کی تمام احادیث کے اُصول اور متون قطعی طور پر صحیح ہیں اور ان میں کسی قسم کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ اگر کہیں کوئی اختلاف ہے تو وہ اس کے طرق اور راویوں کا اختلاف ہے۔ پس جس عالم کا کوئی حکم صحیحین کی احادیث کے مخالف ہوا اور اس حکم کی کوئی ایسی تاویل نہ ہو جو اس خبر کو شامل ہو سکے تو ہم ایسے حکم کو ردّ کر دیں گے کیونکہ صحیحین کی روایات کو اُمت میں ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہے۔
صاحب تنقیح الأنظارشیخ محمد بن ابراہیم الوزیر
کے نزدیک صحیحین کی احادیث پر کلام سے ان کی روایات نہ توضعیف ہوتی ہیں اورنہ ہی اس سے ضعف لازم آتا ہے۔ فرماتے ہیں :
اعلم أن المختلف فیه من حدیثھما ھو الیسیر و لیس في ذلك الیسیر ما ھو مردود ۔۔۔ بطریق قطعیة ولا إجماعیة بل غایة ما فیه أنه لم ینعقد علیه الإجماع وأنه لا یتعرض علی من عمل به ولا علی من توقَّف في صحته ولیس الاختلاف یدل علی الضعف ولا یستلزمه۔
[۲۹]
یہ بات جان لیں کہ صحیحین کی بہت کم روایات( کی صحت و ضعف) کے بارے میں محدثین کا اختلاف ہے اور یہ مختلف فیہ روایات بھی قطعیت کے ساتھ یا اجماعاًمردود نہیں ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ( ان روایت پر کلام سے) یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان روایات کی صحت پر محدثین کا اجماع نہیں ہے۔ لہٰذانہ اس کے پیچھے پڑا جائے گاجو کہ ان پر عمل کرتا ہے اور نہ اس سے تعرض ہو گا جو کہ ان کی صحت میں توقف کرتا ہے ا ور محدثین کے اس قسم کے اختلاف سے نہ ہی کوئی روایت ضعیف ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا ضعف لازم آتا ہے۔
امام شوکانی
کے نزدیک اب کسی بھی عالم کے لیے صحیحین کی کسی سند پر کلام کی گنجائش باقی نہیں رہی ۔ فرماتے ہیں :
وقد دفع أکابر الأمة من تعرض للکلام علی شيء مما فیھما ورَدوہ أبلغ رد وبینوا صحته أکمل بیان فالکلام علی أسنادہ بعد ھٰذا لا یأتي بفائدة یعتد بھا فکل رواته قد جاوز القنطرة وارتفع عنھم القیل والقال وصاروا أکبر من أن یتکلم فیھم بکلام
[۳۰]
اُمت کے اکابر علما نے ان تمام شبہات کا جواب دیا ہے جو صحیحین پر کیے گئے تھے اور ان تمام اعتراضات کا اچھی طرح ردّ کرتے ہوئے ان دونوں کتابوں کی صحت کو خوب واضح کر دیا ہے۔اس( تنقید و تنقیح )کے بعداب میرا صحیحین کی کسی سند پر کلام کرنا، بے فائدہ ہے ۔صحیحین کے تمام راوی پل پار کر چکے ہیں اوران کے بارے میں قیل و قال کی گنجائش ختم ہو گئی ہے اور وہ اس مرتبے سے اوپر ہو چکے ہیں کہ ان کی ذات میں کسی قسم کا کلام کیاجائے۔
ایک اور جگہ امام شوکانی فرماتے ہیں :
فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقه بالقبول المجمع علی ثبوته وعند ھذہ الإجماعات تندفع کل شبھة وتزول کل تشکیك
[۳۱]
پس اہل فن کا اس پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کتاب کی تمام احادیث کی صحت اس ’تلقی بالقبول‘ سے معلوم ہے جو اِجماع سے ثابت ہے اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور ہر قسم کا شک دور ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم اس مضمون کے شروع میں یہ ذکر کر چکے ہیں کہ امام بخاری
