رسول اللہ ﷺ کے افعال
رسول اللہ ﷺ کے اقوال کی طرح آپ کے افعال بھی ہمارے لیے سنت اور مصدرِ تشریع ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لیکن کیا آپ کا ہر ہر فعل، چاہے دنیا سے متعلق ہو یا دین سے، ہمارے لیے مصدر، ماخذاور سنت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی اتباع لازمی یا کم ازکم مستحب ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے صرف وہی افعال ہمارے لیے شریعت یا ایسی سنت ( جس کی اتباع کرنی چاہیے) کا درجہ رکھتے ہیں جو کہ آپ سے بطورِ شریعت صادر ہوئے ہوں۔
ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
ڈاکٹر حمزہ الملیباری لکھتے ہیں :
خود اس آیت میں بھی اس بات کا قرینہ موجود ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا ہر ہر فعل ہمارے لیے اُسوہ نہیں ہے۔آیت مبارکہ میں فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ کے الفاظ ہیں، یعنی اللہ کے رسول ﷺ میں یا ان کے افعال میں یا ان کی زندگی میں یا ان کے طریقے میں تمہارے لیے اُسوہ ہے۔ عربی زبان میں ’فی‘ کالفظ عموماً ظرفیت کا معنی دیتا ہے۔ بعض اوقات یہ ظرفیت حقیقی ہوتی ہے، مثلاً غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ اور بعض اوقات مجازی ہوتی ہے جیسا کہ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ میں ہے۔ اگر آیت کا اسلوب یوں ہوتا کہ اللہ کے رسول ﷺ تمہارے لیے اُسوہ ہیں تو پھر یہ معنی مراد ہوسکتے تھے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے جمیع افعال میں اتباع مطلوب و مقصودہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’الاحکام‘‘ میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اتباعِ رسول ﷺ کا معنی و مفہوم اور شرعی حکم
حال ہی میں یہ فلسفہ متعارف ہوا ہے جس کا ذکر ہم سابقہ قسط میں بھی کر چکے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے ہر ہر فعل کی پیروی اس اتباع میں شامل ہے جس کا قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا گیاہے۔ لہٰذ ا اگر اللہ کے رسول ﷺ نے تہبند باندھا ہے تو ہمیں بھی تہبند باندھنا چاہیے۔آپ نے عمامہ باندھا، موزے پہنے، اونٹ، گھوڑے اور گدھے کی سواری کی، ثرید کھائی، سرمہ لگایا وغیرہ، تو ہمیں بھی یہ سب کام کرنے چاہئیں اور ان سب کو کرنا آپ کی اتباع اور باعث ثواب و بلندی درجات ہے۔ یہ حضرات آپ کے ہر ہر فعل کو سنت کا نام دیتے ہیں اور سنت کی پیروی میں اس حد تک غلواختیار کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک زمین پر بیٹھنا سنت اور کرسی پر بیٹھنا خلافِ سنت ہے۔ اور چونکہ ان کے بقول ہر سنت طیب ہے اور ہر خلافِ سنت کام ان کے نزدیک خبیث ہے، لہٰذا کرسی پر بیٹھنا خباثت ہے ۔ اسی طرح ان کے فلسفہ سنت کی رو سے کراچی سے لاہور جانے کے لیے اونٹ کی سواری، گاڑی کی سواری سے افضل ہے ۔ وہ اس پر بھی مصر ہیں کہ ہاتھ سے کھانا سنت ہے اور چمچ سے کھانا خباثت ہے، عمامہ اور تہبند باندھنا ہی سنت، باعث ثواب اور بلندی درجات کا سبب ہے، وغیر ذٰلک۔ ان میں سے بعض حضرات نے تو اِس درجہ غلو اختیار کیا کہ قرآن کی طباعت، پاروں اور رکوعوں کی تقسیم، قرآن کے اعراب و حرکات تک کو یہودی سازش قرار دیا ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ کام نہ کیا تھا۔
ہمارے خیال میں یہ نقطہ نظر بوجوہ غلط افکار پر مشتمل ہے۔ اس کے قائلین ایک ایسی چیز کو دین قرار دے رہے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ’’دین‘‘ قرارنہیں دیا ہے۔ لہٰذا یہ لوگ سنت کا ایسا تصور پیش کر رہے ہیں جو اُمت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں پیش نہیں ہوا۔ ہاں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص ان افعال کو رسول اللہ ﷺ سے محبت اور تعلق کے اظہار کی نیت سے اد اکرتا ہے تو ان شاء اللہ العزیز اس نیت و ارادہ پراجرو ثواب ملنے کی امید ہے۔ ذیل میں ہم ان حضرات کے افکار کا ایک علمی اور تحقیقی جائزہ لے رہے ہیں۔ قرآن مجید میں ہمیں اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اتباع کے لفظ کا مادہ ’تبع‘ ہے ۔، لسان العرب، میں ہے کہ معروف لغوی فراء نے اتباع کا معنی ان یسر الرجل و أنت تسیر وراءہ بیان کیا ہے ۔ یعنی کوئی شخص چلے اور تم اس کے پیچھے چلو تو یہ اس کی اتباع ہے۔ پس اتباع کے لغوی معنی پیروی کرنے اور پیچھے چلنے کے ہیں۔
اس آیت کا سیاق و سباق یہ بتلا رہا ہے کہ کچھ لوگوں نے عہد نبوی میں اللہ سے محبت کا دعویٰ کیا تو اُن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ جمہور مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ نجران کے اس عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے لیکن اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لانے اور آپ کی بات ماننے سے انکاری تھے۔ اس آیت مبارکہ کے شانِ نزول کے بارے میں چار اقوال مروی ہیں، جن کا تذکرہ علامہ ابن جوزی نے اپنی تفسیر زاد المسیر میں کیا ہے۔ یہ اقوال درج ذیل ہیں:
(۱) یہ آیتِ مبارکہ ان مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے، جیسا کہ قرآن نے آیت مبارکہ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰهِ زُلْفٰی ﴿الزمر:۳﴾ میں اس طرف اشارہ کیا ہے ۔ یعنی مشرکین کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اللہ کے غیر کی عبادت بھی اللہ کے قرب کے حصول کے لیے کرتے تھے ۔ یہ قول ضحاک نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔
(۲) دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ نجران کے اس عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے ۔ یہ قول مفسرین کی ایک جماعت کا ہے ۔ امام المفسرین ابن جریر طبری کی بھی یہی رائے ہے ۔ امام قرطبی کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔
(۳) مفسرین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ ان یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے نَحْنُ اَبْنٰؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاؤُہ ﴿المائدة:۱۸﴾ کا دعویٰ کیا تھا۔ امام رازی، علامہ مجد الدین فیروز آبادی، علامہ سمرقندی اور امام بغوی نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔ بعض مفسرین نے دوسرے اور تیسرے دونوں اقوال کو اس آیت مبارکہ کا شان نزول قرار دیا ہے ۔ یعنی ان مفسرین کے نزدیک یہ آیت مبارکہ اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اس رائے کے حاملین میں اما م ابن عطیہ، امام خازن اور امام ابو حیان ا لاندلسی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔
(۴) ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ آیت مبارکہ ایک ایسی قوم کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اللہ سے محبت کی دعوے دار تھی۔ یہ قوم کون تھی، اس کا تعین اس قول میں موجود نہیں ہے ۔ یہ رائے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی ہے ۔
بعض مفسرین نے اس آیت مبارکہ کو اس کے شانِ نزول سے خاص کرنے کی بجائے اسے عام رکھا ہے۔ مثلاً امام ابن کثیر اور امام نسفی رحمہما اللہ وغیرہ ۔ صحیح بات بھی یہی ہے کہ آیت اگرچہ اپنے نزول کے اعتبار سے خاص ہے لیکن اس کا معنی عام ہے، جیسا کہ مفسرین کا قاعدہ ہے العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب یعنی کسی آیت کی تفسیر میں شانِ نزول کے اعتبار کی بجائے اس آیت کے الفاظ کے عموم کا اعتبار ہو گا۔ شانِ نزول سے کوئی آیت مبارکہ کسی فرد یا ایک جماعت کے ساتھ خاص تونہیں ہوجاتی لیکن پھر بھی آیت کے معنی و مفہوم کو سمجھنے میں شانِ نزول کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
اتباع کا لفظ قرآن میں معمولی فرق کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں یہ لفظ پیچھے چلنے اور پیروی کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہےفَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ ﴿الحجر:۶۵﴾ اور لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ ﴿التوبة:۴۲﴾ اور ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ ﴿الفتح:۱۵﴾ اور قَالُوْالَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰكُمْ ﴿آل عمران:۱۶۷﴾ اور فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿القیٰمة﴾ ۔
عام طور پر اطاعت اور اتباع کا فرق بیان کرنے کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ اطاعت حکم کی ہوتی ہے اور اتباع حکم کے بغیر ہوتی ہے، حالانکہ بعض اوقات اتباع کا لفظ قرآن میں کسی کا حکم ماننے اور ا س حکم کی پیروی کرنے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان فَاتَّبَعُوْا اَمْرَ فِرْعَوْنَ ﴿ھود:۹۷﴾ اور وَاتَّبَعُوا أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ ﴿ھود:۵۹﴾ ہے ۔ ان آیات میں مصدر کا صیغہ ’امر‘ بمعنی اسم مفعول یعنی ’مامور‘ ہے اور مصدر کا اسم مفعول کے معنی میں استعمال قرآن میں عام ہے۔ لہٰذا یہ ثابت ہواکہ اتباع کا لفظ اس معنی میں عام ہے کہ اگر کسی کے حکم پرعمل کیا جائے تویہ بھی اتباع ہے اور اگر کسی کے حکم کے بغیر اس کے نقش قدم پر چلا جائے تو یہ بھی اتباع ہے۔
اتباع کا یہ معنی تو لغت سے واضح ہے کہ کسی کے پیچھے چلنا، لیکن کیا اتباع کے معنی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جہاں کوئی دایاں پاؤں رکھے بعینہ اُس جگہ اُس کے پیچھے چلتے ہوئے دایاں پاؤں رکھا جائے اور جہاں کسی کا بایاں پاؤں زمین پرپڑے عین اسی جگہ اپنا بایاں پاؤں ہی رکھا جائے؟ اہل لغت میں سے کسی نے بھی اتباع کا یہ مفہوم بیان نہیں کیا ہے ۔ قرآن میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جن سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع سے ہر ہر فعل میں آپ کی پیروی مراد نہیں ہے ۔ مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اگر اتباع سے مراد یہ لی جائے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے جبلی افعال مثلاً آپ کا کھانا، پینا، اٹھنا اور بیٹھنا وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں تواکثر صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے جبلی افعال میں آپ کی پیروی نہیں کرتے تھے تو کیا ان صحابہ کو اللہ کی ذات کفایت کرنے والی نہیں ہے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے بارے میں روایات میں ملتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے ہر ہر فعل کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حج یا عمرہ کے دوران اگر کسی جگہ سے اللہ کے رسول ﷺ کاگزر ہواہوتا تھاتو وہ بھی اسی جگہ سے گزرنے کی کوشش کرتے تھے اور آپ اگر کسی جگہ راستے میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھے تھے تو وہ بھی اسی جگہ قضائے حاجت کااہتمام کرتے تھے ۔ حضرت عبد للہ بن عمر کے علاوہ باقی جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی اس درجے پیروی نہیں کرتے تھے ۔ اگر تو حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا آپ کی پیروی میں حد درجے آگے بڑھ جانا اتباع کے مفہوم میں شامل ہے تو پھر فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ صحابہ کی اکثریت اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع کرنے والی نہیں تھی اور نہ ہی اللہ کی محبوب تھی۔ کیونکہ تمام صحابہ آپ کے ہر ہر عمل میں آپ کی پیروی نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا :
