رسول اللہ ﷺ کے افعال

رسول اللہ ﷺ کے اقوال کی طرح آپ کے افعال بھی ہمارے لیے سنت اور مصدرِ تشریع ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَة حَسَنَة ﴿الاحزاب:۲۱﴾
یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول(ﷺ)میں بہترین اُسوہ موجود ہے ۔

لیکن کیا آپ کا ہر ہر فعل، چاہے دنیا سے متعلق ہو یا دین سے، ہمارے لیے مصدر، ماخذاور سنت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی اتباع لازمی یا کم ازکم مستحب ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے صرف وہی افعال ہمارے لیے شریعت یا ایسی سنت ( جس کی اتباع کرنی چاہیے) کا درجہ رکھتے ہیں جو کہ آپ سے بطورِ شریعت صادر ہوئے ہوں۔

ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :

السنة الفعلیة : وھی ما فعلہ کأداء الصلاة بہیئاتھا وأرکانھا.ومثل قضائھا بشاھد واحد ویمین المدعی، ونحو ذلک. وأفعالہ منہا ما یکون مصدرا للتشریع، ومنھا مالا یکون [۱۰۳]
سنتِ فعلیہ سے مراد وہ عمل ہے جس کو اللہ کے رسول ﷺ نے کیا ہو، جیسا کہ آپ نے نماز کومختلف ارکان اور شکلوں کے ساتھ ادا کیا ہے ۔ اسی طرح آپ نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم کے ساتھ فیصلہ کیا ہے اور اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔ آپ کے بعض افعال ہمارے لیے شریعت ہیں جبکہ بعض شریعت نہیں ہیں۔

ڈاکٹر حمزہ الملیباری لکھتے ہیں :

السنة فی الاصطلاح ما ھو عن رسول اللہ علی وجہ التشریع من قول أو فعل أو تقریر أو صفة خلقیة من مبدأ بعثتہ لی وفاتہ[۱۰۴]
اصطلاح میں سنت سے مراد ہر وہ قول یا فعل یا تقریر یا اکتسابی وصف ہے جو رسول اللہ ﷺ سے آپ کی بعثت کے بعد سے لے کر وفات تک کے دورانیے میں بطورِ شریعت صادر ہوا ہو۔

خود اس آیت میں بھی اس بات کا قرینہ موجود ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا ہر ہر فعل ہمارے لیے اُسوہ نہیں ہے۔آیت مبارکہ میں فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ کے الفاظ ہیں، یعنی اللہ کے رسول ﷺ میں یا ان کے افعال میں یا ان کی زندگی میں یا ان کے طریقے میں تمہارے لیے اُسوہ ہے۔ عربی زبان میں ’فی‘ کالفظ عموماً ظرفیت کا معنی دیتا ہے۔ بعض اوقات یہ ظرفیت حقیقی ہوتی ہے، مثلاً غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ اور بعض اوقات مجازی ہوتی ہے جیسا کہ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ میں ہے۔ اگر آیت کا اسلوب یوں ہوتا کہ اللہ کے رسول ﷺ تمہارے لیے اُسوہ ہیں تو پھر یہ معنی مراد ہوسکتے تھے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے جمیع افعال میں اتباع مطلوب و مقصودہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’الاحکام‘‘ میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اتباعِ رسول ﷺ کا معنی و مفہوم اور شرعی حکم

حال ہی میں یہ فلسفہ متعارف ہوا ہے جس کا ذکر ہم سابقہ قسط میں بھی کر چکے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے ہر ہر فعل کی پیروی اس اتباع میں شامل ہے جس کا قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا گیاہے۔ لہٰذ ا اگر اللہ کے رسول ﷺ نے تہبند باندھا ہے تو ہمیں بھی تہبند باندھنا چاہیے۔آپ نے عمامہ باندھا، موزے پہنے، اونٹ، گھوڑے اور گدھے کی سواری کی، ثرید کھائی، سرمہ لگایا وغیرہ، تو ہمیں بھی یہ سب کام کرنے چاہئیں اور ان سب کو کرنا آپ کی اتباع اور باعث ثواب و بلندی درجات ہے۔ یہ حضرات آپ کے ہر ہر فعل کو سنت کا نام دیتے ہیں اور سنت کی پیروی میں اس حد تک غلواختیار کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک زمین پر بیٹھنا سنت اور کرسی پر بیٹھنا خلافِ سنت ہے۔ اور چونکہ ان کے بقول ہر سنت طیب ہے اور ہر خلافِ سنت کام ان کے نزدیک خبیث ہے، لہٰذا کرسی پر بیٹھنا خباثت ہے ۔ اسی طرح ان کے فلسفہ سنت کی رو سے کراچی سے لاہور جانے کے لیے اونٹ کی سواری، گاڑی کی سواری سے افضل ہے ۔ وہ اس پر بھی مصر ہیں کہ ہاتھ سے کھانا سنت ہے اور چمچ سے کھانا خباثت ہے، عمامہ اور تہبند باندھنا ہی سنت، باعث ثواب اور بلندی درجات کا سبب ہے، وغیر ذٰلک۔ ان میں سے بعض حضرات نے تو اِس درجہ غلو اختیار کیا کہ قرآن کی طباعت، پاروں اور رکوعوں کی تقسیم، قرآن کے اعراب و حرکات تک کو یہودی سازش قرار دیا ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ کام نہ کیا تھا۔

ہمارے خیال میں یہ نقطہ نظر بوجوہ غلط افکار پر مشتمل ہے۔ اس کے قائلین ایک ایسی چیز کو دین قرار دے رہے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ’’دین‘‘ قرارنہیں دیا ہے۔ لہٰذا یہ لوگ سنت کا ایسا تصور پیش کر رہے ہیں جو اُمت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں پیش نہیں ہوا۔ ہاں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص ان افعال کو رسول اللہ ﷺ سے محبت اور تعلق کے اظہار کی نیت سے اد اکرتا ہے تو ان شاء اللہ العزیز اس نیت و ارادہ پراجرو ثواب ملنے کی امید ہے۔ ذیل میں ہم ان حضرات کے افکار کا ایک علمی اور تحقیقی جائزہ لے رہے ہیں۔ قرآن مجید میں ہمیں اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلْ ِانْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَاللّٰهُ غَفُوْر رَّحِیْم﴿آل عمران﴾
(اے نبی ﷺ !) آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اتباع کے لفظ کا مادہ ’تبع‘ ہے ۔، لسان العرب، میں ہے کہ معروف لغوی فراء نے اتباع کا معنی ان یسر الرجل و أنت تسیر وراءہ بیان کیا ہے ۔ یعنی کوئی شخص چلے اور تم اس کے پیچھے چلو تو یہ اس کی اتباع ہے۔ پس اتباع کے لغوی معنی پیروی کرنے اور پیچھے چلنے کے ہیں۔

اس آیت کا سیاق و سباق یہ بتلا رہا ہے کہ کچھ لوگوں نے عہد نبوی میں اللہ سے محبت کا دعویٰ کیا تو اُن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ جمہور مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ نجران کے اس عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے لیکن اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لانے اور آپ کی بات ماننے سے انکاری تھے۔ اس آیت مبارکہ کے شانِ نزول کے بارے میں چار اقوال مروی ہیں، جن کا تذکرہ علامہ ابن جوزی نے اپنی تفسیر زاد المسیر میں کیا ہے۔ یہ اقوال درج ذیل ہیں:

(۱) یہ آیتِ مبارکہ ان مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے، جیسا کہ قرآن نے آیت مبارکہ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰهِ زُلْفٰی ﴿الزمر:۳﴾ میں اس طرف اشارہ کیا ہے ۔ یعنی مشرکین کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اللہ کے غیر کی عبادت بھی اللہ کے قرب کے حصول کے لیے کرتے تھے ۔ یہ قول ضحاک نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔

(۲) دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ نجران کے اس عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے ۔ یہ قول مفسرین کی ایک جماعت کا ہے ۔ امام المفسرین ابن جریر طبری کی بھی یہی رائے ہے ۔ امام قرطبی کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔

(۳) مفسرین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ ان یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے نَحْنُ اَبْنٰؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاؤُہ ﴿المائدة:۱۸﴾ کا دعویٰ کیا تھا۔ امام رازی، علامہ مجد الدین فیروز آبادی، علامہ سمرقندی اور امام بغوی نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔ بعض مفسرین نے دوسرے اور تیسرے دونوں اقوال کو اس آیت مبارکہ کا شان نزول قرار دیا ہے ۔ یعنی ان مفسرین کے نزدیک یہ آیت مبارکہ اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اس رائے کے حاملین میں اما م ابن عطیہ، امام خازن اور امام ابو حیان ا لاندلسی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔

(۴) ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ آیت مبارکہ ایک ایسی قوم کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اللہ سے محبت کی دعوے دار تھی۔ یہ قوم کون تھی، اس کا تعین اس قول میں موجود نہیں ہے ۔ یہ رائے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی ہے ۔

بعض مفسرین نے اس آیت مبارکہ کو اس کے شانِ نزول سے خاص کرنے کی بجائے اسے عام رکھا ہے۔ مثلاً امام ابن کثیر اور امام نسفی رحمہما اللہ وغیرہ ۔ صحیح بات بھی یہی ہے کہ آیت اگرچہ اپنے نزول کے اعتبار سے خاص ہے لیکن اس کا معنی عام ہے، جیسا کہ مفسرین کا قاعدہ ہے العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب یعنی کسی آیت کی تفسیر میں شانِ نزول کے اعتبار کی بجائے اس آیت کے الفاظ کے عموم کا اعتبار ہو گا۔ شانِ نزول سے کوئی آیت مبارکہ کسی فرد یا ایک جماعت کے ساتھ خاص تونہیں ہوجاتی لیکن پھر بھی آیت کے معنی و مفہوم کو سمجھنے میں شانِ نزول کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔

اتباع کا لفظ قرآن میں معمولی فرق کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں یہ لفظ پیچھے چلنے اور پیروی کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہےفَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ ﴿الحجر:۶۵﴾ اور لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ ﴿التوبة:۴۲﴾ اور ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ ﴿الفتح:۱۵﴾ اور قَالُوْالَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰكُمْ ﴿آل عمران:۱۶۷﴾ اور فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿القیٰمة﴾ ۔

عام طور پر اطاعت اور اتباع کا فرق بیان کرنے کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ اطاعت حکم کی ہوتی ہے اور اتباع حکم کے بغیر ہوتی ہے، حالانکہ بعض اوقات اتباع کا لفظ قرآن میں کسی کا حکم ماننے اور ا س حکم کی پیروی کرنے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان فَاتَّبَعُوْا اَمْرَ فِرْعَوْنَ ﴿ھود:۹۷﴾ اور وَاتَّبَعُوا أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ ﴿ھود:۵۹﴾ ہے ۔ ان آیات میں مصدر کا صیغہ ’امر‘ بمعنی اسم مفعول یعنی ’مامور‘ ہے اور مصدر کا اسم مفعول کے معنی میں استعمال قرآن میں عام ہے۔ لہٰذا یہ ثابت ہواکہ اتباع کا لفظ اس معنی میں عام ہے کہ اگر کسی کے حکم پرعمل کیا جائے تویہ بھی اتباع ہے اور اگر کسی کے حکم کے بغیر اس کے نقش قدم پر چلا جائے تو یہ بھی اتباع ہے۔

اتباع کا یہ معنی تو لغت سے واضح ہے کہ کسی کے پیچھے چلنا، لیکن کیا اتباع کے معنی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جہاں کوئی دایاں پاؤں رکھے بعینہ اُس جگہ اُس کے پیچھے چلتے ہوئے دایاں پاؤں رکھا جائے اور جہاں کسی کا بایاں پاؤں زمین پرپڑے عین اسی جگہ اپنا بایاں پاؤں ہی رکھا جائے؟ اہل لغت میں سے کسی نے بھی اتباع کا یہ مفہوم بیان نہیں کیا ہے ۔ قرآن میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جن سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع سے ہر ہر فعل میں آپ کی پیروی مراد نہیں ہے ۔ مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

یٰاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُک اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَك مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴿الانفال﴾
اے نبی(ﷺ !)اللہ تعالیٰ آپ کے لیے بھی اور اہل ایمان میں سے جنہوں نے آپ کی اتباع کی، ان کے لیے بھی کفایت کرنے والا ہے ۔

اگر اتباع سے مراد یہ لی جائے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے جبلی افعال مثلاً آپ کا کھانا، پینا، اٹھنا اور بیٹھنا وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں تواکثر صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے جبلی افعال میں آپ کی پیروی نہیں کرتے تھے تو کیا ان صحابہ کو اللہ کی ذات کفایت کرنے والی نہیں ہے؟

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے بارے میں روایات میں ملتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے ہر ہر فعل کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حج یا عمرہ کے دوران اگر کسی جگہ سے اللہ کے رسول ﷺ کاگزر ہواہوتا تھاتو وہ بھی اسی جگہ سے گزرنے کی کوشش کرتے تھے اور آپ اگر کسی جگہ راستے میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھے تھے تو وہ بھی اسی جگہ قضائے حاجت کااہتمام کرتے تھے ۔ حضرت عبد للہ بن عمر کے علاوہ باقی جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی اس درجے پیروی نہیں کرتے تھے ۔ اگر تو حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا آپ کی پیروی میں حد درجے آگے بڑھ جانا اتباع کے مفہوم میں شامل ہے تو پھر فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ صحابہ کی اکثریت اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع کرنے والی نہیں تھی اور نہ ہی اللہ کی محبوب تھی۔ کیونکہ تمام صحابہ آپ کے ہر ہر عمل میں آپ کی پیروی نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا :

وَاخْفِضْ جَنَاحَك لِمَنِ اتَّبَعَك مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴿الشُّعراء﴾
اور(اے نبی ﷺ !)آپ اپنے دونوں بازو اِن اہل ایمان کے لیے پست رکھیں جنہوں نے آپ کی اتباع کی ۔

اس آیت کے نزول کے بعد کیا رسول اللہ ﷺ کے بازو صرف حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے لیے پست رہے یا جمیع صحابہ کے لیے؟ جواب بالکل واضح ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد آپ تمام صحابہ کے ساتھ نرمی اختیار کرتے تھے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اتباع سے مراد جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم کا طرزِ عمل ہے نہ کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کا۔ کیونکہ اگر اتباع سے مراد حضرت عبد اللہ بن عمر کا طرز عمل لیا جائے تو پھر گویاجمہور صحابہ نے آپ کی اتباع نہ کی اور آپ نے بھی (معاذاللہ!)جمہور صحابہ کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کر کے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے ۔

اگر اتباع سے جمیع افعال میں آپ کی پیروی مراد لی جائے تو یہ اتباع کسی ایک صحابی نے بھی نہیں کی ہے، حتی کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے بھی بعض معاملات میں آپﷺ کے بعض افعال کی خلاف ورزی مروی ہے۔

جیسا کہ ہم صحیح بخاری کی ایک روایت بیان کر چکے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر حج یا عمرہ کے موقع پر اپنی داڑھی اپنی مٹھی میں لے کر زائد بال کاٹ دیتے تھے، جبکہ اللہ کے رسول ﷺ سے زندگی بھر ایسا ثابت نہیں ہے۔

قرآن مجید میں حق اور باطل دونوں کی پیروی کے لیے اتباع کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ پہلی قسم کی مثالیں وَاَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ﴿الانعام: ۱۵۳﴾ اور وَهٰذَا كِتٰب اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَک فَاتَّبِعُوْهُ ﴿الانعام: ۱۵۵﴾ اور اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ ﴿یونس:۱۵﴾ اور اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا ﴿النحل:۱۲۳﴾ اور فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْ ﴿طٰهٰ﴾ اور وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ﴿لقمٰن:۱۵﴾ اوریٰاَ بَتِ اِنِّیْ قَدْ جَاءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِک فَاتَّبِعْنِیْ اَهْدِک صِرَاطًا سَوِیًّا ﴿مریم﴾ اور اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ ﴿التوبة:۱۱۷﴾ اور اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ ﴿آل عمران:۶۸﴾ اور فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا ﴿آل عمران:۹۵﴾ اوروَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْک فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴿آل عمران:۵۵﴾ اوروَاخْفِضْ جَنَاحَك لِمَنِ اتَّبَعَك مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴿الشُّعراء﴾ وغیرہ شامل ہیں ۔ ان آیات میں اتباع کالفظ سیدھے راستے کی پیروی، وحی الٰہی کی پیروی، نبی کی پیروی، قرآن کی پیروی وغیرہ کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ سیدھے راستے کی پیروی سے مراد دینِ اسلام کی پیروی یعنی اس پر عمل ہے اور قرآن کی پیروی سے مراد قرآن پر عمل کرنا ہے۔ قرآن میں بہت سے مقامات پر اتباع کا لفظ باطل خواہشات و نظریات اور شیطان کی پیروی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان وَاتَّبَعَ هَوَاهُ﴿الاعراف:۱۷۶﴾ اور وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ﴿المائدة:۴۸﴾ اور وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاءَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا﴿الانعام:۱۵۰﴾ اور وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ﴿مریم:۵۹﴾ اوروَمَا یَتَّبِعُ اَكْثَرُهُمْ اِلاَّ ظَنًّا﴿یونس:۳۶﴾ اور اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ﴿الانعام:۱۱۶﴾ اوروَیَتَّبِعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْد﴿الحج﴾ وغیر ہ ہے۔

لہٰذاقرآن کے استعمالات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی اتباع سے مراد اپنی خواہش نفس و شیطان کے بالمقابل نبی کی وحی الٰہی پر مبنی بات مانتے ہوئے اس کے پیچھے چلنا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو شیطان کی عبادت کے بالمقابل اپنی پیروی کی تبلیغ کی۔ اسی طرح حضرت ہارون علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو بچھڑے کی پرستش میں خواہش نفس کے پیچھے چلنے کی بجائے اپنی اتباع کا حکم دیا۔ علاوہ ازیں مذکورہ بالا آیات میں خواہش نفس، شیطان اور گمان وغیرہ کی پیروی کو مذموم قرر دیا گیا ہے اور اس کے بالمقابل دین اسلام، وحی الٰہی اور نبی کی اتباع کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کی اتباع کا جوحکم دیا گیا ہے یا مسلمانوں کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں، کیونکہ انہوں نے ان کی اتباع کی ہے یا مسلمانوں کو بھی قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کی اتباع کا جو حکم دیا گیا ہے، تو اس سے کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہر ہر فعل کی پیروی مراد ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے، کیونکہ حضرت ابراہیم کا ہر ہر طریقہ نہ تو کسی آسمانی کتاب میں محفوظ ہے، نہ ہی آپ کو وحی کیا گیا ہے اور نہ ہی حضرت ابراہیم کی شریعت ہمارے لیے بھی شریعت ہے۔ اس سے مراد بعض مخصوص معاملات مثلاً شرک سے اجتناب وغیرہ میں حضرت ابراہیم کی پیروی ہے۔ قرآن کی آیت اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ﴿التوبة:۱۱۷﴾ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ بعض اوقات اتباع کا لفظ ایک محدود دائرے میں کسی کے پیچھے چلنے کے معنی میں بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کے لیے وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَا اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْهِ﴿البقرة:۱۴۳﴾ میں بھی اتباع سے مراد ذاتی خواہش کے بالمقابل رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرناہے۔ خود اللہ کے رسول ﷺ کے لیے اتباع کالفظ وحی اور سابقہ ابنیاعلیہم السلام کی پیروی کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ اللہ کا فرمان اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ اور اِنَّمَا اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ﴿الاعراف:۲۰۳﴾ اور اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا ہے ۔

جس طرح اتباع سے مراد ہر ہر فعل کی پیروی نہیں ہے، اسی طرح یہ بات کہنا کہ اتباع میں محبت شامل ہے، یا یہ کہ اطاعت اور اتباع میں اصل فرق یہ ہے کہ اطاعت بغیر محبت کے ہوتی ہے اور اتباع محبت کے ساتھ اطاعت کا نام ہے، یہ بھی پورے طور پر درست معلوم نہیں ہوتی ۔ ہاں، اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اتباع و اطاعت کا کمال بغیر محبت کے حاصل نہیں ہو سکتا، لیکن انہیں محبت سے مشروط کرنے کے لیے دلیل درکار ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اہل لغت میں سے کسی ایک نے بھی اتباع کے مفہوم میں یہ بات بیان نہیں کی ہے کہ اتباع سے مراد محبت یا دلی آمادگی کے ساتھ کسی کی اطاعت کرنا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن نے اتباع کو جن معانی میں استعمال کیا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اتباع کے لیے ضروری نہیں ہے کہ محبت بھی اس میں شامل ہو، جیسا کہ ارشاداتِ باری تعالیٰ قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لاَّ اتَّبَعْنٰكُمْ﴿آل عمران:۱۶۷﴾ اور ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ﴿الفتح:۱۵﴾ اور فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْ﴿طٰهٰ ﴾ اور وَیَتَّبِعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ﴿الحج﴾ وغیرہ ہیں ۔ پہلی دونوں آیات منافقین کے بارے میں ہیں اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان کی اتباع کبھی بھی محبت کے ساتھ نہیں ہو تی تھی ۔ تیسری آیت میں حضرت ہارون بچھڑے کے پجاریوں سے اپنی اتباع کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کلام کا سیاق و سباق مثلاً وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْ کے الفاظ بتلا رہے ہیں کہ یہاں حضرت ہارون کی اپنی اتباع سے مراد صرف یہ ہے کہ شرک چھوڑ دو، چاہے اس کو چھوڑنے کے لیے تمہارے دل آمادہ ہیں یانہیں ۔ چوتھی آیت میں شیطان کی اتباع کی بات ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ شیطان کی اتباع محبت کے ساتھ ہوتی ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب اہل لغت نے اتباع کے معنی میں محبت کو لازماً شامل نہیں کیاہے تو اس بات کی کوئی شرعی دلیل ہونی چاہیے کہ اتباع کے معنی میں محبت کا مفہوم بھی شامل ہے تاکہ یہ دعویٰ ممکن ہو کہ اتباع کا ایک لغوی مفہوم ہے اور ایک شرعی معنی ہے۔ قرآن میں اتباع کامطالبہ مسلمانوں اور کفار دونوں سے ہے۔ کفار کے لیے اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ کو فَاتَّبِعْنِیْ اَهْدِک صِرَاطًا سَوِیًّا﴿مریم﴾ کے ذریعے اپنی اتباع کا حکم دینا ہے۔