و امام مسلم
کا اپنی صحیحین کے بارے میں دعویٰ یہ ہے کہ ان میں موجود تمام روایات محدثین کے تعین کردہ اُصول حدیث کی روشنی میں صحیح حدیث کے معیار پر پوری اترتی ہیں ۔لہٰذااگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں کوئی روایت ضعیف ہے تووہ دراصل امام بخاری
و امام مسلم
کی تحقیق کو چیلنج کر رہا ہے، اور اگر تو ایسا ناقد امام بخاری
و امام مسلم
کے پاے کا محدث نہیں ہے جیسا کہ عصر حاضر کے ان متجددین کا معاملہ ہے کہ جن کا ذکر اس مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے، تواس کی صحیح بخاری و صحیح مسلم پریہ تنقید مردود ہو گی۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
من انتقد علیھما یکون قوله معارضا لتصحیحھما ولا ریب في تقدیمھما في ذلك علی غیرھما فیندفع الاعتراض من حیث الجملة
[۳۲]
جس نے بھی صحیح بخاری وصحیح مسلم پر تنقید کی، اس کا قول امام بخاری
و امام مسلم
کی تصحیح کے معارض ہو گا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام بخاری
و امام مسلم
اس مسئلے میں باقی محدثین پر مقدم ہیں ، اسلئے من جملہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث پر تمام اعتراضات دور ہو جاتے ہیں ۔
شیخ احمد شاکر
کے نزدیک اما م دارقطنی
وغیرہ نے صحیحین پر جو نقد کی ہے وہ اس اعتبار سے نہیں ہے کہ صحیحین کی روایات اس سے ضعیف قرار پائیں بلکہ ان محدثین نے صحیحین پراپنے نقد میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ امام بخاری
و امام مسلم
نے اپنی کتب میں بعض روایات مں صحت ِحدیث کے اس اعلیٰ درجے کا التزام نہیں کیا ہے کہ جس کو اُنہوں نے عام طور پر صحیحین میں بطورِ معیار اختیار کیاہے۔
شیخ احمد شاکر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
الحق الذي لا مریة فیه عند أهل العلم بالحدیث من المحققین، وممن اھتدی بھدیھم وتبعھم علی بصیرة من الأمر: إن أحادیث الصحیحین صحیحة کلھا، لیس في واحد منھا مطعن أو ضعف۔وإنما انتقد الدارقطني وغیرہ من الحفاظ بعض الأحادیث، علی معنی أن ما انتقدوہ لم یبلغ في الصحة الدرجة العلیا التي التزمھا کل واحد منھما في کتابه۔وأما صحة الحدیث في نفسه فلم یخالف أحد فیھا۔ فلایھولنك إرجاف المرجفین وزعم الزاعمین أن في الصحیحین أحادیث غیر صحیحة
[۳۳]
اس مسئلے میں حق بات جس میں محققین محدثین اور بصیرت کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں کے نزدیک کوئی شک نہیں ہے، یہ ہے کہ صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں ۔ ان میں کوئی ایک بھی روایت ایسی نہیں ہے جو قابل طعن یا ضعیف ہو۔اور امام دار قطنی
وغیرہ نے جو بعض احادیث پر کلام کیاہے، وہ اس اعتبار سے ہے کہ وہ (یعنی نقد شدہ) احادیث صحت کے اس اعلیٰ درجے کو نہیں پہنچتیں جس کاالتزام شیخین نے اپنی کتب کی ہر حدیث میں کیاہے۔ جہاں تک فی نفسہ کسی حدیث کی صحت کا معاملہ ہے تو اس میں کسی ایک عالم کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ آپ کو افواہیں اُڑانے والوں کاپروپیگنڈا اور گمان کرنے والوں کا گمان ڈرا نہ دے کہ صحیحین میں کچھ روایات ایسی بھی ہیں جو کہ غیر صحیح ہیں ۔