اس آیت کے نزول کے بعد کیا رسول اللہ ﷺ کے بازو صرف حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے لیے پست رہے یا جمیع صحابہ کے لیے؟ جواب بالکل واضح ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد آپ تمام صحابہ کے ساتھ نرمی اختیار کرتے تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اتباع سے مراد جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم کا طرزِ عمل ہے نہ کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کا۔ کیونکہ اگر اتباع سے مراد حضرت عبد اللہ بن عمر کا طرز عمل لیا جائے تو پھر گویاجمہور صحابہ نے آپ کی اتباع نہ کی اور آپ نے بھی (معاذاللہ!)جمہور صحابہ کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کر کے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے ۔
اگر اتباع سے جمیع افعال میں آپ کی پیروی مراد لی جائے تو یہ اتباع کسی ایک صحابی نے بھی نہیں کی ہے، حتی کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے بھی بعض معاملات میں آپﷺ کے بعض افعال کی خلاف ورزی مروی ہے۔
جیسا کہ ہم صحیح بخاری کی ایک روایت بیان کر چکے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر حج یا عمرہ کے موقع پر اپنی داڑھی اپنی مٹھی میں لے کر زائد بال کاٹ دیتے تھے، جبکہ اللہ کے رسول ﷺ سے زندگی بھر ایسا ثابت نہیں ہے۔
قرآن مجید میں حق اور باطل دونوں کی پیروی کے لیے اتباع کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ پہلی قسم کی مثالیں وَاَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ﴿الانعام: ۱۵۳﴾ اور وَهٰذَا كِتٰب اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَک فَاتَّبِعُوْهُ ﴿الانعام: ۱۵۵﴾ اور اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ ﴿یونس:۱۵﴾ اور اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا ﴿النحل:۱۲۳﴾ اور فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْ ﴿طٰهٰ﴾ اور وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ﴿لقمٰن:۱۵﴾ اوریٰاَ بَتِ اِنِّیْ قَدْ جَاءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِک فَاتَّبِعْنِیْ اَهْدِک صِرَاطًا سَوِیًّا ﴿مریم﴾ اور اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ ﴿التوبة:۱۱۷﴾ اور اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ ﴿آل عمران:۶۸﴾ اور فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا ﴿آل عمران:۹۵﴾ اوروَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْک فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴿آل عمران:۵۵﴾ اوروَاخْفِضْ جَنَاحَك لِمَنِ اتَّبَعَك مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴿الشُّعراء﴾ وغیرہ شامل ہیں ۔ ان آیات میں اتباع کالفظ سیدھے راستے کی پیروی، وحی الٰہی کی پیروی، نبی کی پیروی، قرآن کی پیروی وغیرہ کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ سیدھے راستے کی پیروی سے مراد دینِ اسلام کی پیروی یعنی اس پر عمل ہے اور قرآن کی پیروی سے مراد قرآن پر عمل کرنا ہے۔ قرآن میں بہت سے مقامات پر اتباع کا لفظ باطل خواہشات و نظریات اور شیطان کی پیروی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان وَاتَّبَعَ هَوَاهُ﴿الاعراف:۱۷۶﴾ اور وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ﴿المائدة:۴۸﴾ اور وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاءَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا﴿الانعام:۱۵۰﴾ اور وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ﴿مریم:۵۹﴾ اوروَمَا یَتَّبِعُ اَكْثَرُهُمْ اِلاَّ ظَنًّا﴿یونس:۳۶﴾ اور اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ﴿الانعام:۱۱۶﴾ اوروَیَتَّبِعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْد﴿الحج﴾ وغیر ہ ہے۔
لہٰذاقرآن کے استعمالات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی اتباع سے مراد اپنی خواہش نفس و شیطان کے بالمقابل نبی کی وحی الٰہی پر مبنی بات مانتے ہوئے اس کے پیچھے چلنا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو شیطان کی عبادت کے بالمقابل اپنی پیروی کی تبلیغ کی۔ اسی طرح حضرت ہارون علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو بچھڑے کی پرستش میں خواہش نفس کے پیچھے چلنے کی بجائے اپنی اتباع کا حکم دیا۔ علاوہ ازیں مذکورہ بالا آیات میں خواہش نفس، شیطان اور گمان وغیرہ کی پیروی کو مذموم قرر دیا گیا ہے اور اس کے بالمقابل دین اسلام، وحی الٰہی اور نبی کی اتباع کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کی اتباع کا جوحکم دیا گیا ہے یا مسلمانوں کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں، کیونکہ انہوں نے ان کی اتباع کی ہے یا مسلمانوں کو بھی قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کی اتباع کا جو حکم دیا گیا ہے، تو اس سے کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہر ہر فعل کی پیروی مراد ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے، کیونکہ حضرت ابراہیم کا ہر ہر طریقہ نہ تو کسی آسمانی کتاب میں محفوظ ہے، نہ ہی آپ کو وحی کیا گیا ہے اور نہ ہی حضرت ابراہیم کی شریعت ہمارے لیے بھی شریعت ہے۔ اس سے مراد بعض مخصوص معاملات مثلاً شرک سے اجتناب وغیرہ میں حضرت ابراہیم کی پیروی ہے۔ قرآن کی آیت اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ﴿التوبة:۱۱۷﴾ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ بعض اوقات اتباع کا لفظ ایک محدود دائرے میں کسی کے پیچھے چلنے کے معنی میں بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کے لیے وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَا اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْهِ﴿البقرة:۱۴۳﴾ میں بھی اتباع سے مراد ذاتی خواہش کے بالمقابل رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرناہے۔ خود اللہ کے رسول ﷺ کے لیے اتباع کالفظ وحی اور سابقہ ابنیاعلیہم السلام کی پیروی کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ اللہ کا فرمان اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ اور اِنَّمَا اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ﴿الاعراف:۲۰۳﴾ اور اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا ہے ۔
جس طرح اتباع سے مراد ہر ہر فعل کی پیروی نہیں ہے، اسی طرح یہ بات کہنا کہ اتباع میں محبت شامل ہے، یا یہ کہ اطاعت اور اتباع میں اصل فرق یہ ہے کہ اطاعت بغیر محبت کے ہوتی ہے اور اتباع محبت کے ساتھ اطاعت کا نام ہے، یہ بھی پورے طور پر درست معلوم نہیں ہوتی ۔ ہاں، اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اتباع و اطاعت کا کمال بغیر محبت کے حاصل نہیں ہو سکتا، لیکن انہیں محبت سے مشروط کرنے کے لیے دلیل درکار ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اہل لغت میں سے کسی ایک نے بھی اتباع کے مفہوم میں یہ بات بیان نہیں کی ہے کہ اتباع سے مراد محبت یا دلی آمادگی کے ساتھ کسی کی اطاعت کرنا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن نے اتباع کو جن معانی میں استعمال کیا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اتباع کے لیے ضروری نہیں ہے کہ محبت بھی اس میں شامل ہو، جیسا کہ ارشاداتِ باری تعالیٰ قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لاَّ اتَّبَعْنٰكُمْ﴿آل عمران:۱۶۷﴾ اور ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ﴿الفتح:۱۵﴾ اور فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْ﴿طٰهٰ ﴾ اور وَیَتَّبِعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ﴿الحج﴾ وغیرہ ہیں ۔ پہلی دونوں آیات منافقین کے بارے میں ہیں اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان کی اتباع کبھی بھی محبت کے ساتھ نہیں ہو تی تھی ۔ تیسری آیت میں حضرت ہارون بچھڑے کے پجاریوں سے اپنی اتباع کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کلام کا سیاق و سباق مثلاً وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْ کے الفاظ بتلا رہے ہیں کہ یہاں حضرت ہارون کی اپنی اتباع سے مراد صرف یہ ہے کہ شرک چھوڑ دو، چاہے اس کو چھوڑنے کے لیے تمہارے دل آمادہ ہیں یانہیں ۔ چوتھی آیت میں شیطان کی اتباع کی بات ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ شیطان کی اتباع محبت کے ساتھ ہوتی ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب اہل لغت نے اتباع کے معنی میں محبت کو لازماً شامل نہیں کیاہے تو اس بات کی کوئی شرعی دلیل ہونی چاہیے کہ اتباع کے معنی میں محبت کا مفہوم بھی شامل ہے تاکہ یہ دعویٰ ممکن ہو کہ اتباع کا ایک لغوی مفہوم ہے اور ایک شرعی معنی ہے۔ قرآن میں اتباع کامطالبہ مسلمانوں اور کفار دونوں سے ہے۔ کفار کے لیے اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ کو فَاتَّبِعْنِیْ اَهْدِک صِرَاطًا سَوِیًّا﴿مریم﴾ کے ذریعے اپنی اتباع کا حکم دینا ہے۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ﴿آل عمران:۳۱﴾ میں اصلاً خطاب ان مشرکین اور اہل کتاب سے ہے جو کہ اللہ سے محبت کے دعویدار تھے یا اب بھی ہیں ۔ ان کفار کو اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور اس اتباع سے مراد آپ پر ایمان لانے کے مطالبے میں آپ کی بات کی پیروی کرنا ہے۔ تبعاً اس آیت کے عمومی مفہوم میں تمام مسلمانوں سے بھی اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع کا مطالبہ ہے اور اس اتباع سے مراد آپ کے ان اقوال و افعال اور تقریر و تصویب کی پیروی کرنا ہے جو کہ آپ سے بطورِ دین و شریعت صادر ہوئے ہوں نہ کہ آپ کے ہر ہر قول اور فعل کی پیروی کرنا، کیونکہ صحابہ نے آپ کے ہر ہر قول اور فعل کی پیروی نہیں کی ہے۔
افعالِ رسول ﷺ کی درجہ بندی
نبی مکرم ﷺ کے افعال کو اہل علم نے مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
(۱)۔ جبلی اور اتفاقی امور
اللہ کے رسول ﷺ کے جبلی اور اتفاقی امور اُمت کے لیے نہ تو شریعت ہیں اور نہ ہی ایسی سنت ہیں جن کی اتباع باعث ثواب ہے ۔ جبلی امور سے مراد وہ کام ہیں جو ایک انسان اپنے جبلی تقاضوں کے تحت سر انجام دیتا ہے، مثلاً ایک انسان کھانا کھاتا ہے، پانی پیتا ہے، سوتا ہے، اٹھتا ہے، بیٹھتا ہے، پیشاب پاخانہ کرتا ہے، لباس پہنتا ہے، جوتا پہنتا ہے، اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام امور ایسے ہیں کہ ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، یعنی اگر کوئی شخص مسلمان نہ بھی ہو تو پھر بھی وہ اپنی جبلت کے تقاضوں کے تحت یہ سب کام کرتا ہے ۔ اس کے برعکس ایک مسلمان نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، حج ادا کرتا ہے، زکوٰة دیتا ہے، وغیرہ تو یہ افعال جبلی نہیں ہیں کیونکہ عام انسان یہ کام نہیں کرتے۔ آپ کے جبلی افعال سے کم ازکم یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام حرام نہیں ہیں، کیونکہ آپ سے حرام کا ارتکاب ناممکن ہے
۔ ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
لہٰذا آپ کے جبلی افعال مباح کے درجے میں ہیں، یعنی ان کے کرنے اور نہ کرنے دونوں کا کوئی ثواب نہیں ہے۔ علماء نے مباح کی یہی تعریف بیان کی ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
علامہ آمدی رحمہ اللہ لکھتے، ہیں :
مباح کے بارے میں ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض مباحات ایسے ہو سکتے ہیں کہ ان کی ادائیگی میں ایک مسلمان کو اس کی نیت و ارادے کا ثواب ملے،
جیسا کہ ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
