سہ ماہی حکمت قرآن کے دوشماروں بابت اپریل تا جون ۲۰۰۸ء اور جولائی تا ستمبر ۲۰۰۸ء میں، اہل سُنّت کا تصور سُنّت، کے نام سے ہمارا ایک مضمون دو قسطوں میں شائع ہوا،جس میں اہل سُنّت کے متوازن و معتدل تصورِ سُنّت کو قرآن و سُنّت اور ائمہ سلف کی آراء کی روشنی میں اجاگر کیا گیاتھا۔بہت سے دوست و احباب نے اس مضمون کو سراہا اور بعض شائقین علم کی طرف سے کچھ سوالات بھی موصول ہوئے۔عام طور پر یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ چونکہ پاکستان میں حنفی مسلک کی اکثریت ہے لہٰذااہل سُنّت کے تصور سُنّت کے بیان میں فقہ حنفی کے متقدمین علماء کے حوالہ جات کو بھی کثرت سے پیش کیا جائے۔ ذیل میں ہم موصول ہونے والے اشکالات و سوالات کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہوئے ائمہ سلف کے اقوال کی روشنی میں ان کا جواب واضح کر رہے ہیں ۔ممکن حد تک کوشش کی جائے گی کہ قارئین کو اس مضمون میں حنفی فقہاء کی تحقیقات سے زیادہ سے زیادہ روشناس کرایا جائے۔ طوالت کے پیش نظر اکثر مقامات پر صرف تراجم پر اکتفا کیا گیا ہے،اگرچہ ایک تحقیقی مضمون کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ اس میں متن کو بھی شامل ہونا چاہیے۔ اس مضمون کے مطالعہ کے دوران یہ واضح رہے کہ سنت کی یہ بحث سنت سے متعلق بعض انتہا پسندانہ نظریات کے تناظر میں لکھی گئی ہے جن کی طرف ہم نے سابقہ دو اقساط میں اشارے کیے ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ اس مضمون کی تفہیم زیادہ مناسب اور صحیح رہے گی۔​


سوال: ’سُنّت‘ کا لغوی مفہوم بیان کریں اور یہ بھی واضح کریں کہ عربی ادب میں لفظ ’سُنّت‘ کس معنی میں استعمال ہو اہے؟

جواب:ابن عادل الحنبلی (متوفی۸۶۰ھ) لکھتے ہیں:

والسنن جمع سنة و ھی الطریقة التی یکون علیھا الانسان و یلازمھا و منہ سنة الأنبیاء قال خالد الھذلی لخالہ أبی ذؤیب:
فلا تجزعن من سنة أنت سرتھا
فأول راض سنة من یسیرھا

و قال آخر:
و ان الألی بالطف من آل ھاشم
تأسوا فسنوا للکرام التآسیا

و قال لبید:
من أمة سُنّت لھم آباؤھم
و لکل قوم سنة و امامھا

و قال المفضل: ’’السنة الأمة‘‘ وأنشد:
ما عاین الناس من فضل کفضلکم
ولا رأوا مثلکم فی سالف السنن

و لا دلیل فیہ لاحتمال أن یکون معناہ أھل السنن قال الخلیل سنّ الشیء بمعنی صوّرہ ومنہ من حمأ مسنون أی مصور و قیل: سنّ الماء و الدرع اذا صبھما و قولہ: من حمأ مسنون یجوز أن یکون منہ و لکن نسبة الصب الی الطین بعیدة و قیل: مسنون أی متغیر و قال بعض أھل اللغة: ھی من سن الماء یسنہ اذا والی صبہ و السن: صب الماء و العرق نحوھما و أنشد لزھیر:
نعودھا الطراد کل یوم
تسن علی سنابکھا القرون

أی یصب علیھا من العرق شبہ الطریقة بالماء المصبوب فانہ یتوالی جری الماء فیہ علی نھج واحد فالسنة بمعنی: مفعول کالغرفة۔و قیل اشتقاقھا من سننت النصل أسنہ سنا اذا جددتہ علی المسن و المعنی الطریقة الحسنة یعتنی بھا کما یعتنی بالنصل و نحوہ۔و قیل من سن الابل اذا أحسن رعایتھا و المعنی: أن صاحب السنة یقوم علی أصحابہ کما یقوم الراعی علی ابلہ و الفعل الذی سنہ النبیؐ سمی سنة بمعنی: أنہؐ أحسن رعایتہ و ادامتہ [۱]
"لفظ سنن ’سُنّت‘ کی جمع ہے اور ’سُنّت‘ سے مراد وہ طریقہ ہے جس پر انسان چلتا ہے اور اس کو لازم پکڑ لیتا ہے ۔اسی معنی میں سنة الأنبیاء یعنی ’’انبیاء کا طریقہ‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ایک شاعر خالد الہذلی نے اپنے ماموں ابو ذؤیب کے بارے میں کہا ہے :
’’جس رستے پر تو چل پڑے تو پھر اس پر گھبراہٹ محسوس نہ کر، کیونکہ سب سے پہلا شخص جو کسی رستے سے راضی ہوتا ہے وہ وہی ہوتا ہو جو اُس پر چلنے والا ہو‘‘۔
ایک اور شاعر نے کہا ہے:
"آل ہاشم کے وہ لوگ جو ’طف‘ نامی مقام میں ہیں،انہوں نے صبر کیا ہے اور ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہوئے باعزت لوگوں کے لیے(صبر کا) ایک طریقہ چھوڑا ہے"۔
لبید کا شعر ہے:
’’وہ لوگ ایک ایسی قوم میں سے ہیں جن کے لیے ان کے آباء واجداد نے ایک طریقہ چھوڑا ہے اور ہر قوم کا ایک طریقہ اور اس کا کوئی امام ہوتا ہے‘‘۔
،مفضل، نے کہاہے کہ ’سُنّت‘ سے مراد ’امت‘ ہے اور اس نے دلیل کے طور پر یہ شعر پڑھاہے:
’’لوگوں نے تمہاری بزرگی جیسی بزرگی کسی میں نہیں پائی اور پچھلی اقوام میں تمہاری قوم جیسی قوم نہیں دیکھی‘‘۔
اس میں’سُنّت‘ کا معنی ’قوم‘ لینے میں کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ ’سنن‘ سے مراد، اہل سنن، ہوں۔امام خلیل کاکہناہے کہ سنّ الشیئ کا معنی کسی شے کی صورت بنانا ہے اور حما مسنون کا لفظ بھی اسی سے ہے، جس کا معنی، صورت دیا گیا کیچڑ، ہے۔ایک قول یہ بھی ہے کہ سن الماء و الدرع اس وقت کہاجاتاہے جبکہ ان کو انڈیل دیا جائے اور حمأ مسنون کااس سے ہونا ممکن ہے، لیکن انڈیلنے کی مٹی کی طرف نسبت بعید ہے۔ایک قول یہ بھی ہے کہ ’مسنون‘سے مراد ’متغیر‘ ہے۔بعض اہل لغت کاکہنا ہے: یہ لفظ سنّ الماء سے ہے، یعنی جب کوئی شخص مسلسل پانی انڈیلتارہے۔پس ’سن‘ کا بنیادی معنی پانی اور پسینہ وغیرہ انڈیلناہے۔زہیر کا شعر ہے:
’’ہم ان گھوڑوں کو دشمن کا سامنا کرنے کے لیے روزانہ تیار کرتے ہیں اور ان کے کھروں پر ان کا پسینہ بہایا جاتا ہے‘‘۔
یعنی ان پر پسینہ بہایا جاتا ہے ۔اس شعر میں رستے کو انڈیلے ہوئے پانی سے تشبیہہ دی گئی ہے، کیونکہ انڈیلے ہوئے پانی میں پانی کا بہنا مسلسل ایک ہی نہج پر ہوتا ہے۔پس ’سُنّت‘ کالفظ، اسم مفعول، کے معنی میں ہے جیسا کہ ’غرفة‘ کا لفظ ہے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ سُنّت کا لفظ سننتُ النصل سے ہے، یعنی میں نے چاقو کے پھل کو تیز کیا۔یعنی جب میں نے اس کو کسی سان پر تیز کیا ہو۔اور ’سُنّت‘ سے مراد اچھا طریقہ ہو گا کہ جس کا اہتمام کیا جائے، جیسا کہ چاقو کے پھل کی پرواہ وغیرہ کی جاتی ہے۔ایک قول یہ بھی ہے کہ ’سُنّت‘ کا لفظ سنّ الابل سے ماخوذ ہے، یعنی انٹوں کی اچھی طرح نگہبانی کرنا اور، سُنّت، کا معنی یہ ہو گا کہ صاحب سُنّت کی حیثیت اپنی قوم کی نگرانی میں ایسی ہی ہو گی جیسا کہ ایک چرواہا اپنے اونٹوں کی نگہبانی کرتا ہے۔ اور جس کام کو اللہ کے رسولؐ نے جاری کیا اس کو ’سُنّت‘ کا نام اس لیے دیاگیاہے کہ آپؐ نے اس کام کی اچھی طرح نگہبانی کی اور اس کو دوام بخشا"۔
 

سوال:اس مضمون میں اہل سُنّت کا لفظ جب آپ استعمال کرتے ہیں تو اس سے آپ کی مراد کون سی جماعت ہوتی ہے ؟

جواب: ہم یہ بات پہلے بیان کر چکے ہیں کہ فقہی مباحث میں جب اہل سُنّت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد صحابہ، تابعین، تبع تابعین، حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ، حنابلہ، اہل الحدیث اور اہل الظواہر ہوتے ہیں اور ہمارے اس مضمون میں بھی اہل سُنّت سے مراد یہی گروہ ہیں۔یہ واضح رہے کہ عقائد کے باب میں اہل سنت کے مفہوم میں علیحدہ سے تفصیل موجود ہے۔