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ﴿آل عمران:۳۱﴾ میں اصلاً خطاب ان مشرکین اور اہل کتاب سے ہے جو کہ اللہ سے محبت کے دعویدار تھے یا اب بھی ہیں ۔ ان کفار کو اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور اس اتباع سے مراد آپ پر ایمان لانے کے مطالبے میں آپ کی بات کی پیروی کرنا ہے۔ تبعاً اس آیت کے عمومی مفہوم میں تمام مسلمانوں سے بھی اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع کا مطالبہ ہے اور اس اتباع سے مراد آپ کے ان اقوال و افعال اور تقریر و تصویب کی پیروی کرنا ہے جو کہ آپ سے بطورِ دین و شریعت صادر ہوئے ہوں نہ کہ آپ کے ہر ہر قول اور فعل کی پیروی کرنا، کیونکہ صحابہ نے آپ کے ہر ہر قول اور فعل کی پیروی نہیں کی ہے۔

افعالِ رسول ﷺ کی درجہ بندی

نبی مکرم ﷺ کے افعال کو اہل علم نے مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

(۱)۔ جبلی اور اتفاقی امور

اللہ کے رسول ﷺ کے جبلی اور اتفاقی امور اُمت کے لیے نہ تو شریعت ہیں اور نہ ہی ایسی سنت ہیں جن کی اتباع باعث ثواب ہے ۔ جبلی امور سے مراد وہ کام ہیں جو ایک انسان اپنے جبلی تقاضوں کے تحت سر انجام دیتا ہے، مثلاً ایک انسان کھانا کھاتا ہے، پانی پیتا ہے، سوتا ہے، اٹھتا ہے، بیٹھتا ہے، پیشاب پاخانہ کرتا ہے، لباس پہنتا ہے، جوتا پہنتا ہے، اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام امور ایسے ہیں کہ ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، یعنی اگر کوئی شخص مسلمان نہ بھی ہو تو پھر بھی وہ اپنی جبلت کے تقاضوں کے تحت یہ سب کام کرتا ہے ۔ اس کے برعکس ایک مسلمان نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، حج ادا کرتا ہے، زکوٰة دیتا ہے، وغیرہ تو یہ افعال جبلی نہیں ہیں کیونکہ عام انسان یہ کام نہیں کرتے۔ آپ کے جبلی افعال سے کم ازکم یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام حرام نہیں ہیں، کیونکہ آپ سے حرام کا ارتکاب ناممکن ہے

۔ ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :

أفعالہ الجبلیة أی التی تصدر منہ بحب الطبیعة البشریة و بصفتہ انسانا: کالأکل، والشرب، والمشی، والقعود، ونحو ذلک، فھذہ لا تدخل فی باب التشریع لا علی اعتبار اباحتھا فی حق المکلفین، فلا تجب متابعة الرسول فی طریقة مباشرتہ لھا، وان کان بعض الصحابة یحرص علی ھذہ المتابعة کعبد اللہ بن عمر، وھذہ المتابعة أمر حسن۔[۱۰۵]
اللہ کے رسول ﷺ کے جبلی افعال جو کہ ایک انسان ہونے اور بشری تقاضوں کے تحت آپ سے صادر ہوئے تھے، مثلاً کھانا، پینا، چلنا، بیٹھنا وغیرہ تو یہ تشریع کے باب میں نہیں ہیں، سوائے اس کے کہ یہ مکلفین کے لیے مباحات کا دائرہ ہے ۔ ان افعال میں آپ کے طریقے کی پیروی لازمی نہیں ہے، اگرچہ بعض صحابہ اس متابعت کے بہت زیادہ حریص تھے اور ایسی متابعت ایک اچھی چیزہے ۔

لہٰذا آپ کے جبلی افعال مباح کے درجے میں ہیں، یعنی ان کے کرنے اور نہ کرنے دونوں کا کوئی ثواب نہیں ہے۔ علماء نے مباح کی یہی تعریف بیان کی ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔

علامہ آمدی رحمہ اللہ لکھتے، ہیں :

فنقول أما ما کان من الأفعال الجبلیة کالقیام و القعود و الأکل و الشرب و نحوہ فلا نزاع فی کونہ علی الاباحة بالنسبة الیہ و الی أمتہ[۱۰۶]
پس ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ کے جبلی افعال مثلاً کھانا، پینا، اٹھنا، بیٹھنا وغیرہ میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ یہ افعال آپ کے لیے اورآپ کی امت کے لیے مباح ہیں۔

مباح کے بارے میں ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض مباحات ایسے ہو سکتے ہیں کہ ان کی ادائیگی میں ایک مسلمان کو اس کی نیت و ارادے کا ثواب ملے،

جیسا کہ ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :

وان حکم المباح : أنہ لا ثواب فیہ ولا عقاب، ولکن قد یثاب علیہ بالنیة والقصد، کمن یمارس أنواع الریاضیة البدنیة بنیة تقویة جسمہ، لیقوی علی محاربة الأعداء[۱۰۷]
مباح کا حکم یہ ہے کہ اس کے کرنے میں نہ تو ثواب ہے اور نہ ہی عذاب ہے۔ لیکن بعض مباحات ایسے ہیں کہ ان کے کرنے پر بعض اوقات نیت و ارادے کا ثواب ہوتا ہے، جیسے کوئی شخص ورزش کرتا ہے تاکہ اس کاجسم قوی ہو اور وہ اللہ کے دشمنوں کا اچھی طرح مقابلہ کر سکے(یعنی جہاد کر سکے)۔

لہٰذا اگر کوئی شخص ان افعال کو رسول اللہ ﷺ سے محبت اور تعلق کے اظہار کی نیت سے ادا کرتا ہے تو پھر اس نیت و ارادے پر اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھی جا سکتی ہے ۔ اُمید کی بات اس لیے کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے جبلی و اتفاقی افعال کو شریعت نہیں بنایا اور نہ ہی کسی نص میں آپ کے جبلی و اتفاقی افعال کی اتباع کا حکم دیا ہے اور نہ ہی ان افعال کی اتباع پر ثواب کا کوئی وعدہ کیا ہے۔ اس لیے یقینی طور پر یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ان افعال کی اتباع پر ثواب دیں گے، ایک دعویٰ ہے جس کے لیے کوئی دلیل چاہیے۔ اس کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہاکو اپنی گردن پر بٹھا کر جماعت کروائی اور یہ ایک اتفاقی امر تھا۔ اب اگر کوئی امام صاحب آپ کی محبت میں آپ کی اقتداء کرتے ہوئے ایسا کرتے ہیں تو کیاانہیں اس عمل کا ثواب بھی ہو گا؟ زیادہ سے زیادہ یہی بات کی جا سکتی ہے کہ امام صاحب کے اس عمل پر ان کو اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ تعلق کے اظہارکے جذبے پر ثواب ملنے کی امید ہے۔ اس عمل میں آپ کی اقتداء پر ثواب اگر ایک یقینی امر ہوتا تو سب صحابہ یہ کام کرتے، کیونکہ وہ نیکیوں کے معاملے میں بہت حریص تھے، لیکن کسی ایک بھی صحابی کے بارے میں مروی نہیں ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں اس فعل کو سنت سمجھتے ہوئے کیا ہو۔

امام مسلم رحمہ اللہ جب اس روایت کو اپنی صحیح میں لائے ہیں تو امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر جوازحمل الصبیان فی الصلاة کے عنوان سے باب باندھا ہے ۔ یعنی اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں یہ فعل جائز ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ گدھے پر سوار ہوئے اور یہ ایک اتفاقی امر تھا، اگر گدھے پر سواری سنت ہوتی یا اس پر سواری کرنے میں ثواب ایک یقینی امر ہوتا تو تمام صحابہ یہ کام کرتے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

وکذلک ابن عمر کان یتحری أن یسیر مواضع سیر النبی ﷺ و ینزل مواضع منزلہ، ویتوضأ فی السفر حیث رآہ یتوضأ، و یصب فضل مائہ علی شجرة صب علیھا، ونحو ذلک مما استحبہ طائفة من العلماء ورأوہ مستحبا، و لم یستحب ذلک جمھور العلماء، کما لم یستحبہ و لم یفعلہ أکابر الصحابة کأبی بکر و عمر و عثمان و علی وابن مسعود و معاذ بن جبل و غیرھم لم یفعلوا مثل ما فعل ابن عمر، و لو رأوہ مستحبا لفعلوہ کما کانوا یتحرون متابعتہ و الاقتداء بہ[۱۰۸]
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمراس بات کی کوشش کرتے تھے کہ جہاں سے اللہ کے رسول ﷺ کا گزر ہواہے وہاں سے گزریں اور جہاں اللہ کے رسول ﷺ نے قیام کیا وہ بھی وہاں قیام کریں اور جہاں اللہ کے رسول ﷺ نے وضو کیا وہ بھی وہاں وضو کریں اور جس درخت پر اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے وضو کا باقی ماندہ پانی ڈالا وہ بھی اسی درخت پر اپنے وضو کا باقی ماندہ پانی ڈالیں۔ اس کے علاوہ اور بھی آپ کے ایسے افعال ہیں کہ جن کو علماء کی ایک جماعت نے مستحب قرار دیا ہے، لیکن جمہور علماء کے نزدیک آپ کے یہ افعال مستحب نہیں ہیں اور نہ ہی اکابر صحابہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن مسعو داور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم وغیرہ نے ان کو مستحب سمجھا ہے اور نہ ہی ان اکابر صحابہ نے ایسا کیا ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کرتے تھے۔ اگر یہ اکابر صحابہ آپ کے ان افعال کو مستحب سمجھتے تو وہ لازماً ان کو کرتے، کیونکہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کی اقتداء اور متابعت کے لیے حد درجہ کوشش کرتے تھے (یعنی ان افعال میں آپ کی پیروی اکابر صحابہ کے نزدیک آپ کی متابعت اوراقتداء کے مفہوم میں شامل نہیں تھی)۔

امام صاحب کی اس عبارت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ کے رسول ﷺ کے اتفاقی امور میں آپ کی پیروی کرنا باعث ثواب نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ باعث ثواب ہوتا تو اکابر صحابہ بھی ایسا کرتے۔ امام ابن تیمیہ کی طرح امام زرکشی نے البحر المحیط میں لکھا ہے کہ جمہور علماء کا یہی موقف ہے اور اصول فقہ کی کتابوں میں بھی معروف مذہب کے طور پر یہی موقف بیان ہوا ہے کہ آپ کے وہ افعال جن کا جبلی ہونا واضح ہو، مباح ہیں۔ امام شوکانی نے بھی ارشاد الفحول میں اسے ہی جمہور کا مذہب قرار دیا ہے۔ علامہ آمدی نے الاحکام میں اس موضوع پر بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں علماء کا یہی ایک موقف ہے کہ آپ کے جبلی افعال مباح ہیں۔ البتہ قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ افعال مستحب ہیں، جیسا کہ ابن تیمیہ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے، لیکن علماء کی اس جماعت کے نام اصول کی کتابوں میں منقول نہیں ہیں، لہٰذا اس قول کی اہمیت ویسے ہی کم ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ آمدی نے اس مسئلے میں ایک ہی رائے کا بالجزم اظہار کیا ہے اور مندوب والی رائے بیان نہیں کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے جبلی افعال کو مندوب کہنے والے علماء کا موقف اس اعتبار سے بھی کمزور ہے کہ یہ صحابہ کے عمل کے خلاف ہے، جیسا کہ امام ابن تیمیہ نے واضح کیا ہے۔

اس کے بعد امام صاحب لکھتے ہیں:

أن المتابعة أن یفعل مثل ما فعل علی الوجہ الذی فعل، فاذا فعل فعلا علی وجہ العبادة شرع لنا أن نفعلہ علی وجہ العبادة، وا ذا قصد تخصیص مکان أو زمان بالعبادة خصصناہ بذلک، کما کان یقصد أنیطوف حول الکعبة، وأن یستلم الحجر الأسود، و أن یصلی خلف المقام، وکان یتحری الصلاة عند أسطوانة مسجد المدینة، وقصد الصعود علی الصفا والمروة والدعاء والذکر ھناک، و کذلک عرفة و المزدلفة و غیرھا۔ وما فعلہ بحکم الاتفاق و لم یقصدہ مثل أن ینزل بمکان و یصلی فیہ لکونہ نزلہ لا قصدا لتخصیصہ بالصلاة و النزول فیہ فذا قصدنا تخصیص ذلک المکان بالصلاة أو النزول لم نکن متبعین بل ھذا من البدع التی کان ینھی عنھا عمر بن الخطاب کما ثبت بالاسناد الصحیح من حدیث شعبة عن سلیمان التمیمی عن المعرور بن سوید قال: کان عمر بن الخطاب فی سفر فصلی الغداة، ثم أتی علی مکان فجعل الناس یأتونہ و یقولون: صلی فیہ النبیؐ فقال عمر: نما ھلک أھل الکتاب أنھم اتبعوا أنبیائھم فاتخذوھا کنائس و بیعا، فمن عرضت لہ الصلاة فلیصل، و لا فلیمض[۱۰۹]
رسول اللہ ﷺ کی متابعت کا مفہوم یہ ہے کہ وہی کام کیا جائے جو کہ آپ نے کیا ہے اور اسی طور پر کیا جائے جیسا کہ آپ نے اس کو کیا ہے (یعنی اگر اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو عبادت کے طور پر کیا ہے تو اس کو بطور عبادت کیا جائے اور اگرآپ نے اسے اتفاقاً یا عادتاًکیا ہے تو ہم بھی اسے ایک اتفاق یا عادت کے طور پر کریں)۔ پس جب آپ نے ایک کام عبادت کے طور پر کیا ہے تو ہمارے لیے بھی مشروع یہ ہے کہ ہم اسے بطور عبادت ہی کریں ۔ اور اگر آپ نے کسی عبادت والے کام کو کسی جگہ یا وقت کے ساتھ مخصوص کیا ہے تو ہم بھی اس عبادت والے کام کی اس جگہ یا وقت کے ساتھ تخصیص کریں، جیسا کہ آپ کوشش کرتے تھے کہ بیت اللہ کے گرد طواف کریں، حجر اسود کا استلام کریں، مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھیں، اور مسجد نبوی کے ستون کے پاس نماز پڑھیں۔ اور آپ نے صفا اور مروہ پر چڑھنے اور ان پر دعا اور ذکر و اذکار کاکام قصداً کیا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ عرفات اور مزدلفہ کے قیام کا بھی ہے۔ لیکن آپ نے جو کام اتفاقاً کیا ہے اور آپ نے اس کام کے کرنے میں عبادت کا قصد نہیں کیا، مثلاً آپ نے کسی خاص جگہ اتفاقاً نماز پڑھی یا قیام کیاتو ہم اس جگہ نماز پڑھنے یا قیام کرنے میں اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع نہیں کریں گے اور ایسے کاموں میں آپ کی اتباع ایسی بدعت ہے جس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ منع کرتے تھے، جیسا کہ صحیح سند سے ثابت ہے کہ حضرت شعبہ بن سلیمان التمیمی حضرت معرور بن سوید سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمرنے ایک دفعہ سفر میں صبح کی نماز پڑھائی، پھر آپ ایک ایسے مقام پر آئے جہاں لوگوں کا ہجوم تھا اور لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ نبی اکرم ﷺ نے یہاں نماز پڑھی ہے(یعنی ہم بھی آپ کیاتباع میں اس جگہ نماز پڑھیں) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی اتباع میں ان کی جگہوں کو اپنی عبادت گاہیں بنا لیا ۔ پس جس کے لیے نماز کا وقت ہو جائے تو وہ نماز پڑھ لے اور اگر نماز کا وقت نہیں ہے تو (بجائے انتظار کرنے کے)آگے چلا جائے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے متابعت کی تعریف واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ایک کام کو اللہ کے رسول ﷺ نے اتفاقاً کیا ہے، مثلاً آپ نے گدھے پر سواری اتفاقاً کی ہے، اب اس کو عبادت یا ثواب کا کام سمجھ کر کرنا بدعت ہے، کیونکہ آپ نے جب اس فعل کوکیا تھا تو ثواب سمجھ کر نہیں کیا تھا۔ اس لیے جس کام کو آپ نے ثواب سمجھ کر نہیں کیا اس کو ثواب سمجھ کر کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک کام آپ کے نزدیک عبادت نہیں ہے اور ہم اس کوعبادت بنا لیں۔ اور یہی دین میں اضافہ اوربدعت ہے جس سے اللہ کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے۔

اس مسئلے میں کسی صاحب عقل کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ آپ کا نماز میں بچے کو اٹھانا یا گدھے پر سوار ہونا بطور عبادت(یعنی اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے) نہیں تھا بلکہ اتفاقاً تھا۔ علامہ آمدی نے الاحکام
میں لکھا ہے کہ اتباع کی تعریف بالاتفاق یہ ہے کہ کسی کام کوا سی طور پر کیا جائے جس طرح آپ نے کیا ہے۔ آپ نے اگر کوئی کام اتفاقاً کیا ہے تو اس کو اتفاق سمجھ کر کیا جائے، جیسا کہ گدھے کی سواری، اور اگر آپ نے کسی کام کو جبلی تقاضوں کے تحت کیا ہو تو اس کو آپ کا جبلی فعل سمجھ کر اس کی پیروی کی جائے نہ کہ دین سمجھ کر، جیسا کہ کدو کھانا۔ اور اگر آپ نے کسی فعل کو تقرب الی اللہ کی نیت اور ارادے سے کیا ہے تواس فعل میں آپ کی اتباع اسی نیت و ارادے سے کی جائے اور اس فعل کود ین سمجھا جائے، اس پر ثواب کی امید رکھی جائے وغیرہ۔

صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ نے نماز پڑھائی اس حال میں کہ آپؐ نے اپنے گریبان کے بٹن کھولے ہوئے تھے ۔ اب اگر کوئی شخص نماز میں یہ حالت عبادت یا ثواب سمجھ کر اختیار کرتا ہے تو امام صاحب کے بقول یہ بدعت ہے، کیونکہ آپؐ نے اس فعل کو اتفاقاً کیااور عبادت سمجھ کر نہ کیاتھا۔ اس شخص نے نماز کی سنن میں ایک ایسے فعل کا اضافہ سنت سمجھ کر کر دیا ہے جو درحقیقت نماز کی سنت نہیں ہے۔ اس فعل کے اتفاقی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر نماز میں گریبان کھلا رکھناعبادت یا باعث ثواب ہوتا تو صحابہ بھی اس فعل میں آپ کی متابعت کرتے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے جبلی یا اتفاقی امور کے سنت نہ ہونے کی دلیل حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی درج ذیل روایت بھی ہے۔ حضرت ابوطفیل نے ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:

یَزْعُمُ قَوْمُک اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِؐ طَافَ عَلٰی بَعِیْرٍ بِالْبَیْتِ وَاَنَّہ سُنَّة، قَالَ: صَدَقُوْا وَكَذَبُوْا، قُلْتُ مَا صَدَقُوْا وَمَا كَذَبُوْا؟ قَالَ: صَدَقُوْا طَافَ عَلٰی بَعِیْرٍوَلَیْسَ بِسُنَّةٍ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِؐ كَانَ لَا یَصْرِفُ النَّاسُ عَنْهُ وَلَا یَدْفَعُ فَطَافَ عَلَی الْبَعِیْرِحَتّٰی یَسْمَعُوْا كَلَامَہ وَلَا تَنَالُہ اَیْدِیْهِمْ[۱۱۰]
آپ کی قوم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا اور یہ سنت ہے! تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا کہ ایک بات میں وہ سچے ہیں اور ایک میں جھوٹے ہیں ۔ میں نے کہا: ان کی کون سی بات سچی ہے اور ان کی کس بات میں جھوٹ ہے ؟ تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا:اللہ کے رسول ﷺ نے اونٹ پر بیت اللہ کاطواف کیا (یعنی یہ بات درست ہے)اور یہ سنت نہیں ہے (یعنی اس فعل کو سنت کہنا جھوٹ ہے)۔(اصل معاملہ یہ ہے کہ) اللہ کے رسول ﷺ سے لوگ ہٹتے نہیں تھے (یعنی آپ پر ہجوم کر لیتے تھے )پس آپ نے اونٹ پر طواف کیا تاکہ لوگ آپؐ کی بات اچھی طرح سن سکیں اور ان کے ہاتھ آپ تک نہ پہنچ سکیں(اور آپؐ کو تکلیف نہ ہو)۔