لہٰذا اگر کوئی شخص ان افعال کو رسول اللہ ﷺ سے محبت اور تعلق کے اظہار کی نیت سے ادا کرتا ہے تو پھر اس نیت و ارادے پر اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھی جا سکتی ہے ۔ اُمید کی بات اس لیے کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے جبلی و اتفاقی افعال کو شریعت نہیں بنایا اور نہ ہی کسی نص میں آپ کے جبلی و اتفاقی افعال کی اتباع کا حکم دیا ہے اور نہ ہی ان افعال کی اتباع پر ثواب کا کوئی وعدہ کیا ہے۔ اس لیے یقینی طور پر یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ان افعال کی اتباع پر ثواب دیں گے، ایک دعویٰ ہے جس کے لیے کوئی دلیل چاہیے۔ اس کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہاکو اپنی گردن پر بٹھا کر جماعت کروائی اور یہ ایک اتفاقی امر تھا۔ اب اگر کوئی امام صاحب آپ کی محبت میں آپ کی اقتداء کرتے ہوئے ایسا کرتے ہیں تو کیاانہیں اس عمل کا ثواب بھی ہو گا؟ زیادہ سے زیادہ یہی بات کی جا سکتی ہے کہ امام صاحب کے اس عمل پر ان کو اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ تعلق کے اظہارکے جذبے پر ثواب ملنے کی امید ہے۔ اس عمل میں آپ کی اقتداء پر ثواب اگر ایک یقینی امر ہوتا تو سب صحابہ یہ کام کرتے، کیونکہ وہ نیکیوں کے معاملے میں بہت حریص تھے، لیکن کسی ایک بھی صحابی کے بارے میں مروی نہیں ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں اس فعل کو سنت سمجھتے ہوئے کیا ہو۔
امام مسلم رحمہ اللہ جب اس روایت کو اپنی صحیح میں لائے ہیں تو امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر جوازحمل الصبیان فی الصلاة کے عنوان سے باب باندھا ہے ۔ یعنی اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں یہ فعل جائز ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ گدھے پر سوار ہوئے اور یہ ایک اتفاقی امر تھا، اگر گدھے پر سواری سنت ہوتی یا اس پر سواری کرنے میں ثواب ایک یقینی امر ہوتا تو تمام صحابہ یہ کام کرتے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
امام صاحب کی اس عبارت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ کے رسول ﷺ کے اتفاقی امور میں آپ کی پیروی کرنا باعث ثواب نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ باعث ثواب ہوتا تو اکابر صحابہ بھی ایسا کرتے۔ امام ابن تیمیہ کی طرح امام زرکشی نے البحر المحیط میں لکھا ہے کہ جمہور علماء کا یہی موقف ہے اور اصول فقہ کی کتابوں میں بھی معروف مذہب کے طور پر یہی موقف بیان ہوا ہے کہ آپ کے وہ افعال جن کا جبلی ہونا واضح ہو، مباح ہیں۔ امام شوکانی نے بھی ارشاد الفحول میں اسے ہی جمہور کا مذہب قرار دیا ہے۔ علامہ آمدی نے الاحکام میں اس موضوع پر بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں علماء کا یہی ایک موقف ہے کہ آپ کے جبلی افعال مباح ہیں۔ البتہ قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ افعال مستحب ہیں، جیسا کہ ابن تیمیہ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے، لیکن علماء کی اس جماعت کے نام اصول کی کتابوں میں منقول نہیں ہیں، لہٰذا اس قول کی اہمیت ویسے ہی کم ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ آمدی نے اس مسئلے میں ایک ہی رائے کا بالجزم اظہار کیا ہے اور مندوب والی رائے بیان نہیں کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے جبلی افعال کو مندوب کہنے والے علماء کا موقف اس اعتبار سے بھی کمزور ہے کہ یہ صحابہ کے عمل کے خلاف ہے، جیسا کہ امام ابن تیمیہ نے واضح کیا ہے۔
اس کے بعد امام صاحب لکھتے ہیں:
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے متابعت کی تعریف واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ایک کام کو اللہ کے رسول ﷺ نے اتفاقاً کیا ہے، مثلاً آپ نے گدھے پر سواری اتفاقاً کی ہے، اب اس کو عبادت یا ثواب کا کام سمجھ کر کرنا بدعت ہے، کیونکہ آپ نے جب اس فعل کوکیا تھا تو ثواب سمجھ کر نہیں کیا تھا۔ اس لیے جس کام کو آپ نے ثواب سمجھ کر نہیں کیا اس کو ثواب سمجھ کر کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک کام آپ کے نزدیک عبادت نہیں ہے اور ہم اس کوعبادت بنا لیں۔ اور یہی دین میں اضافہ اوربدعت ہے جس سے اللہ کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
اس مسئلے میں کسی صاحب عقل کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ آپ کا نماز میں بچے کو اٹھانا یا گدھے پر سوار ہونا بطور عبادت(یعنی اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے) نہیں تھا بلکہ اتفاقاً تھا۔ علامہ آمدی نے الاحکام
میں لکھا ہے کہ اتباع کی تعریف بالاتفاق یہ ہے کہ کسی کام کوا سی طور پر کیا جائے جس طرح آپ نے کیا ہے۔ آپ نے اگر کوئی کام اتفاقاً کیا ہے تو اس کو اتفاق سمجھ کر کیا جائے، جیسا کہ گدھے کی سواری، اور اگر آپ نے کسی کام کو جبلی تقاضوں کے تحت کیا ہو تو اس کو آپ کا جبلی فعل سمجھ کر اس کی پیروی کی جائے نہ کہ دین سمجھ کر، جیسا کہ کدو کھانا۔ اور اگر آپ نے کسی فعل کو تقرب الی اللہ کی نیت اور ارادے سے کیا ہے تواس فعل میں آپ کی اتباع اسی نیت و ارادے سے کی جائے اور اس فعل کود ین سمجھا جائے، اس پر ثواب کی امید رکھی جائے وغیرہ۔
صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ نے نماز پڑھائی اس حال میں کہ آپؐ نے اپنے گریبان کے بٹن کھولے ہوئے تھے ۔ اب اگر کوئی شخص نماز میں یہ حالت عبادت یا ثواب سمجھ کر اختیار کرتا ہے تو امام صاحب کے بقول یہ بدعت ہے، کیونکہ آپؐ نے اس فعل کو اتفاقاً کیااور عبادت سمجھ کر نہ کیاتھا۔ اس شخص نے نماز کی سنن میں ایک ایسے فعل کا اضافہ سنت سمجھ کر کر دیا ہے جو درحقیقت نماز کی سنت نہیں ہے۔ اس فعل کے اتفاقی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر نماز میں گریبان کھلا رکھناعبادت یا باعث ثواب ہوتا تو صحابہ بھی اس فعل میں آپ کی متابعت کرتے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے جبلی یا اتفاقی امور کے سنت نہ ہونے کی دلیل حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی درج ذیل روایت بھی ہے۔ حضرت ابوطفیل نے ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:
یہ روایت صحیح مسلم میں بھی موجود ہے لیکن اس میں بیت اللہ کے طواف کی بجائے صفا اور مروہ کے طواف کا ذکر ہے۔ سنن ابی داؤد، مسند احمد اور بعض دوسری کتب احادیث میں بھی یہ روایت موجود ہے لیکن وہاں بھی صفاو مروہ کے درمیان سعی کا ذکر ہے۔ بعض دوسری صحیح روایات سے بھی صرف یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے بیت اللہ کا طواف بھی اونٹ پر بیٹھ کر کیاتھا[۱۱۱]۔ علامہ البانی نے ان دونوں روایات کو حسن کہا ہے جبکہ ابن دقیق العید نے بیت اللہ کے اونٹ پر بیٹھ کر طواف کرنے والی روایت کو ’ثابت‘ کہا ہے[۱۱۲]۔ ابن العربی نے بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے[۱۱۳]۔
اہم نکتہ
یہ واضح رہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے وہ جبلی افعال جن کو آپ نے اُمت کے لیے تشریع کے طور پر جاری کیاہے، وہ مستحبات میں شمار ہوں گے اور ان کا کرنا باعث اجر و ثواب اور درجات کی بلندی کا سبب ہو گا، جیسا کہ آپ نے بِسْمِ اللّٰهِ پڑھ کر اور دائیں ہاتھ سے کھانے کاحکم دیا ہے ۔ اسی طرح آپ نے رات کو سونے کی دعا پڑھ کر اور دائیں کروٹ پر سونے کی تلقین کی ہے، وغیر ذلک۔ جبلی افعال میں آپ کاحکم نہ بھی ہو، جیسا کہ مذکورہ بالامثالوں میں ہے، لیکن اگر احادیث میں کوئی ایسا قرینہ بھی موجود ہو جو اس بات پر دلالت کر رہا ہوکہ آپ نے یہ کام بطور تشریع کے کیا ہے تو پھر بھی آپ کا ایسا جبلی فعل امت کے حق میں مشروع اور مستحب ہو گا۔ کیا کسی جبلی فعل پر آپ کی مواظبت اور دوام اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ فعل بھی امت کے حق میں مستحب کا درجہ رکھتا ہے؟ اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے جس کو تفصیل کے ساتھ امام زرکشی رحمہ اللہ نے البحر المحیط میں بیان کیا ہے، طوالت کے خوف سے ہم اس بحث کو یہاں بیان نہیں کررہے ہیں۔
(۲)۔ عادی اُمور
عادی اُمور سے مراد وہ امور ہیں جو معاشرے کے عرف، رواج وغیرہ کی وجہ سے سرانجام دیے جائیں، مثلاًجسم ڈھانپنا انسان کے لیے ایک جبلی امر ہے۔ اب ایک خاص علاقے میں جسم ڈھانپنے کے لیے تہبند استعمال ہوتاہے تو اپنے علاقے کے رسم و رواج کا لحاظ رکھتے ہوئے تہبند پہنناامورِ عادیہ میں شمار ہو گا۔ اسی طرح کھانا کھانا جبلی اُمور میں سے ہے۔ اب ایک علاقے میں چاول کھانے کا رواج زیادہ ہے تو کھانے میں چاول ہی کھانا امور عادیہ میں سے ہوگا۔ مثلاآپ کا تہبند باندھنا اور عمامہ باندھنااُمورِ عادیہ میں سے ہے۔ عادت اصول فقہ کی ایک اصطلاح ہے جو کہ عرف کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ علامہ احمد العدوی لکھتے ہیں :
رسول اللہ ﷺ کے عادی اُمور ہمارے لیے تشریع ہیں یا نہیں ہیں، اس کی وضاحت میں درج ذیل روایت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
اللہ کے رسول ﷺ نے گوہ کو اس لیے نہیں کھایا کہ آپ کے علاقے میں یہ نہیں کھائی جاتی تھی، یعنی آپ نے عادتاًگوہ کے کھانے کو ترک کیا ہے نہ کہ شرعاً۔ اب اگرکسی شخص کو گوہ کا گوشت پیش کیا جائے اور وہ عادتاًگوہ کا گوشت نہ کھائے یعنی اس کے علاقے میں گوہ نہیں کھائی جاتی لہٰذا وہ بھی گوہ نہیں کھاتاتو یہ صحیح عمل ہے اور آپ کی متابعت و اتباع شمار ہو گا، لیکن اگر کوئی یہ عمل ایسی سنت سمجھ کر کرے کہ جس میں ثواب کا بھی یقین رکھا جائے تو اس صورت میں گوہ کا گوشت نہ کھانا بدعت ہو گا ۔ اس طرح کا معاملہ ان چیزوں کا بھی ہے جن کو آپ طبعاً نا پسند کرتے تھے ۔ مثلاً آپ کو لہسن اور پیاز کھانا طبعاً ناپسند تھا۔ فتح خیبر کے موقع پر صحابہ کو بہت بھوک لگی تھی تو انہوں نے مال غنیمت میں حاصل ہونے والے یہودیوں کے کھیتوں سے کثرت سے لہسن کھایا۔ جب صحابہ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آئے تو آپ نے ان کے مونہوں سے لہسن کی بو محسوس کی تو آپ نے فرمایا:
اللہ کے رسول ﷺ طبعاً لہسن اور پیازوغیرہ کو ناپسند کرتے تھے لیکن یہ شرعاًحرام نہیں ہیں۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق آپ کو اگر ایسا کھانا ہدیہ کیا جاتا جس میں لہسن ہوتا تو آپ اس کونہ کھاتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے ایسا ہی کھانا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی طرف بھجوا دیا تو انہوں نے یہ کہہ کراس کھانے کو نہ کھایا کہ جو اللہ کے رسول ﷺ کو ناپسند ہے وہ مجھے بھی ناپسند ہے ۔ صحیح روایات کے مطابق جمہور صحابہ پیاز اور لہسن استعمال کرتے تھے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اللہ کے رسول ﷺ سے محبت اور تعلق کے اظہار کے لیے لہسن اور پیاز کھانا بند کر دے تو یہ ایک جائز امر ہے اور آپ سے محبت کا اظہار ہے اور اِن شاء اللہ نیت صالحہ پر اجر و ثواب کی امیدہے، لیکن اگر کوئی پیاز اور لہسن کو نہ کھانے کو سنت شرعیہ یا باعث ثواب، امر سمجھے تو یہ بدعت ہے، کیونکہ آپ نے پیاز کا شرعی حکم خود ہی واضح کر دیاہے کہ یہ حلال ہے ۔ یہ واضح رہے کہ مسجد میں پیاز یا لہسن کھا کر آنا آپ کے حکم کی خلاف ورزی ہونے کی وجہ سے خلاف ِسنت امر ہے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ کو کدو بہت پسند تھے اور آپ سالن میں سے کدو تلاش کر کر کے کھاتے تھے۔ اسی وجہ سے حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی سالن میں سے کدو تلاش کر کے کھاتے تھے۔ کدو کی طرف آپ کی رغبت ایک طبعی امر تھا نہ کہ اللہ کا حکم، اسی لیے یہ کہنا ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کدو اس لیے کھائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل کر سکیں یاآپ نے کدو بطور عبادت کے کھائے ہیں، یعنی ان کے کھانے کو باعث ثواب سمجھا ہے۔ جب اللہ کے رسول ﷺ نے کدو کو بطور عبادت یاثواب کی نیت سے نہیں کھایا تو ایک اُمتی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کدو اس وجہ سے کھائے کہ اس کا کھانا ایسی سنت ہے جس پر وہ اجر و ثواب کا مستحق ہو گا۔ اسی طرح کا معاملہ ثرید اور دوسرے کھانوں کابھی ہے ۔ یعنی ظاہر عمل کے ساتھ نیت میں آپ کی موافقت ضروری ہے اور تبھی اتباع ، کامل اتباع بنے گی۔