جو بات شیخ احمد شاکر فرما رہے ہیں ، وہی بات امام نووی
نے بھی ایک جگہ لکھی ہے، جیسا کہ یہ ان کا یہ اقتباس پیچھے بھی گزر چکا ہے :
قد استدرك جماعة علی البخاري ومسلم أحادیث أخلا بشرطھما فیھا ونزلت عن درجة ما التزماہ۔۔۔ و قد ألَّف الإمام الحافظ أبو الحسن علی بن عمر دارقطني في بیان ذلك کتابه المسمی بالاستدراکات والتتبع وذلك في مائتي حدیث مما في الکتابین
[۳۴]
محدثین کی ایک جماعت نے صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی بعض ان روایات کو جمع کیا ہے جن میں دونوں اماموں نے اپنی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا اور ایسی روایات بھی اپنی کتب میں نقل کر دیں جو باعتبارِ صحت، صحیحین کی عام روایات سے درجے میں کم ہیں ۔۔۔ حافظ علی بن عمر دارقطنی
نے اس موضوع پر الاستدراکات والتتبع کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس میں اُنہوں نے صحیحین کی ایسی دو سو روایات کو جمع کیا ہے۔
اس بحث کا خلاصہ یہی ہے کہ صحیحین کی روایات پر ائمہ سلف نے جو تنقید کی ہے، وہ اکثر و بیشتر اس درجے کی نقد نہیں ہے کہ جس سے صحیحین کی کسی روایت کا ضعیف ہونا لازم آئے اس لیے اس کلام کے بعد بھی صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں ، اگرچہ صحیحین کی منتقد روایات کا درجہ ان روایات سے کم ہے جن پر محدثین کی طرف سے کوئی کلام نہیں ہوا۔اس لیے زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ ترجیحات کے اُصولوں میں سے ایک اُصول یہ بنا لیا جائے کہ اگر صحیحین کی دو روایات باہم آپس میں معارض ہوں تو غیر منتقد روایت کو منتقد(نقد شدہ) روایت پر ترجیح دی جائے گی، لیکن اس ترجیح کے بعد بھی ہم منتقد روایت کو صحیح ہی کہیں گے جیسے کہ منسوخ روایت صحیح ہوتی ہے۔ بعض متجددین کو صحیحین کی بعض روایات میں جو اشکال پیدا ہوتے ہیں اگر وہ ان کے حل کے لیے صحیحین کو ضعیف قرار دینے کی تحریک چلانے کی بجائے ان احادیث کی مناسب تاویلات کا رستہ اختیار کرتے تو اللہ تعالیٰ لازماً ان کے شکوک و شبہات رفع فرما دیتے اور آج صحیح بخاری و صحیح مسلم جیسے اہم مجموعہ ہائے حدیث نااہل مفکرین و نام نہاد محققین کے ہاتھوں کھیل تماشہ نہ بن جاتے۔
صحیحین کی احادیث کی صحت ، قطعی ہے یا ظنی؟
امام ابن صلاح فرماتے ہیں :
وھٰذا القسم جمیعه مقطوع بصحته
[۳۵]
اس قسم(یعنی صحیحین)کی تمام روایات قطعاً صحیح ہیں ۔
امام ابن صلاح
سے پہلے یہ موقف حافظ محمد بن طاہر مقدسی
اورابو النصر عبد الرحیم بن عبد الخالق
نے پیش کیا تھا۔
حافظ عراقی لکھتے ہیں :
قد سبقه إلیه الحافظ أبو الفضل محمد بن طاهر المقدسي وأبو النصر عبد الرحیم بن عبد الخالق بن یوسف فقالا: إنه مقطوع به
[۳۶]
یہ موقف حافظ ابو طاہر مقدسی اور ابو نصر عبد الرحیم بن عبد الخالق نے امام ابن صلاح
سے پہلے بیان کیا ہے۔ ان دونو ں کا کہنا یہ ہے کہ صحیحین کی روایات قطعی طورپر صحیح ہیں ۔
شیخ عز الدین بن عبد السلام اور امام نووی نے حافظ ابن صلاح کے اس موقف پر تنقید کی ہے۔ حافظ عراقی لکھتے ہیں :