یہ روایت صحیح مسلم میں بھی موجود ہے لیکن اس میں بیت اللہ کے طواف کی بجائے صفا اور مروہ کے طواف کا ذکر ہے۔ سنن ابی داؤد، مسند احمد اور بعض دوسری کتب احادیث میں بھی یہ روایت موجود ہے لیکن وہاں بھی صفاو مروہ کے درمیان سعی کا ذکر ہے۔ بعض دوسری صحیح روایات سے بھی صرف یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے بیت اللہ کا طواف بھی اونٹ پر بیٹھ کر کیاتھا[۱۱۱]۔ علامہ البانی نے ان دونوں روایات کو حسن کہا ہے جبکہ ابن دقیق العید نے بیت اللہ کے اونٹ پر بیٹھ کر طواف کرنے والی روایت کو ’ثابت‘ کہا ہے[۱۱۲]۔ ابن العربی نے بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے[۱۱۳]۔

اہم نکتہ

یہ واضح رہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے وہ جبلی افعال جن کو آپ نے اُمت کے لیے تشریع کے طور پر جاری کیاہے، وہ مستحبات میں شمار ہوں گے اور ان کا کرنا باعث اجر و ثواب اور درجات کی بلندی کا سبب ہو گا، جیسا کہ آپ نے بِسْمِ اللّٰهِ پڑھ کر اور دائیں ہاتھ سے کھانے کاحکم دیا ہے ۔ اسی طرح آپ نے رات کو سونے کی دعا پڑھ کر اور دائیں کروٹ پر سونے کی تلقین کی ہے، وغیر ذلک۔ جبلی افعال میں آپ کاحکم نہ بھی ہو، جیسا کہ مذکورہ بالامثالوں میں ہے، لیکن اگر احادیث میں کوئی ایسا قرینہ بھی موجود ہو جو اس بات پر دلالت کر رہا ہوکہ آپ نے یہ کام بطور تشریع کے کیا ہے تو پھر بھی آپ کا ایسا جبلی فعل امت کے حق میں مشروع اور مستحب ہو گا۔ کیا کسی جبلی فعل پر آپ کی مواظبت اور دوام اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ فعل بھی امت کے حق میں مستحب کا درجہ رکھتا ہے؟ اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے جس کو تفصیل کے ساتھ امام زرکشی رحمہ اللہ نے البحر المحیط میں بیان کیا ہے، طوالت کے خوف سے ہم اس بحث کو یہاں بیان نہیں کررہے ہیں۔

(۲)۔ عادی اُمور

عادی اُمور سے مراد وہ امور ہیں جو معاشرے کے عرف، رواج وغیرہ کی وجہ سے سرانجام دیے جائیں، مثلاًجسم ڈھانپنا انسان کے لیے ایک جبلی امر ہے۔ اب ایک خاص علاقے میں جسم ڈھانپنے کے لیے تہبند استعمال ہوتاہے تو اپنے علاقے کے رسم و رواج کا لحاظ رکھتے ہوئے تہبند پہنناامورِ عادیہ میں شمار ہو گا۔ اسی طرح کھانا کھانا جبلی اُمور میں سے ہے۔ اب ایک علاقے میں چاول کھانے کا رواج زیادہ ہے تو کھانے میں چاول ہی کھانا امور عادیہ میں سے ہوگا۔ مثلاآپ کا تہبند باندھنا اور عمامہ باندھنااُمورِ عادیہ میں سے ہے۔ عادت اصول فقہ کی ایک اصطلاح ہے جو کہ عرف کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ علامہ احمد العدوی لکھتے ہیں :

محض الفعل لا یدل علی أن الفعل قربة، بل یدل علی أنہ لیس بمحرم فقط، وأما کونہ قربة علی الخصوص فذلک شیء آخر، فان الصحابة رضوان اللہ علیھم و ھم أعلم الناس بالدین و أحرص الناس علی اتباع الرسول فی کل ما یقرب الی اللہ تعالی کانوا یشاھدون من النبیؐ أفعالا، ولما لم یظھر لھم فیھا قصد القربة لم یتخذوھا دینا یتعبدون بہ ویدعون الناس ا لیہ ولذلک أمثلة کثیرة[۱۱۴]
محض رسول اللہ ﷺ کا کسی کام کوکرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آپ نے وہ کام اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کیا ہے، بلکہ اس سے صرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ کام کرنا حرام نہیں ہے ۔ لیکن یہ کہنا کہ آپ نے وہ کام اللہ کے قرب کے حصول کے لیے کیا یہ ایک دوسری چیز ہے۔ صحابہ کرام جو دین کو سب سے زیادہ جاننے والے اور لوگوں میں اللہ کے رسول ﷺ کی ایسے افعال میں اتباع میں سب سے زیادہ حریص تھے جو اللہ کے قریب کرتے ہیں، اللہ کے رسول ﷺ کے افعال کا مشاہدہ کرتے تھے، اس لیے جب انہیں آپ کے کسی فعل میں یہ نظر آتا تھا کہ آپ نے وہ فعل اللہ کے قرب کے حصول کے لیے نہیں کیا تو وہ ا س فعل کو دین نہیں بناتے تھے اور نہ ہی لوگوں کو اس کی ترغیب و تشویق دلاتے تھے اور آپ کے ایسے افعال کی مثالیں بہت زیادہ ہیں(یعنی جن کوصحابہ نے نہ دین بنایا ہے اور نہ ہی ان کی اتباع کی دعوت دی ہے)۔

رسول اللہ ﷺ کے عادی اُمور ہمارے لیے تشریع ہیں یا نہیں ہیں، اس کی وضاحت میں درج ذیل روایت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

اُتِیَ النَّبِیُّ ؐ بِضَبٍّ مَشْوِیٍّ فَأَهْوٰی اِلَیْهِ لِیَأْكُلَ، فَقِیْلَ لَہ اِنَّہ ضَبّ، فَأَمْسَک یَدَہ، فَقَالَ خَالِد: أَحَرَام هُوَ؟ قَالَ : ’’لَا وَلٰكِنَّہ لَا یَكُوْنُ بِأَرْضِ قَوْمِیْ فَأَجِدُنِیْ أَعَافُہ‘‘ فَأَكَلَ خَالِد وَرَسُوْلُ اللّٰهِؐ یَنْظُرُ[۱۱۵]
اللہ کے رسول ﷺ کے پاس ایک بھنی ہوئی گوہ لائی گئی ۔آپ اس کو کھانے کے لیے جھکے تو آپؐ سے کہا گیا کہ یہ گوہ ہے۔ پس آپؐ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ کیا یہ حرام ہے؟ تو آپؐ نے جواب دیا: ’’نہیں، لیکن چونکہ یہ جانور میری قوم کی سرزمین (یعنی مکہ ) میں نہیں پایا جاتا اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا‘‘۔ پس حضرت خالد نے اس کو کھایا اور رسول اللہ ﷺ ان کو دیکھ رہے تھے ۔

اللہ کے رسول ﷺ نے گوہ کو اس لیے نہیں کھایا کہ آپ کے علاقے میں یہ نہیں کھائی جاتی تھی، یعنی آپ نے عادتاًگوہ کے کھانے کو ترک کیا ہے نہ کہ شرعاً۔ اب اگرکسی شخص کو گوہ کا گوشت پیش کیا جائے اور وہ عادتاًگوہ کا گوشت نہ کھائے یعنی اس کے علاقے میں گوہ نہیں کھائی جاتی لہٰذا وہ بھی گوہ نہیں کھاتاتو یہ صحیح عمل ہے اور آپ کی متابعت و اتباع شمار ہو گا، لیکن اگر کوئی یہ عمل ایسی سنت سمجھ کر کرے کہ جس میں ثواب کا بھی یقین رکھا جائے تو اس صورت میں گوہ کا گوشت نہ کھانا بدعت ہو گا ۔ اس طرح کا معاملہ ان چیزوں کا بھی ہے جن کو آپ طبعاً نا پسند کرتے تھے ۔ مثلاً آپ کو لہسن اور پیاز کھانا طبعاً ناپسند تھا۔ فتح خیبر کے موقع پر صحابہ کو بہت بھوک لگی تھی تو انہوں نے مال غنیمت میں حاصل ہونے والے یہودیوں کے کھیتوں سے کثرت سے لہسن کھایا۔ جب صحابہ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آئے تو آپ نے ان کے مونہوں سے لہسن کی بو محسوس کی تو آپ نے فرمایا:

’’مَنْ اَكَلَ مِنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ الْخَبِیْثَةِ شَیْئًا فَلَا یَقْرَبَنَّا فِی الْمَسْجِدِ‘‘ فَقَالَ النَّاسُ: حُرِّمَتْ، حُرِّمَتْ فَبَلَغَ ذَاک النَّبِیَّؐ فَقَالَ: ’’اَیُّهَا النَّاسُ اِنَّہ لَیْسَ بِیْ تَحْرِیْمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لِیْ وَلٰكِنَّهَا شَجَرَة اَكْرَهُ رِیْحَهَا‘‘[۱۱۶]
جس نے بھی اس خبیث درخت میں سے کھایا ہو و ہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔ اس پر لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ لہسن حرام کر دیا گیاہے، لہسن حرا م کر دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کوجب اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا:’’اے لوگو! میرے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ جس کو اللہ نے میرے لیے حلال قرار دیا ہو اُس کو حرام ٹھہراؤں۔ یہ تو ایک درخت ہے جس کی بو مجھے بڑی ناپسندہے‘‘ ۔

اللہ کے رسول ﷺ طبعاً لہسن اور پیازوغیرہ کو ناپسند کرتے تھے لیکن یہ شرعاًحرام نہیں ہیں۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق آپ کو اگر ایسا کھانا ہدیہ کیا جاتا جس میں لہسن ہوتا تو آپ اس کونہ کھاتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے ایسا ہی کھانا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی طرف بھجوا دیا تو انہوں نے یہ کہہ کراس کھانے کو نہ کھایا کہ جو اللہ کے رسول ﷺ کو ناپسند ہے وہ مجھے بھی ناپسند ہے ۔ صحیح روایات کے مطابق جمہور صحابہ پیاز اور لہسن استعمال کرتے تھے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اللہ کے رسول ﷺ سے محبت اور تعلق کے اظہار کے لیے لہسن اور پیاز کھانا بند کر دے تو یہ ایک جائز امر ہے اور آپ سے محبت کا اظہار ہے اور اِن شاء اللہ نیت صالحہ پر اجر و ثواب کی امیدہے، لیکن اگر کوئی پیاز اور لہسن کو نہ کھانے کو سنت شرعیہ یا باعث ثواب، امر سمجھے تو یہ بدعت ہے، کیونکہ آپ نے پیاز کا شرعی حکم خود ہی واضح کر دیاہے کہ یہ حلال ہے ۔ یہ واضح رہے کہ مسجد میں پیاز یا لہسن کھا کر آنا آپ کے حکم کی خلاف ورزی ہونے کی وجہ سے خلاف ِسنت امر ہے۔

صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ کو کدو بہت پسند تھے اور آپ سالن میں سے کدو تلاش کر کر کے کھاتے تھے۔ اسی وجہ سے حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی سالن میں سے کدو تلاش کر کے کھاتے تھے۔ کدو کی طرف آپ کی رغبت ایک طبعی امر تھا نہ کہ اللہ کا حکم، اسی لیے یہ کہنا ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کدو اس لیے کھائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل کر سکیں یاآپ نے کدو بطور عبادت کے کھائے ہیں، یعنی ان کے کھانے کو باعث ثواب سمجھا ہے۔ جب اللہ کے رسول ﷺ نے کدو کو بطور عبادت یاثواب کی نیت سے نہیں کھایا تو ایک اُمتی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کدو اس وجہ سے کھائے کہ اس کا کھانا ایسی سنت ہے جس پر وہ اجر و ثواب کا مستحق ہو گا۔ اسی طرح کا معاملہ ثرید اور دوسرے کھانوں کابھی ہے ۔ یعنی ظاہر عمل کے ساتھ نیت میں آپ کی موافقت ضروری ہے اور تبھی اتباع ، کامل اتباع بنے گی۔

رسول اللہ ﷺ کاتہبند باندھنا، عمامہ باندھنا، موزے پہنناوغیرہ بھی عادی امور میں سے ہے، کیونکہ صحابہ عمامہ بھی باندھتے تھے اورصرف ٹوپی بھی پہنتے تھے، تہبند بھی باندھتے تھے اور شلوار بھی پہنتے تھے، موزے بھی پہنتے تھے اور بغیر موزوں کے بھی رہتے تھے ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ حالت احرام میں انسان کون سا لباس پہن سکتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:

’’لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا السَّرَاوِیْلَاتِ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْخِفَافَ‘‘[۱۱۷]
قمیصیں، عمامے، شلواریں، لمبی ٹوپیاں اور موزے (حالت احرام میں )نہ پہنو۔

اللہ کے رسول ﷺ نے حالت احرام میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو ٹوپی اور شلوار پہننے سے منع کیا ہے تو معلوم ہوا کہ صحابہ کی ایک جماعت ابتداء ً ٹوپی اور شلوار بھی پہنتی تھی، اسی لیے تو آپ نے منع کیاتھا۔ صحیح احادیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ اور صحابہ کرام بغیر ٹوپی اور عمامے کے بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضرت محمد بن المنکدر فرماتے ہیں:

رَاَیْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰهِ ص یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَقَالَ : رَاَیْتُ النَّبِیَّؐ یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ[۱۱۸]
میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا تو انہوں نے کہا:میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔

بس اللہ کے رسول ﷺ نے اتنی ہدایت جاری فرمائی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھنا چاہے تو کپڑے کو اپنے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ ستر کے علاوہ اس کے کندھے بھی چھپ جائیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’ لاَ یُصَلِّیْ اَحَدُكُمْ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَیْسَ عَلٰی عَاتِقَیْهِ شَیْئ‘‘ [۱۱۹]
تم میں کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز اس طرح نہ پڑھے کہ اس کے دونوں کندھوں پر کچھ نہ ہو۔

ایک اور روایت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ عموما ًبغیر ٹوپی اور عمامے کے نماز پڑھتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

قَامَ رَجُل اِلَی النَّبِیِّؐ فَسَاَلَہ عَنِ الصَّلَاةِ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ فَقَالَ: ’’اَوَ كُلُّكُمْ یَجِدُ ثَوْبَیْنِ؟‘‘ ثُمَّ سَاَلَ رَجُل عُمَرَ فَقَالَ: اِذَا وَسَّعَ اللّٰهُ فَاَوْسِعُوْا، جَمَعَ رَجُل عَلَیْهِ ثِیَابَہ صَلّٰی رَجُل فِیْ اِزَارٍ وَ رِدَائٍ فِیْ اِزَارٍ وَقَمِیْصٍ فِیْ اِزَارٍ وَقَبَائٍ فِیْ سَرَاوِیْلَ وَ رِدَائٍ فِیْ سَرَاوِیْلَ وَقَمِیْصٍ فِیْ سَرَاوِیْلَ وَقَبَائٍ فِیْ تُبَّانٍ وَقَبَائٍ فِیْ تُبَّانٍ وَقَمِیْصٍ، قَالَ وَاَحْسِبُہ قَالَ فِیْ تُبَّانٍ وَرِدَائٍ[۱۲۰]
ایک آدمی اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا اور ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا (کہ کیا یہ جائز ہے؟) تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہیں؟‘‘(یعنی تم خواہ مخواہ سوال تو نہیں کر رہے ہو ؟ حالانکہ کئی صحابہ کے پاس ستر ڈھانپنے کے لیے بھی ایک سے زائد کپڑا موجود نہیں ہے)۔ اسی طرح حضرت عمررضی اللہ عنہ سے جب کسی نے یہی سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا:اللہ نے تم کو وسعت دی ہے تو اس وسعت کو اختیار کرو (یعنی ایک کپڑے میں نماز پڑھنا تو جائز ہے لیکن جب تمہارے پاس ایک سے زائد کپڑے موجود ہیں تو ان کو پہنو)۔ ایک آدمی کواپنے بدن کو کپڑوں سے ڈھانپنا چاہیے۔ ایک آدمی کو چاہیے کہ وہ ایک تہبند اور چادر میں یا ایک تہبند اور قمیص میں یا ایک تہبند اور چوغے میں یاشلوار اور چادر میں یاشلوار اور قمیص میں یاشلوار اور چوغے میں یا لنگوٹ اور چوغے میں یالنگوٹ اور قمیص میں نماز پڑھے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضرت عمر نے یہ بھی کہا کہ وہ لنگوٹ اور چادر میں نماز پڑھے۔

اس روایت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے وسعت کے زمانے میں مسلمانوں کی نماز کا لباس تفصیل سے بیان کیا ہے کہ جس میں دُور دُور تک کسی ٹوپی یا عمامے کا تذکرہ نہیں ہے۔ اسی طرح اگر عمامہ ہی کو سنت کہا جائے تو تہبند پہننا بھی اسی درجے کی سنت ہونی چاہیے کیونکہ آپ نے عمامے کے ساتھ تہبند بھی باندھا ہے۔ جبکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ تہبند کے علاوہ شلوار اور لنگوٹ میں بھی نماز پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہبند باندھنا یا شلوار پہننا صحابہ کے نزدیک ایک ہی حکم رکھتا تھا٭۔ پس ثابت ہوا کہ آپ نے عمامہ اور تہبند اللہ کا قرب حاصل کرنے یا عبادت کے لیے نہیں باندھا بلکہ آپ نے اپنے معاشرے کے مروج لباس کا لحاظ رکھتے ہوئے عمامہ اور تہبند باندھا ہے۔

ایک صاحب نے جب اللجنة الدائمة السعودیة سے عمامے کے بارے میں سوال کیا تو اللجنة الدائمة کے شیوخ، شیخ بکر ابوزید، شیخ عبدالعزیز آل الشیخ، شیخ صالح الفوزان، شیخ عبد اللہ بن غدیان اور شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز نے درج ذیل فتویٰ دیا۔ ہم یہاں سوال اور جواب دونو ں کو نقل کر رہے ہیں:

س: أعفیتُ لحیتی وقصرتُ ثوبی ولبستُ العمامة بفضل اللہ، اتباعا واقتداء، ولکن الغریب فی الأمر: ان الکثیر و الکثیر من الناس انکر علی ذلک، واستھزؤوا بی لترکی الغترة و الشماغ و العقال، و ینظرون الی بسخریة و استنکار، وکانی أفعل شیئا منکرا أو غریبا۔ فھل الرسولؐ لبس العمامة، وھل ھی سنة مؤکدة، ھل ھذہ العمامة لا تصلح لھذا الزمان الذی نحن فیہ؟ وما ھی صفات رسول اللہؐ فی لبس العمامة؟ وھل کانت لھا ألوان کالأبیض والأسود؟ وھل اؤثم علی لبسھا؟ وھل علی ثم ن أنا حثیت من حولی علی لبسھا؟ أفیدونی أفادکم اللہ و جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔
سوال:میں نے اللہ کے نبی ﷺ کی اتباع اور اقتداء میں اپنی داڑھی بڑھا لی ہے اور اپنے کپڑوں کو ٹخنوں سے اوپر کر لیا ہے اور اللہ کے فضل سے عمامہ بھی باندھ لیا ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اکثر لوگوں نے میرا اس بات پر مذاق اڑایا ہے اور اس کو ناپسند کیاہے کہ میں نے سعودی رومال اور عقال پہننا چھوڑ دیاہے، لوگ میری طرف مذاق اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے اس طرح دیکھتے ہیں گویا میں نے کوئی ناپسندیدہ اور عجیب کام کیا ہو۔ کیا اللہ کے رسول ﷺ نے عمامہ باندھا ہے؟ کیا عمامہ باندھنا سنت مؤکدہ ہے؟ کیا اس زمانے میں جس میں ہم رہ رہے ہیں، عمامہ باندھنا ایک درست کام ہے؟ کیا اللہ کے رسول ﷺ کے عمامے کا رنگ کالا اور سفید تھا؟ کیا عمامہ باندھنے سے میں گناہگار ہوں گا؟ کیا اگر میں کسی کو عمامہ باندھنے کی ترغیب دوں تو یہ گناہ ہے؟ مجھے شرعی حکم بتا کر فائدہ پہنچائیں، اللہ بھی آپ کو فائدہ دے گا۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
ج: الحمد للّٰہ الذی ھداک و وفقک لاتباع السنة، وما ذکرتَہ من اعفاءاللحیة فھو واجب؛ لأنہ من سنن الأنبیاء، و من خصال الفطرة، وقد نھی النبیؐ عن حلق اللحیة وقصھا: لما فیہ من التشبہ بالکفار، وأما تقصیر الثوب فالواجب تقصیرہ لی الکعبین، وما نزل عن الکعبین فھواسبال محرم وکبیرة من کبائر الذنوب، وأما لبس العمامة فھو من المباحات ولیس بسنة کما توھمتَ، والأولی أن تبقی علی ما یلبسہ أھل بلدک علی رؤوسھم من الغترة والشماغ ونحوہ۔ وأما استھزاء الناس بل بسبب تمسک بالدین وحرصک علی اتباع السنة فلا تلتفت ا لیہ، ولا یھمک، وفقنا اللہ وایاک للفقہ فی الدین والعمل بسنة سید المرسلین۔ وباللہ التوفیق، وصلی اللہ علی نبینا محمد و آلہ وصحبہ و سلم [۱۲۱]
جواب: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے آپ کو ہدایت دی اور آپ میں اتباع سنت کا جذبہ پیدا کیا۔ جہاں تک داڑھی کو چھوڑنے کا ذکر ہے تو یہ فرض ہے اور انبیاء کی سنت ہے اور خصالِ فطرت میں سے ایک خصلت ہے ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے داڑھی کو مونڈنے اور کتروانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس میں کفار سے مشابہت ہے ۔ جہاں تک کپڑوں کو اوپر کرنے کا معاملہ ہے تو ٹخنوں سے اوپر کپڑے کرنا واجب ہے، جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو گا تو وہ اسبالِ ازار ہے اور یہ حرام اور کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے ۔ جہاں تک عمامہ باندھنے کا تعلق ہے تو یہ مباحات میں سے ایک مباح ہے اور یہ سنت نہیں ہے جیسا کہ آپ کا وہم ہے ۔ اور بہتر یہی ہے آپ اپنے علاقے کے لوگوں کا لباس پہنیں جیسا کہ وہ اپنے سروں پر رومال اور عقال لیتے ہیں۔ آپ کے دین کے ساتھ تمسک اور اتباع سنت پر حرص کی وجہ سے لوگ آپ کا جومذاق اڑاتے ہیں تو اس کی پرواہ نہ کریں اور نہ ہی اس پر پریشان ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو دین کی سمجھ عطا کرے اور اللہ کے رسول ﷺ کی سنت پر عمل کی توفیق دے۔ عمل کی توفیق اللہ ہی کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے نبی ﷺ اور ان کی آل اور ان کے صحابہ پر رحم فرمائے۔

عمامے سے متعلق ایک اور سوال کے جواب میں اللجنة الدائمة نے یہ جوا ب دیا:

ج: لبس العمامة من العادات ولیس من العبادات، و انما لبسھا النبیؐ لأنھا کانت من لباس قومہ، ولم یصح فی فضل العمائم شیئ، غیر أن النبی لبسھا، فالمشروع للانسان أن یلبس ما تیسر لہ من لباس أھل بلدہ ما لم یکن محرما۔ وباللہ التوفیق و صلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ و صحبہ وسلم [۱۲۲]
جواب: عمامہ پہننااللہ کے رسول ﷺ کی عادات میں سے ہے اور یہ عبادت کا کام نہیں ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے عمامہ اس لیے باندھا ہے کہ یہ آپ کی قوم کالباس تھا، عمامےکی فضیلت میں کوئی ایک بھی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، ہاں اللہ کے نبی ﷺ کا عمامہ پہننا ثابت ہے۔ انسان کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ اس کے علاقے والوں کا جو لباس ہے وہ اس کو پہنے بشرطیکہ وہ حرام نہ ہو۔

عمامے کی فضیلت میں بعض ضعیف اور موضوع روایات بھی پھیلا دی گئی ہیں، کسی مناسب وقت میں ہم ان تمام روایات کی استنادی حیثیت پر گفتگو کریں گے۔ یہ بات ثابت ہے کہ آپ کے معاشرے میں کفار و مشرکین بھی عمامہ پہنتے، تہبند باندھتے اورموزے وغیرہ پہنتے تھے ۔ لہٰذ ا آپ سے تعلق و محبت کے اظہار کرنے کے لیے یہ سب کام کرنا جائز ہیں، لیکن ان کو ثواب یا عبادت کی نیت سے کرنا بدعت ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مسلمان معاشروں میں علماء و مذہبی طبقوں کے رواج و عرف کا لحاظ رکھتے ہوئے علماء، خطباء اور دینی جماعتوں و اسلامی تحریکوں کے کارکنان کے لیے اپنے سر کو ڈھانپنا یاٹوپی پہننا ایک مستحسن امر ہے لیکن اس مستحسن ہونے کی دلیل عرف ہے ۔

اسی طرح اگر کسی عادی امر کے بارے میں احادیث میں کوئی قرائن موجود ہوں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان امور عادیہ کو بطور تشریع جاری کیا ہے تو وہ عادی امور اُمت کے حق میں مشروع ہوں گے۔ بعض امور عادیہ کے بارے میں علماء میں اختلاف بھی ہواہے کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ کے عادی امور ہیں یا آپ نے انہیں بطور دین جاری کیا ہے، جیسا کہ مصر اور بعض دوسرے ممالک کے علماء نے داڑھی کو اُمورِ عادیہ میں شمار کیا ہے جبکہ سعودیہ اور برصغیر کے علماء کے نزدیک داڑھی کا حکم آپ نے بطور تشریع جاری کیا ہے، اور یہی رائے صحیح ہے، کیونکہ اس رائے کے حق میں قرائن و دلائل بہت قوی ہیں ۔

(۳)۔ افعالِ خصوصی

اللہ کے رسول ﷺ کے وہ افعال جو کہ آپ کے ساتھ خاص ہیں وہ اُمت کے لیے سنت نہیں ہیں، جیسا کہ آپ کا چار سے زائد عورتوں سے شادی کرنا، صومِ وصال یعنی مغرب کے وقت بغیر افطار کیے مسلسل رات اور دن کا روزہ رکھنااور عصر کے بعد نوافل پڑھنا وغیرہ۔

اصل قاعدہ یہی ہے کہ آپ کے عمومی افعال اُمت کے لیے بھی تشریع ہیں، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَة حَسَنَة﴿الاحزاب:۲۱﴾
البتہ تمہارے لیے اللہ کے رسول ﷺ میں بہترین نمونہ ہے۔

اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے گا کہ فلاں فعل رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے تو اسے اس کے لیے کوئی دلیل لانی پڑے گی۔ اگر کوئی دلیل مل جائے تو پھرآپ کا وہ فعل اُمتِ مسلمہ کے لیے ایسی سنت کا درجہ نہیں رکھے گا جس کی اتباع مشروع ہو۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

نَهٰی رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ عَنِ الْوِصَالِ، قَالُوْا: اِنَّک تُوَاصِلُ، قَالَ: ’’اِنِّیْ لَسْتُ مِثْلَكُمْ اِنِّیْ اُطْعَمُ وَاُسْقٰی‘‘[۱۲۳]
اللہ کے رسول ﷺ نے (ایک دن صحابہ کو) صومِ وصال سے منع کیا تو صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ بھی تو وصال کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:میں تمہاری طرح نہیں ہوں ۔ مجھے اپنے رب کی طرف سے کھلایا اور پلایا جاتا ہے ۔

اس حدیث میں یہ دلیل موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ہر فعل ہمارے لیے سنت نہیں ہے۔ جب صحابہ نے آپ کے فعل کو اپنے عمل کی دلیل بنایا توآپ نے اپنے اور اُمتیوں کے فرق کو واضح کرتے ہوئے اپنے فعل کو اُمت کے حق میں مشروع قرار نہ دیا۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کسی فعل کے بارے میں اسی نص میں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہوتا جو اس کی خصوصیت پر دلالت کر رہا ہو، حالانکہ وہ فعل آپ کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :

مَا تَرَک رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ السَّجْدَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ عِنْدِیْ قَطُّ[۱۲۴]
اللہ کے رسول ﷺ نے میرے پاس عصر کے بعد کی دو رکعتیں کبھی بھی ترک نہ کیں۔

اسی حدیث کی بنا پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عصر کے بعد نفل نماز پڑھ لیتے تھے۔ جیسا کہ عبد العزیز بن رفیع فرماتے ہیں :

رَأَیْتُ عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ الزُّبَیْرِ یُصَلِّیْ رَكْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَیُخْبِرُ اَنَّ عَائِشَةَ ؓ حَدَّثَتْهُ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ لَمْ یَدْخُلْ بَیْتَهَا اِلاَّ صَلَّاهُمَا[۱۲۵]
میں نے حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہماکو دیکھا کہ وہ عصر کے بعد دو رکعتیں نماز پڑھ لیا کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ حضرت عائشہ نے ان کو یہ خبر دی ہے کہ جب بھی اللہ کے رسول ﷺ (عصر کے بعد) حضرت عائشہ کے پاس داخل ہوئے تو آپ نے یہ دو رکعتیں ادا کیں۔

لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما، عصر کے بعد نفل نماز پڑھنے پر لوگوں کو مارا کرتے تھے، کیونکہ ان کے نزدیک یہ صرف اللہ کے رسول ﷺ کاخاصہ تھا۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت مسوربن مخرمہ اور حضرت عبد الرحمن بن ازھررضی اللہ عنہم نے ان کو حضرت عائشہ کے پاس بھیجا اور یہ کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہماری طرف سے سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعتوں کے بارے میں پوچھنااور یہ کہنا:

اِنَّا اُخْبِرْنَا عَنْک اَنَّک تُصَلِّیْنَهُمَا وَقَدْ بَلَغَنَا اَنَّ النَّبِیَّؐ نَهٰی عَنْهَا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَكُنْتُ اَضْرِبُ النَّاسَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْهَا… [۱۲۶]
ہمیں یہ خبر دی گئی ہے کہ آپ بھی عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتی ہیں اور ہمیں نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ آپ نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کیاہے، اورحضرت عبد اللہ بن عباس نے کہاہے: میں اورحضرت عمر ایسے شخص کو مارا کرتے تھے (جوکہ عصر کے بعد نماز پڑھتاتھا)…

اسی روایت میں آگے چل کر بیان ہوا ہے کہ حضرت عائشہ نے حضرت کریب کو حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہاکے پاس بھیج دیاتو حضرت اُمّ سلمہ نے اس بات کی وضاحت کی کہ آپ عصر کے بعد دو رکعتیں کیوں پڑھتے تھے ۔ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس ایک دفعہ بنو عبد القیس کے لوگ آئے جن کی وجہ سے آپ ظہر کے بعد کی دو رکعتیں نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو گیا۔ عصر کے بعد آپ اندر تشریف لائے اور آپ نے ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ چونکہ آپ کا معمول تھا کہ جب ایک کام شروع کر لیتے تھے تو اس پرمداومت کرتے تھے، اسی لیے آپؐ نے عصر کے بعد مستقل طور پر دو رکعتیں پڑھنی شروع کر دیں۔ عصر کے بعد آپ کے نماز پڑھنے کی یہ وجہ بعض صحابہ کو معلوم نہ ہو سکی، جس کی بنا پر وہ ایک ایسے عمل کو سنت سمجھ کر کرتے رہے، جس سے آپ نے منع فرمایا تھا۔ جیسا کہ آپ کا فرمان ہے:

’’لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتّٰی تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغِیْبَ الشَّمْسُ‘‘[۱۲۷]
فجر کی فرض نماز کے بعد سورج چڑھ آنے تک کوئی نماز نہیں ہے اور عصر کی فرض نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک کوئی نماز نہیں ہے ۔

علامہ آمدی اس اصول کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وأما ما سوی ذلک مما ثبت کونہ من خواصہ التی لا یشارکہ فیھا أحد فلا یدل ذلک علی التشریک بیننا و بینہ ا جماعا[۱۲۸]
اس کے علاوہ آپ کے وہ افعال جن کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ وہ صرف آپ کے لیے تھے اور اُمت میں سے کوئی بھی آپ کے ان افعال میں شریک نہیں ہے تو اس بات پر اجماع ہے کہ آپ کے ایسے افعال کسی اُمتی کے حق میں مشروع نہیں ہیں۔

(۴)۔ فعلِ محض کا درجہ

اللہ کے رسول ﷺ کے صرف عمل سے کسی فعل کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الاحکام فی أصول الأحکام میں لکھا ہے کہ قرآن کی آیت لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَة حَسَنَة میں لَكُمْ کے ساتھ خطاب ہے ۔ اگر یہاں ’لَكُمْ‘ کی بجائے ’عَلَیْكُمْ‘ ہوتا تو آپ کے عمل سے کسی فعل کا وجوب ثابت ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ کسی امر کے بیان یااس کی تنفیذ میں آپ کا فعل وجوب کا حامل ہو سکتا ہے ۔ جیسا کہ آپ نے حکم جاری فرمایا: ’’صَلُّوْا كَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ‘‘[۱۲۹] یعنی نماز پڑھو جیسا کہ مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔ اور آپ کا ارشاد ہے: ’’خُذُوْ اعَنِّیْ مَنَاسِكَكُمْ‘‘[۱۳۰] یعنی مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو۔ یہ اللہ کے رسول ﷺ کا ایک امر ہے۔ اب اس امر کی تنفیذ یا بیان کے لیے آپ نے جس طریقے سے نماز یا حج ادا کیا اس طریقے کے مطابق نماز یا حج اداکرنافرض ہے۔

لیکن اس میں بھی یہ بات بھی واضح رہے کہ کسی امر کی تنفیذ یا تطبیق میں آپ کے ایسے امور کا بیان جب آپ کے افعال کی صورت میں سامنے آتا ہے تو ان امور کے بیان میں وہ تمام افعال فرض یا سنت نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے بعض اُمور عادت سے متعلق بھی ہوتے ہیں ۔ مثلاًصحیحین میں ہے :

اَنَّ رَسُوْلَ اللهِﷺ كَانَ یُصَلِّیْ وَهُوَ حَامِل اُمَامَةَ بِنْتَ زَیْنَبَ بِنْتِ رَسُوْلِ اللہﷺ[۱۳۱]
اللہ کے رسول ﷺ اپنی نواسی حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہاکو اٹھا کر نماز پڑھتے تھے ۔

صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے، حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ یَؤُمُّ النَّاسَ وَاُمَامَةُ بِنْتُ اَبِی الْعَاصِ وَهِیَ ابْنَةُ زَیْنَبَ بِنْتِ النَّبِیِّ ﷺ عَلٰی عَاتِقِہ فَاِذَا رَكَعَ وَضَعَهَا وَاِذَا رَفَعَ مِنَ السُّجُوْدِ اَعَادَهَا[۱۳۲]
میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو لوگوں کی امامت کرواتے دیکھا جبکہ آپ نے حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہ کو اپنی گردن پربٹھایا ہوا تھا۔ جب آپ رکوع کرتے تھے تو ان کو اتار کر رکھ دیتے تھے اور جب سجدے سے اٹھتے تھے تو ان کو دوبارہ اٹھا لیتے تھے ۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہ کو فرض نماز میں اپنی گردن پر بٹھا کر نماز پڑھا کرتے تھے ۔ اب جن صحابہ نے آپ کو اس طرح نماز پڑھاتے دیکھا تو کیا ان کے لیے یہ واجب یافرض ہو گیا کہ وہ اپنی نواسیوں کو اپنی گردنوں پر بٹھا کر نماز پڑھیں یا پڑھائیں ؟ کوئی بھی صحابی آپ کی اقتدا میں اپنی نواسی کو مسجد میں نہیں لایا تاکہ وہ بھی اسی طرح نماز پڑھے جیسے کہ اللہ کے رسول ﷺ نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس لیے اللہ کے رسول ﷺ کے حکم’’صَلُّوْا كَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ‘‘ میں آپ کے کون سے افعال اس حکم کا بیان ہیں اور کون سے امور عادیہ میں سے ہیں، ان میں فرق کرنا پڑے گا۔ اور اس میں بعض اوقات فقہاء میں اختلاف بھی ہوجاتا ہے۔

مثلاً تمام فقہاء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے نماز میں جلسۂ استراحت کیا، یعنی پہلی اور تیسری رکعت میں دو سجدوں کے بعد پہلے بیٹھے اور پھر قیام کیا۔ لیکن احناف کے نزدیک یہ آپ کے عادی اُمور میں سے ہے، آپ نے نماز میں جلسہ استراحت بڑھاپے کی وجہ سے کیا ۔آپ کا یہ فعل ’’صَلُّوْا كَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ‘‘ کا بیان نہیں ہے، جبکہ جمہور علماء جلسۂ استراحت کو ’’صَلُّوْا كَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ‘‘ کا بیان مانتے ہیں۔ اسی طرح صحیح احادیث میں ہے کہ حج کے دوران عرفات سےمنیٰ واپسی تک کا سفر آپ نے اونٹ پر کیا، حتی کہ آپ نے بیت اللہ کا طواف بھی اونٹ پر کیا، اور صفا ومروہ کی سعی بھی۔ تو کیا اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کرنا یا صفا ومروہ کی سعی کرناواجب یا فرض ہے؟ واجب یا فرض تو کجا، یہ سنت بھی نہیں ہے ! حضرت ابو طفیل نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:

یَزْعُمُ قَوْمُک اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِﷺ طَافَ عَلٰی بَعِیْرٍ بِالْبَیْتِ وَاَنَّہ سُنَّة، قَالَ صَدَقُوْا وَكَذَبُوْا، قُلْتُ مَا صَدَقُوْا وَمَا كَذَبُوْا؟ قَالَ صَدَقُوْا طَافَ عَلٰی بَعِیْرٍ وَلَیْسَ بِسُنَّةٍ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ ﷺ كَانَ لَا یَصْرِفُ النَّاسُ عَنْهُ وَلَا یَدْفَعُ فَطَافَ عَلَی الْبَعِیْرِحَتّٰی یَسْمَعُوْا كَلَامَہ وَلَا تَنَالُہ اَیْدِیْهِمْ[۱۳۳]
آپ کی قوم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا اور یہ سنت ہے۔ تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا کہ ایک بات میں وہ سچے ہیں اور ایک میں جھوٹے ہیں۔ میں نے کہا: ان کی کون سی بات سچی ہے اور ان کی کس بات میں جھوٹ ہے؟ تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا:اللہ کے رسول ﷺ نے اونٹ پر بیت اللہ کاطواف کیا ( یہ بات درست ہے)اور یہ سنت نہیں ہے (یعنی اس فعل کو سنت کہنا جھوٹ ہے)۔(اصل معاملہ یہ ہے کہ)اللہ کے رسول ﷺ سے لوگ ہٹتے نہیں تھے (یعنی آپ پر ہجوم کر لیتے تھے )پس آپ نے اونٹ پر طواف کیا تاکہ لوگ آپ کی بات اچھی طرح سن سکیں اور ان کے ہاتھ آپ تک نہ پہنچ سکیں۔

بعض اوقات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی اس امر میں اختلاف ہو جاتا تھا کہ حج کے دوران آپ کا فلاں فعل ’’خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِكَكُمْ‘‘ کا بیان یعنی وضاحت ہے یا امور عادیہ میں سے ہے ۔ مثلاً بعض صحابہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہم وغیرہ حج کے موقع پر وادی ’مُحَصَّب‘ یعنی مقام ’ابطح‘ میں قیام کرتے تھے۔ [۱۳۴] اور اس قیام کو یہ صحابہ حج کی سنن میں سے شمار کرتے تھے، کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے بھی حج کے دوران اس جگہ قیام کیا تھا ۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس جگہ آپ کے قیام کو اُمورِ عادیہ میں سے شمار کرتے تھے اور اس کو سنت نہیں سمجھتے تھے ۔ جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

كَانَ نُزُوْلُ الْاَبْطَحِ لَیْسَ بِسُنَّةٍ، اِنَّمَا نَزَلَہ رَسُوْلُ اللّٰهِﷺ لِاَنَّہ كَانَ اَسْمَحَ لِخُرُوْجِہ اِذَا خَرَجَ [۱۳۵]
مقام ’ابطح‘ میں قیامِ سنت نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺنے اس جگہ قیام اس لیے کیا تھا کہ آپ کے لیے اس مقام سے نکلنے میں آسانی تھی ۔