رسول اللہ ﷺ کاتہبند باندھنا، عمامہ باندھنا، موزے پہنناوغیرہ بھی عادی امور میں سے ہے، کیونکہ صحابہ عمامہ بھی باندھتے تھے اورصرف ٹوپی بھی پہنتے تھے، تہبند بھی باندھتے تھے اور شلوار بھی پہنتے تھے، موزے بھی پہنتے تھے اور بغیر موزوں کے بھی رہتے تھے ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ حالت احرام میں انسان کون سا لباس پہن سکتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
اللہ کے رسول ﷺ نے حالت احرام میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو ٹوپی اور شلوار پہننے سے منع کیا ہے تو معلوم ہوا کہ صحابہ کی ایک جماعت ابتداء ً ٹوپی اور شلوار بھی پہنتی تھی، اسی لیے تو آپ نے منع کیاتھا۔ صحیح احادیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ اور صحابہ کرام بغیر ٹوپی اور عمامے کے بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضرت محمد بن المنکدر فرماتے ہیں:
بس اللہ کے رسول ﷺ نے اتنی ہدایت جاری فرمائی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھنا چاہے تو کپڑے کو اپنے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ ستر کے علاوہ اس کے کندھے بھی چھپ جائیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ایک اور روایت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ عموما ًبغیر ٹوپی اور عمامے کے نماز پڑھتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اس روایت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے وسعت کے زمانے میں مسلمانوں کی نماز کا لباس تفصیل سے بیان کیا ہے کہ جس میں دُور دُور تک کسی ٹوپی یا عمامے کا تذکرہ نہیں ہے۔ اسی طرح اگر عمامہ ہی کو سنت کہا جائے تو تہبند پہننا بھی اسی درجے کی سنت ہونی چاہیے کیونکہ آپ نے عمامے کے ساتھ تہبند بھی باندھا ہے۔ جبکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ تہبند کے علاوہ شلوار اور لنگوٹ میں بھی نماز پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہبند باندھنا یا شلوار پہننا صحابہ کے نزدیک ایک ہی حکم رکھتا تھا٭۔ پس ثابت ہوا کہ آپ نے عمامہ اور تہبند اللہ کا قرب حاصل کرنے یا عبادت کے لیے نہیں باندھا بلکہ آپ نے اپنے معاشرے کے مروج لباس کا لحاظ رکھتے ہوئے عمامہ اور تہبند باندھا ہے۔
ایک صاحب نے جب اللجنة الدائمة السعودیة سے عمامے کے بارے میں سوال کیا تو اللجنة الدائمة کے شیوخ، شیخ بکر ابوزید، شیخ عبدالعزیز آل الشیخ، شیخ صالح الفوزان، شیخ عبد اللہ بن غدیان اور شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز نے درج ذیل فتویٰ دیا۔ ہم یہاں سوال اور جواب دونو ں کو نقل کر رہے ہیں:
عمامے سے متعلق ایک اور سوال کے جواب میں اللجنة الدائمة نے یہ جوا ب دیا:
عمامے کی فضیلت میں بعض ضعیف اور موضوع روایات بھی پھیلا دی گئی ہیں، کسی مناسب وقت میں ہم ان تمام روایات کی استنادی حیثیت پر گفتگو کریں گے۔ یہ بات ثابت ہے کہ آپ کے معاشرے میں کفار و مشرکین بھی عمامہ پہنتے، تہبند باندھتے اورموزے وغیرہ پہنتے تھے ۔ لہٰذ ا آپ سے تعلق و محبت کے اظہار کرنے کے لیے یہ سب کام کرنا جائز ہیں، لیکن ان کو ثواب یا عبادت کی نیت سے کرنا بدعت ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مسلمان معاشروں میں علماء و مذہبی طبقوں کے رواج و عرف کا لحاظ رکھتے ہوئے علماء، خطباء اور دینی جماعتوں و اسلامی تحریکوں کے کارکنان کے لیے اپنے سر کو ڈھانپنا یاٹوپی پہننا ایک مستحسن امر ہے لیکن اس مستحسن ہونے کی دلیل عرف ہے ۔
اسی طرح اگر کسی عادی امر کے بارے میں احادیث میں کوئی قرائن موجود ہوں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان امور عادیہ کو بطور تشریع جاری کیا ہے تو وہ عادی امور اُمت کے حق میں مشروع ہوں گے۔ بعض امور عادیہ کے بارے میں علماء میں اختلاف بھی ہواہے کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ کے عادی امور ہیں یا آپ نے انہیں بطور دین جاری کیا ہے، جیسا کہ مصر اور بعض دوسرے ممالک کے علماء نے داڑھی کو اُمورِ عادیہ میں شمار کیا ہے جبکہ سعودیہ اور برصغیر کے علماء کے نزدیک داڑھی کا حکم آپ نے بطور تشریع جاری کیا ہے، اور یہی رائے صحیح ہے، کیونکہ اس رائے کے حق میں قرائن و دلائل بہت قوی ہیں ۔
(۳)۔ افعالِ خصوصی
اللہ کے رسول ﷺ کے وہ افعال جو کہ آپ کے ساتھ خاص ہیں وہ اُمت کے لیے سنت نہیں ہیں، جیسا کہ آپ کا چار سے زائد عورتوں سے شادی کرنا، صومِ وصال یعنی مغرب کے وقت بغیر افطار کیے مسلسل رات اور دن کا روزہ رکھنااور عصر کے بعد نوافل پڑھنا وغیرہ۔
اصل قاعدہ یہی ہے کہ آپ کے عمومی افعال اُمت کے لیے بھی تشریع ہیں، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے گا کہ فلاں فعل رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے تو اسے اس کے لیے کوئی دلیل لانی پڑے گی۔ اگر کوئی دلیل مل جائے تو پھرآپ کا وہ فعل اُمتِ مسلمہ کے لیے ایسی سنت کا درجہ نہیں رکھے گا جس کی اتباع مشروع ہو۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
اس حدیث میں یہ دلیل موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ہر فعل ہمارے لیے سنت نہیں ہے۔ جب صحابہ نے آپ کے فعل کو اپنے عمل کی دلیل بنایا توآپ نے اپنے اور اُمتیوں کے فرق کو واضح کرتے ہوئے اپنے فعل کو اُمت کے حق میں مشروع قرار نہ دیا۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کسی فعل کے بارے میں اسی نص میں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہوتا جو اس کی خصوصیت پر دلالت کر رہا ہو، حالانکہ وہ فعل آپ کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :
اسی حدیث کی بنا پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عصر کے بعد نفل نماز پڑھ لیتے تھے۔ جیسا کہ عبد العزیز بن رفیع فرماتے ہیں :
لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما، عصر کے بعد نفل نماز پڑھنے پر لوگوں کو مارا کرتے تھے، کیونکہ ان کے نزدیک یہ صرف اللہ کے رسول ﷺ کاخاصہ تھا۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت مسوربن مخرمہ اور حضرت عبد الرحمن بن ازھررضی اللہ عنہم نے ان کو حضرت عائشہ کے پاس بھیجا اور یہ کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہماری طرف سے سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعتوں کے بارے میں پوچھنااور یہ کہنا:
اسی روایت میں آگے چل کر بیان ہوا ہے کہ حضرت عائشہ نے حضرت کریب کو حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہاکے پاس بھیج دیاتو حضرت اُمّ سلمہ نے اس بات کی وضاحت کی کہ آپ عصر کے بعد دو رکعتیں کیوں پڑھتے تھے ۔ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس ایک دفعہ بنو عبد القیس کے لوگ آئے جن کی وجہ سے آپ ظہر کے بعد کی دو رکعتیں نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو گیا۔ عصر کے بعد آپ اندر تشریف لائے اور آپ نے ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ چونکہ آپ کا معمول تھا کہ جب ایک کام شروع کر لیتے تھے تو اس پرمداومت کرتے تھے، اسی لیے آپؐ نے عصر کے بعد مستقل طور پر دو رکعتیں پڑھنی شروع کر دیں۔ عصر کے بعد آپ کے نماز پڑھنے کی یہ وجہ بعض صحابہ کو معلوم نہ ہو سکی، جس کی بنا پر وہ ایک ایسے عمل کو سنت سمجھ کر کرتے رہے، جس سے آپ نے منع فرمایا تھا۔ جیسا کہ آپ کا فرمان ہے:
علامہ آمدی اس اصول کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
(۴)۔ فعلِ محض کا درجہ
اللہ کے رسول ﷺ کے صرف عمل سے کسی فعل کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الاحکام فی أصول الأحکام میں لکھا ہے کہ قرآن کی آیت لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَة حَسَنَة میں لَكُمْ کے ساتھ خطاب ہے ۔ اگر یہاں ’لَكُمْ‘ کی بجائے ’عَلَیْكُمْ‘ ہوتا تو آپ کے عمل سے کسی فعل کا وجوب ثابت ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ کسی امر کے بیان یااس کی تنفیذ میں آپ کا فعل وجوب کا حامل ہو سکتا ہے ۔ جیسا کہ آپ نے حکم جاری فرمایا: ’’صَلُّوْا كَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ‘‘[۱۲۹] یعنی نماز پڑھو جیسا کہ مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔ اور آپ کا ارشاد ہے: ’’خُذُوْ اعَنِّیْ مَنَاسِكَكُمْ‘‘[۱۳۰] یعنی مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو۔ یہ اللہ کے رسول ﷺ کا ایک امر ہے۔ اب اس امر کی تنفیذ یا بیان کے لیے آپ نے جس طریقے سے نماز یا حج ادا کیا اس طریقے کے مطابق نماز یا حج اداکرنافرض ہے۔
لیکن اس میں بھی یہ بات بھی واضح رہے کہ کسی امر کی تنفیذ یا تطبیق میں آپ کے ایسے امور کا بیان جب آپ کے افعال کی صورت میں سامنے آتا ہے تو ان امور کے بیان میں وہ تمام افعال فرض یا سنت نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے بعض اُمور عادت سے متعلق بھی ہوتے ہیں ۔ مثلاًصحیحین میں ہے :
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے، حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہ کو فرض نماز میں اپنی گردن پر بٹھا کر نماز پڑھا کرتے تھے ۔ اب جن صحابہ نے آپ کو اس طرح نماز پڑھاتے دیکھا تو کیا ان کے لیے یہ واجب یافرض ہو گیا کہ وہ اپنی نواسیوں کو اپنی گردنوں پر بٹھا کر نماز پڑھیں یا پڑھائیں ؟ کوئی بھی صحابی آپ کی اقتدا میں اپنی نواسی کو مسجد میں نہیں لایا تاکہ وہ بھی اسی طرح نماز پڑھے جیسے کہ اللہ کے رسول ﷺ نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس لیے اللہ کے رسول ﷺ کے حکم’’صَلُّوْا كَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ‘‘ میں آپ کے کون سے افعال اس حکم کا بیان ہیں اور کون سے امور عادیہ میں سے ہیں، ان میں فرق کرنا پڑے گا۔ اور اس میں بعض اوقات فقہاء میں اختلاف بھی ہوجاتا ہے۔
مثلاً تمام فقہاء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے نماز میں جلسۂ استراحت کیا، یعنی پہلی اور تیسری رکعت میں دو سجدوں کے بعد پہلے بیٹھے اور پھر قیام کیا۔ لیکن احناف کے نزدیک یہ آپ کے عادی اُمور میں سے ہے، آپ نے نماز میں جلسہ استراحت بڑھاپے کی وجہ سے کیا ۔آپ کا یہ فعل ’’صَلُّوْا كَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ‘‘ کا بیان نہیں ہے، جبکہ جمہور علماء جلسۂ استراحت کو ’’صَلُّوْا كَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ‘‘ کا بیان مانتے ہیں۔ اسی طرح صحیح احادیث میں ہے کہ حج کے دوران عرفات سےمنیٰ واپسی تک کا سفر آپ نے اونٹ پر کیا، حتی کہ آپ نے بیت اللہ کا طواف بھی اونٹ پر کیا، اور صفا ومروہ کی سعی بھی۔ تو کیا اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کرنا یا صفا ومروہ کی سعی کرناواجب یا فرض ہے؟ واجب یا فرض تو کجا، یہ سنت بھی نہیں ہے ! حضرت ابو طفیل نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:
بعض اوقات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی اس امر میں اختلاف ہو جاتا تھا کہ حج کے دوران آپ کا فلاں فعل ’’خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِكَكُمْ‘‘ کا بیان یعنی وضاحت ہے یا امور عادیہ میں سے ہے ۔ مثلاً بعض صحابہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہم وغیرہ حج کے موقع پر وادی ’مُحَصَّب‘ یعنی مقام ’ابطح‘ میں قیام کرتے تھے۔ [۱۳۴] اور اس قیام کو یہ صحابہ حج کی سنن میں سے شمار کرتے تھے، کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے بھی حج کے دوران اس جگہ قیام کیا تھا ۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس جگہ آپ کے قیام کو اُمورِ عادیہ میں سے شمار کرتے تھے اور اس کو سنت نہیں سمجھتے تھے ۔ جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
