اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کے امتحان کے لیے انہیں مختلف آزمائشوں سے دو چار کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کوئی نعمت ہی اس کے بندوں کے لیے فتنہ یا آزمائش بن جاتی ہے،جیسا کہ مال اور اولاد کے بارے قرآن میں مذکور ہے کہ تمہارے لیے فتنہ ہے ۔برصغیر پاک و ہند میں حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی سے علومِ حدیث و سنت کے احیاء کی جو تحریک شروع ہوئی تھی وہ مختلف اَدوار سے گزرتی رہی ۔اسی تحریک کی وجہ سے علماء نے حدیث،تاریخ اورسیر تِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے متعلقہ سینکڑوں کتب کے تراجم کیے تاکہ عامة الناس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث،سیرت ،حیاتِ صحابہ اور تاریخ اسلام سے واقف ہو سکیں۔
بلاشبہ علماء کا یہ کام ایک علمی اور نفع بخش کام تھا۔لیکن جہاں ایک کام میں خیر کے پہلو ہوتے ہیں وہاں کچھ مفاسد بھی اس سے متعلق ہوجاتے ہیں ۔مصادرِ اسلامیہ سے متعلق ان سینکڑوں کتب کے تراجم کا ایک بڑا نقصان جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آیا، وہ یہ ہے کہ عامۃ ا لناس میں بعض افراد نے ان مترجم کتب کے جزئی مطالعہ کے بعد اپنے آپ کو درجۂ اجتہاد و افتاء پر فائز سمجھا اور مفکرا سلام کی نشست سنبھالتے ہوئے اسلام کی چودہ صد سالہ علمی تاریخ و روایت کو کارِ عبث قرار دیا ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث کے حوالے سے بھی معاصر معاشروں میں ہمیں سینکڑوں ایسے افکار و نظریات نظرآتے ہیں جو کہ راہِ اعتدال سے بہت دُور ہیں مثلاً قادیانی، نیچری، پرویزی اور جماعت المسلمین وغیرہ۔
بعض مفکرین نے ایک انتہا پر جاتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی قسم کی بھی تشریعی حیثیت ہی کوماننے سے انکار کر دیا تو دوسری طرف ایسا غلو بھی پیدا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ہر قول اور فعل کو یکساں درجے کی شریعت قرار دے دیا گیا۔اس مضمون میں ہمارے پیش نظر اِس وقت یہ دوسرا رویہ یا فکر ہے ۔ہمارے نزدیک اگر پہلا گروہ منکرین حدیث کا ہے تو دوسرے رویے کو’غلو فی السنۃ‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔اس فکر کے حاملین اپنے اخلاص کے باوصف سنت کے مسئلے میں اُس غلو میں مبتلا ہیں کہ جس غلوسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حج کے موقع پر فرمایا:
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح کہا ہے [۲] ۔امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کومسلم کی شرائط پر صحیح کہا ہے۔ [۳] علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے [۴] ۔
ایک مثبت رویہ تو یہ ہے کہ ایک شخص اگر حدیث کی مترجم کتابوں سے استفادہ کرتا ہے اورا س دوران اسے کچھ اشکالات پیش آتے ہیں تو وہ فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ کے قرآنی حکم کے مطابق علماء سے رجوع کر کے ان سے رہنمائی حاصل کرے۔اگر معاصر علماء سے وہ مطمئن نہیں ہے تو ٹھوس علمی بنیادوں پر علومِ اسلامیہ کی تعلیم حاصل کرے ۔قرآن،حدیث ،فقہ المقارن،اصول فقہ،اصول حدیث،اصول تفسیر،عقیدہ،علومِ بلاغت اورعلومِ لغت وغیرہ میں پختگی حاصل کرے اور عربی زبان میں موجود ائمہ سلف کے علمی ذخیرے سے براہِ راست استفادہ کرے۔لیکن اگر کوئی شخص ان بنیادی دینی علوم سے ناواقف ہو اور پھر بھی دین کے معاملات میں اپنی رائے پیش کرے تو ایسے شخص کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں اللہ تعالیٰ علماء کو اٹھا لیں اور لوگوں کی صورت حال یہ ہوگی :
محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسی زمانے کی علامات ہیں کہ علمی رسوخ رکھنے والے علماء کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اٹھا رہے ہیں اور ترجمہ شدہ کتابوں کا جزئی طور پر مطالعہ کرنے والے فتوے جاری کرنے لگے ہیں۔علم دین کے حصول میں سند اور استاد کی کیااہمیت ہے،اس کی اِن شاء اللہ ایک مستقل مضمون میں وضاحت کروں گا ۔فی الحال اصل مقصود اس فکر کا جائزہ لینا ہے کہ کیایہ کہنا درست ہے کہ اللہ کے رسول کا ہرہر قول اور فعل واجب الاتباع سنت ہے ؟