یہ بھی ذہن میں رہے کہ’’صَلُّوْا كَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ‘‘ اور ’’خُذُوْا عَنِّی مَنَاسِكَكُمْ‘‘ کے بیان میں بھی آپ کے تمام افعال ایک درجے کے نہیں ہیں ۔ بعض افعال ان میں سے فرائض کے درجے کے ہیں اور بعض سنن کے درجے کے ہیں۔ مثلاً وادی مُحَصَّبْ کا قیام اگر بعض صحابہ نے کیا بھی ہے تو اس کو فرض یا واجب سمجھ کر نہیں بلکہ مستحب سمجھ کر کیاہے اور معروف مذاہب میں سے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے ہاں یہ قیام حج کے فرائض یا واجبات میں سے نہیں ہے۔ شوافع اور مالکیہ کے نزدیک یہ مستحب ہے جبکہ باقی فقہاء کے نزدیک مستحب بھی نہیں ہے ۔ اسی طرح نماز میں سورة الفاتحہ سے پہلے بِسم اللہ پڑھنے کو کسی بھی فقیہ نے فرض قرار نہیں دیا، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں بِسم اللہ پڑھی ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ جن فرائض میں صرف فرض کی ادائیگی پر زور دیاگیا ہے اور اس کے طریقے کو لازم نہیں کیا گیاتو اس کاطریقہ بیان میں شامل نہیں ہے اور یہ عموماً ایسے فرائض میں ہے جن کی ادائیگی کے طریقے میں حالا ت و زمانے کی تبدیلی کو بہت زیادہ عمل دخل حاصل تھا، جیسا کہ جہاد و قتال اور اعلائے کلمة اللہ کا معاملہ ہے ۔ اقامت دین اور نفاذ شریعت امت مسلمہ کا ایک اجتماعی دینی فریضہ ہے اور اس کی ادائیگی کا طریقہ سنت نبوی سے بھی ملتا ہے تو کیا اس فریضے کی ادائیگی میں آپ کا ہر ہر فعل فرض کے درجے میں ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اقامت دین اور اعلائے کلمة اللہ کے فریضے کی ادائیگی کے دوران آپ سے صادر ہونے والے متعدد افعال بھی اُن اُمورِ عادیہ سے تعلق رکھتے ہیں، جنہیں آپﷺ نے کسی ضرورت کے تحت کیا نہ کہ بطور تشریع کے کیا ہے، جیسا کہ آپ نے نماز میں امامہ بنت زینب کو اٹھایا یا اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا تو یہ نماز یا حج کے فریضے کا بیان یعنی وضاحت نہیں ہے بلکہ یہ کسی حکمت یا ضرورت کے تحت اُمورِ عادیہ ہیں۔ اسی طرح اقامت دین کے فریضے کی ادائیگی میں آپ کا ہجرت کرنا، یہودیوں سے معاہدہ کرنا(میثاق مدینہ)، مشرکین سے صلح کرنا(صلح حدیبیہ)، اپنے دفاع کے لیے خندق کھودنا، منافقین مثلاً عبد اللہ بن اُبی وغیرہ کو قتل نہ کرنا، باوجودیکہ ان کا کفر مشرکین مکہ کے کفر سے بڑھ کر تھا اور ان کے دائمی جہنمی ہونے کی وعید قرآن نے سنا دی تھی وغیرہ، یہ ضرورتاً، مصلحتاًاور عادتاً تھا نہ کہ یہ اقامت دین کے فریضے کے کسی طریقے کی ادائیگی کا بیان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب چند ایک مواقع پر بعض صحابہ نے بعض منافقین کو قتل کرنے کی دربار رسالت سے اجازت چاہی تو آپ نے یہ نہیں کہا کہ یہ مسلمان ہیں اور ان کا خون بہانا ہم پر حرام ہے، بلکہ آپﷺ نے جواباً یہ فرمایا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ محمد ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو قتل کرنا شروع کر دیاہے؟ یعنی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں دین کا اسی طرح غلبہ کروں گا جیسے اللہ کے رسول ﷺ نے کیا ہے یعنی پہلے ۱۳ سال دعوت کا کام کروں گا پھر کسی دوسری جگہ ہجرت کر جاوں گا اور پھر دس سال جہاد وقتال کروں گا وغیرہ تو یہ انتہائی بچگانہ سوچ ہے لیکن اس کے باوجود یہ بعض لوگوں میں پیدا ہوئی ہےمثلا ایک زمانے میں ڈاکٹر مسعود الدین صاحب پر یہ خیال سوار ہو گیا کہ میں اتنے ہی ہاتھ لمبی اور چوڑی مسجد تعمیر کروں جتنی آپ کے زمانہ میں مسجد نبوی تھی اور اس کی چھت اور ستون بھی ویسے ہی کھجور کے تنوں اور پتوں کے ہوں جیسا کہ اصل مسجد نبوی تھی وغیرہ ذلک۔

اسی طرح اگر کوئی امر استحباب یا اباحت کے درجے میں ہوگا تو اس امر کا بیان جب رسول اللہ ﷺ اپنے کسی فعل سے کریں گے تو آپ کی ایسی سنت بھی مستحب یا مباح کادرجہ رکھے گی، جیسا کہ علامہ آمدی نے الاحکام فی اُصول الاحکام میں لکھا ہے۔ مثلاً آپ نے حکم دیا:’’اِذَا انْتَعَلَ اَحَدُكُمْ فَلْیَبْدَاْ بِالْیَمِیْنِ‘‘ [۱۳۶] یعنی جب تم میں کوئی جوتا پہنے تو پہلے دایاں جوتا پہنے۔ اب یہ حکم استحباب کے لیے ہے لہٰذا اس امر کا بیان یعنی وضاحت جب آپ کے فعل سے ہو گی تو آپ کا وہ فعل بھی مستحب ہو گا۔

علامہ آمدی رحمہ اللہ نے اس ساری بحث کو مختصر انداز میں یوں بیان کیا ہے :

واما ما عرف کون فعلہ بیانا لنا فھو دلیل من غیر خلاف فذلک ما لصریح مقالہ کقولہ صلوا کما رأیتمونی أصلی و خذوا عنی مناسککم أو بقرائن الأحوال و ذلک کما اذا ورد لفظ مجمل أو عام أرید بہ الخصوص أو مطلق أرید بہ التقیید و لم یبینہ قبل الحاجة لیہ ثم فعل عند الحاجة فعلا صالحا للبیان فنہ یکون بیانا حتی لا یکون مؤخرا للبیان عن وقت الحاجة وذلک کقطعة ید السارق من الکوع بیانا لقولہ تعالی فاقطعوا أیدیھما و کتیممہ الی المرفقین بیانا لقولہ فامسحوا بوجوھکم و أیدیکم و نحوہ والبیان تابع للمبین فی الوجوب والندب و الاباحة[۱۳۷]
آپ کا وہ فعل جو ہمارے لیے بیان یعنی وضاحت ہو گا، وہ ہمارے حق میں دلیل ہو گاا ور اس میں کسی کااختلاف نہیں ہے۔ اور آپ کا ایسا فعل یا تو آپ کے کسی صریح حکم کی وجہ سے ہمارے لیے بیان ہوتے ہوئے حجت ہو گا، جیسا کہ آپ کا فرمان ہے: ’’جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو ویسے تم بھی نماز پڑھو‘‘ اور آپ، کا فرمان ہے : ’’مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو‘‘۔ یا پھر آپ کا فعل قرائن و احوال کی وجہ سے بیان ہو گا جیساکہ کوئی لفظ عام تھا لیکن اس سے مراد خاص تھی یا لفظ مطلق تھالیکن اس سے مراد مقید تھی اور آپ نے اس لفظ کی مراد کو ضرورت سے پہلے واضح نہیں کیا تھا، پھر جب ضرورت پڑی تو آپ نے کوئی کام کیا جوکہ بیان بننے کی صلاحیت رکھتا تھا، لہٰذا آپ کا وہ فعل بیان ہو گااور آپ اس بیان کو ضرورت کے وقت سے زیادہ مؤخر کرنے والے نہ ہوں ۔ جیسا کہ آپ کا چور کا ہاتھ کلائی سے کاٹنا، اللہ کے حکم ’’پس تم ان دونوں کے ہاتھ کاٹو‘‘ کابیان ہے۔ اسی طرح آپ کا کہنیوں تک تیمم کرنا اللہ کے حکم ’’پس تم اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لو‘‘ کا بیان ہے، اور اسی طرح اور بھی آیات ہیں۔ اور بیان وجوب، ندب اور اباحت میں مبیّن کے تابع ہے۔

عربی زبان میں ’ید‘ کا لفظ انگلیوں سے لے کے کندھے تک بولا جاتا ہے ۔آپ نے اپنے فعل سے قرآن کے دونوں مقامات پر لفظ ’ید‘ کی وضاحت کی ہے اورآپﷺ کی یہ عملی وضاحت ان آیات کا بیان ہے۔

(۵)۔ فعل برائے بیانِ جواز

بعض اوقات آپ کا فعل امور شرعیہ سے متعلق ہوتا ہے لیکن اس فعل سے آپ کا مقصود صرف یہ بتلانا ہوتا ہے کہ یہ کام جائز ہے نہ کہ آپ اس فعل کو ثواب کی نیت یا درجات کی بلندی کے لیے بطور ترغیب وتشویق کرتے ہیں۔ مثلاً ایک روایت کے الفاظ ہیں :

كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ یُصْبِحُ جُنْبًا مِنْ غَیْرِ حُلْمٍ ثُمَّ یَصُوْمُ[۱۳۹]
اللہ کے رسول ﷺ صبح اس حال میں کرتے تھے کہ آپ جنبی ہوتے تھے اور آپ کی یہ جنابت احتلام سے نہ ہوتی تھی ۔ پھرآپ اسی حالت میں (بغیر غسل کیے) روزہ رکھ لیتے تھے۔

اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ حالت جنابت میں روزہ رکھنا ایک ایسی سنت ہے جو کہ باعث اجر و ثواب ہے اور اس سے آخرت میں درجات بلند ہوتے ہیں تو بلاشبہ یہ شخص غلطی پر ہے۔ شارحین حدیث نے اس حدیث کی تشریح میں اس عمل کو جائز قرار دیا ہے، نہ کہ مستحب کہا ہے۔ مستحب یہی ہے کہ انسان کو اگر غسل کی حاجت ہو توطلوع فجر سے پہلے غسل کر لے۔ اور اگر کسی وجہ سے طلوع فجر سے پہلے غسل نہ کر سکا تو اب سحری کھا کر روزہ رکھے اور طلوع فجرکے بعد غسل کر لے ۔آپ کا یہ فعل امت کے لیے آسانی پیدا کرنے اور ایک جائز شرعی امر بتلانے کے لیے تھا نہ کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ یا عبادت کا کوئی طریقہ بتلانا آپ کا مقصود تھا۔ یہ واضح رہے کہ مباح کو اصولیین نے حکم شرعی کی ایک قسم قرار دیا ہے، لیکن مباح کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ یہ وہ فعل ہے کہ جس کے کرنے اور نہ کرنے پر کوئی اجر و ثواب یا سزا و عذاب نہیں ہوتا ہے۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ نے آپ کے ایسے افعال کو اس اصول کے تحت بیان کیا ہے :

وأما ما لم یظھر فیہ قصد القربة فقد اختلفوا أیضا فیہ علی نحو اختلافھم فیما ظھر فیہ قصد القربة غیر أن القول بالوجوب و الندب فیہ أبعد مما ظھر فیہ قصد القربة والوقف و الاباحة أقرب… والمختار انکل لم یقترن بہ دلیل یدل علی أنہ قصد بہ بیان خطاب سابق فن ظھر فیہ قصد القربة الی اللہ تعالی فھو دلیل فی حقہ السلام علی القدر المشترک بین الواجب و المندوب وھو ترجیح الفعل علی الترک لا غیر ون الاباحة وھی استواء الفعل والترک فی رفع الحرج خارجة عنہ و کذلک عن أمتہ وما لم یظھر فیہ قصد القربة فھو دلیل فی حقہ علی القدر المشترک بین الواجب والمندوب و المباح وھو رفع الحرج عن الفعل لا غیر و کذلک عن أمتہ [۱۴۰]
اور آپ کے وہ افعال جن میں آپ نے تقرب الی اللہ کا قصد نہ کیا ہے تو ان افعال کی شرعی حیثیت کے بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ آپ کے افعال کی اس قسم میں وجوب اور استحباب کا قول بعید ہے اس قسم کی نسبت سے کہ جس میں آپ نے تقرب الی اللہ کا قصد کیا ہے ۔ جبکہ اباحت اور وقف کاقول زیادہ صحیح ہے...اور بہترین قول یہ ہے کہ آپ کے وہ ا فعال جن کے کسی سابق خطاب کے بیان ہونے پر کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے اور آپ نے ان افعال کے ذریعے اللہ کے قرب کا قصد کیا ہے تو آپ کے ایسے افعال آپ کے حق میں واجب ہوں گے یا مندوب، اور یہ ترک فعل پر فعل کو ترجیح دینا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اباحت جو کہ رفع حرج کے لیے کسی کام کو کرنے اور نہ کرنے کے درمیان برابری کا نام ہے، آپ اور آپ، کی اُمت دونوں سے خارج ہے۔ اور جن افعال میں آپ نے تقرب الی اللہ کا قصد نہیں کیا ہے وہ آپ کے حق میں واجب، مستحب یا مباح ہو سکتے ہیں اور یہ فعل سے حرج کو دور کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور اسی طرح کا حکم آپ کی اُمت کے بارے میں بھی ہے ۔

(۶)۔ فعلِ متردَّد

بعض اوقات آپ کا فعل اُمورِ شرعیہ سے متعلق ہوتا ہے لیکن آپ کے اس فعل کے بارے میں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ وہ قرآن کے کسی حکم یا آپ کی ہی کسی قولی سنت کا بیان ہے یا نہیں ہے ۔ اگر دلائل و قرائن سے یہ بات واضح ہو جائے کہ آپ نے یہ کام تقرب اِلی اللہ کی نیت سے کیا ہے تو پھر آپ کے ایسے فعل کا کیا حکم ہے، اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ اس اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وأما ما لم یقترن بہ ما یدل علی أنہ للبیان لا نفیا و لا اثباتا فأما أن یظھر فیہ قصد القربة فقد اختلفوا فیہ فمنھم من قال أن فعلہ علیہ السلام محمول علی الوجوب فی حقہ و فی حقنا کابن سریج و الأصطخری وابن أبی ھریرة وابن خیزان والحنابلة وجماعة من المعتزلة ومنھم من صار الی أنہ للندب وقد قیل أنہ للشافعی وھو اختیار مام الحرمین و منھم من قال نہ للاباحة و ھو مذھب مالک ومنھم من قال بالوقف و ھومذھب جماعة من أصحاب الشافعی کالسیرفی والغزالی وجماعة من المعتزلة... والمختارأن کل لم یقترن بہ دلیل یدل علی أنہ قصد بہ بیان خطاب سابق فن ظھر فیہ قصد القربةا لی اللہ تعالی فھو دلیل فی حقہ السلام علی القدر المشترک بین الواجب و المندوب وھو ترجیح الفعل علی الترک لا غیر و ن الاباحة وھی استواء الفعل والترک فی رفع الحرج خارجة عنہ وکذلک عن أمتہ [۱۳۸]
اور آپ کے وہ افعال جن کے بارے میں نفی یا اثبات میں کوئی دلیل ایسی موجود نہ ہو کہ جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ بیان ہیں یا نہیں تو ایسے افعال کی دو قسمیں ہیں ۔(پہلی قسم تو یہ ہے کہ) آپ نے اپنے اس فعل کے ذریعے اللہ کے قرب کا ارادہ کیا ہو۔آپ کے ایسے افعال(یعنی جو بیان نہیں ہیں لیکن آپ نے ان کو تقرب الی اللہ کے لیے کیا ہے ) کی شرعی حیثیت کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ سریج، اصطخری، ابن ابی ہریرہ، ابن خیزان، حنابلہ او ر معتزلہ کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ آپ کے ایسے افعال آپ اور اُمت دونوں کے لیے وجوب کا درجہ رکھتے ہیں۔ علماء کادوسرا قول یہ ہے کہ آپ کے ایسے افعال مندوب ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ امام شافعی کا موقف ہے، امام الحرمین نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ آپ کے ایسے افعال مباح ہیں اور چوتھا توقف کا ہے، اس کو شوافع کی ایک جماعت امام سیرفی، اور امام غزالی وغیرہ نے اختیار کیا ہے اور معتزلہ کی ایک جماعت کابھی یہی نقطہ نظر ہے...ان اقوال کے بالمقابل بہترین قول یہ ہے کہ آپ کے وہ افعال جن کے کسی سابق خطاب کے بیان ہونے پر کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے اور آپ نے ان افعال کے ذریعے اللہ کے قرب کا قصد کیا ہے تو آپ کے ایسے افعال آپ کے حق میں واجب ہوں گے یا مندوب، اور یہ ترک فعل پر فعل کو ترجیح دینا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اباحت جو کہ رفع حرج کے لیے کسی کام کو کرنے اور نہ کرنے کے درمیان برابری کا نام ہے، آپ اور آپ کی اُمت دونوں سے خارج ہے۔

ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے بھی اصول الفقہ الاسلامی
میں علامہ آمدی کے اس موقف کو ترجیح دی ہے کہ آپ کے وہ افعال جن میں آپ نے تقرب اِلی اللہ کی نیت کی ہے وہ اُمت کے حق میں واجب ہوں گے یا مندوب ہوں گے، نہ کہ مباح، چاہے آپ کا وہ فعل بظاہر کسی اَمر کا بیان یعنی وضاحت نہ بھی معلوم ہوتا ہو۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ نے باقی اقوال کے قائلین کے دلائل کا بیان اور ان کا کافی و شافی رد اپنی کتاب ’الاحکام‘ میں کر دیا ہے۔ تفصیل کے لیے اس کتاب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

(۷)۔ تجربہ و مشاہدہ سے متعلقہ افعال

اللہ کے رسول ﷺ کے وہ افعال جو کہ آپ کے ذاتی تجربے اور مشاہدے سے متعلق ہیں وہ بھی ہمارے لیے ایسی سنت نہیں ہیں کہ جس کا اتباع لازم اور باعث اجر و ثواب ہو۔ ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :

ما صدر عنہ بمقتضی خبرتہ الانسانیة فی الأمور الدنیویة، مثل: تنظیم الجیوش، و القیام بما یقتضیہ تدبیر الحرب، و شؤون التجارة و نحو ذلک۔ فھذہ الأفعال لا تعتبر تشریعا للأمة، لأن مبناھا التجربة لا الوحی، والرسولۖ لم یلزم المسلمین بھا و لم یعتبرھا من قبیل تشریع الأحکام[۱۴۱]
اللہ کے رسول ﷺ کے وہ افعال جو کہ آپ سے امور دنیویہ میں انسانی خبروں اور تجربات سے حاصل شدہ علم کی بنا پر صادر ہوئے ہیں، مثلاً لشکروں کو منظم کرنا، جنگی معاملات کی تدبیر اور تجارت سے متعلقہ معاملات وغیرہ، تو یہ تمام افعال ایسے ہیں جوکہ اُمت کے لیے شریعت نہیں ہیں، کیونکہ آپ کے ان امور کی بنیاد وحی کے علم کی بجائے انسانی تجربات کے علم پر ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے ایسے افعال کو اُمت کے لیے لازم بھی قرار نہیں دیا ہے اور نہ ہی ان کو شرعی احکام میں شمار کیا ہے ۔

علامہ احمد العدوی رسول اللہ ﷺ کے اس قسم کے افعال کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

ثبت فی الصحیح: أن النبیؐ فی یوم بدر جاء لی أدنی ماء من بدر فنزل عندہ، فقال الحباب بن المنذر: یا رسول اللہ أرأیت ھذا المنزل، أ منزلا أنزلکہ اللہ لیس لنا أن نتقدمہ و لا نتأخر عنہ، أم ھو الرأی و الحرب و المکیدة؟ قال: بل ھو الرأی و الحرب و المکیدة۔ فقال: یا رسول اللہ لیس ھذا المنزل، فانھض بالناس نأتی أدنی ماء من القوم فننزلہ، ثم نغور ما وراءہ الخ ما قال، فقال لہ النبیؐ: لقد أشرت بالرأی و عمل برأیہ، و ھذا یدل علی أن محض الفعل لا یفید أنہ قربة۔ ووجہ الدلالة أن الصحابة لا یرون أن کل فعل للنبیۖ عن وحی من اللہ تعالی، بل منہ ما ھو مستند الی وحی کالفعل الذی یظھر فیہ قصد القربة، ومنہ ما ھو مبنی علی رأی و اجتھاد، ولذلک سأل الحباب بن المنذر بجمع من الصحابة عن المنزل الذی نزل النبیؐ ھل النزول فیہ عن وحی حتی یذعنوا لہ، أو عن رأی و اجتھاد حتی یشارکوہ فیہ…ولو کان فعل الرسول لا یکون لا عن وحی ما کان لذلک السؤال وجہ، وما صح منہ موافقتھم و ترک الوحی[۱۴۲]
صحیح روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بدر والے دن بدر کے میدان میں، عدوئہ دنیا، کے قریب پڑاؤ ڈالاتو حضرت حباب بن منذر سے سوال کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا یہاں پر پڑاؤ ڈالنا آپ کی ذاتی رائے ہے، یا آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہاں قیام کا حکم دیا ہے اورہمارے لیے اس مقام سے آگے یا پیچھے ہونا جائز نہیں ہے، یا یہ کوئی جنگی چال اور تدبیر وغیرہ ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ ایک جنگی چال اور تدبیر ہے ۔ حضرت حباب نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول ﷺ! پھر یہ ہمارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے، بلکہ آپ لوگوں کواٹھائیں، ہم مشرکین مکہ کے سب سے قریبی پانی کے پاس پڑاؤ ڈالتے ہیں تاکہ ہم مشرکین اور ان کے پانی کے درمیان حائل ہو جائیں ...آپ نے ان کی بات سن کر کہا: حباب نے اچھی رائے دی ہے اور پھرآپ نے ان کی رائے پر عمل کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا محض فعل اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آپ نے وہ کام تقرب الی اللہ کے لیے کیا ہو۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے ہر فعل کو وحی نہیں سمجھتے تھے بلکہ آپ کے بعض افعال وحی پر مبنی ہوتے تھے مثلاً وہ افعال کہ جن میں آپ نے اللہ کے قرب کا قصد کیا ہے اور بعض افعال آپ کا اجتہاد اور ذاتی رائے ہوتی تھی۔ اسی لیے حضرت حباب نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں آپ سے یہ سوال کیاتھا کہ آپ کا اس جگہ پڑاؤ ڈالنا وحی کی وجہ سے تھا کہ جس پرانہیں سرتسلیم خم کر دینا چاہیے یا آپ کی ذاتی رائے اور اجتہادتھا کہ جس میں صحابہ بھی آپ کو مشورہ دے سکتے تھے...اگر اللہ کے رسول ﷺ کا ہر فعل وحی ہوتا تو صحابی کبھی بھی یہ سوال نہ کرتااور نہ ہی آپ وحی کو چھوڑ کر ایک صحابی کی رائے پر عمل کرتے۔