سوال: اہل سُنّت کے ہاں’سُنّت‘ کے لفظ کا اصطلاحی معنی کیا ہے؟

جواب: جمیع اہل سُنّت کے نزدیک ’سُنّت‘ سے مراد اللہ کے رسولؐ کے اقوال، افعال و تقریرات ہیں۔معروف حنفی فقہاء علامہ کمال الدین ابن الہمام ( متوفی۸۶۱ھ) اورعلامہ ابن امیر الحاج (متوفی۸۷۱ھ) لکھتے ہیں:
(السنة) و ھی لغة (الطریقة المعتادة) محمودة کان أو لا…( و فی الأصول قولہ علیہ السلام و فعلہ و تقریرہ) مما لیس من الأمور الطبیعیة [۲]
“، سُنّت، کا لغوی معنی ایسا طریقہ ہے جس کے لوگ عادی ہوں چاہے وہ اچھاہو یا برا…اور اصولِ فقہ میں، سُنّت، سے مراد رسول اللہؐ کا وہ قول، فعل اور تقریر ہے جو طبعی امور کے علاوہ ہیں”۔
شافعی فقیہ امام زرکشی (متوفی۷۹۴ھ) فرماتے ہیں:
المراد ھنا ما صدر من الرسول من الأقوال والأفعال والتقریر و الھم وھذا الأخیر لم یذکرہ الأصولیون [۳]
“یہاں یعنی اصولِ فقہ میں سُنّت سے مراد رسول اللہؐ کے اقوال، افعال، تقریرات اور کسی کام کو کرنے کا ارادہ ہیں۔اس آخری قسم کو ’سُنّت‘ کی تعریف میں عموماً اصولیین نے بیان نہیں کیا ہے”۔
مالکی فقیہ امام شاطبی (متوفی۷۹۵ھ) لکھتے ہیں:
واذا جمع ما تقدم تحصل منہ فی الاطلاق أربعة أوجہ قولہ علیہ الصلاة والسلام و فعلہ و تقریرہ وکل ذلک اما متلقی بالوحی أو بالاجتھاد بناء علی صحة الاجتھاد فی حقہ وھذہ الثلاثة والرابع ما جاء عن الصحابة أو الخلفاء [۴]
،، سُنّت کے بارے میں ہم نے جو پیچھے بحث کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’سُنّت‘ سے مطلق طور پر مراد رسول اللہؐ کا قول، فعل اور تقریر ہے اور یہ تینوں یا تو وحی کی بنیاد پر ہوں گے یا آپؐ کا اجتہاد ہو گا،بشرطیکہ آپ کے لیے اجتہاد کرنے کا قول صحیح ہو۔یہ ’سُنّت‘ کی تین صورتیں ہیں اور اس کی چوتھی صورت صحابہ اور خلفائے راشدین کی سُنّت ہے”۔
حنبلی فقیہ و مجتہد امام ابن تیمیہ (متوفی ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں:
الحدیث النبوی ھو عند الاطلاق ینصرف علی ماحدث بہ عنہ بعد النبوة من قولہ و فعلہ واقرارہ فان سُنّتہ ثبتت من ھذہ الوجوہ الثلاثة [۵]
’’حدیث نبویؐ سے مراد آپؐ کا وہ قول، فعل اور تقریر ہے جوکہ آپؐ سے نبوت کے بعد صادر ہوا ہو۔پس آپؐ کی، سُنّت، ان تین صورتوں سے ثابت ہوتی ہے‘‘۔
سلفی فقیہ و مجتہد امام شوکانی ( متوفی۱۲۵۰ھ) ٭ لکھتے ہیں:
واما معناھا شرعا أی فی اصطلاح أھل الشرع فھی قول النبیؐ وفعلہ وتقریرہ [۶]
’’اور سُنّت کا شرعی معنی یعنی اہل شرع کی اصطلاح میں، سُنّت، نبی مکرمؐ کے قول، فعل اور تقریر کوکہتے ہیں‘‘۔
٭محققین کے نزدیک پہلے یہ زیدی تھے، بعد میں انہوں نے زیدیہ (اہل تشیع کا ایک معتدل فرقہ) کے عقائد و فروعات سے رجوع کر لیا تھا۔ شروع میں یہ زیدی تھے جبکہ بالآخر یہ سلفی المسلک کے پرجوش داعی و مبلغ تھے۔ان کی کتاب التحف بمذھب السلف اور کشف الشبھات عن المشتبھات اس بات پر دلیل ہیں کہ وہ عقیدے میں سلفی تھے۔ اسی طرح ان کی کتاب القول المفید فی ادلة الاجتھاد والتقلید اور السیل الجرار یہ واضح کرتی ہے کہ وہ فقہی آراء کے اختیار میں امام زید بن علی کے مذہب کو چھوڑ کر اہل الحدیث کے منہج کو اختیار کر چکے تھے۔

 

سوال: بعض علماء نے سُنّت کے اصطلاحی مفہوم سے مراد، سُنّت مؤکدہ و غیر مؤکدہ، بھی لیا ہے۔ لہٰذا آپ کی اس بات کاکیا مطلب ہے کہ،، سُنّت کا اصطلاحی مفہوم رسول اللہ ﷺ کاقول، فعل اور تقریر ہے اور سُنّت کے اس مفہوم پر امت کا اتفاق بھی ہے؟

جواب: ہم یہ وضاحت پہلے کر چکے ہیں کہ فقہ کی کتابوں میں، سُنّت، کا لفظ سُنّت مؤکدہ، سُنّت غیر مؤکدہ اور سُنّت زائدہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔اسی طرح عقائد کی کتب میں کسی عقیدے کو ’سُنّت‘ کہنے سے عموماً مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ عقیدہ بدعت نہیں ہے۔لیکن اہل سُنّت جب، سُنّت، کے لفظ کو مصدرِ شریعت اورقانونی ماخذکے طور پر بیان کرتے ہیں تو ان سب کی مراد ایک ہی مفہوم ہوتا ہے اور وہ آپ کا قول، فعل اور تقریر ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ مصادرِ شریعت و مآخذ قانون اسلامی کی بحث فقہاء و علماء اصولِ فقہ کی کتابوں میں کرتے ہیں نہ کہ فقہ یا عقائد پر مبنی تصانیف میں۔ لہٰذ ا اہل سُنّت میں جب بھی کوئی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری یا سلفی عالم دین ’سُنّت‘ کے لفظ کو مصدر شریعت کے معنی میں استعمال کرے گا تو اس کی مراد فی الواقع آپ کا قول، فعل اور تقریر ہی ہو گا۔

سوال: بعض عوام الناس کے ذہنوں میں یہ بات بھی بیٹھی ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سُنّت سے مراد محض آپ کی عملی زندگی ہے ۔یہ بات کس حد تک درست ہے؟

جواب:یہ ایک تصور ہے جو مولانا اصلاحی مرحوم کی بعض عبارتوں سے مترشح ہوتا ہے۔ بعد ازاں جناب غامدی صاحب نے اپنے استاد اصلاحی صاحب کی عبارتوں پراستوار، سُنّت، کا ایک بالکل جدید و مذموم تصور متعارف کروایا۔ہمارے ہاں بعض مذہبی حلقوں میں بھی یہ تصور اصلاحی صاحب سے استفادے کے نتیجے میں غیر شعوری طور پر نفوذ پذیر ہواہے۔غامدی صاحب کے اس تصور کے مطابق جب ’سُنّت‘ کے لفظ کو بطور مصدر شریعت استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد صرف رسالت مآب کی عملی زندگی ہوتی ہے اور آپ کے اقوال و تقریرات اور اخبار احاد کو،کیونکہ ان کا تعلق عموماً عملی زندگی سے نہیں ہوتا،غامدی صاحب مستقل بالذات مصدر شریعت یا ماخذ قانون نہیں سمجھتے۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ اس مضمون میں ہمارا موضوعِ بحث سُنّت کی اتباع ہے اور قرآن و حدیث میں جب اللہ کے رسول ﷺ کی سُنّت یا آپ کی بذاتہ اتباع کا حکم دیا جاتا ہے تو کون صاحب عقل یہ کہنے کی جرأت کرے گا کہ آیت قرآنی(قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ)میں، فَاتَّبِعُوْنِیْ، سے مرادصرف آپ کی عملی زندگی میں آپ کی اتباع ہے نہ کہ آپؐ کے اقوال و تقریرات میں؟ واقعہ یہ ہے کہ آپ کی عملی زندگی آپ کی سُنّت کاایک جزو ہے نہ کہ کل سُنّت ہے۔کل سُنّت سے مراد رسول اللہ ﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات ہیں۔ ہم یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ اتباع سے مراد صرف عمل کی پیروی نہیں ہوتی بلکہ قول کی پیروی بھی اس میں داخل ہے۔ جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ(فَاتَّبَعُوْا اَمْرَ فِرْعَوْنَ) (ھود: ۹۷)میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرعون کے امر و حکم یعنی قول کی پیروی کو اتباع قرار دیا ہے ۔

سوال: آپ نے اہل سُنّت کے حوالے سے یہ موقف بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ہر ہر قول، فعل یا تقریر سُنّت نہیں ہے بلکہ آپؐ کے بعض اقوال، افعال یا تقریرات سُنّت ہیں۔بظاہر یہ موقف بھی تو استخفاف سُنّت یا حدیث ہی کی ایک قسم نہیں بن جاتا؟