’سنت ‘کی لغوی تعریف
سنت کا لغوی معنی’راستہ‘یا ’طریقہ‘ہے ۔ابن منظور الافریقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
علامہ زبیدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
علامہ ابن الاثیر الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام راغب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
امام ابن فارس رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
سنت کا اصطلاحی مفہوم
فقہاء ،اصولیین،محدثین اور علمائے متکلمین نے سنت کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال کیا ہے۔ان علماء کا سنت کی تعریف میں یہ اختلاف،اختلاف ِ تضاد نہیں ہے بلکہ تنوع کا اختلاف ہے۔علماء کی ہر جماعت نے اپنے میدان،موضوع اور اس کے دائرہ کارکے اعتبار سے سنت کی تعریف کی ہے اور ان میں ہر جماعت دوسری جماعت کی سنت کی تعریف کو بھی مانتی اور قبول کرتی ہے۔
متکلمین کے نزدیک سنت کا مفہوم
علم عقیدہ اور علم فقہ میں سنت کا لفظ بدعت کے بالمقابل بولا جاتا ہے ۔لہٰذا عقائد و فقہ کی کتب میں جب بعض اوقات یہ بات کہی جاتی ہے کہ ‘‘یہ عمل سنت ہے ‘‘تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ بدعت نہیں ہے ۔اسی لیے ‘اہل سنت’ کا لفظ ‘اہل بدعت’ کا متضاد ہے اور اہل سنت سے مراد وہ جماعت ہے جو کہ اہل بدعت نہیں ہیں ۔
الدکتور وھبہ الزحیلی لکھتے ہیں :
اہل سنت کا لفظ اہل بدعت مثلا معتزلہ،جہمیہ،خوارج،مرجئہ،شیعہ،موولہ، مجسمہ ،جبریہ اور قدریہ وغیرہ کے بالمقابل عقیدے کی ایک اصطلاح ہے ۔
فقہاء کے نزدیک سنت کی تعریف
علم الفقہ میں سنت کا لفظ فرض کے بالمقابل استعمال کیا جاتا ہے ۔اور جب فقہاء کسی فعل کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ سنت ہے تواس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ فرض نہیں ہے۔
الدکتور وھبہ الزحیلی لکھتے ہیں :
عام طور پر اس سنت(یعنی جو فرض نہیں ہے) کو مندوب بھی کہتے ہیں۔
الدکتور عبد الکریم زیدان ’مندوب‘ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فقہاء نے عام طور پر مندوب کو تین طرح سے تقسیم کیا ہے اور ہر قسم کا الگ الگ حکم بھی بیان کیا ہے۔
مندوب کی پہلی قسم ’سنت مؤکدہ‘ کہلاتی ہے ۔الدکتور عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
مندوب کی دوسری قسم ’سنت غیر مؤکدہ’ کہلاتی ہے ۔الدکتور وھبہ الزحیلی اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
مندوب کی تیسری قسم ’مندوب زائدہ‘یا’عادت‘ کہلاتی ہے ۔اس کو بعض علماء ’سنت زائدہ’ بھی کہہ دیتے ہیں۔الدکتور وھبہ الزحیلی اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
مندوب زائد کو سنت زائدہ اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ سنت دین نہیں ہے،بلکہ دین سے زائد ہے،لیکن اگرپھربھی کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی نیت سے اس پر عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اس جذبے پر اسے اجر و ثواب دیں گے۔سنت زائدہ کو دین یا شریعت اسلامیہ کا جزو سمجھنا جہالت اور غلو فی الدین ہے ۔مندوب زائدیا سنتِ زائدہ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادی اُمور جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشری تقاضوں کے تحت سر انجام دیے،دین اسلام کا حصہ نہیں ہیں۔ آگے چل کر احادیث کے حوالے سے ہم اس موضوع پر مفصل بحث کریں گے۔الدکتور عبد لکریم زیدان لکھتے ہیں:
محدثین کے ہاں سنت کی تعریف