یہ واضح رہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے اجتہاد کو اگر اللہ کی تصویب حاصل ہو جائے تو پھر وہ وحی بن جاتا ہے۔ مثلاً آپ نے کسی دینی مسئلے میں اجتہاد کیا، اب اللہ کی طرف سے آپ کے اس اجتہاد پرخاموشی ہے تو آپ کا یہ اجتہاد، اللہ کی تقریر وتصویب کہلائے گا اور وحی الٰہی ہو گا۔

ابن العربی رحمہ اللہ نے، احکام القرآن، میں اس روایت کو، ثابت، کہا ہے۔[۱۴۳]جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے، فقہ السیرة، میں ’ضعیف‘ کہا ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت بطور حدیث ضعیف ہے کیونکہ حدیث کی جانچ پڑتال کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی لیکن سیرت کے ایک واقعے کے طور پر ثابت ہے جیسا کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس کو قابل استدلال قرار دیا ہے۔

(۸)۔ افعالِ مختلفہ یا متنوعہ

بعض اوقات ایک ہی مسئلے میں آپ سے دو یا دو سے زائد افعال مروی ہوتے ہیں جبکہ کوئی امتی ان میں سے صرف ایک فعل کو سنت سمجھ رہا ہوتا ہے حالانکہ وہ دونوں افعال ہی سنت ہوتے ہیں۔ جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد دائیں طرف سے پھرتے ہوئے صحابہ کی طرف رخ کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

اَنَّ النَّبِیَّ كَانَ یَنْصَرِفُ عَنْ یَمِیْنِہ[۱۴۴]
اللہ کے نبی ﷺ (فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد) دائیں طرف پھرتے تھے۔

جبکہ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے :

لاَ یَجْعَلَنَّ اَحَدُكُمْ لِلشَّیْطَانِ مِنْ نَفْسِہ جُزْئً، ا لاَ یَرٰی اِلاَّ اَنَّ حَقًّا عَلَیْهِ اَنْ لَایَنْصَرِفَ اِلاَّ عَنْ یَمِیْنِہ، اَكْثَرُ مَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَنْصَرِفُ عَنْ شِمَالِہ[۱۴۵]
تم میں کوئی ایک اپنے نفس میں شیطان کاکوئی حصہ اس طرح مقرر نہ کر لے کہ وہ اپنے اوپر یہ لازم ٹھہر الے کہ وہ نماز کے بعد دائیں طرف سے ہی پھرے۔ میں نے (نماز کے بعد) اکثر و بیشتراللہ کے رسول ﷺ کو بائیں طرف پھرتے ہوئے دیکھا ہے ۔

دونوں روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے، بلکہ ہر صحابی نے اپنے مشاہدے کو بیان کیا ہے، لہٰذا فرض نماز سے فارغ ہو کر دائیں اور بائیں دونوں طرف سے پھرنا سنت ہے اور صرف دائیں پھرنے کو ہی سنت سمجھتے ہوئے اس پر لزوم اختیار کرنادرست نہیں ہے ۔

اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے:

رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَشْرَبُ قَائِمًا وَقَاعِدًا وَیُصَلِّیْ حَافِیًا وَمُنْتَعِلًا وَیَنْصَرِفُ عَنْ یَمِیْنِہ وَعَنْ شِمَالِہ[۱۴۶]
میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پانی پیتے دیکھاہے اور آپ کو جوتے پہن کر اور اُتار کر نماز پڑھتے دیکھا ہے اور آپ کو نماز کے بعد دائیں اور بائیں پھرتے دیکھا ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے ۔ اس حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینا بھی اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ہے ۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہی معروف ہے کہ بیٹھ کر ہی پانی پینا چاہیے اور یہی سنت ہے، لیکن یہ درست نہیں ہے ۔ حضرت نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں ایک مقام پر کھڑے ہو کر پانی پیااور کہا :

اِنَّ نَاسًا یَكْرَهُ اَحَدُهُمْ اَنْ یَشْرِبَ وَهُوَ قَائِم وَاِنِّیْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ فَعَلَ كَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ فَعَلْتُ[۱۴۷]
بعض لوگ کھڑا ہو کر پانی پینے کو مکروہ (ناپسندیدہ)سمجھتے ہیں، جبکہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے جیسا کہ میں نے کیا ہے ۔

اسی طرح ’موطأ‘ میں صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیراور حضرت عبد اللہ بن عمرکھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے، جبکہ حضرت عائشہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کھڑے ہو کر پانی پینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح کا عمل حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے بھی، موطأ، میں مروی ہے۔[۱۴۸]

بلکہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے تو یہاں تک مروی ہے کہ ہم صحابہ اللہ کے رسول ﷺ کےزمانے میں کھڑے کھڑے اورچلتے پھرتے کھانا بھی کھا لیتے تھے، جبکہ آج کل اس فعل کو مغربی تہذیب کی نقالی کا نام دیا جاتا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

كُنَّا نَاْكُلُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَنَحْنُ نَمْشِیْ وَنَحْنُ قِیَام[۱۴۹]
ہم اللہ کے رسول ﷺ! کے زمانے میں چلتے چلتے اور کھڑے کھڑے کھاپی لیتے تھے ۔

علامہ البانی نے اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے[۱۵۰] جبکہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے ’حسن‘ قرار دیا ہے[۱۵۱]۔ امام ترمذی نے بھی اس کو ’صحیح‘ کہا ہے۔[۱۵۲]

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جن روایات میں اللہ کے رسول ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع کیا ہے یا ڈانٹا ہے یا قے کرنے کا حکم دیا ہے تو اس کے بارے میں علماء کااختلاف ہے ۔ بعض علماء نے احادیث میں ترجیح کا طریقہ کار اختیار کیا اور یہ کہا کہ جن احادیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے کا بیان ہے وہ ان احادیث کے مقابلے میں سند کے اعتبار سے راجح ہیں جن میں کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع کیاگیاہے۔ امام ابو بکر الأثرم کا یہی قول ہے ۔ بعض علماء نے ان احادیث کے بظاہر تعارض کو حل کرنے کے لیے نسخ کا قول اختیار کیا ہے۔ امام ابن شاہین کے مطابق نہی والی احادیث صحیح ہونے کے باوجود منسوخ ہیں جبکہ امام ابن حزم نے جواز والی احادیث کو منسوخ کہا ہے ۔ بعض علماء نے دو نوں احادیث کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے، لہٰذا علماء کے ایک گروہ کے نزدیک نہی والی احادیث میں نہی کراہت تنزیہی کے لیے ہے، لہٰذا کھڑے ہو کر پانی پینا جائز امر ہے، کیونکہ مکروہ کا ارتکاب باعث گناہ نہیں ہے۔ یہ رائے امام خطابی، امام طحاوی، امام ابن جریر طبری، امام نووی، علامہ ابن حجر عسقلانی اور ابن بطال رحمہم اللہ وغیرہ کی ہے۔ علماء کے دوسرے گروہ کی جمع کے مطابق جن احادیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے کا جواز ہے وہ عذر کے سبب سے ہے۔ یہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے ہے۔ تیسرے گروہ کی جمع کے مطابق نہی والی روایات میں نہی کسی شرعی حکم کے طور پر وارد نہیں ہوئی بلکہ آپ نے طبی نقطہ نظر سے کھڑے ہو کر پانی پینے کو نقصان دہ سمجھتے ہوئے اس طرح پانی پینے سے منع کیا تھا۔ سوائے امام ابن تیمیہ کے قول کے ان تمام اقوال کو اما م ابن حجر نے، فتح الباری، میں نقل کیا ہے ۔ امام صاحب کا قول، مجموع الفتاویٰ، میں موجود ہے۔

ہمارے نزدیک یہ آخری رائے درست ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی وفات کے بعد جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کا خاص طور پر خلفائے راشدین اور حضرت عبد اللہ بن عمر کا کھڑے ہو کر پانی پینا یہ واضح کرتا ہے کہ امام ابن حزم کا نسخ کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عائشہ وغیرہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ عام حالات میں بھی کھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے، لہٰذاعذر والا قول درست نہیں ہے، کیونکہ عذر تو کبھی کبھی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں حضرت علی کی روایات سے کراہت والے قول کا غلط ہونا بھی واضح ہوتا ہے، کیونکہ حضرت علی نے یہ کہہ کر کھڑے ہو کر پانی پیا کہ لوگ اس عمل کو مکروہ سمجھتے ہیں، یعنی ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ مکروہ یا دین میں ناپسندیدہ چیز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں حضرت علی نے بغیر کسی عذر کے کھڑے ہو کر پانی پیا تھا۔ امام ابو بکر الاثرم کے نزدیک جواز والی احادیث راجح جبکہ نہی والی مرجوح ہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ مرجوح حدیث پر عمل نہیں ہوتا، لیکن صحابہ نے نہی والی احادیث پر بھی عمل کیا ہے۔ یہی معاملہ امام ابن شاہین کے اس دعویٰ کا ہے کہ نہی والی احادیث منسوخ ہیں، جبکہ صحابہ نے آپ کی وفات کے بعد نہی والی روایات پر بھی عمل کیا ہے۔ اس لیے ’موطأ‘ میں حضرت عائشہ اور حضرت سعد بن وقاص سے مروی ہے کہ وہ کھڑے ہو کر پانی پینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے ۔ پس بظاہر یہی قول درست معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے شرعی حکم کے طور پر منع نہیں کیا بلکہ اس کے بعض طبی نقصانات کی وجہ سے اُمت کو اس طرح پانی پینے سے سختی سے منع فرمایا جیسا کہ ایک باپ بعض اوقات اپنے بیٹے کو کسی دنیاوی معاملے میں نقصان سے بچانے کے لیے ڈانٹ ڈپٹ کے انداز میں کوئی حکم جاری کرتا ہے اور اس میں اصل وجہ باپ کی اپنے بیٹے سے پدرانہ محبت ہوتی ہے نہ کہ کوئی شرعی حکم ۔ یہی محبت آپ کو اپنی اُمت سے بھی تھی۔

اسی طرح ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں :

كَانَ النَّبِیُّ یَاْتِیْ مَسْجِدَ قُبَائٍ كُلَّ سَبْتٍ مَاشِیًا وَرَاكِبًا، وَكَانَ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عُمَرَ یَفْعَلُہ[۱۵۳]
اللہ کے رسول ﷺ!ہر ہفتے کے دن مسجد قبا میں پیدل اور سوار دونوں طرح آتے تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمابھی ایساہی کرتے تھے(یعنی کبھی پیدل آتے تھے اور کبھی سوار اور اب کے بعض لوگوں نے صرف پیدل جانے کو ہی سنت سمجھ لیا ہے)۔

(۹)۔ افعال مبنی بر علت و سبب

بعض اوقات اللہ کے رسول ﷺ ایک کام کسی ضرورت یا سبب سے کرتے تھے، لہٰذا اس ضرورت اور سبب کی عدم موجودگی میں اس مسئلے میں اللہ کے رسول ﷺ کے فعل کی مخالفت زیادہ افضل ہے۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے، حضرت ابو طفیل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے کہا:

اَخْبِرْنِیْ عَنِ الطَّوَافِ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ رَاكِبًا اَسُنَّة هُوَ؟ فَاِنَّ قَوْمَک یَزْعُمُوْنَ اَنَّہ سُنَّة، قَالَ صَدَقُوْا وَكَذُبْوا، قُلْتُ وَمَا قَوْلُک صَدَقُوْا وَكَذَبُوْا؟ قَالَ: اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ كَثُرَ عَلَیْهِ النَّاسُ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مُحَمَّد هٰذَا مُحَمَّد حَتّٰی خَرَجَ الْعَوَاتِقُ مِنَ الْبُیُوْتِ، قَالَ وَكَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ لَا یُضْرَبُ النَّاسُ بَیْنَ یَدَیْهِ فَلَمَّا كَثُرَ عَلَیْهِ رَكِبَ وَ الْمَشْیُ وَالسَّعْیُ اَفْضَلُ[۱۵۸]
مجھے صفا اور مروہ کے درمیان سواری پر طواف کرنے کے بارے میں بتائیں کہ کیا وہ سنت ہے؟ بے شک آپ کی قوم کے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ایسا کرنا سنت ہے۔ تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا : انہوں نے سچ کہا اور جھوٹ بھی بولا۔ میں نے پھر پوچھا کہ آپ کے اس قول کا کیامطلب ہے کہ انہوں نے سچ بھی کہاا ور جھوٹ بھی بولا؟ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ﷺ پر لوگوں نے ہجوم کر لیا تھا اور یہ کہہ رہے تھے کہ یہ محمد ﷺ ہیں یہ محمد ﷺ ہیں، یہاں تک کہ بوڑھی عورتیں بھی اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا: لوگ آپ کے سامنے ہجوم نہیں کرتے تھے، لیکن جب انہوں نے آپ پر اکٹھ کر لیاتو آپ نے سوار ہو کر سعی کی، جبکہ پیدل سعی کرنا زیادہ افضل ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

وھذا الذی قالہ ابن عباس مجمع علیہ اجمعوا علی أن الرکوب فی السعی بین الصفا والمروة جائز وان المشی افضل منہ لا لعذر و اللہ أعلم[۱۵۹]
اور جوبات حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہی ہے اس پر اجماع ہے ۔ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ صفا اور مروہ کی سعی کے دورن سوار ہونا جائز ہے لیکن پیدل چلنا زیادہ افضل ہے، سوائے اس کے کہ کوئی عذر لاحق ہو۔

اور آج کل اگر کوئی شخص مطاف یا مسعی میں طواف یا سعی کے لیے اونٹ داخل کرے تو یہ سنت تو کجافتنہ اور منکر ہے جس سے زبردستی روکا جائے گا۔

(۱۰)۔ رسول اکرم ﷺ کی نظر میں بعض پسندیدہ افعال

بعض اوقات رسول اللہ ﷺ ایک کام بطور عبادت کرنے کا ارادہ کرتے، لیکن آپ وہ کام کسی سبب سے بالفعل نہیں کرتے تھے، تاہم آپ کی یہ خواہش ہوتی کہ آپ وہ کام کریں۔ اس معاملے میں اگرچہ آپ نے ایک کام نہیں کیا لیکن جس کے کرنے کی اللہ کے رسول ﷺ نے خواہش کی تھی تو وہ کام اُمت کے لیے مستحب ہو گا۔ صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کے مہینے میں صرف تین دن تراویح پڑھائی تھے اور چوتھے دن صحابہ آپ کا انتظار کرتے رہے لیکن آپ تراویح پڑھانے کے لیے اپنے حجرے سے باہر تشریف نہ لائے ۔ فجر کی نماز کے بعد آپ نے صحابہ کو بتلایا:

’’فَاِنَّہ لَمْ یَخْفَ عَلَیَّ شَاْنُكُمُ الَّیْلَةَ وَلٰكِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَیْكُمْ صَلَاةُ اللَّیْلِ فَتَعْجِزُوْا عَنْهَا‘‘ [۱۵۴]
تمہاری رات کی کیفیت مجھ سے پوشیدہ نہیں ہے، لیکن مجھے یہ اندیشہ تھا کہ تم پر رات کی نماز(یعنی تراویح) فرض نہ کر دی جائے اور تم اس کی ادائیگی سے عاجز آ جاؤ(اور گناہ گار ہو)۔

ایک اور روایت کے الفاظ ہیں :

’’فَلَمْ یَمْنَعْنِیْ مِنَ الْخُرُوْجِ اِلَیْكُمْ اِلاَّ اَنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَیْكُمْ‘‘ [۱۵۵]
اور مجھے تراویح کی نماز کے لیے اپنے حجرے سے باہر نکلنے کے لیے سوائے اس چیز کے اور کسی امر نے نہیں روکا کہ مجھے یہ اندیشہ تھاکہ وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے۔

اس روایت سے معلوم ہو ا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صرف تین دن تروایح کی جماعت کروائی ہے، باقی دنوں میں آپ اور صحابہ نے تراویح کی نماز انفرادی طور پر پڑھی ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی وفات تک معاملہ اسی طرح رہا ہے۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آپ کی سنت تو صرف تین دن جماعت کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھنا ہے تو وہ غلطی پر ہے، کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ مکمل رمضان میں تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ لہٰذا زیادہ افضل یہ ہے کہ تمام رمضان میں تراویح کی نماز ادا کی جائے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں عبد الرحمن بن عبدالقاری فرماتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت عمر کے ساتھ مسجد نبوی میں گیا تو حضرت عمر نے دیکھا کہ صحابہ الگ الگ ٹکڑیوں میں نماز پڑھ رہے ہیں ۔ بعض صحابہ اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، جبکہ بعض کچھ دوسروں کو نماز پڑھا رہے تھے ۔ حضرت عمر نے جب یہ منظر دیکھا تو سب کو جمع کر کے ایک جماعت بنا دیا اور حضرت اُبی بن کعب کو قاری مقرر کر دیا۔ اگلی رات جب حضرت عمر دوبارہ مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے صحابہ کو ایک جماعت میں نماز پڑھتے دیکھ کر کہا:

نِعْمَ الْبِدْعَةُ هٰذِہ، وَالَّتِیْ یَنَامُوْنَ عَنْهَا اَفْضَلُ مِنَ الَّتِیْ یَقُوْمُوْنَ، یُرِیْدُ آخِرَ اللَّیْلِ، وَكَانَ النَّاسُ یَقُوْمُوْنَ اَوَّلَہ [۱۵۶]
یہ کیا ہی خوب بدعت(یعنی نیا کام) ہے! اور جو لوگ سو رہے ہیں وہ ان قیام کرنے والوں سے افضل ہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی مراد وہ سونے والے لوگ تھے جو آخر رات میں قیام کرتے تھے اور عام لوگ اول وقت میں قیام کرتے تھے۔

بعض اوقات ایسے کام کو کرنا جائز نہیں ہوتا جس کا اللہ کے رسول ﷺ نے ارادہ کیا ہو لیکن آپ نے اس کو بالفعل نہ کیا ہو، اور اس کا علم احوال و قرائن سے ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کے بارے میں جو مسجد میں آکر جماعت کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتے تھے، فرمایا:

’’وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَقَدْ هَمَمْتُ اَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَیُؤَذَّنَ لَهَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ اُخَالِفَ اِلٰی رِجَالٍ فَاُحَرِّقَ عَلَیْهِمْ بُیُوْتَهُمْ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَوْ یَعْلَمُ اَحَدُهُمْ اَنَّہ یَجِدُ عَرْقًا سَمِیْنًا اَوْمِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَهِدَ الْعِشَاءَ‘‘ [۱۵۷]
امام نووی نے، شرح مسلم، میں لکھا ہے کہ جمہور علماء کے نزدیک جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے والوں کو یہ سزا دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ آپ نے یہ سزا نہیں دی ۔ امام نووی نے یہ بھی لکھا ہے کہ حدیث کا سیاق یہ بتلاتا ہے کہ آپ کا یہ ارشادمنافقین کے بارے میں تھا، کیونکہ صحابہ سے یہ بعید ہے کہ وہ ایک یا دو ہڈیوں کو جماعت کی نماز پر ترجیح دیں۔ بعض دوسری روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ فجر اور عشاء کی نماز منافقین پر بھاری ہوتی تھی اور اس روایت میں بھی عشاء کی نماز کا تذکرہ ہے۔

اسی طرح آپ نے حطیم کو بھی بیت اللہ میں شامل کرنے کی خواہش کا ظہار کیا تھا لیکن کچھ موانع کی وجہ سے آپ نے اس پر عمل نہ کیا۔ اُمت نے بھی آج تک اس فعل پر آپ کی خواہش کے باوجود عمل نہیں کیا ہے ۔