جواب: آپ ہماری بات کو ایک دوسرے زاویے سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔اہل سُنّت کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا ہر ہر قول، فعل یا تقریر سُنّت اور قابل اتباع ہے بشرطیکہ اس کا تعلق شریعت سے ہو۔اس کی مزید وضاحت اس طرح سے ہے کہ آپ اصلاً تو اللہ کے رسول و نبی تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپؐ کی ایک بشری زندگی بھی تھی جس کے تقاضوں کے تحت آپ بعض اوقات کوئی دنیاوی بات بھی فرما لیتے تھے یا کو ئی ایسا کام بھی کرلیتے تھے جس کا تعلق ان جائز امور سے ہوتا تھاجو براہِ راست دین کا موضوع نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر آپ خلوت میں اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے کیا باتیں فرمایا کرتے تھے، کسی بھی صحابی نے نہ تو ان کو نقل کیا ہے اور نہ ہی ان کے جاننے کی کوشش کی ہے۔آپ ذرا غورکریں کہ اگر کوئی شخص اتباع سُنّت کے جذبے میں غلو کرتے ہوئے آپ کے زمانے میں یہ حرکت کر گزرتا کہ آپ کے حجر ے کے باہر کھڑے ہو کر آپؐکی وہ باتیں سُنّتا جو آپ خلوت میں اپنی ازواج سے فرمایا کرتے تھے تا کہ وہ شخص بھی خلوت میں اپنی بیوی سے وہی باتیں کرے اور سُنّت کا اجر پائے، تو اللہ کے رسول ﷺ صحابہ یا آج کے ایک غیرت مند مسلمان کی اس ’’متبع سُنّت‘‘ شخص کے بار ے میں کیا رائے ہو گی؟ اس کو ایک اور مثال سے یوں سمجھیں کہ آپ نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لیا تو اب ایک نوجوان رمضان کے مہینے میں روزانہ اپنی بیوی کا پچاس دفعہ بوسہ اس لیے لے کہ ہر بوسے پر سُنّت کا اجر و ثواب ملے گا تو آپ کی اس شخص کے بارے میں کیارائے ہو گی، جبکہ اس کا اپنی بیوی کے ساتھ ملوث ہونے کا قوی اندیشہ بھی موجود ہو؟اس ضمن میں ایک اور مثال یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ضرورت کے تحت گدھے کی سواری کی، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک جائز امر ہے۔اب ایک مدرسہ یا دار العلوم والے ایک گدھا خرید کر اپنے پاس رکھ لیں اورروزانہ صبح تمام کلاسز کے طالب علم اور اساتذہ اس گدھے پر باری باری سوار ہوں اور اس عمل کو باعث اجر و ثواب سمجھتے ہوئے اس پر پابندی کریں تو ان ’’متبعین سُنّت‘‘ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہو گی؟اس کو ایک مزید مثال سے سمجھیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کسی وجہ سے یا بغیر کسی عذر کے اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو کندھے پر اٹھا کر جماعت کروائی ۔اب کسی مسجد میں تمام نمازی اور امام صاحب اپنے شیر خوار بچوں کو روزانہ مسجد میں لے آئیں اور کندھے پر اٹھا کر نماز پڑھیں تو آپ کی ان نمازیوں کے بارے میں کیا رائے ہو گی؟ اللہ کے رسول ﷺ کا خلوت میں اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے پیار و محبت کی باتیں کرنا، روزے کی حالت میں بوسہ دینا،اتفاقاً گدھے کی سواری کرنا، نماز کی حالت میں اپنی نواسی کو کندھوں پر بٹھانا، یہ سب کام اس امر کی طرف متوجہ کرنے کے لیے تھے کہ یہ جا ئز و مباح امور ہیں ۔اگر تو یہ کہاجائے کہ آپ نے یہ کام اس لیے کیے تا کہ اُمت کو معلوم ہو کہ یہ جائز امور ہیں اور اس اعتبار سے یہ دین کاموضوع ہیں توہمیں اس نقطہ نظر سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔لیکن اِس مضمون میں ہمارا موضوعِ بحث، اتباع سُنّت، تھا ۔جب سُنّت کی اتباع کی بحث کی جاتی ہے تو آپ کے بہت سے ایسے اقوال و اعمال بھی ہوتے ہیں جن میں اللہ کی طرف سے آپ کی اتباع کا مطالبہ اُمت سے نہیں ہوا ہوتا، اسی کو اہل سُنّت آپ کی بشری زندگی کا نام دیتے ہیں۔یعنی ایک آپ کی شرعی زندگی ہے اور ایک بشری زندگی ہے۔آپ کی شرعی زندگی کا ہر ہر قول، فعل اور تقریر شریعت و قابل اتباع ہے جبکہ آپ کی بشری زندگی کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اس میں اُمت سے آپؐکی اتباع کا مطالبہ نہیں ہے۔

 

سوال: یہ کیسے معلوم ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ کا فلاں قول یا فعل آپ کی بشری زندگی سے متعلق ہے یا شرعی زندگی سے ؟

جواب: یہ بہت ہی اہم سوال ہے اور اسی سوال کا جواب ہم نے اس مضمون کی پچھلی دو اقساط میں تفصیلاً دیاہے۔فقہائے اہل سُنّت نے کچھ ایسے اصول بیان کر دیے ہیں جن کی روشنی میں آپ کی شرعی و بشری زندگی سے متعلق اقوال و افعال میں فرق کیا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر ایک اصول یہ ہے کہ اتفاقی امور کا تعلق آپ کی بشری زندگی سے ہوتا ہے ۔جیسا کہ آپ کا گدھے کی سواری کرنا یا اونٹ پر طواف کرنا ایک اتفاقی امر تھا۔

سوال: کیا فقہاء نے کوئی ایسی فہرست مرتب کی ہے جس سے یہ معلوم ہو جائے کہ آپ کی فلاں سنن آپ کی بشری زندگی سے متعلق ہیں اور فلاں کا تعلق شریعت سے ہے؟

جواب: فقہاء یا علماء نے اس قسم کی کوئی فہرست مرتب نہیں کی ہے ۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کوئی ایسی فہرست بھی آج تک فقہاء یا علماء نے مرتب نہیں کی ہے جس میں تمام سنن کا احاطہ کر لیا گیا ہو،بلکہ علماء اور محدثین نے ایسی کتب احادیث کو مرتب و مدوّن کیا ہے جن میں ان سنن کا بیان تھا۔
اس فہرست کو مرتب نہ کرنے میں کیا حکمت کارفرما ہے، اب ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ کے بعض اقوال و افعال کے بارے میں تو فقہاء کا اجماع ہے کہ ان کا تعلق آپؐ کی شرعی زندگی سے ہے،جیسا کہ آپ کا دن میں پانچ نمازیں پڑھنا۔اور آپ کے بعض اقوال و افعال کے بارے میں فقہاء کا اتفاق یہ ہے کہ ان کا تعلق آپؐ کی بشری زندگی سے ہے، جیسا کہ آپ کا اونٹ پر طواف کرنا۔طواف کرنا تو ایک شرعی حکم ہے لیکن اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنا ایک بشری تقاضے کے تحت تھا۔لہٰذا افضل یہی ہے کہ پیدل طواف کیا جائے چاہے اونٹ پر طواف کی سہولت موجود بھی کیوں نہ ہو۔امام نووی نے شرح مسلم میں اس بات پر اُمت کا اجماع نقل کیا ہے کہ پیدل طواف افضل ہے۔ یعنی آپ کا اونٹ پر طواف کرنا ایک شرعی سُنّت نہ تھا بلکہ ایک بشری تقاضا تھا جس میں آپؐ کی اتباع کا مطالبہ اُمت سے نہیں ہے۔ اور اسی بات کو حضرت عبد اللہ بن عباس نے بھی ایک روایت میں واضح کیاہے جوصحیح مسلم میں موجود ہے۔جبکہ آپ کے بعض اقوال و افعال ایسے ہیں جن کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف ہو جاتا ہے کہ ان کا تعلق بشری زندگی سے ہے یا شرعی زندگی سے ۔جیسا کہ آپؐ کے لباس مثلاً عمامے کے بارے میں برصغیر پاک و ہند کے حنفی علماء کاموقف یہ ہے کہ عمامہ پہنناآپ کی شرعی زندگی سے متعلق تھا لہٰذا عمامہ باندھنا ایک شرعی سُنّت ہے، جبکہ سعودی عرب اور بعض دوسرے عرب ممالک کے حنبلی، شافعی، مالکی اور سلفی علماء کی اکثریت کا کہنا یہ ہے کہ آپ کا عمامہ باندھنا عرب کے رسوم و رواج کے مطابق تھا اور یہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے، لہٰذا یہ سُنّت ِشرعیہ بھی نہیں ہے۔ہمارا موقف بھی یہی ہے۔ علماء کا یہ اختلاف دلائل و قرائن کی بنیاد پر ہوتا ہے اور جس طرف قوی استدلال موجود ہو گا وہ موقف راجح ہو گا۔پس اس مسئلے میں علماء کا یہ اختلاف ایک ایسا امر ہے جو سنن کی اس قسم کی فہرستیں مرتب کرنے میں مانع ہے۔
آج تک مختلف علماء و مفسرین نے قرآن کی آیاتِ احکام سے شرعی احکام کی جو فہرستیں مرتب کی ہیں ان کی تعداد میں بھی اختلاف ہے، کیونکہ منہجِ استنباطِ احکام، اصولِ فقہ، طریقۂ استدلال اور فہم و فراست کا فرق ہوتا ہے ۔ایک فقیہہ کو بظاہر ایک آیت سے کوئی حکم اخذ ہوتا نظر نہیں آتا لیکن دوسرا فقیہ اسی آیت سے دس قسم کے احکام مستنبط کر لیتا ہے ۔پس احادیث سے رسول اللہ ﷺ کی سنن کی فہرست مرتب کرنے میں بھی اس قسم کا اختلاف ہو سکتا ہے۔لہٰذا سنن کے مصادرمحدثین نے کتب احادیث کی صورت میں مرتب کر دیے ہیں جن سے علماء قیامت تک انسانی زندگی کے جمیع گوشوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتے رہیں گے۔

 

سوال: علماء تو اپنے اصول و ضوابط کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ کی شرعی و بشری زندگی میں فرق کر لیں گے لیکن ایک عامی کو کیسے معلوم ہو گا کہ یہ شرعی سُنّت ہے یا بشری زندگی ہے؟