محدثین کے نزدیک سنت اور حدیث قریباً مترادف ہیں ۔سنت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال،افعال،تقریرات اورپیدائشی و اکتسابی اوصاف کا نام ہے ۔جبکہ ان چاروں چیزوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت حدیث کہلاتی ہے ۔یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول،فعل،تقریریا صفت کو جب کوئی صحابی اللہ کے رسول کی طرف منسوب کرتا ہے تو صحابی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس نسبت کو حدیث کہتے ہیں۔سنت اگراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال،افعال،تقریرات اور اوصاف کا نام ہے تو حدیث اس کی روایت ہے ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سنت اور حدیث میں کچھ فرق نہیں ہے۔حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ،افعال،تقریرات اور اوصاف کے حوالے سے جو کچھ بیان ہو رہا ہے وہ سنت ہے۔یہی وجہ ہے کہ حدیث کی امہات الکتب میں سے اکثر کے نام سنن سے شروع ہوتے ہیں مثلاً سنن ابی داؤد ، سنن نسائی،سنن ابن ماجہ وغیرہ ۔سنت اور حدیث میں ایک فرق یہ ہے کہ حدیث کا لفظ سنت کی نسبت عام ہےکیونکہ حدیث کامقصود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے متعلق جمیع حالات،واقعات،اقوال اور افعال وغیرہ کو جمع کرنا ہے، چاہے وہ بعثت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوں یا بعثت کے بعد ہوں۔جبکہ سنت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اقوال و افعال و تقریرات وغیرہ پر مشتمل ہو گی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور شریعت صادر ہوں۔اس پہلو سے غالب وصف کا اعتبار کرتے ہوئے احادیث کی کتب کو سنن کہا گیا ہے۔
الدکتور حمزة الملیباری سنت و حدیث کے اس باریک فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر حدیث شریعت نہیں ہےمثلاً وہ احادیث جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے ماقبل کی زندگی کے حالات و افعال پر مشتمل ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدائشی اوصاف کو بیان کرنے والی ہیں وغیرہ۔ جن احادیث کا تعلق شریعت سے ہے وہ سنت ہیں ۔اسی لیے جب بھی شریعتِ اسلامیہ کے مصادر کی بات کی جاتی ہے تو قرآن و سنت کہا جاتا ہے نہ کہ قرآن و حدیث۔دوسری اہم بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول یافعل سنت نہیں ہے بلکہ وہی اقوال وافعال سنن ہیں جو کہ بطور شریعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوئے ہیں۔اس موضوع پر ہم آگے چل کر مفصل بحث کریں گے۔
اصولیین کے نزدیک سنت کی تعریف
اصولیین کے نزدیک سنت کی تعریف میں الدکتور عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
اصولیین کا اصل موضوع یہ ہے کہ کیا چیز شریعت ہے اور کیا چیز شریعت نہیں ہے ۔اس لیے اصولیین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کوسنت کی تعریف میں شامل نہیں کیاکیونکہ اصولیین کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدائشی یا اکتسابی اوصاف سے کوئی حکم شرعی مستنبط نہیں ہوتاجبکہ محدثین کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکتسابی اوصاف سے بھی کوئی شرعی حکم نکل سکتا ہے لہٰذا انہوں نے اکتسابی اوصاف کو بھی سنت کی تعریف میں داخل کر دیا ہے۔ فقہاء کے مختلف طبقات نے مختلف پہلوؤں سے سنت کے معنی و مفہوم پر روشنی ڈالی ہے اور اِن معانی میں جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ،کوئی تضاد نہیں ۔فقہاء،محدثین اور اصولیین کے نزدیک سنت کا اطلاق صرف انہی امور پر ہو گا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور شریعت صادر ہوئے ہیں۔
ہمارے بعض دوستوں کا یہ خیال ہے،جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول و فعل سنت ہے،لہٰذا اس کی پیروی کرنی چاہیےکیونکہ قرآن میں ہمیں آپ کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔کیا آپ کا ہر قول اور فعل سنت ہے اور ہمارے لیے قابل تقلید نمونہ ہے ؟ ہم اس سوال کا جواب براہ راست احادیث،صحابہ اور تابعین کے طرز عمل میں تلاش کریں گے۔ ہم یہاں پر محدثین اور اصولیین کی اصطلاح کے اعتبار سے اپنی بحث کو آگے بڑھائیں گے اور یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال،افعال اور تقریرات وغیرہ میں کیا سنت(یعنی شریعت) ہے اور کیا سنت(یعنی شریعت) نہیں ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی حیثیت سے اصولی طور پر یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ آپ کا ہر قول شریعت ہے بشرطیکہ وہ تشریع کے لیے آپ سے صادر ہوا ہو۔ کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کے الفاظ ہیں :