یہ بھی ذہن میں رہے کہ’’صَلُّوْا كَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ‘‘ اور ’’خُذُوْا عَنِّی مَنَاسِكَكُمْ‘‘ کے بیان میں بھی آپ کے تمام افعال ایک درجے کے نہیں ہیں ۔ بعض افعال ان میں سے فرائض کے درجے کے ہیں اور بعض سنن کے درجے کے ہیں۔ مثلاً وادی مُحَصَّبْ کا قیام اگر بعض صحابہ نے کیا بھی ہے تو اس کو فرض یا واجب سمجھ کر نہیں بلکہ مستحب سمجھ کر کیاہے اور معروف مذاہب میں سے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے ہاں یہ قیام حج کے فرائض یا واجبات میں سے نہیں ہے۔ شوافع اور مالکیہ کے نزدیک یہ مستحب ہے جبکہ باقی فقہاء کے نزدیک مستحب بھی نہیں ہے ۔ اسی طرح نماز میں سورة الفاتحہ سے پہلے بِسم اللہ پڑھنے کو کسی بھی فقیہ نے فرض قرار نہیں دیا، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں بِسم اللہ پڑھی ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ جن فرائض میں صرف فرض کی ادائیگی پر زور دیاگیا ہے اور اس کے طریقے کو لازم نہیں کیا گیاتو اس کاطریقہ بیان میں شامل نہیں ہے اور یہ عموماً ایسے فرائض میں ہے جن کی ادائیگی کے طریقے میں حالا ت و زمانے کی تبدیلی کو بہت زیادہ عمل دخل حاصل تھا، جیسا کہ جہاد و قتال اور اعلائے کلمة اللہ کا معاملہ ہے ۔ اقامت دین اور نفاذ شریعت امت مسلمہ کا ایک اجتماعی دینی فریضہ ہے اور اس کی ادائیگی کا طریقہ سنت نبوی سے بھی ملتا ہے تو کیا اس فریضے کی ادائیگی میں آپ کا ہر ہر فعل فرض کے درجے میں ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اقامت دین اور اعلائے کلمة اللہ کے فریضے کی ادائیگی کے دوران آپ سے صادر ہونے والے متعدد افعال بھی اُن اُمورِ عادیہ سے تعلق رکھتے ہیں، جنہیں آپﷺ نے کسی ضرورت کے تحت کیا نہ کہ بطور تشریع کے کیا ہے، جیسا کہ آپ نے نماز میں امامہ بنت زینب کو اٹھایا یا اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا تو یہ نماز یا حج کے فریضے کا بیان یعنی وضاحت نہیں ہے بلکہ یہ کسی حکمت یا ضرورت کے تحت اُمورِ عادیہ ہیں۔ اسی طرح اقامت دین کے فریضے کی ادائیگی میں آپ کا ہجرت کرنا، یہودیوں سے معاہدہ کرنا(میثاق مدینہ)، مشرکین سے صلح کرنا(صلح حدیبیہ)، اپنے دفاع کے لیے خندق کھودنا، منافقین مثلاً عبد اللہ بن اُبی وغیرہ کو قتل نہ کرنا، باوجودیکہ ان کا کفر مشرکین مکہ کے کفر سے بڑھ کر تھا اور ان کے دائمی جہنمی ہونے کی وعید قرآن نے سنا دی تھی وغیرہ، یہ ضرورتاً، مصلحتاًاور عادتاً تھا نہ کہ یہ اقامت دین کے فریضے کے کسی طریقے کی ادائیگی کا بیان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب چند ایک مواقع پر بعض صحابہ نے بعض منافقین کو قتل کرنے کی دربار رسالت سے اجازت چاہی تو آپ نے یہ نہیں کہا کہ یہ مسلمان ہیں اور ان کا خون بہانا ہم پر حرام ہے، بلکہ آپﷺ نے جواباً یہ فرمایا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ محمد ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو قتل کرنا شروع کر دیاہے؟ یعنی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں دین کا اسی طرح غلبہ کروں گا جیسے اللہ کے رسول ﷺ نے کیا ہے یعنی پہلے ۱۳ سال دعوت کا کام کروں گا پھر کسی دوسری جگہ ہجرت کر جاوں گا اور پھر دس سال جہاد وقتال کروں گا وغیرہ تو یہ انتہائی بچگانہ سوچ ہے لیکن اس کے باوجود یہ بعض لوگوں میں پیدا ہوئی ہےمثلا ایک زمانے میں ڈاکٹر مسعود الدین صاحب پر یہ خیال سوار ہو گیا کہ میں اتنے ہی ہاتھ لمبی اور چوڑی مسجد تعمیر کروں جتنی آپ کے زمانہ میں مسجد نبوی تھی اور اس کی چھت اور ستون بھی ویسے ہی کھجور کے تنوں اور پتوں کے ہوں جیسا کہ اصل مسجد نبوی تھی وغیرہ ذلک۔
اسی طرح اگر کوئی امر استحباب یا اباحت کے درجے میں ہوگا تو اس امر کا بیان جب رسول اللہ ﷺ اپنے کسی فعل سے کریں گے تو آپ کی ایسی سنت بھی مستحب یا مباح کادرجہ رکھے گی، جیسا کہ علامہ آمدی نے الاحکام فی اُصول الاحکام میں لکھا ہے۔ مثلاً آپ نے حکم دیا:’’اِذَا انْتَعَلَ اَحَدُكُمْ فَلْیَبْدَاْ بِالْیَمِیْنِ‘‘ [۱۳۶] یعنی جب تم میں کوئی جوتا پہنے تو پہلے دایاں جوتا پہنے۔ اب یہ حکم استحباب کے لیے ہے لہٰذا اس امر کا بیان یعنی وضاحت جب آپ کے فعل سے ہو گی تو آپ کا وہ فعل بھی مستحب ہو گا۔
علامہ آمدی رحمہ اللہ نے اس ساری بحث کو مختصر انداز میں یوں بیان کیا ہے :
عربی زبان میں ’ید‘ کا لفظ انگلیوں سے لے کے کندھے تک بولا جاتا ہے ۔آپ نے اپنے فعل سے قرآن کے دونوں مقامات پر لفظ ’ید‘ کی وضاحت کی ہے اورآپﷺ کی یہ عملی وضاحت ان آیات کا بیان ہے۔
(۵)۔ فعل برائے بیانِ جواز
بعض اوقات آپ کا فعل امور شرعیہ سے متعلق ہوتا ہے لیکن اس فعل سے آپ کا مقصود صرف یہ بتلانا ہوتا ہے کہ یہ کام جائز ہے نہ کہ آپ اس فعل کو ثواب کی نیت یا درجات کی بلندی کے لیے بطور ترغیب وتشویق کرتے ہیں۔ مثلاً ایک روایت کے الفاظ ہیں :
اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ حالت جنابت میں روزہ رکھنا ایک ایسی سنت ہے جو کہ باعث اجر و ثواب ہے اور اس سے آخرت میں درجات بلند ہوتے ہیں تو بلاشبہ یہ شخص غلطی پر ہے۔ شارحین حدیث نے اس حدیث کی تشریح میں اس عمل کو جائز قرار دیا ہے، نہ کہ مستحب کہا ہے۔ مستحب یہی ہے کہ انسان کو اگر غسل کی حاجت ہو توطلوع فجر سے پہلے غسل کر لے۔ اور اگر کسی وجہ سے طلوع فجر سے پہلے غسل نہ کر سکا تو اب سحری کھا کر روزہ رکھے اور طلوع فجرکے بعد غسل کر لے ۔آپ کا یہ فعل امت کے لیے آسانی پیدا کرنے اور ایک جائز شرعی امر بتلانے کے لیے تھا نہ کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ یا عبادت کا کوئی طریقہ بتلانا آپ کا مقصود تھا۔ یہ واضح رہے کہ مباح کو اصولیین نے حکم شرعی کی ایک قسم قرار دیا ہے، لیکن مباح کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ یہ وہ فعل ہے کہ جس کے کرنے اور نہ کرنے پر کوئی اجر و ثواب یا سزا و عذاب نہیں ہوتا ہے۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ نے آپ کے ایسے افعال کو اس اصول کے تحت بیان کیا ہے :
(۶)۔ فعلِ متردَّد
بعض اوقات آپ کا فعل اُمورِ شرعیہ سے متعلق ہوتا ہے لیکن آپ کے اس فعل کے بارے میں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ وہ قرآن کے کسی حکم یا آپ کی ہی کسی قولی سنت کا بیان ہے یا نہیں ہے ۔ اگر دلائل و قرائن سے یہ بات واضح ہو جائے کہ آپ نے یہ کام تقرب اِلی اللہ کی نیت سے کیا ہے تو پھر آپ کے ایسے فعل کا کیا حکم ہے، اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ اس اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے بھی اصول الفقہ الاسلامی
میں علامہ آمدی کے اس موقف کو ترجیح دی ہے کہ آپ کے وہ افعال جن میں آپ نے تقرب اِلی اللہ کی نیت کی ہے وہ اُمت کے حق میں واجب ہوں گے یا مندوب ہوں گے، نہ کہ مباح، چاہے آپ کا وہ فعل بظاہر کسی اَمر کا بیان یعنی وضاحت نہ بھی معلوم ہوتا ہو۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ نے باقی اقوال کے قائلین کے دلائل کا بیان اور ان کا کافی و شافی رد اپنی کتاب ’الاحکام‘ میں کر دیا ہے۔ تفصیل کے لیے اس کتاب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
(۷)۔ تجربہ و مشاہدہ سے متعلقہ افعال
اللہ کے رسول ﷺ کے وہ افعال جو کہ آپ کے ذاتی تجربے اور مشاہدے سے متعلق ہیں وہ بھی ہمارے لیے ایسی سنت نہیں ہیں کہ جس کا اتباع لازم اور باعث اجر و ثواب ہو۔ ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
علامہ احمد العدوی رسول اللہ ﷺ کے اس قسم کے افعال کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
یہ واضح رہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے اجتہاد کو اگر اللہ کی تصویب حاصل ہو جائے تو پھر وہ وحی بن جاتا ہے۔ مثلاً آپ نے کسی دینی مسئلے میں اجتہاد کیا، اب اللہ کی طرف سے آپ کے اس اجتہاد پرخاموشی ہے تو آپ کا یہ اجتہاد، اللہ کی تقریر وتصویب کہلائے گا اور وحی الٰہی ہو گا۔
ابن العربی رحمہ اللہ نے، احکام القرآن، میں اس روایت کو، ثابت، کہا ہے۔[۱۴۳]جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے، فقہ السیرة، میں ’ضعیف‘ کہا ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت بطور حدیث ضعیف ہے کیونکہ حدیث کی جانچ پڑتال کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی لیکن سیرت کے ایک واقعے کے طور پر ثابت ہے جیسا کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس کو قابل استدلال قرار دیا ہے۔
(۸)۔ افعالِ مختلفہ یا متنوعہ
بعض اوقات ایک ہی مسئلے میں آپ سے دو یا دو سے زائد افعال مروی ہوتے ہیں جبکہ کوئی امتی ان میں سے صرف ایک فعل کو سنت سمجھ رہا ہوتا ہے حالانکہ وہ دونوں افعال ہی سنت ہوتے ہیں۔ جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد دائیں طرف سے پھرتے ہوئے صحابہ کی طرف رخ کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
جبکہ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے :
دونوں روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے، بلکہ ہر صحابی نے اپنے مشاہدے کو بیان کیا ہے، لہٰذا فرض نماز سے فارغ ہو کر دائیں اور بائیں دونوں طرف سے پھرنا سنت ہے اور صرف دائیں پھرنے کو ہی سنت سمجھتے ہوئے اس پر لزوم اختیار کرنادرست نہیں ہے ۔
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے ۔ اس حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینا بھی اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ہے ۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہی معروف ہے کہ بیٹھ کر ہی پانی پینا چاہیے اور یہی سنت ہے، لیکن یہ درست نہیں ہے ۔ حضرت نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں ایک مقام پر کھڑے ہو کر پانی پیااور کہا :
اسی طرح ’موطأ‘ میں صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیراور حضرت عبد اللہ بن عمرکھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے، جبکہ حضرت عائشہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کھڑے ہو کر پانی پینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح کا عمل حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے بھی، موطأ، میں مروی ہے۔[۱۴۸]
بلکہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے تو یہاں تک مروی ہے کہ ہم صحابہ اللہ کے رسول ﷺ کےزمانے میں کھڑے کھڑے اورچلتے پھرتے کھانا بھی کھا لیتے تھے، جبکہ آج کل اس فعل کو مغربی تہذیب کی نقالی کا نام دیا جاتا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
علامہ البانی نے اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے[۱۵۰] جبکہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے ’حسن‘ قرار دیا ہے[۱۵۱]۔ امام ترمذی نے بھی اس کو ’صحیح‘ کہا ہے۔[۱۵۲]