(۱۱)۔ مقصد سے مربوط فعل

بعض اوقات اللہ کے رسول ﷺ کے ایک فعل میں اصلاً مقصود وہ فعل نہیں ہوتابلکہ اس فعل سے حاصل ہونے والا نتیجہ ہوتا ہے ۔ جیسا کہ احادیث میں وارد ہے کہ مسواک کرنا آپ کی سنت ہے اور اس سنت کا مقصود منہ کی صفائی ہے ۔آپ کا ارشاد ہے :

’’اَلسِّوَاک مَطْهَرَة لِلْفَمِ مَرْضَاة لِلرَّبِّ‘‘[۱۶۰]
مسواک کرنا منہ کی صفائی کا ذریعہ ہے اور ربّ کی رضا ہے ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسواک کی سنت میں اصل حکمت طہارت ہے نہ کہ دانتوں پر کوئی لکڑی پھیرنا۔ امام طیبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ مسواک کی حکمت منہ کی صفائی ہے اور پھر منہ کی صفائی کو اللہ کی رضا قرار دیا گیا ہے۔ مسواک عربی زبان کے اعتبار سے اسم آلہ کا وزن بنتا ہے اور اس کا معنی مَایُستاک بِہ ہے، یعنی جس کے ذریعے کسی چیز کو رگڑا جائے یا مَلا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں مسواک لکڑی ہی کی ہوتی تھی اور مسواک میں سب سے افضل پیلو کی مسواک ہے، جیسا کہ صحیح روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

كُنْتُ اَجْتَنِیْ لِرَسُوْلِ اللّٰهِ سِوَاکًا مِنَ الْاَرَاک [۱۶۱]
میں اللہ کے رسول ﷺ کے لیے پیلو کی مسواک چنا کرتا تھا۔

صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اپنی زندگی کے آخری لمحات میں آپ نے کجھور کی تازہ شاخ کومسواک کے طور پر استعمال کیا تھا جبکہ آپ کا سرمبارک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھا۔ بعض علماء نے زیتون کی مسواک کو بھی اس کے درخت کے بابرکت ہونے کی وجہ سے افضل کہا ہے لیکن زیتون کی مسواک کی فضیلت میں وارد شدہ تمام روایات ضعیف ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انگلی کے دانتوں پر پھیرنے سے مسواک کی سنت ادا ہوجاتی ہے؟ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انگلی اگر نرم ہے یعنی اس سے کسی قدردانتوں کی صفائی ممکن نہیں ہے تو یہ سنت ادا نہ ہو گی، لیکن اگر انگلی سخت اور کھردری ہے تو اس کےبارے میں علماء کا اختلاف ہے ۔ احناف، مالکیہ اور ایک روایت کے مطابق حنابلہ کے نزدیک اس سے سنت ادا ہو جائے گی جبکہ شوافع اور حنابلہ کے مشہور موقف کے مطابق سنت ادا نہ ہو گی۔ امام نووی، حافظ عراقی اور ابن قدمہ رحمہم اللہ نے پہلے مسلک ہی کو ترجیح دی ہے اور ہمارے نزدیک بھی پہلا مسلک درست ہے جس کی دلیل درج ذیل روایت ہے :

اِنَّ رَجُلًا مِّنَ الْاَنْصَارِ مِنْ بَنِیْ عَمْرٍو بْنِ عَوْفٍ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ اِنَّک رَغَّبْتَنَا فِی السِّوَاكِ، فَهَلْ دُوْنَ ذٰلِک مِنْ شَیْئٍ؟ قَالَ : ’’اِصْبَعَاک سِوَاک عِنْدَ وُضُوْئِک تَمُرُّهَا عَلٰی اَسْنَانِكَ‘‘ [۱۶۲]
انصار میں بنو عمر بن عوف کے ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ نے ہمیں مسواک کرنے میں رغبت دلائی ہے، تو کیا مسواک کے علاوہ بھی کوئی شے کفایت کر جائے گی؟ تو آپ نے فرمایا:، ، تمہاری انگلیاں تمہارے وضو کے وقت تمہاری مسواک ہیں، تم ان کو اپنے دانتوں پر رگڑ لیا کر۔

حافظ عراقی نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد اس کے تمام رواة کو ثقہ قرار دیاہے۔ اس کے علاوہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت’’یُجْزِیْ مِنَ السِّوَاک الْاَصَابِعِ‘‘ یعنی انگلیاں تمہیں مسواک کے بالمقابل کفایت کریں گی، بھی ہے، جس کے بعض طرق کوابن حجرعسقلانی نے صحیح کہا ہے۔[۱۶۳]

مسواک کا مقصد یعنی منہ کی صفائی عصر حاضر میں ٹوتھ پیسٹ اور برش وغیرہ سے بھی پورا ہو جاتا ہے تو کیا اگر کوئی شخص اس نیت سے برش کرے کہ سنت اد اہو جائے تو اسے سنت کا ثواب ملے گا؟ علماء کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ برش کرنے سے بھی سنت کا ثواب ملے گا بشرطیکہ سنت کی ادائیگی کی نیت ہو۔ ڈاکٹر عبد اللہ الفقیہ لکھتے ہیں :

و أما عن السواک فالسنة أصلا أن یکون بعود الأراک اللین نظرا لأنہ أکثر انفاء و ملائمة للفم و أطیب ریحا۔ أما ذا حصل الانفاء بغیرہ أو وجد ما ھو أبلغ فی الانفاء، فمن نظرا لی ان المقصود الانفاء فانہ یکتفی بالفرشاة و المعجون۔ ومن نظرا لی أن الأمر تعبدی، وأن السنة لا تحصل لا بالعود فانہ یجعل السواک بالعود سنة۔ ولعل الراجح ان شاء اللہ تعالی أن الفرشاة و المعجون تحصل بھما السنة لأن تنظیفھما للفم وتطھیرھما أبلغ من تطھیر وتنظیف العود۔ وقد قال بعض أھل العلم بحصول السنة بالسواک بالصبع والخرقة [۱۶۴]
جہاں تک مسواک کا معاملہ ہے تو اصل سنت یہی ہے کہ وہ پیلو کی نرم لکڑی کی ہونی چاہیے کیونکہ اس سے منہ کی بدبو اچھی طرح دور ہوتی ہے اورو ہ ملائم بھی ہوتی ہے اور خوشبودار بھی۔ اگر اس کے علاوہ کسی اور چیز سے بھی منہ کی صفائی حاصل ہو جائے یا کوئی اور چیز مسواک سے بھی زیادہ اچھی طرح منہ صاف کرنے والی ہو تو جن علماء نے مقصود کو دیکھا تو ان کے نزدیک پیسٹ اور برش وغیرہ بھی مسواک کی جگہ کفایت کرتے ہیں، اور جن علماء نے مسواک کو تعبدی امور میں شمار کیا ہے تو ان کے نزدیک سنت صرف لکڑی کے استعمال میں ہے، لہٰذا ان کے نزدیک لکڑی استعمال کرنا ہی سنت ہے۔ اور راجح مسلک ہمارے نزدیک یہ ہے کہ پیسٹ اور برش وغیرہ سے بھی سنت حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ یہ دونوں لکڑی سے زیادہ اچھی طرح منہ کو صاف اور پاک کرنے والے ہیں۔ بعض سلف صالحین کے نزدیک انگلی اور پرانے کپڑے کو رگڑنے سے بھی مسواک کی سنت حاصل ہو جاتی ہے۔

اب تو ایسے ٹوتھ پیسٹ بھی آ گئے ہیں جو کہ مسواک کے قدرتی اجزا پر مشتمل ہیں جیسا کہ دبئی سے ’’سواک‘‘ کے نام سے مسواک کے قدرتی اجزاء پر مشتمل ایک ٹوتھ پیسٹ بنایا گیا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ برش کے ساتھ ساتھ مسواک کی سنت کو ترک نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ مسواک کرنے کے بہت سے ایسے مواقع سنت سے ثابت ہیں جن میں برش کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً آپ کا فرمان ہے :

’’لَوْ لَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ لَاَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاک مَعَ كُلِّ صَلَاةٍ‘‘ [۱۶۵]
مجھے اگر یہ اندیشہ نہ ہوتاکہ میں اپنی اُمت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔

لہٰذا ہر نماز کے وقت مسواک کرنا سنت ہے۔ اسی طرح بعض صحیح احادیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے کہ جب کتا تمہارے کسی برتن میں اپنا منہ ڈال دے تو تم اس برتن کو سات مرتبہ دھوؤاور پہلی مرتبہ مٹی سے دھوؤ۔ اب اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ کا اصل مقصود برتن کی صفائی ہے اور اگر برتن کی صفائی آج کل صابون یاسَرف وغیرہ سے اچھی طرح ہوتی ہے تو ہمیں مٹی کی جگہ وہی استعمال کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کبھی بھی صابون سے غسل نہیں کیا یا سر کے بالوں کے لیے شیمپو استعمال نہیں کیا۔ صحیح روایات میں ہے کہ جب آپ کے زمانے میں کسی مردے کوغسل دیاجاتا تھا تو پانی میں بیری کے پتے اور کافور( خوشبو )ملا دی جاتی تھی اور اس سے مقصود طہارت اور جسم کی صفائی تھی ۔ اب یہی مقصد صابون اور شیمپو وغیرہ سے اچھی طرح حاصل ہوتا ہے تو کیا ان کا استعمال خلافِ سنت اور خباثت ہو گا؟

ایجادات سے استفادہ کی حیثیت

ایک چیز جو اللہ کے رسول ﷺ کے دور میں نہیں تھی اس کو استعمال کرنا خلافِ سنت نہیں ہے ۔ مثلاً آپ کے دور میں کرسی، ٹیبل، چمچ، گاڑی، لاؤڈ اسپیکر، گھڑی، کمپیوٹر، پنکھا، اے سی، ریفریجریٹر، گیزر عینک، ہیٹر، ٹیلی فون، موبائل، بجلی، گیس، جہاز، ریل، بحری جہاز، سکول، کالج، یونیورسٹی، جدید آلات حرب، ادویات، گولیاں، انجکشن، ہسپتال اور تمام میڈیکل سائنس وغیرہ کچھ بھی نہ تھا۔ کوئی بھی صاحب عقل ان اشیاء کے استعمال کو خلاف سنت یاخباثت نہیں کہہ سکتا، سوائے اس کے کہ جوجہالت کے اعلیٰ مراتب پرفائز ہو۔ یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ ان اشیائے جدیدہ کے وہ استعمالات جو کہ شریعتِ اسلامیہ کی صریح نصوص کے خلاف ہوں، یا وہ ایجادات مقاصد شریعہ کو فوت کرنے والی ہوں یعنی وہ انسان کے دین، جان، عقل، نسل، مال اور عزت کے فروغ اور حفاظت کے لیے نقصان دہ ہوں، ناجائز ہیں۔ اگر کرسی کا استعمال خلافِ سنت ہے توپھر موبائل، بجلی، گیس، فون، گاڑی، جہاز، گھڑی وغیرہ سب کا استعمال بھی خلافِ سنت ہے۔ اگر اس طرح کے سطحی اصولوں کی روشنی میں سنت کے تصورات قائم کیے گئے تو ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ صحابہ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں بچے گا جس نے سنت سے اختلاف نہ کیا ہو۔ اگر اس اصول کو درست مان لیاجائے تو تمام صحابہ (معاذاللہ!)مخالفین سنت ہیں، کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں قرآن بَیْنَ الدُّفتین موجود نہ تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کو ایک جگہ جمع کیا گیا، تو صحابہ نے ایک ایسا کام کیا جو اللہ کے رسول ﷺ نے نہیں کیاتھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں لوگوں کو ایک رسم الخط پر جمع کرنے کے لیے صحابہ سے ان کے مصاحف لے کر جلوا دیے تھے، یہ بھی ’’خلافِ سنت‘‘ کام تھا اور اکابر صحابہ نے اس کام میں حضرت عثمان کی معاونت کی تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں قرآن کے نہ تو تیس پارے تھے، نہ ۵۴۵ رکوع تھے، نہ احزاب تھے، نہ اعراب و حرکات تھیں، حتی کے نقطے اور رموزِ اوقاف بھی نہ تھے، اور یہ سب چیزیں تو خلفائے راشدین کے دور میں بھی نہ تھیں، بلکہ صحابہ کے زمانے کے بعد علماء نے ان کو قرآن پڑھنے میں سہولت و آسانی کے لیے لیے متعارف کروایا، یہ سب بھی ’’خلافِ سنت‘‘ ہے، لہٰذا آج کے دور میں طبع ہونے والے ہر قرآن کی تلاوت ’’خلافِ سنت‘‘ ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کے دور میں نہ احادیث کی کتابیں تھیں، نہ سیرت و تاریخ کی، لہٰذا حدیث، سیرت اور تاریخ کی کتابوں کو لکھنا، ان کے ترجمے کرنا، ان ترجموں کو پڑھنا اور ان ترجموں سے علم حاصل کرنا سب خلاف سنت اور خباثت ہے، کیونکہ ان میں کوئی ایک فعل بھی اللہ کے رسول ﷺ یاصحابہ و تابعین سے ثابت نہیں ہے۔ واللہ المُستعان علٰی ما تَصِفُوْنَ ۔

اسی نقطۂ نظر کی یہ انتہا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ عورتوں کو مطلقاً سکول و کالج کی تعلیم دلواناخلافِ سنت ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے دَور میں کالج نہیں تھے، جبکہ معاصر علماء اس باتکو امت مسلمہ کے لیے فرض کفایہ قرار دیتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں اتنی خواتین لیڈی ڈاکٹرز موجود ہوں جو عورتوں کے ذاتی مسائل میں کفایت کرتی ہوں۔ اگرعورتوں کا میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا خلاف سنت ہے تو ایک عورت کا ایک مرد ڈاکٹر کے سامنے جاکر اپنا ستر کھولنا کون سی سنت سے ثابت ہے ؟ اس تصورِ سنت کے مطابق تو گولی (tablet)کھانا، دوائی لینا، انجکشن لگوانااور ڈاکٹر کے پاس جانا بھی خلافِ سنت ہونا چاہیے۔ فیا للعجب! ان میں سے بعض کا یہ کہنا بھی ہے کہ درس قرآن دنیا بھی سنت سے ثابت نہیں ہے اور ظالم حکمرانوں کے خلاف مظاہرہ کرنابھی سنت سے ثابت نہیں ہے۔ دینی مجلات اور رسائل کی اشاعت بھی خلاف سنت ہے وغیرہ ذلک۔

حق یہ ہے کہ یہ سب افعال مباحات کا دائرہ ہے جس میں انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ ان اشیاء کو استعمال کرے یا نہ کرے۔ اور بعض اوقات تو ان جدید آلات کو اسلام کی نشرو اشاعت اور دعوت و تبلیغ کے لیے استعمال کرنا فرضیت کے درجے کو پہنچ جاتا ہے ۔ اسی طرح میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ کی تعلیم کو علماء نے فرض کفایہ قرار دیا ہے ۔

جامعہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث مولانا عبد الرحمن اشرفی ایک دن دورانِ کلاس کہنے لگے کہ حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ ایک دفعہ چمچ سے کھانا کھا رہے تھے تو کسی نے کہا: حضرت ہاتھ سے کھانا سنت ہے۔ شاہ صاحب نے جواب دیا : ہاتھ ہی سے تو کھا رہا ہوں۔

جن علماء کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دین کی گہرائی اور حکمت عطا فرمائی ہے انہیں کبھی اس مسئلے میں الجھن درپیش نہیں ہوتی کہ کیا چیز سنت ہے اور کیاخلاف سنت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے دائیں ہاتھ سے کھانے پر زور دیا ہے اور چمچ سے کھاتے وقت یہ سنت پوری ہوتی ہے ۔ صحیح روایات کے مطابق آپ تین انگلیوں (یعنی انگوٹھا، شہادت والی انگلی اور درمیانی انگلی) سے کھانا کھاتے تھے، جیسا کہ صحیح مسلم، سنن ابو داؤد، سنن ترمذی اور مسند احمد وغیر ہ میں ہے۔ یہ سنت اگرچہ ہاتھ سے بھی پوری ہوتی ہے لیکن بعض لوگوں کو اس میں مشکل ہوتی ہے۔ اب اگر یہ لوگ چمچ سے کھانا کھائیں تو یہ سنت بھی باآسانی پوری ہو جاتی ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آپ نے کھانا کھانے کے بعد ہاتھ صاف کرنے سے پہلے ان کو چاٹ لینے یا چٹوا لینے کا حکم جاری کیا ہے تا کہ کھانے کی برکت ضائع نہ ہواور یہ حکمت چمچ سے کھانے میں باحسن پوری ہوتی ہے۔ ہمارا مقصود یہ ہر گز نہیں ہے کہ لوگ ہاتھ سے کھانا چھوڑدیں، بلکہ ہمارے نزدیک ہاتھ سے کھانا چمچ سے کھانے سے زیادہ افضل ہے، لیکن یہ بتانا مقصود ہے کہ چمچ سے کھانا بھی خلافِ سنت نہیں ہے اور کھانے کے تمام آداب چمچ سے کھانے میں بھی باحسن و خوبی پورے ہوتے ہیں۔

اسی طرح بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ برگر وغیرہ کو کھانے کا طریقہ خلافِ سنت ہے، کیونکہ اس کو ہاتھ سے توڑے بغیر براہ راست منہ سے نوچ کر کھایا جاتا ہے ۔ اصل سنت دائیں ہاتھ سے کھانا ہے جو کہ برگر کو کھانے میں بھی پوری ہوتی ہے ۔ مثلاً ایک شخص کے پاس سیب ہے اور اس کو کاٹنے کے لیے کوئی چھری یا چاقو وغیرہ نہیں ہے تو اب یہ شخص سیب کو کیسے کھائے گا؟ کیا اس کے لیے اس حالت میں سیب کھاناممنوع ہو گا تاکہ کفار کی مشابہت نہ ہو جائے؟ یا جائز ہو گا؟ ایک روایت کے الفاظ ہیں:

اَنَّ النَّبِیَّ انْتَهَسَ مِنْ كَتِفٍ ثُمَّ صَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّاْ[۱۶۶]
اللہ کے نبی ﷺ ! نے شانے والی بوٹی سے گوشت نوچ کر کھایا، پھر آپؐ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں فرمایا۔

شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند کو ’صحیح‘ کہا ہے۔[۱۶۷]

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو قت کا ہی کھانا ہے اور ناشتہ کرنا بدعت ہے۔ حالانکہ یہ صریح روایات کے خلاف بات ہے۔ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ناشتہ کرتے تھے ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

كَانَ النَّبِیُّ یَاْتِیْنِیْ فَیَقُوْلُ: اَعِنْدََک غَدَائً؟ فَاَقُوْلُ: لَا، فَیَقُوْلُ : اِنِّیْ صَائِم، قَالَتْ فَاَتَانِیْ یَوْمًا فَقُلْتُ : یَارَسُوْلَ اللّٰهِ اِنَّہ قَدْ اُهْدِیَتْ لَنَا هَدِیَّة، قَالَ : وَمَا هِیَ؟ قُلْتُ: حَیْس، قَالَ: اَمَا اِنِّیْ قَدْ اَصْبَحْتُ صَائِمًا، قَالَتْ: ثُمَّ اَكَلَ[۱۶۸]
اللہ کے نبی ﷺ ! میرے پاس آتے تھے اور سوال کرتے تھے کہ کیا تمہارے پاس ناشتہ کرنے کو کچھ ہے؟ تو میں کہتی کہ نہیں ہے۔ تو آپ فرماتے :میں نے روزہ کی نیت کر لی ہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن آپ میرے پاس آئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! آج ہمیں کچھ ہدیہ ملا ہے ۔آپ نے فرمایا: وہ کیا ہے؟ تو میں نے کہا وہ حلوہ ہے۔ تو آپ نے فرمایا: میں نے صبح روزے کی نیت کی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ نے پھر وہ حلوہ کھا لیا۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’حسن‘ کہا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی روایت کو ’حسن صحیح‘ کہا ہے۔ [۱۶۹]

بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ موٹر سائیکل پر بیٹھنا خلاف سنت بلکہ دجالی تہذیب کا مظہر ہے، کیونکہ اگر عام حالات میں دو اشخاص اس طرح بیٹھے ہوں جس طرح موٹر سائیکل پر دو افراد بیٹھتے ہیں یعنی آگے پیچھے تو یہ فعل بے حیائی معلوم ہوتا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر صحابہ کے زمانے میں اونٹ یا گھوڑے پر دو افراد بیٹھتے تھے تو اس کا کیا طریقہ تھا؟ کیا ایک دوسرے کے کندھے پر بیٹھتے تھے صحیح روایات میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بعض صحابہ کو اپنے پیچھے بٹھا کر اونٹ پر سواری کی، مثلاً صحیحین کی ایک روایت کے مطابق حجة الوداع کے موقع پرعرفات سے منیٰ واپسی کی طرف راستے میں حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ آپ کے پیچھے ایک ہی اونٹ پر سوارتھے۔[۱۷۰]