امام ابن حجر نے اس حدیث کو قابل احتجاج قرار دیا ہے۔ [۲۱] علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہاہے۔ [۲۲]
قرآن کی مذکورہ بالا آیت اور اس قسم کی روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلام بھی شرع بیان کرنے کے لیے کیا ہے وہ حق ہے، حجت ہے، وحی ہے اور قابل اتباع ہے۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کا ہر قول کسی شرعی حکم کو بیان کرنے کے لیے نہیں ہوتا تھا۔ بعض اوقات آپ ہماری طرح دنیاوی اُمور میں بھی گفتگو کرتے تھے اور آپ کایہ کلام کسی شرعی حکم کے استنباط کے لیے مصدر کی حیثیت نہیں رکھتا ہے ۔الدکتور عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
اس موضوع پر کہ “آپ کا ہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے” شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب حجة اللہ البالغة میں المبحث السابع: مبحث استنباط الشرائع من حدیث النبی کے تحت مختصر لیکن بہت عمدہ بحث کی ہے ۔ شاہ صاحب کے نزدیک آپ کے وہ اقوال جو تبلیغِ رسالت کے باب سے نہیں ہیں(یعنی دنیاوی امور سے متعلق ہیں) ، بعض حضرات کے مناقب سے متعلق اقوال،طب سے متعلق بعض اقوال ،آپ کے دور میں کسی جزئی مصلحت کے حصول کے لیے آپ کے جاری کردہ احکامات،آپ کے عادی امور، آپ کے فیصلے(یعنی قضاء) اور آپ کے بعض احکامات کا آپ کی قوم کے بعض لوگوں کے لیے خاص ہوناوغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔شاہ صاحب نے اس موقف کی دلیل کے طور پرکہ آپ کاہر قول ہمارے لیے شریعت نہیں ہے، ایک حدیث کو بیان کیا ہے۔حضرت خارجہ بن زید بن ثابت سے روایت ہے :
امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’حسن’ کہا ہے۔ [۲۵] امام ابن حجررحمہ اللہ نے اس روایت کو ’حسن‘ کہا ہے۔ [۲۶] حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت سے حجت پکڑی ہے ۔جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’ضعیف‘ کہا ہے [۲۷] ۔
‘سنن البیہقی’ کی ایک روایت میں أَوَکُلَّ ھٰذَا نُحَدِّثُکُمْ عَنْہُ؟ کے الفاظ بھی ہیں ۔ بعض دوستوں کا خیال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول پر عمل ضروری ہے ۔ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور آپ کی اطاعت اُمت پر لازم ہے،لہٰذا جہاں بھی آپ کا کوئی قول آ جائے، چاہے وہ دنیا سے متعلق ہو یا دین سے ، تو اس پر عمل کرنا لازم ہو گا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال آپ کی اطاعت میں داخل ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور آپ کی اطاعت ہر اُمتی پر فرض ہےلیکن کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر قول یا ہر ہر بات، چاہے وہ دین سے متعلق ہو یا دنیا سے ، اطاعت کی تعریف میں داخل ہے ؟ اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے تو یہ موقف درست نہیں ہے۔ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معنی و مفہوم اور شرعی حکم اطاعت سے کیا مراد ہے ؟معروف لغوی ابن سیدہ نے اطاعت کی تعریف ‘لَانَ وَانْقَادَ’ سے کی ہے،یعنی نرم و لچکدارہونا اور تابع بننا۔دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ مزاحمت (resistance) ترک کرکے کسی کی بات ماننا اور اس کا فرماں بردار ہونا اطاعت ہے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جب اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرکو بلوا کر کہا: أَطِعْ أَبَاکَ یعنی مزاحمت ترک کر کے اپنے اندر لچک پیدا کر اور اپنے باپ کی بات مان لے۔ لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ہر قسم کی مزاحمت ترک کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننا ہے۔