جواب: ہم یہ بات پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اصل زندگی شرعی زندگی ہے اور آپؐ کی یہ زندگی آپؐ کی بشری زندگی پر حاوی ہے ۔اصل الاصول یہی ہے کہ آپ کے ہر قول، فعل یا تقریر کو شرعی زندگی سے متعلق ہی سمجھا جائے اِلاّ یہ کہ کسی قول یا فعل کے بارے میں کوئی قرینہ یا دلیل پائی جائے کہ اس قول یا فعل کا تعلق بشری زندگی سے ہے۔ پس آپ کے اکثر و بیشتر اقوال و افعال شرعی زندگی سے متعلق ہیں جن کی اتباع مطلوب ہے ۔ہاں بعض اقوال و افعال ایسے ہیں جو بشری زندگی میں داخل ہیں لیکن یہ بشری زندگی، آپؐ کی شرعی زندگی کے بالمقابل نسبتاً کم ہے۔پس ایک عامی جب آپ کے کسی قول، فعل یا تقریر کی پیروی کرتا ہے تو آپ کی شرعی زندگی ہی کی پیروی کر رہا ہوتا ہے اور آپ کے جن اقوال و افعال کا تعلق بشری زندگی سے ہو تو عموماً معاشرے میں علماء کی ان کے بارے میں بحث جاری رہتی ہے اور ایک عامی بھی اگر دین سے تھوڑا بہت تعلق رکھتا ہو تو اسے عموماً معلوم ہوتا ہی ہے کہ اس مسئلے میں علماء کی یہ رائے ہے یا فلاں اختلاف ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں نماز کی حالت میں پہلی و تیسری رکعت میں جلسۂ استراحت کے بارے میں حنفی علماء کا کہنا یہ ہے کہ یہ بشری زندگی سے متعلق تھا، یعنی آپ نے بڑھاپے کی وجہ سے جلسۂ استراحت کیاہے جبکہ اہل حدیث علماء اسے سُنّت ِشرعیہ مانتے ہیں۔اسی طرح اکثر سلفی علماء کے ہاں عمامہ باندھنا سُنّت نہیں ہے جبکہ حنفی علماء اس کو سُنّت قرار دیتے ہیں۔لہٰذا جو شخص سُنّت کی اتباع کرنا چاہتا ہے تو و ہ آپ کے اکثرو بیشتر اقوال و افعال کی پیروی کرے گا او رآپ کے ان اقوال و افعال کے بارے میں بھی علماء کے اختلاف سے کسی قدر واقف ہو گاجن میں بشری یا شرعی زندگی کا تنازع سلف صالحین ہی سے نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔
پس ایک عامی کو ہم یہ نصیحت ضرور کریں گے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ایسے اقوال و افعال کی پیروی و اتباع پر زور نہ دے جن کے بارے میں اُمت کا اتفاق ہے کہ ان میں آپ کی اتباع مطلوب نہیں ہے یا ان کے بارے میں امت کا اختلاف ہے کہ وہ اقوال و افعال بشری معاملات سے متعلق ہیں یا شرعی حیثیت سے وارد ہوئے ہیں، اور کوئی ایسے صریح قرائن یا دلائل بھی موجود نہ ہوں جو ان اقوال یا افعال کے شرعی ہونے میں نص قطعی یا ظن غالب کا درجہ رکھتے ہوں۔

 

سوال:بعض لوگ آپ کے بارے میں یہ بات مشہور کر رہے ہیں کہ آپ نے اپنے سابقہ مضمون میں یہ لکھا ہے کہ عمامہ پہننا بدعت ہے۔ کیا یہ درست ہے؟

جواب: ہم ایسا بہتان لگانے والوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ہمارا نقطۂ نظر تویہ ہے کہ جو عمامہ پہننے کو بدعت کہے وہ خود بدعتی ہے ۔صحیح احادیث میں یہ ذکر موجود ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عمامہ پہنا تو آپ معاذ اللہ ! کوئی بدعت کیسے کر سکتے ہیں؟در حقیقت ہمارے بعض ناراض دوستوں نے جب ہمارا موقف اپنی عینک سے دیکھنا شروع کیا تو انہوں نے ایسی چیزیں کھینچ تان کر ہمارے مضمون سے نکالنے کی کوشش کی جو ہمارا مقصود نہ تھیں۔آپ ہماری بات کو غور سے سمجھیں ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عمامہ باندھا، کیونکہ عمامہ آپ کے زمانے کا ایک معروف و مروّج لباس تھا، لیکن آپ نے عمامہ تقرب الی اللہ یا عبادت یا ثواب کی نیت سے نہیں باندھا۔لہٰذا عمامہ باندھنے کا تعلق آپ کی بشری زندگی سے ہے۔پس عمامہ باندھنا ایک مباح امر ہے ۔اگر کوئی شخص عمامہ باندھنا چاہتا ہے تو ضرور باندھے۔ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتاہے!لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آپ نے عمامہ تقرب الی اللہ یا عبادت کی نیت سے باندھا تھا تو ہمیں اس سے اختلاف ہے۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہمارے نزدیک عمامہ باندھنا اور نہ باندھنا برابر ہے۔نہ عمامہ باندھنے پر کوئی اجر و ثواب ہے اور نہ ہی عمامہ نہ باندھنے پر۔عمامہ باندھنا اور نہ باندھناایک مباح امر ہے اور مباح کی تعریف علمائے اہل سُنّت کے ہاں یہی ہے کہ جس کے کرنے یا نہ کرنے پر کوئی اجر و ثواب نہ ہو۔ عمامے کی مثال ایسے ہی ہے جیسا کہ آپ نے تہبند باندھا۔لہٰذا تہبند باندھنا اور نہ باندھنا اور عمامہ باندھنا یا نہ باندھنا یہ کوئی دین کا موضوع نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق آپ کی بشری زندگی سے ہے جس میں آپؐ کی اتباع کا امت سے کوئی تقاضا نہیں ہے۔

سوال: آپ نے اپنے مضمون میں اہل بدعت کا لفظ استعمال کیا تھا تو اس سے آپ کی کیا مراد تھی؟آپ اپنی مندرجہ بالا بات کو ذرا مزیدو اضح کریں۔

جواب:یہ ایک انتہائی باریک نکتہ ہے جو کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اور امام ابن تیمیہ نے بیان کیا ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھیں۔اللہ کے رسول ﷺ نے گدھے کی سواری کی۔ظاہری بات ہے اللہ کے رسول ﷺ نے یہ کام اتفاقاً یا ضرورتاً کیا تھا۔کوئی بھی صاحب ِعقل یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ تقرب الی اللہ یا عبادت یا ثواب کی نیت سے گدھے پر سوار ہوئے۔یعنی ایسا معاملہ نہیں تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کو یہ وحی ہوئی ہو کہ گدھے کی سواری اللہ کے ہاں باعث اجر و ثواب ہے لہٰذا آپ نے اجر و ثواب کی نیت سے گدھے کی سواری کی ہو،بلکہ آپؐ کو سواری کی ضرورت تھی، لہٰذاجو سواری میسر آئی آپ اس پر سوار ہو گئے۔پس گدھے پر سواری ایک دینی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق آپؐ کی بشری زندگی سے ہے۔چنانچہ گدھے پر سواری ایک جائز امر ہے، لیکن اس فعل میں امت سے آپؐ کی اتباع کا مطالبہ نہیں ہے۔ اس واقعے کا اگر ہم تجزیہ کریں تو درج ذیل ممکنہ موقف ہمارے سامنے آتے ہیں:

(۱) گدھے کی سواری ایک مباح و جائز امر ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ نے گدھے کی سواری ثواب کی نیت سے نہیں کی، لہٰذا ایک مسلمان کو بھی جب گدھے کی سواری کی ضرورت پیش آئے تو وہ بھی اسی نیت کے ساتھ اس کی سواری کرے جس نیت کے ساتھ آپؐ نے اس کی سواری کی تھی۔یعنی آپ نے اگر ایک کام کو مباح(بغیر اجر و ثواب کی نیت کے) سمجھ کر کیا تو آپؐ کی ا تباع یہی ہے کہ اُمت بھی اس کو مباح سمجھ کر کرے ۔اگر آپ نے ایک کام مباح سمجھ کر کیا اور کوئی امتی اس کام کو مستحب(باعث اجر و ثواب) سمجھ کرکرے تو ایسا امتی آپ کا متبع نہیں ہے ۔یہ موقف علمائے اہل سُنّت کا ہے۔

(۲) گدھے کی سواری ایک سُنّت ِشرعیہ ہے ۔پس گدھے پر سوار ہونا باعث عبادت و اجر و ثواب ہے اور آپ کی اس اتباع میں شامل ہے جس کا حکم ہمیں(قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ)میں دیا گیا ہے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ اور امام ابن تیمیہ کے نزدیک یہ موقف ایک بدعتی موقف ہے ۔
میں پھر یہ کہوں گا کہ میں یہ نہیں کہتا بلکہ حضرت عمر اور امام ابن تیمیہ نے اس موقف کو بدعت کہا ہے اور ان ہی بزرگوں کے حوالے ہم نے اپنے اصل مضمون میں نقل کیے تھے۔ میں تو دین کا ایک ادنی سا طالب علم ہوں۔ میری کیامجال کہ اتنی بڑی بات کہوں!اگر کسی شخص کو اعتراض ہو تو وہ ان دلائل کا جواب دے جو کہ حضرت عمر اور امام ابن تیمیہ نے اس مسئلے میں بیان کیے ہیں۔

سوال: ہمارے ہاں حنفی فقہ کے پیروکاروں کی اکثریت ہے ۔اگر آپ اس مسئلے کی وضاحت میں کچھ حنفی فقہاء کے اقوال پیش کر دیں تو شاید ہمیں اطمینان ہو جائے۔

جواب: متقدمین حنفی فقہاء نے اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے جو ان کی اصول کی کتابوں میں موجود ہے۔امام ابوبکر جصاص الحنفی (متوفی ۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:
فمعلوم أنہ ان کان فعلہ علی وجہ الاباحة والندب ثم فعلناہ نحن علی وجہ الوجوب لم نکن متبعین لہ لأن شرط الاتباع ایقاعہ علی الوجہ الذی أوقعہ علیہ و متی خالفناہ فی ھذا الوجہ خرجنا من حد الاتباع. ألاتری أن من فعل فعلا ففعل غیرہ مثلہ علی وجہ المعارضة لہ و المضاھاة لفعلہ قاصدا المعارضة و مباراتہ لم یکن متبعا لہ و ان کان قد أوقع فعلا مثل فعلہ فی الظاھر [۷]

اس سے معلوم ہوا کہ فقہائے احناف کے ہاں اگر کوئی شخص کسی ایسے فعل کو جو رسول اللہ ﷺ کے حق میں مباح ہو، مستحب سمجھ کر اس پر عمل پیراہو تو وہ امتی آپ کا متبع نہیں ہے۔پس ہم بھی یہی بات کرتے ہیں کہ آپ کے جو اقوال و افعال باتفاقِ اُمت مباح درجے کے ہیں ان کو مستحب یا مندوب نہ بنا لیا جائے۔

 

سوال: مباح و مندوب میں اہل سُنّت کے نزدیک کیا فرق ہے؟حنفی فقہاء کے حوالے سے بیان کریں!