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جن روایات میں اللہ کے رسول ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع کیا ہے یا ڈانٹا ہے یا قے کرنے کا حکم دیا ہے تو اس کے بارے میں علماء کااختلاف ہے ۔ بعض علماء نے احادیث میں ترجیح کا طریقہ کار اختیار کیا اور یہ کہا کہ جن احادیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے کا بیان ہے وہ ان احادیث کے مقابلے میں سند کے اعتبار سے راجح ہیں جن میں کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع کیاگیاہے۔ امام ابو بکر الأثرم کا یہی قول ہے ۔ بعض علماء نے ان احادیث کے بظاہر تعارض کو حل کرنے کے لیے نسخ کا قول اختیار کیا ہے۔ امام ابن شاہین کے مطابق نہی والی احادیث صحیح ہونے کے باوجود منسوخ ہیں جبکہ امام ابن حزم نے جواز والی احادیث کو منسوخ کہا ہے ۔ بعض علماء نے دو نوں احادیث کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے، لہٰذا علماء کے ایک گروہ کے نزدیک نہی والی احادیث میں نہی کراہت تنزیہی کے لیے ہے، لہٰذا کھڑے ہو کر پانی پینا جائز امر ہے، کیونکہ مکروہ کا ارتکاب باعث گناہ نہیں ہے۔ یہ رائے امام خطابی، امام طحاوی، امام ابن جریر طبری، امام نووی، علامہ ابن حجر عسقلانی اور ابن بطال رحمہم اللہ وغیرہ کی ہے۔ علماء کے دوسرے گروہ کی جمع کے مطابق جن احادیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے کا جواز ہے وہ عذر کے سبب سے ہے۔ یہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے ہے۔ تیسرے گروہ کی جمع کے مطابق نہی والی روایات میں نہی کسی شرعی حکم کے طور پر وارد نہیں ہوئی بلکہ آپ نے طبی نقطہ نظر سے کھڑے ہو کر پانی پینے کو نقصان دہ سمجھتے ہوئے اس طرح پانی پینے سے منع کیا تھا۔ سوائے امام ابن تیمیہ کے قول کے ان تمام اقوال کو اما م ابن حجر نے، فتح الباری، میں نقل کیا ہے ۔ امام صاحب کا قول، مجموع الفتاویٰ، میں موجود ہے۔
ہمارے نزدیک یہ آخری رائے درست ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی وفات کے بعد جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کا خاص طور پر خلفائے راشدین اور حضرت عبد اللہ بن عمر کا کھڑے ہو کر پانی پینا یہ واضح کرتا ہے کہ امام ابن حزم کا نسخ کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عائشہ وغیرہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ عام حالات میں بھی کھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے، لہٰذاعذر والا قول درست نہیں ہے، کیونکہ عذر تو کبھی کبھی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں حضرت علی کی روایات سے کراہت والے قول کا غلط ہونا بھی واضح ہوتا ہے، کیونکہ حضرت علی نے یہ کہہ کر کھڑے ہو کر پانی پیا کہ لوگ اس عمل کو مکروہ سمجھتے ہیں، یعنی ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ مکروہ یا دین میں ناپسندیدہ چیز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں حضرت علی نے بغیر کسی عذر کے کھڑے ہو کر پانی پیا تھا۔ امام ابو بکر الاثرم کے نزدیک جواز والی احادیث راجح جبکہ نہی والی مرجوح ہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ مرجوح حدیث پر عمل نہیں ہوتا، لیکن صحابہ نے نہی والی احادیث پر بھی عمل کیا ہے۔ یہی معاملہ امام ابن شاہین کے اس دعویٰ کا ہے کہ نہی والی احادیث منسوخ ہیں، جبکہ صحابہ نے آپ کی وفات کے بعد نہی والی روایات پر بھی عمل کیا ہے۔ اس لیے ’موطأ‘ میں حضرت عائشہ اور حضرت سعد بن وقاص سے مروی ہے کہ وہ کھڑے ہو کر پانی پینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے ۔ پس بظاہر یہی قول درست معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے شرعی حکم کے طور پر منع نہیں کیا بلکہ اس کے بعض طبی نقصانات کی وجہ سے اُمت کو اس طرح پانی پینے سے سختی سے منع فرمایا جیسا کہ ایک باپ بعض اوقات اپنے بیٹے کو کسی دنیاوی معاملے میں نقصان سے بچانے کے لیے ڈانٹ ڈپٹ کے انداز میں کوئی حکم جاری کرتا ہے اور اس میں اصل وجہ باپ کی اپنے بیٹے سے پدرانہ محبت ہوتی ہے نہ کہ کوئی شرعی حکم ۔ یہی محبت آپ کو اپنی اُمت سے بھی تھی۔
اسی طرح ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں :
(۹)۔ افعال مبنی بر علت و سبب
بعض اوقات اللہ کے رسول ﷺ ایک کام کسی ضرورت یا سبب سے کرتے تھے، لہٰذا اس ضرورت اور سبب کی عدم موجودگی میں اس مسئلے میں اللہ کے رسول ﷺ کے فعل کی مخالفت زیادہ افضل ہے۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے، حضرت ابو طفیل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے کہا:
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اور آج کل اگر کوئی شخص مطاف یا مسعی میں طواف یا سعی کے لیے اونٹ داخل کرے تو یہ سنت تو کجافتنہ اور منکر ہے جس سے زبردستی روکا جائے گا۔
(۱۰)۔ رسول اکرم ﷺ کی نظر میں بعض پسندیدہ افعال
بعض اوقات رسول اللہ ﷺ ایک کام بطور عبادت کرنے کا ارادہ کرتے، لیکن آپ وہ کام کسی سبب سے بالفعل نہیں کرتے تھے، تاہم آپ کی یہ خواہش ہوتی کہ آپ وہ کام کریں۔ اس معاملے میں اگرچہ آپ نے ایک کام نہیں کیا لیکن جس کے کرنے کی اللہ کے رسول ﷺ نے خواہش کی تھی تو وہ کام اُمت کے لیے مستحب ہو گا۔ صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کے مہینے میں صرف تین دن تراویح پڑھائی تھے اور چوتھے دن صحابہ آپ کا انتظار کرتے رہے لیکن آپ تراویح پڑھانے کے لیے اپنے حجرے سے باہر تشریف نہ لائے ۔ فجر کی نماز کے بعد آپ نے صحابہ کو بتلایا:
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں :
اس روایت سے معلوم ہو ا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صرف تین دن تروایح کی جماعت کروائی ہے، باقی دنوں میں آپ اور صحابہ نے تراویح کی نماز انفرادی طور پر پڑھی ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی وفات تک معاملہ اسی طرح رہا ہے۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آپ کی سنت تو صرف تین دن جماعت کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھنا ہے تو وہ غلطی پر ہے، کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ مکمل رمضان میں تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ لہٰذا زیادہ افضل یہ ہے کہ تمام رمضان میں تراویح کی نماز ادا کی جائے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں عبد الرحمن بن عبدالقاری فرماتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت عمر کے ساتھ مسجد نبوی میں گیا تو حضرت عمر نے دیکھا کہ صحابہ الگ الگ ٹکڑیوں میں نماز پڑھ رہے ہیں ۔ بعض صحابہ اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، جبکہ بعض کچھ دوسروں کو نماز پڑھا رہے تھے ۔ حضرت عمر نے جب یہ منظر دیکھا تو سب کو جمع کر کے ایک جماعت بنا دیا اور حضرت اُبی بن کعب کو قاری مقرر کر دیا۔ اگلی رات جب حضرت عمر دوبارہ مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے صحابہ کو ایک جماعت میں نماز پڑھتے دیکھ کر کہا:
بعض اوقات ایسے کام کو کرنا جائز نہیں ہوتا جس کا اللہ کے رسول ﷺ نے ارادہ کیا ہو لیکن آپ نے اس کو بالفعل نہ کیا ہو، اور اس کا علم احوال و قرائن سے ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کے بارے میں جو مسجد میں آکر جماعت کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتے تھے، فرمایا:
اسی طرح آپ نے حطیم کو بھی بیت اللہ میں شامل کرنے کی خواہش کا ظہار کیا تھا لیکن کچھ موانع کی وجہ سے آپ نے اس پر عمل نہ کیا۔ اُمت نے بھی آج تک اس فعل پر آپ کی خواہش کے باوجود عمل نہیں کیا ہے ۔
(۱۱)۔ مقصد سے مربوط فعل
بعض اوقات اللہ کے رسول ﷺ کے ایک فعل میں اصلاً مقصود وہ فعل نہیں ہوتابلکہ اس فعل سے حاصل ہونے والا نتیجہ ہوتا ہے ۔ جیسا کہ احادیث میں وارد ہے کہ مسواک کرنا آپ کی سنت ہے اور اس سنت کا مقصود منہ کی صفائی ہے ۔آپ کا ارشاد ہے :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسواک کی سنت میں اصل حکمت طہارت ہے نہ کہ دانتوں پر کوئی لکڑی پھیرنا۔ امام طیبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ مسواک کی حکمت منہ کی صفائی ہے اور پھر منہ کی صفائی کو اللہ کی رضا قرار دیا گیا ہے۔ مسواک عربی زبان کے اعتبار سے اسم آلہ کا وزن بنتا ہے اور اس کا معنی مَایُستاک بِہ ہے، یعنی جس کے ذریعے کسی چیز کو رگڑا جائے یا مَلا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں مسواک لکڑی ہی کی ہوتی تھی اور مسواک میں سب سے افضل پیلو کی مسواک ہے، جیسا کہ صحیح روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اپنی زندگی کے آخری لمحات میں آپ نے کجھور کی تازہ شاخ کومسواک کے طور پر استعمال کیا تھا جبکہ آپ کا سرمبارک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھا۔ بعض علماء نے زیتون کی مسواک کو بھی اس کے درخت کے بابرکت ہونے کی وجہ سے افضل کہا ہے لیکن زیتون کی مسواک کی فضیلت میں وارد شدہ تمام روایات ضعیف ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انگلی کے دانتوں پر پھیرنے سے مسواک کی سنت ادا ہوجاتی ہے؟ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انگلی اگر نرم ہے یعنی اس سے کسی قدردانتوں کی صفائی ممکن نہیں ہے تو یہ سنت ادا نہ ہو گی، لیکن اگر انگلی سخت اور کھردری ہے تو اس کےبارے میں علماء کا اختلاف ہے ۔ احناف، مالکیہ اور ایک روایت کے مطابق حنابلہ کے نزدیک اس سے سنت ادا ہو جائے گی جبکہ شوافع اور حنابلہ کے مشہور موقف کے مطابق سنت ادا نہ ہو گی۔ امام نووی، حافظ عراقی اور ابن قدمہ رحمہم اللہ نے پہلے مسلک ہی کو ترجیح دی ہے اور ہمارے نزدیک بھی پہلا مسلک درست ہے جس کی دلیل درج ذیل روایت ہے :
حافظ عراقی نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد اس کے تمام رواة کو ثقہ قرار دیاہے۔ اس کے علاوہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت’’یُجْزِیْ مِنَ السِّوَاک الْاَصَابِعِ‘‘ یعنی انگلیاں تمہیں مسواک کے بالمقابل کفایت کریں گی، بھی ہے، جس کے بعض طرق کوابن حجرعسقلانی نے صحیح کہا ہے۔[۱۶۳]
مسواک کا مقصد یعنی منہ کی صفائی عصر حاضر میں ٹوتھ پیسٹ اور برش وغیرہ سے بھی پورا ہو جاتا ہے تو کیا اگر کوئی شخص اس نیت سے برش کرے کہ سنت اد اہو جائے تو اسے سنت کا ثواب ملے گا؟ علماء کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ برش کرنے سے بھی سنت کا ثواب ملے گا بشرطیکہ سنت کی ادائیگی کی نیت ہو۔ ڈاکٹر عبد اللہ الفقیہ لکھتے ہیں :
اب تو ایسے ٹوتھ پیسٹ بھی آ گئے ہیں جو کہ مسواک کے قدرتی اجزا پر مشتمل ہیں جیسا کہ دبئی سے ’’سواک‘‘ کے نام سے مسواک کے قدرتی اجزاء پر مشتمل ایک ٹوتھ پیسٹ بنایا گیا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ برش کے ساتھ ساتھ مسواک کی سنت کو ترک نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ مسواک کرنے کے بہت سے ایسے مواقع سنت سے ثابت ہیں جن میں برش کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً آپ کا فرمان ہے :
لہٰذا ہر نماز کے وقت مسواک کرنا سنت ہے۔ اسی طرح بعض صحیح احادیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے کہ جب کتا تمہارے کسی برتن میں اپنا منہ ڈال دے تو تم اس برتن کو سات مرتبہ دھوؤاور پہلی مرتبہ مٹی سے دھوؤ۔ اب اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ کا اصل مقصود برتن کی صفائی ہے اور اگر برتن کی صفائی آج کل صابون یاسَرف وغیرہ سے اچھی طرح ہوتی ہے تو ہمیں مٹی کی جگہ وہی استعمال کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کبھی بھی صابون سے غسل نہیں کیا یا سر کے بالوں کے لیے شیمپو استعمال نہیں کیا۔ صحیح روایات میں ہے کہ جب آپ کے زمانے میں کسی مردے کوغسل دیاجاتا تھا تو پانی میں بیری کے پتے اور کافور( خوشبو )ملا دی جاتی تھی اور اس سے مقصود طہارت اور جسم کی صفائی تھی ۔ اب یہی مقصد صابون اور شیمپو وغیرہ سے اچھی طرح حاصل ہوتا ہے تو کیا ان کا استعمال خلافِ سنت اور خباثت ہو گا؟
ایجادات سے استفادہ کی حیثیت