قرآن میں اطاعت کا لفظ کفار اور اہل ایمان دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے،لیکن دونوں کے لیے اس کے معنی میں باریک فرق ہے ۔قرآن میں جب کفار ،مشرکین،اہل کتاب اور منافقین سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس سے مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل مزاحمت ترک کر کے ان پر ایمان لانے میں ان کی بات ماننا ہے۔ جیسا کہ حضرت نوح،حضرت صالح،حضرت ہود،حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلامنے اپنی اپنی قوم کو
کا حکم جاری کیا۔ان آیات میں اطاعت سے مرادنبی پر ایمان لانے میں اس کی بات ماننا ہے ‘کیونکہ ایک شخص رسول کو رسول مانتا ہی نہ ہو تو اس سے اس چیز کا مطالبہ کرنا کہ وہ رسول کے احکامات پر عمل کرے،عبث ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی بھی رسول کی ایسی اطاعت کا منکر کافر ہے۔
سورہ آل عمران کی آیت
میں اطاعت سے مراد رسول کے ایمان لانے کے مطالبے میں اس کی اطاعت ہے۔امام سیوطی نے’تفسیر جلالین’ میں اس آیت کی تقدیر عبارت یوں بیان کی ہے :
جمہور مفسرین امام ابن جریر طبری، امام رازی ، امام قرطبی ، امام بیضاوی، امام بغوی، امام ابن عطیہ، علامہ ابن جوزی، امام ابو حیان الاندلسی، علامہ آلوسی اور علامہ ابو بکر الجزائری رحمہم اللہ نے اپنی تفاسیر میں اس آیت کے شان نزول کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت مبارکہ نجران کے عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہ اللہ سے محبت کرنے کے دعوے دار تھے ۔بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے یہ آیت مبارکہ ان یہود کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے نَحْنُ اَبْنَائُ اللہِ وَاَحِبَّاوُہ کا دعویٰ کیا ہے ۔ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ عبد اللہ بن ابی اور اس کے ان ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو صرف اللہ کی اطاعت کا دعویٰ کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے انکاری تھے۔
ہمارے خیال میں یہ تینوں ہی اس آیت کے شان نزول ہو سکتے ہیں اور اس کے مصداقات بنتے ہیں۔اگر اس آیت میں اہل کتاب سے خطاب مراد لیا جائے،جیسا کہ جمہور مفسرین کی رائے ہے،تو پھر فَاِنْ تَوَلَّوْا سے مراد ان کا اللہ اور اس کے رسول کے مطالبۂ ایمان میں ان کی بات نہ ماننا ہے ۔اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کے مطالبے میں ان کی بات سے اعراض کرے تو ایسا شخص بلاشہ کافر ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص منافقین کی طرح صرف اللہ کی اطاعت کا قائل ہو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا مطلقًا انکاری ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مُطَاع نہ سمجھتا ہو تو ایسا شخص بھی بلا شبہ دائرئہ اسلام سے خارج اور زندیق ہے۔لیکن کیا یہ آیت مبارکہ اس شخص کو بھی کافر قرار دیتی ہے جو کہ مؤمن صادق ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو بھی اللہ کی اطاعت کی طرح فرض سمجھتا ہے لیکن بعض جزوی مسائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملا اطاعت نہیں کرتا ؟ اس مسئلے میں اہل سنت کے ہاں تفصیل ہے جس کو ہم جابجا اس مضمون میں واضح کریں گے۔ مفسرین نے اپنی تفاسیر میں واضح کیا ہے کہ فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کانافرمان مؤمن صادق داخل نہیں ہے ۔
ایک شخص اگر اللہ کی طرح اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہر اعتبار سے مُطاع مانتا ہے لیکن پھر بھی بعض ضروری معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملا اطاعت نہیں کرتا تو ایسا شخص تمام اہل سنت کے نزدیک کافر نہیں ہے،ہاں گناہ گار اور فاسق ہو گا۔بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میری فلاں بات پر عمل کرو،اگر عمل نہیں کرو گے تو کافر ہو جاؤ گے۔ اب اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا قائل تو ہو لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کرے تو کیا یہ شخص کافر ہو گا؟