و قد عاب الشیخ عز الدین بن عبد السلام علی ابن الصلاح ھذا۔۔۔ وقال الشیخ محي الدین النووي في التقریب والتیسیر: خالف ابن الصلاح المحققون و الأکثرون فقالوا یفید الظن ما لم یتواتر
[۳۷]
شیخ عزالدین بن عبد السلام
نے ابن صلاح
کے اس موقف پر نقد کی ہے ۔۔۔اور نووی
نے تقریب اور تیسیر میں کہا ہے کہ ابن صلاح
کا موقف محقق اور جمہور علما کے خلاف ہے جن کا کہنا یہ ہے کہ صحیحین کی روایات اس وقت تک ظن کا فائدہ دیتی ہیں جب تک کہ متواتر نہ ہوں ۔
امام نووی
نے دو دعوے کیے ہیں ایک یہ کہ جمہور اور محققین محدثین کا موقف یہ ہے کہ صحیحین کی روایات کی صحت قطعی نہیں بلکہ ظنی ہے ۔جبکہ امام نووی
کا یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے کہ یہ جمہور یا محققین کا قول ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر ، امام نووی کے تعاقب میں فرماتے ہیں :
فقول الشیخ محي الدین النووي خالف ابن صلاح المحققون والأکثرون غیر متجه بل تعقَّبه شیخنا شیخ الإسلام في محاسن الإصطلاح فقال: ھٰذا ممنوع فقد نقل المتأخرون عن جمع من الشافعیة والحنفیة والمالکیة والحنابلة أنھم یقطعون بصحة الحدیث الذي تلقته الأمة بالقبول
[۳۸]
امام نووی
کا یہ قول کہ ابن صلاح
کا موقف جمہور اور محققین محدثین کے خلاف ہے، صحیح نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے شیخ ، شیخ الاسلام نے ’محاسن الاصطلاح‘ میں لکھا ہے کہ امام نووی
کی بات غلط ہے ۔ہمارے شیخ نے متاخرین شافعیہ، حنفیہ ، مالکیہ اور حنابلہ کی ایک جماعت سے یہ نقل کیاہے کہ وہ ایسی حدیث کی صحت کو قطعی مانتے ہیں جس کو اُمت میں ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہو۔
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
فإن جمیع أھل العلم بالحدیث یجزمون بصحة جمهور أحادیث الکتابین وسائر الناس تبع لھم في معرفة الحدیث فإجماع أھل العلم بالحدیث علی أن ھذا الخبر صدق کإجماع الفقهاء علی أن ھذا الفعل حلال أو حرام أو واجب وإذا أجمع أھل العلم علی شيء فسائر الناس تبع لھم فإجماعھم معصوم لا یجوز أن یجمعوا علی خطإ
[۳۹]
تمام محدثین صحیحین کی عام احادیث کوقطعاًصحیح کہتے ہیں اور عوام الناس حدیث کے علم میں محدثین کے پیروکار ہیں ۔پس محدثین کا کسی خبر کے صدق پر اجماع ایسا ہی ہے جیسا کہ فقہا کا کسی فعل پر اجماع ہو کہ یہ حلال، حرام یا واجب ہے اور جب اہل علم کا کسی چیز پر اجماع ہوجائے تو تمام عوام الناس اس اجماع میں علما کے تابع ہوتے ہیں (یعنی علما کا اجماع پوری امت کے اجماع کے قائم مقام ہے)لہٰذا اُمت اپنے اجماع میں معصوم ہے اور پوری اُمت کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ خطا پر اکٹھی ہو۔
امام نووی
کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ صرف خبر متواتر سے علم یقین حاصل ہوتا ہے ، امام نووی
کا یہ دعویٰ بھی صحیح نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر ، امام نووی کے تعاقب میں لکھتے ہیں :