جواب:اہل سُنّت کے نزدیک مباح سے مراد وہ امور ہیں جن کا کرنا اور نہ کرنا برابر ہو اوران کے کرنے اور نہ کرنے میں کوئی اجرو ثواب نہ ہو۔جبکہ مندوب سے مراد وہ افعال ہیں جن کے کرنے پر اجر و ثواب کا وعدہ ہولیکن ان کا کرنا لازم نہ ہو۔علامہ علاؤ الدین بخاری (متوفی ۷۳۰ھ) فرماتے ہیں:

سوال: آپ کی باتوں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں عمامہ وغیرہ نہیں باندھنا چاہیے۔ کیا یہ درست ہے؟

جواب: میں نے یہ کب کہا ہے کہ ہمیں عمامہ نہیں باندھنا چاہیے؟میں نے تو یہ کہا ہے کہ عمامہ باندھنے کو دین کامسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔علاوہ ازیں ہم نے پہلے بھی یہ لکھا تھا اور اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مذہبی حلقوں، دینی تحریکوں اور علماء کو اپنے سر کو ڈھانپ کر رکھنا چاہیے ۔چاہے عمامہ باندھیں یاٹوپی استعمال کریں۔

سوال: آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ عمامہ باندھنا دین کامسئلہ نہیں ہے اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ مذہبی لوگوں کو عمامہ باندھنا چاہیے ۔یہ تضاد بیانی نہیں ہے؟

جواب:یہ بالکل بھی تضاد نہیں ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ دینی تحریکوں کے کارکنان کو اپنا سر ڈھانپ کر رکھنا چاہیے تو وہ اس وجہ سے ہے کہ ہمارے مسلمان معاشروں کا یہ عرف و رواج ہے کہ علماء اپنے سر کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں۔اس کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھیں کہ اگر ہم کسی شخص سے یہ سوال کریں کہ کپڑے استری کر کے پہننے چاہئیں یا بغیر استری کے؟ تواس کا جواب ہوگا کہ استری کر کے پہننے چاہئیں ۔لیکن اگر اسی شخص سے یہ بھی سوال کیا جائے کہ کیا استری شدہ کپڑے پہننا ایک دینی مسئلہ، یعنی باعث اجر و ثواب ہے؟ تو اس کا جواب نفی میں ہو گا۔لہٰذا کسی کام کے کرنے کا مطلب یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ ہم اسے صرف اسی صورت کرتے ہیں جبکہ وہ ہمار ے دین ہی کا مطالبہ ہو۔یہ مسئلہ اصولی طور پرعرف کی بحث کا ہے۔

 

سوال: متقدمین حنفی فقہاء نے رسول اللہ ﷺ کے افعال کی جو قسمیں بیان کی ہیں ان پر ذراتفصیل سے روشنی ڈالیں۔

جواب:احناف نے اللہ کے رسول ﷺ کے افعال کی چھ قسمیں بنائی ہیں:

پہلی قسم


فقہائے احناف کے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ کے افعال کی ایک قسم وہ ہے جو کہ، غیر ارادی افعال، پر مشتمل ہے ۔غیر ارادی افعال کئی قسم کے ہوتے ہیں جن میں ایک کو فقہائے احناف نے زلة یعنی بھول چوک کانام دیا ہے۔ زلة کے علاوہ غیر ارادی افعال کی ایک دوسری قسم کے طور پر فقہائے احناف نے آپ کے ان افعال کو بھی بیان کیا ہے جو آپ سے نیند یا بے ہوشی کی حالت میں سرزد ہوئے ہوں۔فقہائے احناف کے نزدیک اس قسم کے افعال میں اللہ کے رسول ﷺ کی اقتداء کسی بھی امتی کے لیے جائز نہیں ہے۔ فخر الاسلام امام بزدوی (متوفی ۴۸۳ھ) لکھتے ہیں:

شمس الائمہ امام سرخسی(متوفی ۴۸۳ھ) فرماتے ہیں:

علامہ علاؤ الدین بخاری (متوفی ۷۳۰ھ) لکھتے ہیں:

٭ علامہ علاؤ الدین بخاری(متوفی ۷۳۰ھ) کی اس مذکورہ بالا عبارت میں ایک قابل غور اہم نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے مباح کو ‘قبیح‘ کے بالمقابل’حسن‘ کی ایک قسم قرار دیا ہے۔پس ’مباح‘ اگرچہ ’حسن‘ ہوتاہے لیکن اس پر کوئی اجر و ثواب نہیں ہوتا ہے۔علامہ صاحب اپنی کتاب میں مباح کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
و أما الثالث فھو المباح ذ لیس فی أدائہ ثواب، و لا فی ترکہ عقاب [۱۲]

٭ مذکورہ بالا بحث سے ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ، مباح، پر اگر اجر و ثواب نہیں ہے تو اس کو ’حسن‘ کس پہلو سے کہا گیا ہے؟بعض اصولیین نے ’مباح‘ کے ’حسن‘ ہونے کی بحث کو مستقل طور پر بیان کیا ہے اور اس میں اس نکتے کی بھی وضاحت کی ہے۔ امام غزالی (متوفی۵۰۵ھ) لکھتے ہیں:
ی

 

دوسری قسم


اس قسم میں رسول اللہ ﷺ کے وہ افعال شامل ہیں جو جبلی امور سے متعلق ہیں۔ فقہائے احناف کے نزدیک یہ افعال بالاتفاق مباح ہیں ۔علامہ علاؤ الدین بخاری لکھتے ہیں:

علامہ ابن الہمام (متوفی ۸۶۱ھ) اورابن امیر حاج الحنفی (متوفی ۸۷۱ھ )لکھتے ہیں:
(مسألة الاتفاق فی أفعالہ الجبلیة) أی الصادرة بمقتضی طبیعتہؐ فی أصل خلقتہ کالقیام و القعود و النوم و الأکل و الشرب(الباحة لنا و لہ) [۱۵]

پہلا نکتہ


اس بحث میں پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ مباح کی تعریف احناف کے نزدیک بالاتفاق یہ ہے کہ جس کے کرنے پر کوئی ثواب نہ ہو اور نہ ہی اس کے ترک پر عذاب ہو۔علامہ علاؤ الدین بخاری فرماتے ہیں:

پس احناف کے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ کے جبلی افعال کی مطلق پیروی پر کوئی ثواب نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ


دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امام جصاص (متوفی ۳۷۰ھ) کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے ایسے افعال جو کہ امت کے حق میں ’مباح‘ ہیں، ان کے لیے لفظ، سُنّت، بھی استعمال نہیں ہو سکتا ہے۔
قال أبو بکر: و أحکام السنة علی ثلاثة أنحائ: فض، و واجب، و ندب، و لیس یکاد یطلق علی المباح لفظ السنة، لأن قد بینا: أن معنی السنة: أن یفعل، أو یقول، لیقتدی بہ فیہ، و یداوم علیہ، و یستحق بہ الثواب، و ذلک معدوم فی قسم المباح [۱۷]

تیسرا نکتہ


تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بعض فقہائے احناف نے رسول اللہ ﷺ کے جبلی امور کی پیروی کو ’حسن‘ کہا ہے تو اس سے ان کی یہ مراد نہیں ہے کہ وہ ان افعال کو ’مباح‘ بھی کہتے ہیں اور باعث اجر و ثواب بھی سمجھتے ہیں ۔ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ فقہائے احناف کے نزدیک واجب اور مندوب کی طرح مباح بھی ’حسن‘ کی ایک قسم ہے ۔اور’حسن‘ سے مراد بعض اوقات ایسے افعال بھی ہوتے ہیں جو کسی اخروی اجر و ثواب کے وعدے کے بغیر بھی کسی اور پہلو سے’حسن‘ ہوتے ہیں۔ علامہ ابن الہمام اورابن امیر الحاج الحنفی لکھتے ہیں:

یہ وہی انداز ہے جو ہم نے عمامے کی بحث میں اختیار کیا ہے کہ اگر کوئی شخص ہم سے یہ سوال کرے کہ عمامہ باندھنا چاہیے یا نہیں، تو ہم اسے یہی جواب دیں گے کہ باندھنا چاہیے، لیکن اس کا باندھنادین کا موضوع نہیں ہے کہ جس کے چھوڑنے کو ناپسندیدگی یا بری نظروں سے دیکھا جائے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں:

چوتھا نکتہ


آخری نکتہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے بعض وہ جبلی افعال جو قرآن کی کسی ایسی نص کا بیان بن رہے ہوں جس کااصل حکم وجوب یا استحباب کے درجے میں ہو تو پھر یہ جبلی افعال کم از کم مستحب ضرور ہوں گے اور ان کی اتباع باعث اجر و ثواب ہو گی ۔امام ابوبکر جصاص (متوفی ۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:

 