اس کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کے جو گروہ میری وفات کے بعدآپس میں قتال کریں گے تو وہ کافر ہو جائیں گے ۔اسی طرح مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللہِ فَقَدْ کَفَرَ اور بَیْنَ الْمُسْلِمِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاةِ اور اِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِاَخِیْہِ یَا کَافِرُ فَقَدْ بَائَ بِھَا أَحَدُھُمَا اور سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْق وَقِتَالُہ کُفْر وغیرہ کی طرح کی بہت سی ایسی احادیث مبارکہ موجود ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی حکم کی خلاف ورزی کوکفر قرار دیا ہے ۔تو کیاان احکامات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والا شخص کافر ہے؟
اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس طرح کا شخص ایسا کافر نہیں ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے اور دائمی جہنمی ہو۔ اہل سنت کا ایک گروہ اس کو کُفْر دُوْنَ کُفْرٍ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسے شخص کا کفر ‘عملی کفر’ ہے۔ائمہ ثلاثہ یعنی امام مالک،امام شافعی،امام احمد اور محدثین رحمہم اللہ کا قول یہی ہے ۔جبکہ اہل سنت کا دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ ‘کفر مجازی’ ہے یعنی حقیقی نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور بعض فقہاء کا یہی قول ہے ۔لہٰذ ایسے شخص کو عملی کافر کہیں یا مجازی کافر بہر حال اس بات پر جمیع اہل سنت کا اتفاق ہے کہ ایسا شخص ‘کافر حقیقی’ نہیں ہے کہ جس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو یا آخرت میں دائمی جہنم کا مستحق ہو۔ [۲۹]
اس کے برعکس خوارج اور معتزلہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان احادیث کی وجہ سے گناہ کبیرہ کامرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ خوارج اس کو کافر بھی قرار دیتے ہیں جبکہ معتزلہ کافر نہیں کہتے،لیکن یہ دونوں گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ وہ دائمی جہنمی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ خوارج نے صحابہ کرام پر کفر کے فتوے لگائے اورحضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابہ کے خون کو مباح قرار دیا ۔اگر خوارج اور معتزلہ کا نظریہ مان لیا جائے پھر تو معاذ اللہ! جنگ جمل اور جنگ صفین میں شامل تمام صحابہ کافر ہو گئے تھے؟ کیونکہ انہوں نے لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کی تھی۔
اب اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر بعض مفسرین مثلاً ابن کثیر وغیرہ نے فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ سے مراد مسلمانوں کا ایک گروہ لیا ہے تو اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہے کہ مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جزوی عدم اطاعت سے حقیقی کافر ہو جاتے ہیں، بلکہ ان کی مراد یہاں پر کُفْر دُوْنَ کُفْرٍ اور عملی کفر ہے۔ امام ابن کثیر کے شاگرد ابن ابی العز الحنفی رحمہما اللہ نے شرح عقیدہ طحاویہ میں لاَ نُکَفِّرُ اَحَدًا بِذَنْبٍ کےتحت اس موضوع پر کافی مفصل بحث کی ہے ۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ کُفْر دُوْنَ کُفْرٍ کی اصطلاح مابعد کے زمانوں کی نہیں ہے ،بلکہ اسے سب سے پہلے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے استعمال کیا تھا۔