أما قول الشیخ محي الدین نووي: ’لا یفید العلم إلا أن تواتر‘ فمنقوص بأشیاء أحدھا: الخبر المحتف بالقرائن یفید العلم النظری وممن صرح به إمام الحرمین والغزالي والرازي والسیف الآمدي وابن الحاجب ومن تبعھم، ثانیھا: الخبر المستفیض الوارد من وجوہ کثیرة لا مطعن فیھا یفید العلم النظري للمتبحر في ھذا الشأن وممن ذھب إلی ھذا الأستاذ أبو إسحٰق الاسفرائیني والأستاذ أبو منصور التمیمي والأستاذ أبو بکر بن فورك۔۔۔ وثالثھا: ما قدمنا نقله عن الأئمة في الخبر إذا تلقَّتْه الأمة بالقبول ولا شك أن إجماع الأمة علی القول بصحة الخبرأقوی من إفادة العلم من القرائن المحتفة ومن مجرد کثرة الطرق
[۴۰]
جہاں تک امام نووی
کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ تواتر کے بغیر خبر سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا ، تو یہ دعویٰ چند وجوہات کی بنا پر ناقص ٹھہرتاہے۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایسی خبر واحد جس کا قرائن نے احاطہ کیا ہو، علم نظری کا فائدہ دیتی ہے جیسا کہ امامِ حرمین
، امام غزالی
، امام رازی
، علامہ آمدی
اور ابن الحاجب
وغیرہ نے بیان کیا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ایسی خبرمستفیض جو کئی طرق سے مروی ہواور اس میں کسی قسم کا طعن نہ ہو، علم حدیث کے ماہرین کو علم نظری کا فائدہ دیتی ہے ۔اس بات کواستاذ ابو اسحق اسفرائینی
، ا ستاذ ابو منصور تمیمی
اوراُستاذ ابو بکر بن فورک
نے بیان کیاہے۔۔۔تیسری بات یہ ہے کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ ایسی خبر واحد جسے اُمت میں ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہو قطعا صحیح ہوتی ہے ۔او ر کسی خبر کے صحیح ہونے پر اُمت کے اجماع سے جو علم یقین حاصل ہوتا ہے وہ روایت کے طرقِ کثیرہ یا قرائن محتفہ سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔
اسی طرح امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
وخبر الواحد المتلقي بالقبول یوجب العلم عند جمهور العلماء من أصحاب أبي حنیفة ومالك والشافعي وأحمد وھو قول أکثر أصحاب الأشعري کالأسفرائیني وابن فورك
[۴۱]
ایسی خبر واحد جس کو ’تلقی بالقبول‘ حاصل ہو، علم کا فائدہ دیتی ہے اور یہی جمہور احناف، مالکیہ، شوافع اور اصحابِ احمد
کایہی قول ہے اور اکثر اشاعرہ کا بھی یہی مذہب ہے جیسا کہ استاذ اسفرائینی
اور ابن فورک
ہیں ۔
حافظ ابن کثیر
بھی، امام نووی
کے اس موقف سے مطمئن نہیں ہیں اور لکھتے ہیں کہ بات وہی صحیح ہے جو حافظ ابن صلاح
نے لکھی ہے۔
امام ابن کثیر لکھتے ہیں :
ثم حکی أن الأمة تلقت ھٰذین الکتابین بالقبول، سوٰی أحرف یسیرة انتقدھا بعض الحفاظ کالدارقطني وغیرہ، ثم استنبط من ذلك القطع بصحة ما فیھما من الأحادیث، لأن الأمة معصومة عن الخطإ، فما طنت صحته ووجب علیھا العمل به، لا بد وأن یکون صحیحًا في نفس الأمر، وھذا جید۔وقد خالف في ھذہ المسئلة الشیخ محي الدین النووي وقال: لا یستفاد قطع بالصحة من ذلك۔ قلت: وأنا مع ابن الصلاح فیما عول علیه وأرشد إلیه۔واﷲ أعلم۔
[۴۲]
پھر ابن صلاح
نے ان دونوں کتابوں کے لیے امت کے ہاں ’تلقی بالقبول‘ کا تذکرہ کیا ہے سوا چند روایات کے۔پھر ابن صلاح