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ زمین پر بیٹھنا ہی سنت ہے اور کرسی پر بیٹھنا خلاف سنت اور خباثت ہے، کیونکہ آپ کبھی کرسی پر نہیں بیٹھے۔ ہمارے علم کی حد تک اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں یہ مروی نہیں ہے کہ آپ، کرسی پر بیٹھے ہیں یا نہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ سے ایک فعل کے مروی نہ ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ نے وہ فعل کیا ہی نہیں ہے، کیونکہ عدم ذکر، عدم فعل کو، مستلزم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہاں سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے کرسی پیش کی گئی ہو اور آپ نے اس پر بیٹھنے سے انکار کیا ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ بعض صحابہ کے بارے میں ملتا ہے کہ وہ کرسی پر بیٹھے ۔ ایک حدیث کے الفاظ ہیں، حضرت ابو وائل الاسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

جَلَسْتُ مَعَ شَیْبَةَ عَلَی الْكُرْسِیِّ فِی الْكَعْبَةِ فَقَالَ: لَقَدْ جَلَسَ هٰذَا الْمَجْلِسَ عُمَرُ[۱۷۱]
میں حضرت شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ العبدری کے ساتھ خانہ کعبہ میں موجود ایک کرسی پر بیٹھا تو انہوں نے کہا: اس جگہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے تھے۔

اگر چہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے زمانے میں ایسی کرسیاں نہیں تھیں جیسی آج کل ہیں، لیکن کرسی کا تصور تاریخ انسانی میں بہت پرانا چلا آرہا ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی کرسی کا ذکر ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کا بھی تذکرہ ہے ۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق اوائل نبوت میں آپ نے جب حضرت جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا تھا تو وہ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔، لسان العرب، میں کرسی کی تعریف میں لکھا ہے: الذی نعرفہ من الکرسی فی للغة الشیء الذی یعتمد علیہ ویجلس علیہ یعنی کرسی کا لغت عرب میں جو معنی معروف ہے وہ یہ ہے کہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس پر ٹیک لگائی جائے اور جس پر بیٹھا جائے۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کا منبرپر بیٹھنا صحیح روایات سے ثابت ہے، آپ کے زمانے میں اصحابِ صفہ کے لیے ایک چبوترہ تھا جس پر وہ بیٹھا کرتے تھے ۔ صحیح روایات کے مطابق حضرت عائشہ کے پاس ایک چارپائی تھی جس پر وہ سویا کرتی تھیں اور امام بخاری تو اپنی صحیح میں کتاب الاستئذان کے تحت باب السریر لے کر آئے ہیں۔ ایک صحیح روایت کے مطابق آپ کے پاس بھی کھجور کی شاخوں اور پتوں سے بنی ہوئی ایک چارپائی تھی جس پر بستر بھی بچھایا ہوا تھا۔[۱۷۲]

ان سب روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ ہر حال میں زمین پر نہیں بیٹھے تھے، بعض اوقات آپ نے زمین سے بلند چیزوں مثلاً چبوترہ، منبراورچارپائی وغیرہ کو بھی بیٹھنے کے لیے استعمال کیا ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنی جہالت اور کم علمی کی وجہ سے ایک فعل کو خلافِ سنت یا خباثت کہہ رہا ہوتا ہے حالانکہ وہ فعل سنت سے ثابت ہوتا ہے۔

ایک ذاتی واقعہ

ایک دفعہ ایک جگہ راقم الحروف کو درس دینے کا اتفاق ہوا تو ایک صاحب کہنے لگے کہ ماشاء اللہ!آپ کا درس بہت عمدہ تھا لیکن اگر آپ کے کپڑے بھی سفید ہوتے تو سنت کی اتباع بھی ہو جاتی اور لوگ بھی آپ کی باتوں سے زیادہ متأثر ہوتے۔

یہ بات تو درست ہے کہ اگر واقعتا کسی جگہ سفید لباس یا عمامہ یا ٹوپی پہن کر جانے سے کسی مدرس کے سامعین اس کی باتوں کا اثر لیں گے تو اس چیز کا لحاظ رکھنا دین کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے ۔ لیکن ہم پھریہی کہیں گے کہ اگر مقصود سامعین پر اپنی شخصیت کا اثر ڈالنا ہے تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات کو توجہ سے سنیں تو آپ کے بعض سامعین ایسے بھی ہوں گے کہ عمامہ یا سفید لباس پہننے کی بجائے آپ تھری پیس سوٹ میں ان سے خطاب کریں گے توآپ کی بات زیادہ توجہ سے سنیں گے اور ایک عام مولوی سمجھتے ہوئے آپ کو اجنبی نگاہ سے نہ دیکھیں گے ۔ جہاں تک دین کا معاملہ ہے تو یہ بات ثابت ہے کہ سفید لباس کو اللہ کے رسول ﷺ نے پسند کیا ہے اور اس کے پہننے کی ترغیب دی ہے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سفیدکے علاوہ رنگوں کے لباس بھی پہنتے تھے بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ کو سب سے زیادہ ’’حبرة‘‘ لباس پسند تھا ۔ بعض شارحین بخاری نے اس کا ترجمہ دھار ی دار یمنی لباس جبکہ بعض علماء نے یمنی سبز چادر کیا ہے۔ [۱۷۳]ہوا یہ کہ سفید لباس والی روایت تو نقل ہوئی اور لوگوں میں عام بھی ہو گئی لیکن دھاری دار یا سبز کپڑوں والی روایت عام نہ ہوئی، جس سے لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ شایدصرف سفید لباس پہننا ہی اللہ کے رسول ﷺ کو پسند تھا۔

ضعیف و موضوع روایات کا درجہ

ضعیف اورموضوع روایت سے اللہ کے رسول ﷺ کی کوئی سنت ثابت نہیں ہوتی ۔ البتہ ایک ضعیف روایت اگر ’حسن لغیرہ‘ کے درجے کو پہنچ جائے تو اس سے اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ثابت ہوتی ہے ۔ ایک صاحب ایک دفعہ دوران گفتگو فرمانے لگے کہ فجر کی نماز کے بعد سونا ممنوع ہے، آپ نے اس سے منع فرمایا ہے اور اس کی دلیل یہ روایت ہے :

’’اِذَا صَلَّیْتُمُ الْفَجْرَ فَلَا تَنَامُوْا عَنْ طَلَبِ اَرْزَاقِكُمْ‘‘ [۱۷۴]
جب تم فجر کی نماز پڑھ لو تو اپنے رزق کو تلاش کرنے کی بجائے سو نہ جاؤ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت ’ضعیف‘ ہے ۔ علامہ البانی نے اس روایت کو ’ضعیف‘ کہا ہے [۱۷۵] ۔ بعض اصحاب کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ ضعیف ہے تو کیا ہے، روایت تو ہے نا؟ ضعیف کی محدثین نے سترہ کے قریب اقسام بیان کی ہیں اور ان میں سے ایک موضوع بھی ہے۔ علماء نے اس مسئلے میں مستقل کتابیں اور مقالے لکھے ہیں کہ ضعیف حدیث دینی مسائل میں حجت نہیں ہے۔ ہم یہاں پر اس کے دلائل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اتنی بات کہیں گے کہ اگر یہ حضرات ضعیف حدیث کی کتابوں میں موجود ضعیف روایات کو دیکھ لیں تو ان کو احساس ہو گا کہ مطلقاً ضعیف روایات کو قبول کرنے کا اصول بنانے سے یہودیت، عیسائیت، ہندو مت اورا سلام کا ایک ملغوبہ تو وحدتِ ادیان کی شکل میں تیار ہو سکتا ہے لیکن اللہ کا وہ خالص دین جو کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیاگیا، اپنی اصل حالت میں برقر ار نہیں رہے گا۔ جب یہ حضرات ضعیف احادیث کو قبول کرنے کا اصول بناتے ہیں تو پھرا نہیں وہ تمام ضعیف روایات بھی قبول کرنی پڑیں گی جو شرک و بدعات اور توہمات و خرافات کی تعلیمات پر مبنی ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کو قبول کر لیا جائے، تو پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ کاش! یہ حضرات ضعیف حدیث پر مبنی کوئی کتاب اٹھاکر دیکھ لیتے تو انہیں احساس ہوتا کہ ضعیف حدیث کے نام پر کیسی کیسی بدعات اللہ کے رسول ﷺ کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ ائمہ سلف نے بہت سی ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں صرف ضعیف یا موضوع روایات کو جمع کیا گیا ہے اور ہمارے نزدیک ان کتب کی تالیف میں ضعیف و موضوع روایات سے باخبر کرنے کے علاوہ مؤلفین کے پیش نظر ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ ضعیف و موضوع روایات سے ثابت ہونے والی خرافات کی ایک تصویر پیش کی جا سکے تا کہ صحیح احادیث سے ثابت شدہ دین اسلام اور اس دینِ خرافات کے زمین و آسمان جیسے فرق کو واضح کیاجائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر متذکرہ بالا ضعیف روایت کو بطور دلیل قبول بھی کر لیا جائے تو پھر بھی اس میں فجر کے بعد سونے کی نہی نہ تو حرمت کے لیے ہے، اور نہ ہی کراہت کے لیے ہے بلکہ یہ ’’ارشاد ‘‘ ہے، یعنی آپ اپنی اُمت سے حد درجہ محبت کی وجہ سے بعض اوقات ان کے دنیاوی معاملات میں بھی ان کو کوئی بات بطور مشورہ بیان کر دیتے تھے جس کا دین سے کوئی تعلق نہ ہوتا تھا۔ لہٰذ ایہ حدیث بیانِ ا رشاد ہے نہ کہ بیانِ شرع۔

اس ساری بحث سے ہمارا مقصود قطعا ً یہ نہیں ہے ہم فجر کے بعد سونے کو پسند کرتے ہیں یا اس کے حامی ہیں، ہمارے نزدیک فجر کے بعد سونا ایک ناپسندیدہ فعل ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رات سونے کے لیے بنائی ہے نہ کہ دن، لیکن اگر کوئی شخص فجر کے بعد سونے کو سنت رسول ﷺ کی خلاف ورزی قرار دے گا تو ہمارے نزدیک یہ شخص ایک ایسی چیز کو سنت یا دین قرار دے رہا ہے جو سنت یا دین نہیں ہے، اور ایسے شخص کا رد کرنا اور دین اسلام کو اس قسم کی آلائشوں سے پاک کرنا علماء کا بنیادی فریضہ ہے، تاکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف کسی ایسی چیز کی نسبت نہ ہو جو انہوں نے نہ کہی تھی اور نہ اس کوچا ہا تھا۔

رسول اللہ ﷺ کی تقاریر

تقریر سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے کوئی کام ہوا ہو اور آپ نے اس پر خاموشی اختیار کی ہو ۔آپ کا کسی کام کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا اس کے جواز کی علامت ہے۔ محمد بن المنکدرفرماتے ہیں :

رَاَیْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰهِ رضی اللہ عنہ یَحْلِفُ بِاللّٰهِ اَنَّ ابْنَ الصَّائِدِ الدَّجَّالُ، قُلْتُ : تَحْلِفُ بِاللّٰهِ؟ قَالَ اِنِّیْ سَمِعْتُ عُمَرَ یَحْلِفُ عَلٰی ذٰلِک عِنْدَ النَّبِیِّؐ فَلَمْ یُنْكِرْهُ النَّبِیُّ[۱۷۶]
میں نے حضرت جابربن عبد اللہ کودیکھاکہ وہ اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ ابن صیاد ہی دجال ہے۔ میں نے کہا کیا آپ اللہ کی قسم کھا کر یہ بات کہہ رہے ہیں ؟ تو حضرت جابر نے کہا: میں نے حضرت عمر کو اس بات پر اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے قسم کھاتے ہوئے دیکھا اور آپ نے حضرت عمر کاانکار نہیں کیا۔

اس حدیث سے معلوم ہواکہ صحابہ آپ کی تقریر کوحجت سمجھتے تھے۔ بعض اوقات صحابہ کا اندازیہ ہوتاہے کہ ہم آپ کے زمانے میں یہ کام کرتے تھے اور آپؐ کو اس علم بھی ہوتا، اگرچہ یہ کا م آپ کے سامنے نہیں ہو ا ہوتا، یہ بھی آپ کی تقریر میں شامل ہے۔ مثلاً:

كُنَّا نَعْزِلُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ فَبَلَغَ ذٰلِک نَبِیَّ اللّٰهِ فَلَمْ یَنْهَنَا[۱۷۷]
ہم اللہ کے رسول ﷺ !کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے اور آپؐ کویہ بات معلوم بھی ہو گئی تھی لیکن آپ نے ہمیں منع نہیں فرما یا تھا۔

کسی صحابی یا صحابہ کا عمل جو انہو ں نے آپ کے زمانے میں کیاہو، لیکن آپ کے سامنے نہ کیا ہو اور نہ ہی آپ کو اس کی خبر دی گئی ہو، توکیاوہ بھی آپؐ کی تقریر میں شامل ہے ؟ اس قسم کے اور مسائل میں بھی تفصیل ہے جو کہ اصولِ فقہ کی کتابوں میں درج ہے ۔ اُمت کے حق میں دین نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے کسی قول و فعل یا تقریر و تصویب پر جمہور و جلیل القدر صحابہ، کا عمل تھا یا نہیں، اس کے لیے کتب احادیث، سیرت النبی، سیرتِ صحابہ اور تاریخ کی کتب سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔

حاصل بحث

خلاصۂ کلام یہی ہے کہ ایک عامی شخص کا محض قرآن و سنت کے ترجموں سے کسی نئی فکر کا استوار کرنا یا کوئی نیا نظریہ قائم کرنا عصر حاضر کا ایک بہت بڑا فتنہ ہے جس میں کثیر لوگ مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو ایسے فتنوں سے بچائے جو اُمت کو انتشارِ ذہنی کی طرف لے کر جانے والے ہوں اور لوگوں کے دلوں میں علمائے سلف اور علم دین کی قدر اور عظمت کا احساس پیدا کرے۔ آمین!

نوٹ:یہاں پر یہ مضمون مکمل ہوا۔ اب اس کے حواشی پیش کیے جائیں گے۔ لیکن ان حواشی کے بعد ایک اور قسط بھی پیش کی جائے گی ۔ یہ آخری قسط در اصل اس مضمون کے بارے ملنے والے متعدد سوالات کے جوابات اور اس نقطہ نظر کی مزید تفہیم وتشریح پر مشتمل ہے۔

حواشی

[١٠٣] الوجیز، ص ١٦٥۔
[١٠٤] علوم الحدیث فی ضوء تطبیقات المحدثین النقاد، ص ١٥،١٦۔
[١٠٥] الوجیز، ص ١٦٥۔
[١٠٦] الاحکام فی اصول الاحکام، جلد١، ص٢٢٧، ٢٢٨۔
[١٠٧] الوجیز، ص٧٤۔
[١٠٨] مجموع الفتاویٰ،ج١، ص٢٨٠۔
[١٠٩] مجموع الفتاوی:جلد١، ص٢٨٠۔
[١١٠] سنن البیہقی الکبری، جلد٥، ص١٥٣۔
[١١١] صحیح ابی داود:١٨٧٨۔ وصحیح ابن ماجہ:٢٤٠٢۔
[١١٢] الالمام، ج١، ص ١٩٠۔
[١١٣] عارضة الاحوذی، ج٢، ص ٢٩٤۔
[١١٤] علامہ احمد العدوی، اصول فی البدع والسنن:ص٥٦۔
[١١٥] صحیح البخاری، کتاب الأطعمة، باب الشوائ۔
[١١٦] صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نھی من أکل ثوما أو بصلا أو کراثا أو نحوھا…۔
[١١٧] صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب البرانس۔
[١١٨] صحیح البخاری، کتاب الصلاة، باب عقد الزار علی القفا فی الصلاة۔
[١١٩] صحیح البخاری، کتاب الصلاة، باب ذا صلی فی الثوب الواحد فلیجعل علی عاتقیہ۔
[١٢٠] صحیح البخاری، کتاب الصلاة، باب الصلاة فی القمیص والسراویل والتبان والقبائ۔
[١٢١] فتاویٰ اللجنة الدائمة: ج١٤،ص ٤٣۔
[١٢٢] فتاویٰ اللجنة الدائمة: ج١٤، ص٤٤۔
[١٢٣] صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب الوصال۔
[١٢٤] صحیح البخاری، کتاب مواقیت الصلاة، باب ما یصلی بعد العصر من القوائت ونحوھا۔
[١٢٥] صحیح البخاری، کتاب الحج، باب الطواف بعد الصبح والعصر۔
[١٢٦] صحیح البخاری، کتاب الجمعة، باب اذا کلم وھو یصلی فاشار بیدہ واستمع۔
[١٢٧] صحیح البخاری، کتاب مواقیت الصلاة، باب لا تتحری الصلاة قبل غروب الشمس۔
[١٢٨] الاحکام، جلد١، ص٢٢٨۔
[١٢٩] صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب الاذان للمسافر۔
[١٣٠] صحیح الجامع الصغیر: ٧٨٨٢۔ وسنن النسائی، کتاب مناسک الحج، باب الرکوب الی الجمار۔
[١٣١] صحیح بخاری، کتاب الصلاة، باب ذا حمل جاریة صغیرة علی عنقہ فی الصلاة۔
[١٣٢] صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب جواز حمل الصبیان فی الصلاة۔
[١٣٣] سنن البیہقی الکبری، جلد٥، ص١٥٣۔
[١٣٤] صحیح مسلم، کتاب الحج، باب استحباب النزول بالمحصب یوم النفر والصلاة بہ۔
[١٣٥] صحیح مسلم، کتاب الحج، باب استحباب النزول بالمحصب یوم النفر والصلاة بہ۔
[١٣٦] صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب ینزع نعلہ الیسریٰ، ح ٥٤٠٧۔
[١٣٧] الحکام، جلد١، ص٢٢٨۔
[١٣٨] الحکام، جلد١، ص٢٢٨،٢٢٩۔
[١٣٩] صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صحة صوم من طلع علیہ الفجر و ھو جنب۔
[١٤٠] الاحکام، جلد١، ص٢٢٩۔
[١٤١] الوجیز:ص١٦٥۔
[١٤٢] اصول فی البدع و السنن:ص٥٦۔
[١٤٣] احکام القرآن، جلد١، ص٣٩١۔
[١٤٤] صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین وقصرھا، باب جواز الانصراف من الصلاة عن الیمین والشمال۔
[١٤٥] صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین وقصرھا، باب جواز الانصراف من الصلاة عن الیمین والشمال۔
[١٤٦] سنن النسائی، کتاب السھو، باب الانصراف من الصلاة۔
[١٤٧] صحیح البخاری، کتاب الاشربة، باب الشرف قائمًا۔
[١٤٨] موطأ مالک، کتاب الجامع، باب ما جاء فی شرب الرجل۔
[١٤٩] سنن الترمذی، کتاب الاشربة عن رسول اللہ، باب ما جاء فی الرخصة فی الشرف قائمًا۔
[١٥٠] صحیح الترمذی:١٨٨٠۔
[١٥١] ہدایة الرواة، ج٤، ص ١٨٠۔
[١٥٢] سنن الترمذی، کتاب الاشربة عن رسول اللہ، باب ما جاء فی الرخصة فی الشرف قائمًا۔
[١٥٣] صحیح البخاری، کتاب الجمعة، باب من اتی مسجد قباء کل سبت۔
[١٥٤] صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین وقصرھا، باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح۔
[١٥٥] صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین وقصرھا، باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح۔
[١٥٦] صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان۔
[١٥٧] صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب وجوب صلاة الجماعة۔
[١٥٨] صحیح مسلم، کتاب الحج، باب استحباب الرمل فی الطواف والعمرة۔
[١٥٩] شرح النووی علی صحیح مسلم، کتاب الحج، باب استحباب الرمل فی الطواف والعمرة۔
[١٦٠] صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب سواک الرطب والیابس للصائم۔
[١٦١] ارواء الغلیل، جلد١، ص١٠٤۔
[١٦٢] طرح التثریب:جلد٢، ص٦٨۔
[١٦٣] الدرایة، جلد١، ص ١٨۔
[١٦٤] فتاویٰ، جلد٨، ص٢٣٧١۔
[١٦٥] صحیح البخاری، کتاب الجمعة، باب السواک یوم الجمعة۔ وسنن الترمذی، کتاب الطھارة عن رسول اللہ، باب ما جاء فی السواک۔
[١٦٦] مسند احمد:٢٣٩٣۔
[١٦٧] مسند احمد، ج٥، ص ١٣٥۔
[١٦٨] سنن الترمذی، کتاب الصوم عن رسول اللہ، باب صیام المتطوع بغیر تبییت۔
[١٦٩] صحیح الترمذی: ٧٣٤۔
[١٧٠] صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب حجة الوداع۔
[١٧١] صحیح البخاری، کتاب الحج، باب کسوة الکعبة۔
[١٧٢] صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوة اوطاس۔
[١٧٣] صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب البرود والحبر الشملة۔
[١٧٤] فیض القدیر، جلد١، ص٣٩٤، المکتبة التجاریة الکبری، مصر۔
[١٧٥] ضعیف الجامع:٥٧٣۔
[١٧٦] صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة، باب من رأی ترک النکیر من النبیؐ حجة لا من غیر الرسول۔
[١٧٧] صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب حکم العزل۔