اوپر ہم اس مسئلے کو زیر بحث لائے ہیں کہ ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کو لازمی حکم مانتا ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حکم میں اطاعت نہیں کرتاتو اس کا کیا حکم ہے؟ صحیح روایات اور ائمہ اہل سنت کی رائے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ایسا شخص عدم اطاعت کے باوجود کافر نہیں ہے۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے میں اپنی عدم اطاعت کو کفر قرار دیا ہے تو پھر بھی وہ شخص حقیقی کافر نہ ہو گا بلکہ مجازی یا عملی کافر ہو گا، جیسا کہ صحابہ بعض ایسے احکامات میں عدم اطاعت کے مرتکب ہوئے ہیں جن کے ارتکاب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر قرار دیا تھا۔ اب دوسرے مسئلے کی طرف آتے ہیں کہ کوئی مسلمان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی لازمی حکم کا انکار کر دے تو اس کا کیا حکم ہے۔اب اس انکار کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس لازمی حکم کو منسوخ سمجھتا ہو یا اس کی کوئی ایسی تأویل کرتا ہو کہ وہ لازمی حکم اس کے نزدیک لازمی نہ رہے، مستحب یا مباح کے دائرے میں چلا جائے۔ یا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کوبعض حالات یا اسباب کے ساتھ خاص قرار دیتا ہویا کوئی بھی وجہ نہ ہو اور وہ اس کا انکار کر دے وغیرہ۔اگر کوئی شخص کسی سنت کو منسوخ سمجھے یا اس کی تأویل کرے یا اس کو بعض حالات و اسباب سے خاص قرار دے،تو ایسی صورت میں اس سنت کا منکر اہل سنت کے نزدیک بالاتفاق کافر نہ ہو گا۔
حال ہی میں ایک نیا فلسفہ یہ بھی متعارف ہوا ہے کہ کسی فرض کی ادائیگی کا جو طریقہ ہمیں بذریعہ سنت ملتا ہے،فرض کی ادائیگی میں ہر صورت اس طریقے کی پیروی اُمت مسلمہ کے لیے لازم ہے۔ اور اگر کوئی شخص اس طریقے سے کسی فرض کو ادا نہیں کرتا جس طرح سے سنت میں اس کی ادائیگی کا طریقہ ملتا ہے تو ایسے شخص کا نہ تو وہ فرض اداہو گا اور نہ ہی وہ اُخروی نجات حاصل کر سکے گاکیونکہ فرض کی ادائیگی کا جو طریقہ سنت سے ملتا ہے وہ اطاعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم اطاعت کو فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ میں کفر قرار دیا گیا ہے۔
اس نظریہ کے حامل حضرات اس کے لیے ایک مثال بیان کرتے ہیں کہ نماز فرض ہے اور اس کی ادائیگی کا طریقہ سنت سے ملتا ہے، لہٰذ ااگر کوئی سنت کے مطابق یہ فرض ادا نہیں کرتاتو اس کی نماز قبول نہیں ہے اور نہ ہی اس کی نجات ہو گی ۔اسی طرح اقامت دین، نفاذ شریعت اور جہاد کی جدوجہد فرض ہے۔ اس کی ادائیگی کا طریقہ سنت سے ملتا ہے،اور جو کوئی (مِن وعَن) اس منہج کے مطابق اقامتِ دین کی جدوجہد کا فریضہ سرانجام نہیں دے رہا جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ملتا ہے تو ایسے شخص کا یہ فریضہ ادا نہ ہو گا او ر نہ ہی اُخروی نجات ہو گی(مثلاً جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت، حزب التحریر، علمائے دیوبند، جماعت اہل حدیث، جماعۃ الدعوۃ اور دیگر جہادی تحریکیں وغیرہ) ۔کیونکہ ان حضرات کے نزدیک یہ تمام گروہ یا تو اقامت دین کا فرض ادا ہی نہیں کر رہے یا اگر ادا کر رہے ہیں تو سیرت کے طریقے کے مطابق ادا نہیں کر رہے ۔
اس نقطۂ نظر کے حاملین کو ہمارا جواب یہ ہے کہ جہاں تک نماز کاتعلق ہے تو نماز کو جس طرح فرض قرار دیا گیا ہے اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ کے ذریعے اس کا سنت کے مطابق پڑھنا بھی فرض قرار دیا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ حج کا بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی فرضیت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اس کو اس طریقے کے مطابق ادا کرنا بھی لازم قرار دیا ہے جس طریقے پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ادا کیاہے۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا: خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ یعنی مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو۔ لیکن بہت سے فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کو تولازم قرار دیا گیا ہے لیکن ان کو اس طریقے پر ادا کرنا جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا ہے ،شریعت اسلامیہ میں لازم نہیں کیا گیا ہے۔مثلاً مسلمانوں پر فرمانِ الٰہی کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ کے ذریعے قصاص کو لازم کیا گیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قصاصاًقتل کرنے کے لیے تلوار سے گردن اڑائی جاتی تھی۔ اب اس کی جگہ پھانسی کے طریقے نے لے لی ہے۔اب کون سا عالم دین ایسا ہے جو یہ فتویٰ جاری کرے گا کہ بذریعہ پھانسی قصاص لینے سے قصاص کا فریضہ ادا نہیں ہوتا اور اگر کوئی اسلامی ریاست قصاص کے حکم کی ادائیگی کے لیے پھانسی کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو اس کی اُخروی نجات ممکن نہیں ہے ؟