نے اس ’تلقی بالقبول‘ سے صحیحین کی احادیث کی صحت کی قطعیت پر استدلال کیاکیونکہ اُمت خطا سے معصوم ہے۔ پس جس حدیث کو اُمت نے صحیح سمجھا اوراس پر عمل واجب ہو گیاتو ضروری ہے کہ وہ روایت حقیقت میں بھی صحیح ہو، اور امام ابن صلاح
کا یہ کلام عمدہ ہے۔اور اس مسئلے میں امام نووی
نے مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قطعی صحت کا علم حاصل نہیں ہوتا ۔میں (یعنی ابن کثیر
) یہ کہتا ہوں کہ میرا اس مسئلے میں وہی موقف ہے جو امام ابن صلاح
نے بیان کیاہے ۔
امام سیوطی
بھی امام نووی
کی تنقید سے متفق نہیں ہیں ، اُنہوں نے بھی اسی موقف کو صحیح قرار دیا ہے جو امام ابن صلاح
اور امام ابن کثیر
کا ہے۔لہٰذا لکھتے ہیں :
وقال ابن کثیر: وأنا مع ابن صلاح فیما عول علیه وأرشد إلیه، قلت: وھو الذي أختارہ ولا أعتقد سواہ
[۴۳]
اور علامہ ابن کثیر
نے لکھا ہے کہ میں اس مسئلے میں ابن صلاح
کے موقف پر ہوں اور میں (سیوطی
) یہ کہتا ہوں کہ میں بھی اسی(ابن کثیر
کی) رائے کو پسند کرتا ہوں اور اس کے علاوہ کسی رائے کو نہیں مانتا۔
بعض محدثین نے اس بات پر اہل فن کا اجماع نقل کیاہے کہ صحیحین کی روایات کی صحت قطعی ہے ۔
استاذ ابو اسحق اسفرائینی فرماتے ہیں :
أھل الصنعة مجمعون علی أن الأخبار التي اشتمل علیھا الصحیحان مقطوع بھا عن صاحب الشرع
[۴۴]
اہل فن کا اس پر اجماع ہے کہ صحیحین کی روایات قطعیت کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔
جیسا کہ آغاز میں شاہ ولی اللہ دہلوی
کا بھی اس پر اجماع ہونے کا تذکرہ گزر چکا ہے ۔ صحیحین کے بارے میں محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ صحیحین کی تمام متصل مرفوع روایات قطعاً صحیح ہیں ۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ صحیحین کی غیرمنتقد روایات کی صحت قطعی ہے ، کیونکہ ان کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔ اس لیے جب تک صحیحین کی بعض احادیث پربعض ائمہ محدثین کی طرف سے کلام نہیں ہوا تھا، اس وقت تک تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ صحیحین کی احادیث کی صحت ظنی ہے لیکن تحقیق کے بعد صحیحین کی جن احادیث میں دو پہلوؤں (یعنی سچ اور جھوٹ) میں سے ایک پہلو پر محدثین کا اتفاق ہو گیا توان کی صحت قطعیت کے ساتھ متعین ہو گئی اور ایسی احادیث علم کا فائدہ دیتی ہیں لیکن جن احادیث میں خبر کے دو پہلوؤں میں سے ایک پہلو پر سو فی صد محدثین کا اتفاق نہ ہو سکا بلکہ بعض محدثین نے ان احادیث میں بعض علل کی نشاندہی کی تو ان احادیث کی صحت ظنی رہی اور ان سے ایسا علم ظنی حاصل ہوتا ہے۔ صحیحین کی بعض روایات پر ائمہ محدثین کے کلام نے ان کی غیر متکلم فیہ روایات کی صحت کو قطعاًمتعین کر دیا۔
مصادر و مراجع
اختصار علوم الحدیث للحافظ ابن کثیر، وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامیة، دولة قطر
الباعث الحثیث، وزارة الأوقاف والشؤون الاسلامیة، دولة قطر
التقیید والإیضاح للحافظ زین الدین العراقي، دارالحدیث للطباعة والنشر والتوزیع
الروض الباسم، باب الأحادیث المتکلم فیھا في الصحیحین، دار عالم الفوائد للنشر والتوزیع، بیروت