تیسری قسم


یہ قسم سہو و جبلی افعال کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کے ارادی افعال پر مشتمل ہے۔آپ کے ارادی افعال کی بھی فقہائے احناف نے دو قسمیں بنائی ہیں ۔ پہلی قسم آپ کے ان افعال پر مشتمل ہے جن کی صفت اللہ کے رسول ﷺ کے حق میں واضح ہو، یعنی ان افعال کاآپؐکے حق میں فرض، واجب، مستحب یا مباح ہونا معلوم ہو ۔امام سرخسی (متوفی۴۸۳ھ) فرماتے ہیں:
وکان أبو الحسن الکرخی رحمہ اللہ یقول: ان علم صفة فعلہ أنہ فعلہ واجبا أو ندبا أو مباحا فنہ یتبع فیہ بتلک الصفة [۲۱]

علامہ علاؤ الدین بخاری(متوفی ۷۳۰ھ) لکھتے ہیں:
ثم بعد ذلک ما أن علمت صفة ذلک الفعل فی حقہ علیہ السلام أو لم تعلم، فن علمت فالجمھور علی أن أمتہ مثلہ… وذھب شرذمة الی أن حکم ما علمت صفتہ کحکم مالم تعلم صفتہ ھکذا ذکر بعض الأصولیین [۲۲]

و الاتباع: أن یفعل مثل فعلہ، و فی حکمہ، فذا فعلہ واجبا، فعلنا علیالوجوب، و ذا فعلہ ندبا، أو مباحا، فعلناہ کذلک، لنکون قد وفینا الاتباع حقہ… فکان الاتباع و التأسی: أٔن نفعل مثل ما فعلہ، علی الوجہ الذی فعلہ علیہ [۲۳]

پس رسول اللہ ﷺ کے وہ افعال جن کی صفت آپ کے حق میں معلوم ہو،ان افعال کی پیروی و اتباع اسی صفت کے ساتھ جائز ہے ۔یعنی اگر واجب کو واجب، مندوب کو مندوب اور مباح کو مباح سمجھ کر کیا جائے ۔
امام ابوبکر جصاص (متوفی ۳۷۰ھ) کی مذکورہ بالا عبارت میں ایک اہم نکتہ جو بیان ہوا ہے وہ متابعت یا اتباع کی تعریف ہے ۔امام صاحب کے بقول آپ نے جس فعل کو مباح سمجھ کر ادا کیا تو امت کے لیے بھی یہ لازم ہے کہ اسے مباح سمجھ کر ادا کرے اور جس فعل کو آپ نے مستحب جانتے ہوئے ادا کیا تو امت بھی اس فعل کی ادائیگی کے وقت اس کے مستحب ہونے کا عقیدہ رکھے۔اگر آپ نے کسی فعل کو مباح سمجھا اور امت نے اس کو مستحب بنادیا یا آپ نے کسی فعل کو مستحب سمجھ کر ادا کیا اور امت نے اسے واجب بنا تے ہوئے اس پر عمل شروع کر دیا تو یہ آپ کی اتباع یا متابعت تصور نہیں ہوگی۔اس کا واضح معنی و مفہوم یہی ہے کہ اگر آپؐ نے کدو تقرب الی اللہ یا ثواب کی نیت سے نہیں کھائے بلکہ مباح سمجھ کر کھائے ہیں تو اگر کوئی امتی کدو کھانے کے فعل کو مستحب بنا لے اور اس کے کھانے کو باعث ثواب سمجھے تو اس نے ایک ایسے فعل کو مستحب بنا دیا جو کہ اللہ کے رسول ﷺ کے نزدیک مباح تھا۔اسی کوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اتباع میں امام ابن تیمیہ نے،مجموع الفتاویٰ، میں ب دعت کانام دیا ہے ۔امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ کسی امتی کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ اس فعل کو مستحب(یعنی باعث اجر و ثواب) قرار دے جس کو اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے فعل سے مباح قرار دیا ہے؟ فافھم و تأمل !
دوسرا اہم نکتہ اس بحث میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اس قسم کے تمام افعال کو بھی علمائے احناف نے واجب یا مستحب قرار نہیں دیا ہے بلکہ ان افعال میں بھی ایک قسم مباح ہے جس کے ارتکاب پر کسی امتی کے لیے اجر و ثواب کا کوئی عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے۔امام ابوبکر جصاص فرماتے ہیں:

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام جصاص ( متوفی ۳۷۰ھ) اور تقریباًتمام اصولیین نے رسول اللہ ﷺ کے ارادی افعال کی تین قسمیں بنائی ہیں اور فرض و واجب کو علیحدہ علیحدہ بیان نہیں کیا جبکہ امام سرخسی (متوفی۴۸۳ھ) اور امام بزدوی (متوفی۴۸۳ھ) نے فرض اور واجب کے فرق کو بیان کرتے ہوئے آپؐ کے ارادی افعال کی چار قسمیں بنائی ہیں۔علامہ علاؤا لدین بخاری ( متوفی ۷۳۰ھ) لکھتے ہیں:
ثم الشیخ و شمس الأئمة رحمھما اللہ قسما أفعالہ علیہ السلام سوی الزلة و ما لیس عن قصد علی أربعة أقسام فرض و واجب و مستحب و مباح و القاضی المام و سائر الأصولیین قسموھا علی ثلاثة أقسام واجب، مستحب و مباح [۲۵]

 

چوتھی قسم


یہ قسم رسول اللہ ﷺ کے ان ارادی افعال پر مشتمل ہے جن کی صفت یعنی ان کا فرض، واجب، سُنّت یا مباح ہونا واضح نہ ہو،نہ آپ کے حق میں اور نہ ہی امت کے حق میں۔امام سرخسی فرماتے ہیں:
وکان أبو الحسن الکرخی رحمہ اللہ یقول: ان علم صفة فعلہ أنہ فعلہ واجبا أو ندبا أو مباحا فنہ یتبع فیہ بتلک الصفة، وان لم یعلم فنہ یثبت فیہ صفة الباحة، ثم لا یکون الاتباع فیہ ثابتا لا بقیام الدلیل وکان الجصاص رحمہ اللہ یقول بقول الکرخی رحمہ اللہ لا أنہ یقول: اذا لم یعلم فالاتباع لہ فی ذلک ثابت حتی یقوم الدلیل علی کونہ مخصوصا وھذا ھو الصحیح. [۲۶]

علامہ علاؤ الدین بخاری(متوفی ۷۳۰ھ) لکھتے ہیں:

امام جصاص ( متوفی ۳۷۰ھ) احناف کے اس موقف کے دلائل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

٭ جیسا کہ امام جصاص نے بیان کیا ہے، ایک اہم نکتہ اس بحث میں یہ ہے کہ آپ کے اس قسم کے تمام افعال کو بھی علمائے احناف نے واجب یا مستحب قرار نہیں دیا ہے بلکہ ان افعال میں بھی ایک قسم ’مباح‘ ہے کہ جس کے ارتکاب پر کسی امتی کے لیے اجر و ثواب کا کوئی عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے۔
٭دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کی وہ عمومی آیات کہ جن میں اللہ کے رسول ﷺ کی مطلق اتباع کا تذکرہ ہے، ان سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید آپؐ کی یہ اتباع آپ کے ہر ہر فعل میں امت کے حق میں واجب یا فرض ہے ۔
امام سرخسی (متوفی۴۸۳ھ) ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
ففی قولہ: (لَقَدْ كَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَة حَسَنَة) دلیل علی أن التأسی بہ فی أفعالہ لیس بواجب، لأنہ لو کان واجبا لکان من حق الکلام أن یقول علیکم، ففی قولہ’’لکم‘‘ دلیل علی أن ذلک مباح لنا لا أن یکون لازما علینا والأمر بالاتباع التصدیق و الاقرار بما جاء بہ، فان الخطاب بذلک لأھل الکتاب وذلک بین فی سیاق الآیة [۲۹]

 

پانچویں قسم


فقہائے حنفیہ کے نزدیک پانچویں قسم آپ کے ان افعال پر مشتمل ہے جو قرآن کی کسی نص کابیان ہوں۔آپؐ کے ان افعال کا وہی حکم ہوگا جو کہ اصل یعنی مبیَّن کا ہوگا۔امام جصاص فرماتے ہیں:

اما م جصاص نے اس بات کو بھی واضح کیاہے کہ اگر کسی مجمل نص کاحکم وجوب کاہے تو یہ لازم نہیں ہے کہ اس نص کے بیان میں آپ کے ہر ہر فعل کا حکم بھی وجوب کا ہی ہو،یعنی اس نص کے بیان میں بعض افعال کا حکم تووجوب کا ہی ہو گا لیکن بعض افعال مندوب یا مباح بھی ہوں گے۔جیسا(اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ) کا مجمل حکم تو وجوب کاہے لیکن آپ نے اس کے بیان میں جو بھی افعال مثلاً رکوع، سجدہ، قومہ، جلسہ استراحت، تکبیرات، تسبیحات، قعدہ وتشہد وغیرہ کیے ہیں وہ سب واجب نہیں ہیں۔یعنی نماز کے تمام افعال وجوب کا درجہ نہیں رکھتے ہیں۔
٭مذکورہ بالا بحث میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ کسی مجمل نص کے بیان میں رسول اللہ ﷺ کے بعض افعال اباحت کے درجے میں ہیں کہ ان کے ارتکاب پر ثواب کا عقیدہ نہیں رکھا جائے گا۔
٭دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ بعض اوقات آپ کے جبلی افعال بھی قرآن کی ان نصوص کے بیان سے متعلق ہوتے ہیں کہ جن کا اصل حکم وجوب یا استحباب کے درجے کا ہوتا ہے، لہٰذا آپ کے یہ جبلی ا فعال کم از کم استحباب کا درجہ ضرور رکھتے ہیں۔

 

چھٹی قسم


چھٹی قسم آپ کے ان افعال پر مشتمل ہے جو کہ آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں۔آپ کے ان افعال میں بھی بالاتفاق اتباع نہیں ہے۔علامہ علاؤ الدین بخاری لکھتے ہیں:

 

سوال: برصغیر پاک وہند میں حنفیہ کے علاوہ اہل الحدیث کی ایک بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے ۔کسی اہل حدیث عالم دین کی اس مسئلے میں اصولی گفتگو پر روشنی ڈالیں۔