ایک چیز جو اللہ کے رسول ﷺ کے دور میں نہیں تھی اس کو استعمال کرنا خلافِ سنت نہیں ہے ۔ مثلاً آپ کے دور میں کرسی، ٹیبل، چمچ، گاڑی، لاؤڈ اسپیکر، گھڑی، کمپیوٹر، پنکھا، اے سی، ریفریجریٹر، گیزر عینک، ہیٹر، ٹیلی فون، موبائل، بجلی، گیس، جہاز، ریل، بحری جہاز، سکول، کالج، یونیورسٹی، جدید آلات حرب، ادویات، گولیاں، انجکشن، ہسپتال اور تمام میڈیکل سائنس وغیرہ کچھ بھی نہ تھا۔ کوئی بھی صاحب عقل ان اشیاء کے استعمال کو خلاف سنت یاخباثت نہیں کہہ سکتا، سوائے اس کے کہ جوجہالت کے اعلیٰ مراتب پرفائز ہو۔ یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ ان اشیائے جدیدہ کے وہ استعمالات جو کہ شریعتِ اسلامیہ کی صریح نصوص کے خلاف ہوں، یا وہ ایجادات مقاصد شریعہ کو فوت کرنے والی ہوں یعنی وہ انسان کے دین، جان، عقل، نسل، مال اور عزت کے فروغ اور حفاظت کے لیے نقصان دہ ہوں، ناجائز ہیں۔ اگر کرسی کا استعمال خلافِ سنت ہے توپھر موبائل، بجلی، گیس، فون، گاڑی، جہاز، گھڑی وغیرہ سب کا استعمال بھی خلافِ سنت ہے۔ اگر اس طرح کے سطحی اصولوں کی روشنی میں سنت کے تصورات قائم کیے گئے تو ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ صحابہ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں بچے گا جس نے سنت سے اختلاف نہ کیا ہو۔ اگر اس اصول کو درست مان لیاجائے تو تمام صحابہ (معاذاللہ!)مخالفین سنت ہیں، کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں قرآن بَیْنَ الدُّفتین موجود نہ تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کو ایک جگہ جمع کیا گیا، تو صحابہ نے ایک ایسا کام کیا جو اللہ کے رسول ﷺ نے نہیں کیاتھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں لوگوں کو ایک رسم الخط پر جمع کرنے کے لیے صحابہ سے ان کے مصاحف لے کر جلوا دیے تھے، یہ بھی ’’خلافِ سنت‘‘ کام تھا اور اکابر صحابہ نے اس کام میں حضرت عثمان کی معاونت کی تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں قرآن کے نہ تو تیس پارے تھے، نہ ۵۴۵ رکوع تھے، نہ احزاب تھے، نہ اعراب و حرکات تھیں، حتی کے نقطے اور رموزِ اوقاف بھی نہ تھے، اور یہ سب چیزیں تو خلفائے راشدین کے دور میں بھی نہ تھیں، بلکہ صحابہ کے زمانے کے بعد علماء نے ان کو قرآن پڑھنے میں سہولت و آسانی کے لیے لیے متعارف کروایا، یہ سب بھی ’’خلافِ سنت‘‘ ہے، لہٰذا آج کے دور میں طبع ہونے والے ہر قرآن کی تلاوت ’’خلافِ سنت‘‘ ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کے دور میں نہ احادیث کی کتابیں تھیں، نہ سیرت و تاریخ کی، لہٰذا حدیث، سیرت اور تاریخ کی کتابوں کو لکھنا، ان کے ترجمے کرنا، ان ترجموں کو پڑھنا اور ان ترجموں سے علم حاصل کرنا سب خلاف سنت اور خباثت ہے، کیونکہ ان میں کوئی ایک فعل بھی اللہ کے رسول ﷺ یاصحابہ و تابعین سے ثابت نہیں ہے۔ واللہ المُستعان علٰی ما تَصِفُوْنَ ۔
اسی نقطۂ نظر کی یہ انتہا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ عورتوں کو مطلقاً سکول و کالج کی تعلیم دلواناخلافِ سنت ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے دَور میں کالج نہیں تھے، جبکہ معاصر علماء اس باتکو امت مسلمہ کے لیے فرض کفایہ قرار دیتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں اتنی خواتین لیڈی ڈاکٹرز موجود ہوں جو عورتوں کے ذاتی مسائل میں کفایت کرتی ہوں۔ اگرعورتوں کا میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا خلاف سنت ہے تو ایک عورت کا ایک مرد ڈاکٹر کے سامنے جاکر اپنا ستر کھولنا کون سی سنت سے ثابت ہے ؟ اس تصورِ سنت کے مطابق تو گولی (tablet)کھانا، دوائی لینا، انجکشن لگوانااور ڈاکٹر کے پاس جانا بھی خلافِ سنت ہونا چاہیے۔ فیا للعجب! ان میں سے بعض کا یہ کہنا بھی ہے کہ درس قرآن دنیا بھی سنت سے ثابت نہیں ہے اور ظالم حکمرانوں کے خلاف مظاہرہ کرنابھی سنت سے ثابت نہیں ہے۔ دینی مجلات اور رسائل کی اشاعت بھی خلاف سنت ہے وغیرہ ذلک۔
حق یہ ہے کہ یہ سب افعال مباحات کا دائرہ ہے جس میں انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ ان اشیاء کو استعمال کرے یا نہ کرے۔ اور بعض اوقات تو ان جدید آلات کو اسلام کی نشرو اشاعت اور دعوت و تبلیغ کے لیے استعمال کرنا فرضیت کے درجے کو پہنچ جاتا ہے ۔ اسی طرح میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ کی تعلیم کو علماء نے فرض کفایہ قرار دیا ہے ۔
جامعہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث مولانا عبد الرحمن اشرفی ایک دن دورانِ کلاس کہنے لگے کہ حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ ایک دفعہ چمچ سے کھانا کھا رہے تھے تو کسی نے کہا: حضرت ہاتھ سے کھانا سنت ہے۔ شاہ صاحب نے جواب دیا : ہاتھ ہی سے تو کھا رہا ہوں۔
جن علماء کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دین کی گہرائی اور حکمت عطا فرمائی ہے انہیں کبھی اس مسئلے میں الجھن درپیش نہیں ہوتی کہ کیا چیز سنت ہے اور کیاخلاف سنت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے دائیں ہاتھ سے کھانے پر زور دیا ہے اور چمچ سے کھاتے وقت یہ سنت پوری ہوتی ہے ۔ صحیح روایات کے مطابق آپ تین انگلیوں (یعنی انگوٹھا، شہادت والی انگلی اور درمیانی انگلی) سے کھانا کھاتے تھے، جیسا کہ صحیح مسلم، سنن ابو داؤد، سنن ترمذی اور مسند احمد وغیر ہ میں ہے۔ یہ سنت اگرچہ ہاتھ سے بھی پوری ہوتی ہے لیکن بعض لوگوں کو اس میں مشکل ہوتی ہے۔ اب اگر یہ لوگ چمچ سے کھانا کھائیں تو یہ سنت بھی باآسانی پوری ہو جاتی ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آپ نے کھانا کھانے کے بعد ہاتھ صاف کرنے سے پہلے ان کو چاٹ لینے یا چٹوا لینے کا حکم جاری کیا ہے تا کہ کھانے کی برکت ضائع نہ ہواور یہ حکمت چمچ سے کھانے میں باحسن پوری ہوتی ہے۔ ہمارا مقصود یہ ہر گز نہیں ہے کہ لوگ ہاتھ سے کھانا چھوڑدیں، بلکہ ہمارے نزدیک ہاتھ سے کھانا چمچ سے کھانے سے زیادہ افضل ہے، لیکن یہ بتانا مقصود ہے کہ چمچ سے کھانا بھی خلافِ سنت نہیں ہے اور کھانے کے تمام آداب چمچ سے کھانے میں بھی باحسن و خوبی پورے ہوتے ہیں۔
اسی طرح بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ برگر وغیرہ کو کھانے کا طریقہ خلافِ سنت ہے، کیونکہ اس کو ہاتھ سے توڑے بغیر براہ راست منہ سے نوچ کر کھایا جاتا ہے ۔ اصل سنت دائیں ہاتھ سے کھانا ہے جو کہ برگر کو کھانے میں بھی پوری ہوتی ہے ۔ مثلاً ایک شخص کے پاس سیب ہے اور اس کو کاٹنے کے لیے کوئی چھری یا چاقو وغیرہ نہیں ہے تو اب یہ شخص سیب کو کیسے کھائے گا؟ کیا اس کے لیے اس حالت میں سیب کھاناممنوع ہو گا تاکہ کفار کی مشابہت نہ ہو جائے؟ یا جائز ہو گا؟ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند کو ’صحیح‘ کہا ہے۔[۱۶۷]
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو قت کا ہی کھانا ہے اور ناشتہ کرنا بدعت ہے۔ حالانکہ یہ صریح روایات کے خلاف بات ہے۔ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ناشتہ کرتے تھے ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’حسن‘ کہا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی روایت کو ’حسن صحیح‘ کہا ہے۔ [۱۶۹]
بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ موٹر سائیکل پر بیٹھنا خلاف سنت بلکہ دجالی تہذیب کا مظہر ہے، کیونکہ اگر عام حالات میں دو اشخاص اس طرح بیٹھے ہوں جس طرح موٹر سائیکل پر دو افراد بیٹھتے ہیں یعنی آگے پیچھے تو یہ فعل بے حیائی معلوم ہوتا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر صحابہ کے زمانے میں اونٹ یا گھوڑے پر دو افراد بیٹھتے تھے تو اس کا کیا طریقہ تھا؟ کیا ایک دوسرے کے کندھے پر بیٹھتے تھے صحیح روایات میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بعض صحابہ کو اپنے پیچھے بٹھا کر اونٹ پر سواری کی، مثلاً صحیحین کی ایک روایت کے مطابق حجة الوداع کے موقع پرعرفات سے منیٰ واپسی کی طرف راستے میں حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ آپ کے پیچھے ایک ہی اونٹ پر سوارتھے۔[۱۷۰]
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ زمین پر بیٹھنا ہی سنت ہے اور کرسی پر بیٹھنا خلاف سنت اور خباثت ہے، کیونکہ آپ کبھی کرسی پر نہیں بیٹھے۔ ہمارے علم کی حد تک اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں یہ مروی نہیں ہے کہ آپ، کرسی پر بیٹھے ہیں یا نہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ سے ایک فعل کے مروی نہ ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ نے وہ فعل کیا ہی نہیں ہے، کیونکہ عدم ذکر، عدم فعل کو، مستلزم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہاں سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے کرسی پیش کی گئی ہو اور آپ نے اس پر بیٹھنے سے انکار کیا ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ بعض صحابہ کے بارے میں ملتا ہے کہ وہ کرسی پر بیٹھے ۔ ایک حدیث کے الفاظ ہیں، حضرت ابو وائل الاسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اگر چہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے زمانے میں ایسی کرسیاں نہیں تھیں جیسی آج کل ہیں، لیکن کرسی کا تصور تاریخ انسانی میں بہت پرانا چلا آرہا ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی کرسی کا ذکر ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کا بھی تذکرہ ہے ۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق اوائل نبوت میں آپ نے جب حضرت جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا تھا تو وہ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔، لسان العرب، میں کرسی کی تعریف میں لکھا ہے: الذی نعرفہ من الکرسی فی للغة الشیء الذی یعتمد علیہ ویجلس علیہ یعنی کرسی کا لغت عرب میں جو معنی معروف ہے وہ یہ ہے کہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس پر ٹیک لگائی جائے اور جس پر بیٹھا جائے۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کا منبرپر بیٹھنا صحیح روایات سے ثابت ہے، آپ کے زمانے میں اصحابِ صفہ کے لیے ایک چبوترہ تھا جس پر وہ بیٹھا کرتے تھے ۔ صحیح روایات کے مطابق حضرت عائشہ کے پاس ایک چارپائی تھی جس پر وہ سویا کرتی تھیں اور امام بخاری تو اپنی صحیح میں کتاب الاستئذان کے تحت باب السریر لے کر آئے ہیں۔ ایک صحیح روایت کے مطابق آپ کے پاس بھی کھجور کی شاخوں اور پتوں سے بنی ہوئی ایک چارپائی تھی جس پر بستر بھی بچھایا ہوا تھا۔[۱۷۲]
ان سب روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ ہر حال میں زمین پر نہیں بیٹھے تھے، بعض اوقات آپ نے زمین سے بلند چیزوں مثلاً چبوترہ، منبراورچارپائی وغیرہ کو بھی بیٹھنے کے لیے استعمال کیا ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنی جہالت اور کم علمی کی وجہ سے ایک فعل کو خلافِ سنت یا خباثت کہہ رہا ہوتا ہے حالانکہ وہ فعل سنت سے ثابت ہوتا ہے۔
ایک ذاتی واقعہ
ایک دفعہ ایک جگہ راقم الحروف کو درس دینے کا اتفاق ہوا تو ایک صاحب کہنے لگے کہ ماشاء اللہ!آپ کا درس بہت عمدہ تھا لیکن اگر آپ کے کپڑے بھی سفید ہوتے تو سنت کی اتباع بھی ہو جاتی اور لوگ بھی آپ کی باتوں سے زیادہ متأثر ہوتے۔
یہ بات تو درست ہے کہ اگر واقعتا کسی جگہ سفید لباس یا عمامہ یا ٹوپی پہن کر جانے سے کسی مدرس کے سامعین اس کی باتوں کا اثر لیں گے تو اس چیز کا لحاظ رکھنا دین کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے ۔ لیکن ہم پھریہی کہیں گے کہ اگر مقصود سامعین پر اپنی شخصیت کا اثر ڈالنا ہے تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات کو توجہ سے سنیں تو آپ کے بعض سامعین ایسے بھی ہوں گے کہ عمامہ یا سفید لباس پہننے کی بجائے آپ تھری پیس سوٹ میں ان سے خطاب کریں گے توآپ کی بات زیادہ توجہ سے سنیں گے اور ایک عام مولوی سمجھتے ہوئے آپ کو اجنبی نگاہ سے نہ دیکھیں گے ۔ جہاں تک دین کا معاملہ ہے تو یہ بات ثابت ہے کہ سفید لباس کو اللہ کے رسول ﷺ نے پسند کیا ہے اور اس کے پہننے کی ترغیب دی ہے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سفیدکے علاوہ رنگوں کے لباس بھی پہنتے تھے بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ کو سب سے زیادہ ’’حبرة‘‘ لباس پسند تھا ۔ بعض شارحین بخاری نے اس کا ترجمہ دھار ی دار یمنی لباس جبکہ بعض علماء نے یمنی سبز چادر کیا ہے۔ [۱۷۳]ہوا یہ کہ سفید لباس والی روایت تو نقل ہوئی اور لوگوں میں عام بھی ہو گئی لیکن دھاری دار یا سبز کپڑوں والی روایت عام نہ ہوئی، جس سے لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ شایدصرف سفید لباس پہننا ہی اللہ کے رسول ﷺ کو پسند تھا۔