النکت علی ابن صلاح، المجلس العلمي لإحیاء التراث الإسلامي
تدریب الراوي للإمام السیوطي، قدیمي کتب خانہ، کراچی
تہذیب الکمال، مؤسسة الرسالة، بیروت
حجة اﷲ البالغة للشاہ ولي اﷲ المحدث الدهلوي، أصح المطابع کراچی
سیر أعلام النبلاء للإمام الذهبي، دار الفکر، بیروت
شرح نخبة الفکر للحافظ ابن حجر، مؤسسة مناهل العرفان، بیروت
صیانة صحیح مسلم لابن صلاح، دار الغرب الإسلامي
فتاوی لشیخ الإسلام ابن تیمیة، وزارة الشؤون الإسلامیة والأوقاف والدعوة والإرشاد، السعودیة
فتح المغیث، دار الکتب العلمیة، بیروت
قطر الولي للشوکاني
قواعد التحدیث للشیخ جمال الدین القاسمي، دارالنفائس
مقدمة ابن الصلاح، دارالحدیث للطباعة والنشر والتوزیع
مقدمة تحفة الأحوذي، دار الکتب العلمیة، بیروت
مقدمة النووي لشرح مسلم، دار الفکر، بیروت
مقدمة النووي علی صحیح مسلم، دار المعرفة، بیروت
منهاج السنة، إدارة الثقافة والنشر، جامعة الإمام، الریاض
هدي الساري مقدمة فتح الباري، دار نشرالکتب الإسلامیة، لاہور
أحسن الکلام، لمحمد سرفرازصفدر ، طبع ثالث، اکتوبر ۱۹۸۴م
حوالہ جات
[۱] شرح نخبة الفکر :ص20تا22
[۲] سیر اعلام النبلاء : ج10، ص283
[۳] هدي الساري مقدمة فتح الباری ، ص347
[۴] تهذیب الکمال:ج24، ص442
[۵] صحیح مسلم:تحت حدیث 612
[۶] سیر أعلام النبلاء:ج10، ص384
[۷] تهذیب الکمال: ج1، ص148،149
[۸] مقدمہ ابن الصلاح، ص13
[۹] صیانة صحیح مسلم ، ص85
[۱۰] النُّکت علیٰ کتاب ابن الصلاح: ج1، ص377
[۱۱] المنهاج شرح صحیح مسلم:ج 1، ص136
[۱۲] مقدمہ ابن الصلاح، ص26
[۱۳] مقدمہ ابن خلدون، ص490
[۱۴] قطر الولی، ص230
[۱۵] حجة اللہ البالغہ ج1، ص297
[۱۶] مقدمة تحفة الأحوذي، ص47
[۱۷] احسن الکلام، مولانا محمد سرفرازصفدر :ج1، ص249
[۱۸] مقدمہ ابن صلاح ، ص14،15
[۱۹] التقیید والإیضاح، ص29
[۲۰] منهاج السنة: ج7، ص215
[۲۱] هدي الساري مقدمة فتح الباري، ص491
[۲۲] مقدمہ نووی بر صحیح مسلم، ص146
[۲۳] هدي الساري مقدمة فتح الباري، ص345
[۲۴] قواعد التحدیث، ص198
[۲۵] هدي الساري مقدمة فتح الباري، ص346
[۲۶] مقدمة للنووي لشرح صحیح مسلم، ج1، ص25
[۲۷] منهاج السنة: ج7، ص216
[۲۸] فتح المُغیث:ج1، 51
[۲۹] الروض الباسم: ج1، ص277
[۳۰] قطر الولی: ص230،231
[۳۱] قطر الولی: ص230
[۳۲] هدي الساري مقدمة فتح الباري، ص347
[۳۳] الباعث الحثیث : ص44،45
[۳۴] مقدمہ نووی بر صحیح مسلم: ص146
[۳۵] مقدمہ ابن الصلاح: ص28
[۳۶] التقیید والإیضاح، ص28
[۳۷] التقیید والإیضاح ، ص28،29
[۳۸] النکت علی ابن صلاح:ج1، ص374
[۳۹] فتاوی ابن تیمیہ:ج18، ص17
[۴۰] النکت علی ابن صلاح:ج1، ص377،378
[۴۱] فتاوی ابن تیمیہ:ج18، ص41
[۴۲] اختصار علوم الحدیث، ص44،45
[۴۳] تدریب الراوي :ج1، ص106
[۴۴] النکت علی کتاب ابن الصلاح: ج1، ص3777
[ج] مقبولیت ِعامہ اچھی شہرت کی بنا پر حاصل ہوتی ہے۔ یعنی بعض احادیث کی صحت وضعف اہل فن کے ہاں زیر بحث آئی ہو، لیکن اس ردّ و قدح کے نتیجے میں متعلقہ حدیث کی حیثیت اور مقام نکھرکر سامنے آگیا ہو تو اسی کو تلقی بالقبول (قبولیت ِعامہ) قرار دیا جاتا ہے۔