جواب: شیخ صالح العثیمین کے شاگرد دکتورخالد بن علی المشیقح٭، اصولِ فقہ پر ان کی منظوم کتاب کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واعلم أن أفعال النبیؐ تنقسم لی ثلاثة أقسام: القسم الأول: ما فعلہ النبیؐ علی وجہ القربة و الطاعة…القسم الثانی: ما فعلہ النبیؐ لا علی وجہ القربة والطاعة وھذا تحتہ أقسام: القسم الأول: ما فعلہ النبیؐ بمقتضی الجبلة و الطبیعة فھذا فی حد ذاتہ لا یتعلق بہ أمر ولا نھی فلا تقول للنسان نک تفعل کذا أو لا تفعل کذا…الخ .مثال ذلک: نوم النبیؐ و أکلہ و شربہ ونکاحہ…لخ . لکن ھیئات مثل ھذہ الأشیاء قد یتعلق بھا أمر أونھی فالأکل قد یتعلق بہ أمر وقد یتعلق بہ نھی کالأکل بالیمین، و الشرب بالیمین، والتسمیة، والحمدلة، ولا یأکل مایضرہ…لخ .وکذلک النوم فانہ ینام علی طھارة، و علی جنبہ الأیمن، ویذکر أذکار النوم…لخ. وأما ذات النوم، وذات الأکل والشرب…لخ . فھذہ الأشیاء فعلھا النبیؐ جبلة فلا یتعلق بھا أمر أو نھی۔القسم الثانی: ما فعلہ النبیؐ علی وجة العادة فھذا أیضا مباح: مثل کیفیة الأکل، والشرب و اللباس ھذہ من قبیل العادات لکن الشارع قد یأمر ببعض الکیفیات و ینھی عن بعض، مثل أن یأکل کذا، أو یشرب کذا، أو یأکل علی ھذہ الھیئة أو ینام علی ھذہ الھیئة…لخ. ما فعلہ النبیؐ علی سبیل العادة ھذا لا نقول بأن النسان مأمور أن یتابع النبیؐ فی ھذہ الأشیاء فنہ لا یتعلق بھا أمر أو نھی، بل السنة للنسان أن یفعل العادة فی المکان والزمان الذی ھو فیہ ما لم یخالف الشرع. یعنی یوافق أھل بلدہ فی عادتھم۔مثال ذلک: النبیؐ لبس العمامة لکن عادة الناس فی مثل ھذا البلد أنھم یلبسون عمامة، والسنة أن النسان یوافق الزمان والمکان الذی ھو موجود فیہ کلبس الشماغ أو الغترة…لخ فیوافقھم فی ذلک ما لم بخالف الشرع، لأنہ لو خالف الناس لأصبح لباسہ لباس شھرہ۔وأیضا: النبیؐ رکب الخیل والحمار والناس الآن فی ھذا البلدلا یرکبون الخیل و الحمار…لخ فھل نقول بأنک توافق النبیؐ فی عادتہ، أو نقول لہ ارکب السیارة مثل فعل الناس؟ والسنة أن یترک مثل ھذہ الأشیاء و یفعل ما یفعلہ الناس، لأن کونہ یوافق الناس ھذہ یبعدہ عن الشھرة و کونہ یرکب الخیل ویقول أرید أن أقتدی بالنبیؐ نقول: ھذا من قبیل العادات و النبیؐ فعل مایوافق أھل بلدہ و زمانہ وأنت السنة أن توافق زمانک و مکانک [۳۳]

 

سوال: کبھی آپ یہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کا سونا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا اور پینا وغیرہ مباح افعال ہیں اور اس کے ثبوت میں علماء کے اقوال نقل کرناشروع کر دیتے ہیں اور کبھی آپ یہ کہتے ہیں کہ آپؐ کا کھانا، پینا، سونا وغیرہ سے متعلق بہت سے ایسے احکامات ہیں جو استحباب یا وجوب کا درجہ رکھتے ہیں اور اس کے حق میں علماء کے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔ذرا تفصیل سے اپنے موقف کو واضح کریں، آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟

جواب: ہماری ساری بحث کو اب ایک سادہ سی مثال کے ذریعے سمجھیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کا سونا جبلی تقاضے کے تحت تھا لہٰذا مجردسونا ایک مباح امر ہے۔یعنی اگر کوئی شخص یہ سوچ کرسوتا ہے کہ آپ بھی تو سوئے تھے تو اس کا یہ سونے کا فعل باعث اجر و ثواب نہیں ہے۔لیکن اگر وہ اس طریقے سے سوتا ہے جس طریقے سے سونے کی آپ نے تعلیم دی ہے تو اب اس سونے کے فعل میں اس کواجر ملے گا۔سونے کے عمل کے بارے میں نبی ﷺ کی بعض تعلیمات مروی ہیں، جن میں بعض استحباب کا درجہ رکھتی ہیں، جبکہ بعض اسباب کے تحت ہیں اور بعض مباح ہیں۔مثال کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سونے کے عمل کی درج ذیل سُنّتیں ہیں، یعنی اگر کوئی شخص سونے کے عمل سے پہلے درج ذیل اعمال کرے گا تو یہ اعمال اس کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہوں گے، کیونکہ روایات سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے سونے کے عمل سے پہلے تقربالی اللہ کی نیت سے خود سے ان اعمال کو کیا یا ان کے کرنے کی تلقین کی۔
۱۔ رات سونے سے پہلے اَللّٰهُمَّ بِاسْمِكَ اَمُوْتُ وَاَحْیَا پڑھنا۔ [۳۴]
۲۔ را ت سونے سے پہلے دونوں ہاتھوں میں پھونک ماریں اور آخری تین سورتیں پڑھ کرجہاں تک ممکن ہو لیٹے لیٹے سر، چہرے اور جسم کے اگلے حصے پر ہاتھ پھیریں اور اس عمل کو تین مرتبہ دہرائیں۔ [۳۵]
۳۔ رات سونے سے پہلے آیت الکرسی پڑھنا۔ [۳۶]
۴۔ سونے سے پہلے بِاسْمِكَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِیْ وَبِكَ اَرْفَعُہ اِنْ اَمْسَکْتَ نَفْسِیْ فَارْحَمْهَا وَاِنْ اَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِہ عِبَادِكَ الصَّالِحِیْنَ پڑھنا۔ [۳۷]
۵۔ سونے سے پہلے اَللّٰهُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِیْ وَاَنْتَ تَوَفَّاهَا لَكَ مَمَاتُهَا وَمَحْیَاهَا، اِنْ اَحْیَیْتَهَا فَاحْفَظْهَا وَاِنْ اَمَتَّهَا فَاغْفِرْلَهَا، اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُكَ الْعَافِیَةَ پڑھنا۔ [۳۸]
۶۔ سونے سے پہلے اَللّٰهُمَّ قِنِیْ عَذَابَكَ یَوْمَ تُبْعَثُ عِبَادَكَ پڑھنا۔ [۳۹]
۷۔ سونے سے پہلے ۳۳ مرتبہ الحمد للہ، ۳۳مرتبہ سبحان اللہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر پڑھنا۔ [۴۰]
۸۔ سونے سے پہلے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمْنَا وَسَقَانَا وَكَفَانَا وَآوَانَا فَكَمْ مِمَّنْ لَا كَافِیَ لَہ وَلَا مُؤْوِیَ پڑھنا۔ [۴۱]
۹۔ سونے سے پہلے اَللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ رَبَّ کُلِّ شَیْئٍ وَمَلِیكَہ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطٰنِ وَشِرْکِہ وَاَنْ اَقْتَرِفَ عَلٰی نَفْسِیْ سُوْئً اَوْ اَجُرَّہ اِلٰی مُسْلِمٍ پڑھنا ۔ [۴۲]
۱۰۔ سونے سے پہلے اَللّٰهُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْكَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَیْكَ وَوَجَّهْتُ وَجْهِیَ اِلَیْكَ وَاَلْجَاْتُ ظَهْرِیْ اِلَیْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً اِلَیْكَ لَا مَلْجَاَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ اِلاَّ اِلَیْكَ آمَنْتُ بِکِتَابِكَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَبِنَبِیِّكَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ پڑھنا۔ [۴۳]
۱۱۔ سونے سے پہلے اَللّٰهُمَ رَبَّ السَّمٰوَاتِ وَرَبَّ الْاَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی وَمُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ اَنْتَ آخِذ بِنَاصِیَتِہ اَللّٰهُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَكَ شَیْئ وَاَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَكَ شَیْئ وَاَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَیْسَ فَوْقَكَ شَیْئ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَكَ شَیْئٍ اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَاَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ پڑھنا۔ [۴۴]
۱۲۔ سونے سے پہلے سورة البقرة کی آخری دوآیات کا پڑھنا۔ [۴۵]
۱۳۔ سونے سے پہلے سور ة الکافرون پڑھنا۔ [۴۶]
۱۴۔ سونے سے پہلے سورة الملک پڑھنا۔ [۴۷]
۱۵۔ سونے سے پہلے سورة الم سجدة پڑھنا۔ [۴۸]
۱۶۔ باوضو ہو کر سونا۔ [۴۹]
۱۷۔ دائیں پہلو پر لیٹنا۔ [۵۰]
۱۸۔ دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھنا۔ [۵۱]
۱۹۔ آپ نے سونے سے پہلے بستر جھاڑنے کا حکم دیا۔ [۵۲]
۲۰۔ سونے سے پہلے کھانے پینے کی چیزوں اور برتنوں کوڈھانپنے کابھی حکم دیا گیا۔ [۵۳]
یہ بیس سنن ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں احادیث و روایات ہی میں ایسے قرائن و دلائل موجود ہیں جو اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ سنن شرعیہ ہیں۔یعنی ان افعال میں آپ کی پیروی و اتباع مطلوب اور باعث اجر و ثواب ہے۔
ان کے علاوہ جب بعض ایسی روایات پر غور کرتے ہیں کہ جن کا تعلق سونے کے آداب کے ساتھ ہے تو مختلف قرائن یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ آداب سننِ شرعیہ میں سے نہیں ہیں ۔مثلا ً ایک صحیح روایت کے مطابق آپ نے رات کو چراغ جلاکے سونے سے منع فرمایا۔اب آپ،کا یہ حکم کسی سبب کے تحت تھا، جیسا کہ بعض دوسری روایات میں آتا ہے کہ مدینہ میں رات کے وقت ایک گھر میں آگ لگ گئی اورآپ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے کہا: ’’رات کو سونے سے پہلے چراغ بجھا دیا کرو‘‘۔اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ رات کو سونے سے پہلے چراغ اس لیے بجھا دیا کرو کہ کوئی چوہیا وغیرہ اس کی آگ سے کھیل کر پورے گھر کوآگ لگانے کا باعث نہ بن جائے۔پس اگر کوئی شخص اس روایت سے یہ حکم نکالے کہ رات کو سوتے وقت لائٹ جلانا جائز نہیں ہے یا لائٹ آف کر کے ہی سونا مستحب و پسندیدہ ہے توہمارے خیال میں یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے۔اگر کوئی شخص کسی وجہ سے رات کولائٹ آن کر کے سوتا ہے تو سُنّت کی مخالفت نہیں کر رہا ہے۔اسی طرح سونا ایک مباح امر ہے اور دن و رات کے کسی بھی وقت میں انسان سو سکتا ہے بشرطیکہ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو رہی ہو۔لہٰذا اگر کسی شخص کی ملازمت کی صورت ایسی ہے کہ وہ رات کو جاگتا ہے اور دن کو سوتا ہے مثلاً چوکیدار وغیرہ تو یہ سُنّت کی خلاف ورزی نہیں کر رہا ہے۔اسی طرح اگر کوئی رات کو دیر تک جاگتا رہے اور اپنی نیند پوری کرنے کے لیے فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعدسو جائے تو یہ بھی سُنّت کی خلاف ورزی نہیں ہے، کیونکہ کوئی ایسی صحیح روایت مروی نہیں ہے کہ جس میں صبح کی نماز کے بعد سونے سے منع کیاگیا ہو۔ہاں ایسی روایت ضرور موجود ہے جس میں عشاء کی نماز سے پہلے سونے سے منع کیا گیا ہے، لیکن اس کا سبب بھی یہ ہے کہ رات کی نماز ضائع نہ ہو جائے، کیونکہ بعض دوسری صحیح روایات میں موجود ہے کہ آپ بعض اوقات عشاء کی نماز کے لیے اپنے حجرے سے رات گئے نکلتے تھے اور صحابہ اس دوران نماز کے انتظار میں مسجدمیں سو رہے ہوتے تھے۔پس اگر نماز کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو ضرورت کے تحت عشاء سے پہلے سونے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔اسی طرح زمین پریا کسی چارپائی و پلنگ وغیرہ پر سونا یا نہ سونابھی کوئی دین کا موضوع نہیں ہے۔انسان جہاں چاہے سو جائے۔
پس ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے بعض افعال تو واقعتاً ایسے ہیں جو سنن شرعیہ کا درجہ رکھتے ہیں، اور ایسے اعمال بلاشبہ ۲۴ گھنٹوں میں ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں، جیسا کہ ہم نے ایک سونے کے عمل کے بارے میں ۲۰ سنن نقل کر دی ہیں،لیکن آپ کے بعض اعمال و افعال ایسے ہیں جو سنن شرعیہ کا درجہ نہیں رکھتے، بلکہ زیادہ سے زیادہ ان کے بارے میں جو حکم لگایا جا سکتا ہے وہ اباحت یا جواز کا ہے ۔پس آپ کے ایسے افعال جو اباحت کے درجے میں ہیں، کی ترغیب و تشویق کی بجائے ہمیں عامة الناس کو فرائض کی ادائیگی، محرمات سے اجتناب اور ایسی سنن کی پابندی کی تلقین کرتے رہنا چاہیے جن کے استحباب کے بارے میں واضح قرائن موجود ہیں۔عامة الناس کی اکثریت تو ایسی ہے جو فرائض کو ادا نہیں کر رہی اور محرمات سے اجتناب نہیں کرتی، ان کو عمامے یا تہبندکی ترغیب و تشویق دلانا دعوتِ دین کی حکمت کے بھی منافی ہے۔جتنا وقت ہم لوگوں کو عمامے اور تہبند کی تلقین میں صرف کرتے ہیں اگر وہی وقت ہم لوگوں کو فرائض کی ادائیگی اور محرمات سے اجتناب کرنے کی موعظت و نصیحت میں کھپائیں تو یہ اس وقت کا صحیح و زیادہ قیمتی مصرف ہو گا، کیونکہ ابھی ہم یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہمارے معاشرے کے تمام مسلمان تمام فرائض دینیہ کو ادا کرنے یا محرمات سے اجتناب کرنے والے بن گئے ہیں۔