ضعیف و موضوع روایات کا درجہ
ضعیف اورموضوع روایت سے اللہ کے رسول ﷺ کی کوئی سنت ثابت نہیں ہوتی ۔ البتہ ایک ضعیف روایت اگر ’حسن لغیرہ‘ کے درجے کو پہنچ جائے تو اس سے اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ثابت ہوتی ہے ۔ ایک صاحب ایک دفعہ دوران گفتگو فرمانے لگے کہ فجر کی نماز کے بعد سونا ممنوع ہے، آپ نے اس سے منع فرمایا ہے اور اس کی دلیل یہ روایت ہے :
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت ’ضعیف‘ ہے ۔ علامہ البانی نے اس روایت کو ’ضعیف‘ کہا ہے [۱۷۵] ۔ بعض اصحاب کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ ضعیف ہے تو کیا ہے، روایت تو ہے نا؟ ضعیف کی محدثین نے سترہ کے قریب اقسام بیان کی ہیں اور ان میں سے ایک موضوع بھی ہے۔ علماء نے اس مسئلے میں مستقل کتابیں اور مقالے لکھے ہیں کہ ضعیف حدیث دینی مسائل میں حجت نہیں ہے۔ ہم یہاں پر اس کے دلائل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اتنی بات کہیں گے کہ اگر یہ حضرات ضعیف حدیث کی کتابوں میں موجود ضعیف روایات کو دیکھ لیں تو ان کو احساس ہو گا کہ مطلقاً ضعیف روایات کو قبول کرنے کا اصول بنانے سے یہودیت، عیسائیت، ہندو مت اورا سلام کا ایک ملغوبہ تو وحدتِ ادیان کی شکل میں تیار ہو سکتا ہے لیکن اللہ کا وہ خالص دین جو کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیاگیا، اپنی اصل حالت میں برقر ار نہیں رہے گا۔ جب یہ حضرات ضعیف احادیث کو قبول کرنے کا اصول بناتے ہیں تو پھرا نہیں وہ تمام ضعیف روایات بھی قبول کرنی پڑیں گی جو شرک و بدعات اور توہمات و خرافات کی تعلیمات پر مبنی ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کو قبول کر لیا جائے، تو پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ کاش! یہ حضرات ضعیف حدیث پر مبنی کوئی کتاب اٹھاکر دیکھ لیتے تو انہیں احساس ہوتا کہ ضعیف حدیث کے نام پر کیسی کیسی بدعات اللہ کے رسول ﷺ کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ ائمہ سلف نے بہت سی ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں صرف ضعیف یا موضوع روایات کو جمع کیا گیا ہے اور ہمارے نزدیک ان کتب کی تالیف میں ضعیف و موضوع روایات سے باخبر کرنے کے علاوہ مؤلفین کے پیش نظر ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ ضعیف و موضوع روایات سے ثابت ہونے والی خرافات کی ایک تصویر پیش کی جا سکے تا کہ صحیح احادیث سے ثابت شدہ دین اسلام اور اس دینِ خرافات کے زمین و آسمان جیسے فرق کو واضح کیاجائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر متذکرہ بالا ضعیف روایت کو بطور دلیل قبول بھی کر لیا جائے تو پھر بھی اس میں فجر کے بعد سونے کی نہی نہ تو حرمت کے لیے ہے، اور نہ ہی کراہت کے لیے ہے بلکہ یہ ’’ارشاد ‘‘ ہے، یعنی آپ اپنی اُمت سے حد درجہ محبت کی وجہ سے بعض اوقات ان کے دنیاوی معاملات میں بھی ان کو کوئی بات بطور مشورہ بیان کر دیتے تھے جس کا دین سے کوئی تعلق نہ ہوتا تھا۔ لہٰذ ایہ حدیث بیانِ ا رشاد ہے نہ کہ بیانِ شرع۔
اس ساری بحث سے ہمارا مقصود قطعا ً یہ نہیں ہے ہم فجر کے بعد سونے کو پسند کرتے ہیں یا اس کے حامی ہیں، ہمارے نزدیک فجر کے بعد سونا ایک ناپسندیدہ فعل ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رات سونے کے لیے بنائی ہے نہ کہ دن، لیکن اگر کوئی شخص فجر کے بعد سونے کو سنت رسول ﷺ کی خلاف ورزی قرار دے گا تو ہمارے نزدیک یہ شخص ایک ایسی چیز کو سنت یا دین قرار دے رہا ہے جو سنت یا دین نہیں ہے، اور ایسے شخص کا رد کرنا اور دین اسلام کو اس قسم کی آلائشوں سے پاک کرنا علماء کا بنیادی فریضہ ہے، تاکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف کسی ایسی چیز کی نسبت نہ ہو جو انہوں نے نہ کہی تھی اور نہ اس کوچا ہا تھا۔
رسول اللہ ﷺ کی تقاریر
تقریر سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے کوئی کام ہوا ہو اور آپ نے اس پر خاموشی اختیار کی ہو ۔آپ کا کسی کام کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا اس کے جواز کی علامت ہے۔ محمد بن المنکدرفرماتے ہیں :
اس حدیث سے معلوم ہواکہ صحابہ آپ کی تقریر کوحجت سمجھتے تھے۔ بعض اوقات صحابہ کا اندازیہ ہوتاہے کہ ہم آپ کے زمانے میں یہ کام کرتے تھے اور آپؐ کو اس علم بھی ہوتا، اگرچہ یہ کا م آپ کے سامنے نہیں ہو ا ہوتا، یہ بھی آپ کی تقریر میں شامل ہے۔ مثلاً:
کسی صحابی یا صحابہ کا عمل جو انہو ں نے آپ کے زمانے میں کیاہو، لیکن آپ کے سامنے نہ کیا ہو اور نہ ہی آپ کو اس کی خبر دی گئی ہو، توکیاوہ بھی آپؐ کی تقریر میں شامل ہے ؟ اس قسم کے اور مسائل میں بھی تفصیل ہے جو کہ اصولِ فقہ کی کتابوں میں درج ہے ۔ اُمت کے حق میں دین نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے کسی قول و فعل یا تقریر و تصویب پر جمہور و جلیل القدر صحابہ، کا عمل تھا یا نہیں، اس کے لیے کتب احادیث، سیرت النبی، سیرتِ صحابہ اور تاریخ کی کتب سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔
حاصل بحث
خلاصۂ کلام یہی ہے کہ ایک عامی شخص کا محض قرآن و سنت کے ترجموں سے کسی نئی فکر کا استوار کرنا یا کوئی نیا نظریہ قائم کرنا عصر حاضر کا ایک بہت بڑا فتنہ ہے جس میں کثیر لوگ مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو ایسے فتنوں سے بچائے جو اُمت کو انتشارِ ذہنی کی طرف لے کر جانے والے ہوں اور لوگوں کے دلوں میں علمائے سلف اور علم دین کی قدر اور عظمت کا احساس پیدا کرے۔ آمین!
نوٹ:یہاں پر یہ مضمون مکمل ہوا۔ اب اس کے حواشی پیش کیے جائیں گے۔ لیکن ان حواشی کے بعد ایک اور قسط بھی پیش کی جائے گی ۔ یہ آخری قسط در اصل اس مضمون کے بارے ملنے والے متعدد سوالات کے جوابات اور اس نقطہ نظر کی مزید تفہیم وتشریح پر مشتمل ہے۔
حواشی
[١٠٤] علوم الحدیث فی ضوء تطبیقات المحدثین النقاد، ص ١٥،١٦۔
[١٠٥] الوجیز، ص ١٦٥۔
[١٠٦] الاحکام فی اصول الاحکام، جلد١، ص٢٢٧، ٢٢٨۔
[١٠٧] الوجیز، ص٧٤۔
[١٠٨] مجموع الفتاویٰ،ج١، ص٢٨٠۔
[١٠٩] مجموع الفتاوی:جلد١، ص٢٨٠۔
[١١٠] سنن البیہقی الکبری، جلد٥، ص١٥٣۔
[١١١] صحیح ابی داود:١٨٧٨۔ وصحیح ابن ماجہ:٢٤٠٢۔
[١١٢] الالمام، ج١، ص ١٩٠۔
[١١٣] عارضة الاحوذی، ج٢، ص ٢٩٤۔
[١١٤] علامہ احمد العدوی، اصول فی البدع والسنن:ص٥٦۔
[١١٥] صحیح البخاری، کتاب الأطعمة، باب الشوائ۔
[١١٦] صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نھی من أکل ثوما أو بصلا أو کراثا أو نحوھا…۔
[١١٧] صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب البرانس۔
[١١٨] صحیح البخاری، کتاب الصلاة، باب عقد الزار علی القفا فی الصلاة۔
[١١٩] صحیح البخاری، کتاب الصلاة، باب ذا صلی فی الثوب الواحد فلیجعل علی عاتقیہ۔
[١٢٠] صحیح البخاری، کتاب الصلاة، باب الصلاة فی القمیص والسراویل والتبان والقبائ۔
[١٢١] فتاویٰ اللجنة الدائمة: ج١٤،ص ٤٣۔
[١٢٢] فتاویٰ اللجنة الدائمة: ج١٤، ص٤٤۔
[١٢٣] صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب الوصال۔
[١٢٤] صحیح البخاری، کتاب مواقیت الصلاة، باب ما یصلی بعد العصر من القوائت ونحوھا۔
[١٢٥] صحیح البخاری، کتاب الحج، باب الطواف بعد الصبح والعصر۔
[١٢٦] صحیح البخاری، کتاب الجمعة، باب اذا کلم وھو یصلی فاشار بیدہ واستمع۔
[١٢٧] صحیح البخاری، کتاب مواقیت الصلاة، باب لا تتحری الصلاة قبل غروب الشمس۔
[١٢٨] الاحکام، جلد١، ص٢٢٨۔
[١٢٩] صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب الاذان للمسافر۔
[١٣٠] صحیح الجامع الصغیر: ٧٨٨٢۔ وسنن النسائی، کتاب مناسک الحج، باب الرکوب الی الجمار۔
[١٣١] صحیح بخاری، کتاب الصلاة، باب ذا حمل جاریة صغیرة علی عنقہ فی الصلاة۔
[١٣٢] صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب جواز حمل الصبیان فی الصلاة۔
[١٣٣] سنن البیہقی الکبری، جلد٥، ص١٥٣۔
[١٣٤] صحیح مسلم، کتاب الحج، باب استحباب النزول بالمحصب یوم النفر والصلاة بہ۔
[١٣٥] صحیح مسلم، کتاب الحج، باب استحباب النزول بالمحصب یوم النفر والصلاة بہ۔
[١٣٦] صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب ینزع نعلہ الیسریٰ، ح ٥٤٠٧۔
[١٣٧] الحکام، جلد١، ص٢٢٨۔
[١٣٨] الحکام، جلد١، ص٢٢٨،٢٢٩۔
[١٣٩] صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صحة صوم من طلع علیہ الفجر و ھو جنب۔
[١٤٠] الاحکام، جلد١، ص٢٢٩۔
[١٤١] الوجیز:ص١٦٥۔
[١٤٢] اصول فی البدع و السنن:ص٥٦۔
[١٤٣] احکام القرآن، جلد١، ص٣٩١۔
[١٤٤] صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین وقصرھا، باب جواز الانصراف من الصلاة عن الیمین والشمال۔
[١٤٥] صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین وقصرھا، باب جواز الانصراف من الصلاة عن الیمین والشمال۔
[١٤٦] سنن النسائی، کتاب السھو، باب الانصراف من الصلاة۔
[١٤٧] صحیح البخاری، کتاب الاشربة، باب الشرف قائمًا۔
[١٤٨] موطأ مالک، کتاب الجامع، باب ما جاء فی شرب الرجل۔
[١٤٩] سنن الترمذی، کتاب الاشربة عن رسول اللہ، باب ما جاء فی الرخصة فی الشرف قائمًا۔
[١٥٠] صحیح الترمذی:١٨٨٠۔
[١٥١] ہدایة الرواة، ج٤، ص ١٨٠۔
[١٥٢] سنن الترمذی، کتاب الاشربة عن رسول اللہ، باب ما جاء فی الرخصة فی الشرف قائمًا۔
[١٥٣] صحیح البخاری، کتاب الجمعة، باب من اتی مسجد قباء کل سبت۔
[١٥٤] صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین وقصرھا، باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح۔
[١٥٥] صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین وقصرھا، باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح۔
[١٥٦] صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان۔
[١٥٧] صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب وجوب صلاة الجماعة۔
[١٥٨] صحیح مسلم، کتاب الحج، باب استحباب الرمل فی الطواف والعمرة۔
[١٥٩] شرح النووی علی صحیح مسلم، کتاب الحج، باب استحباب الرمل فی الطواف والعمرة۔
[١٦٠] صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب سواک الرطب والیابس للصائم۔
[١٦١] ارواء الغلیل، جلد١، ص١٠٤۔
[١٦٢] طرح التثریب:جلد٢، ص٦٨۔
[١٦٣] الدرایة، جلد١، ص ١٨۔
[١٦٤] فتاویٰ، جلد٨، ص٢٣٧١۔
[١٦٥] صحیح البخاری، کتاب الجمعة، باب السواک یوم الجمعة۔ وسنن الترمذی، کتاب الطھارة عن رسول اللہ، باب ما جاء فی السواک۔
[١٦٦] مسند احمد:٢٣٩٣۔
[١٦٧] مسند احمد، ج٥، ص ١٣٥۔
[١٦٨] سنن الترمذی، کتاب الصوم عن رسول اللہ، باب صیام المتطوع بغیر تبییت۔
[١٦٩] صحیح الترمذی: ٧٣٤۔
[١٧٠] صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب حجة الوداع۔
[١٧١] صحیح البخاری، کتاب الحج، باب کسوة الکعبة۔
[١٧٢] صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوة اوطاس۔
[١٧٣] صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب البرود والحبر الشملة۔
[١٧٤] فیض القدیر، جلد١، ص٣٩٤، المکتبة التجاریة الکبری، مصر۔
[١٧٥] ضعیف الجامع:٥٧٣۔
[١٧٦] صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة، باب من رأی ترک النکیر من النبیؐ حجة لا من غیر الرسول۔
[١٧٧] صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب حکم العزل۔