 

حواشی


[۱] تفسیر اللباب فی علوم الکتاب، آل عمران:۱۳۷۔
[۲] التقریر و التحبیر : الباب الثالث السنة۔
[۳] البحر المحیط : مباحث السنة۔
[۴] الموافقات’ج۲‘ جزئ۴، ص ۷۔
[۵] مجموع الفتاویٰ، جلد۱۸، ص ۶، ۷۔
[۶] ارشاد الفحول، المقصد الثانی فی السنة۔
[۷] الفصول فی الاصول : باب القول فی افعال النبیؐ۔
[۸] کشف الاسرار، باب اقسام العزیمة۔
[۹] اصول البزدوی، باب افعال النبیؐ۔
[۱۰] اصول السرخسی، باب الکلام فی افعال النبیؐ۔
[۱۱] کشف الاسرار شرح اصول البزدوی، باب افعال النبیؐ۔
[۱۲] کشف الاسرار، باب اقسام العزیمة۔
[۱۳] المستصفی: القطب الاول فی الثمرة وھی الحکم، مسالة الجائز لا یتضمن الامر والمباح۔
[۱۴] کشف الاسرار شرح اصول البزدوی، باب افعال النبیؐ۔
[۱۵] التقریر والتحبیر: المقالة الثانیة فی احوال الموضوع، مسألة الاتفاق فی افعالہ الجبلیة الصادرة بمقتضی طبعیتہ۔
[۱۶] کشف الاسرار، باب اقسام العزیمة۔
[۱۷] الفصول فی الاصول، باب القول فی سنن رسول اللہؐ۔
[۱۸] التقریر والتحبیر: المقالة الثانیة فی احوال الموضوع، تقسیم الحنفیة الحکم اما رخصة او عزیمة۔
[۱۹] اصول الفقہ الاسلامی، ج۱، ص۹۰۔
[۲۰] الفصول فی الاصول، باب القول فیما یستدل بہ علی احکام افعالہ علیہ السلام۔
[۲۱] اصول السرخسی، باب افعال الرسول۔
[۲۲] کشف الاسرار، باب افعال النبیؐ۔
[۲۳] الفصول فی الاصول، باب القول فی افعال النبیؐ۔
[۲۴] الفصول فی الاصول، باب القول فی افعال النبیؐ۔
[۲۵] کشف الاسرار، باب افعال النبیؐ۔
[۲۶] اصول السرخسی، باب الکلام فی افعال النبیؐ۔
[۲۷] کشف الاسرار، باب افعال النبیؐ۔
[۲۸] الفصول فی الاصول، باب القول فی افعال النبیؐ۔
[۲۹] اصول السرخسی، باب الکلام فی افعال النبیؐ۔
[۳۰] الفصول فی الاصول، باب القول فیما یستدل بہ علی احکام افعالہ علیہ السلام۔
[۳۱] الفصول فی الاصول، باب القول فیما یستدل بہ علی احکام افعالہ علیہ السلام۔
[۳۲] کشف الاسرار، باب افعال النبیؐ۔
[۳۳] العقد الثمین فی شرح منظومة الشیخ ابن العثیمین، ص ۷۶، ۷۷۔
[۳۴] صحیح البخاری، کتاب الدعوات، باب وضع الید الیمنی تحت الخد الایمن۔
[۳۵] صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل المعوذات۔
[۳۶] صحیح البخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفة ابلیس و جنودہ۔
[۳۷] صحیح البخاری، کتاب الدعوات، باب التعوذو القراء ة عند المنام۔
[۳۸] صحیح مسلم، کتاب الذکر و الدعاء و التوبة و الاستغفار، باب ما یقول عند النوم و أخذ المضجع۔
[۳۹] سنن الترمذی، کتاب الدعوات عن رسول اللہ، باب منہ۔
[۴۰]صحیح بخاری، کتاب النفقات، باب خادم المرأة۔
[۴۱]سنن الترمذی، کتاب الدعوات عن رسول اللہ، باب ما جاء فی الدعاء اذا آوی الی فراشہ۔
[۴۲] سنن الترمذی، کتاب الدعوات عن رسول اللہ، باب منہ۔
[۴۳] صحیح البخاری، کتاب الوضوئ، باب فضل من بات علی الوضوئ۔
[۴۴] صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب ما یقول عند النوم واخذ المضجع۔
[۴۵] صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن،باب فی کم یقرأ القرآن۔
[۴۶] سنن الترمذی، کتاب الدعوات عن رسول اللہ، باب منہ۔
[۴۷] سنن الترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورة الملک۔
[۴۸]سنن الترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورة الملک۔
[۴۹] صحیح البخاری، کتاب الوضوئ، باب فضل من بات علی الوضوئ۔
[۵۰] صحیح مسلم، کتاب الذکر و الدعاء و التوبة و الاستغفار، باب ما یقول عند النوم و أخذ المضجع۔
[۵۱] صحیح البخاری، کتاب الدعوات، باب وضع الید الیمنی تحت الخد الأیمن۔
[۵۲] صحیح مسلم، کتاب الذکر و الدعاء و التوبة و الاستغفار، باب ما یقول عند النوم و أخذ المضجع۔
[۵۳] صحیح البخاری، کتاب الاستئذان، باب اغلاق الأبواب باللیل۔