حق بات یہ ہے کہ جس فرض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کے طریقے کو بھی لازم قرار دیا گیا ہو اُس فرض کو اس طریقے کے مطابق ادا کرنا لازم ہے ‘لیکن جن فرائض میں صر ف فرض کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے’ کوئی طریقہ لازم نہیں کیا گیا ان فرائض کی ادائیگی کے لیے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی لیتے ہوئے کوئی بھی ایساطریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے جس سے اس فرض کی ادائیگی بہتر طریقے سے ہو سکے ‘بشرطیکہ وہ طریقہ کسی شرعی نص کے خلاف نہ ہو۔مثلاً اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ظلم کے خاتمے اور عدل کے قیام کے لیے قتال کو اُمت مسلمہ پر فرض قرار دیا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے حالات و واقعات ا ور اسباب و وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے کبھی صلح کی اور کبھی جنگ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلواروں سے جنگ لڑی اور گھوڑوں ‘ اونٹوں وغیرہ پر سفر کیا’اپنے دفاع کے لیے کبھی خندق کھودی تو کبھی آگے بڑھ کر اقدام کیا’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت بھی کی اوراللہ کے دشمنوں کو قتل بھی کیا اور معاف بھی کیا۔
اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہم نے بھی کسی مسلمان معاشرے مثلاً پاکستان میں ظلم کے خاتمے، اللہ کے دین کی سر بلندی اور نظامِ عدل کے قیام کے لیے بعینہ اسی منہج کو اختیار کرنا ہے جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دَور میں اختیار کیاتھا تو گویا وہ یہ کہہ رہاہے کہ ہمیں لازماً ہجرت بھی کرنی ہو گی، جس کے لیے شایدافغانستان مناسب جگہ ہو، اورپاکستانی افواج سے قتال بھی کرنا ہو گا، غزوۂ بدر کی طرح حکومت کے سرکاری خزانوں کو لوٹنے کے لیے اقدام بھی کرنا ہو گا اور غزوہ اُحد کی طرح پاکستانی افواج سے لڑائی بھی؛ ہمیں اپنے دفاع کے لیے خندق بھی کھودنی ہوگی اور صلح حدیبیہ کی طرح اللہ کے دشمنوں یعنی حکومت پاکستان سے صلح بھی کرنی ہو گی ۔غزوہ خیبر کی طرح اسرائیل پر بھی حملہ کرنا ہوگا اور فتح مکہ کی طرح دس ہزار کا لشکر لے کر حکومت پاکستان پر چڑھائی بھی ۔یہ وہ نتائج ہیں جو اس طرزِ فکر سے لازماً برآمد ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس قول کے قائلین ان نتائج کو بقائمی ہوش و حواس قبول نہیں کریں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بحیثیت مجموعی ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔ یعنی ہم سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جزئیات اور تفصیلات سے قطع نظر اس سے من جملہ رہنمائی لے سکتے ہیں، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اس آیت کے معنی و مفہوم پر ہم آگے چل کر تفصیلی بحث کریں گے ۔لہٰذا اقامت دین یا نفاذ شریعت یا جہاد وقتال کے فرض کی ادائیگی کے لیے سیر ت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مجموعی رہنمائی لیتے ہوئے عصر حاضر میں کوئی منہج اختیار کرنا تو درست بھی ہو گا اور مطلوب بھی، لیکن اس فرض کی ادائیگی کے لیے سیرت کو بالتفصیل یا جزئی طور پر حجت قرار دینا سوائے غلو فی الدین اور شرعی نصوص کی خلاف ورزی کے اور کچھ نہیں ہے۔آپ کا ارشاد ہے:
امام ابن حجر نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔ [۳۱] امام ابن الصلاح نے اس کو ’دون الحسن‘ کہا ہے۔ [۳۲] علامہ احمد شاکر نے اس کو ’صحیح‘ کہا ہے۔ [۳۳] علامہ البانی نے اس کو ’ضعیف‘ کہا ہے۔ [۳۴]
شارحینِ حدیث نے وضاحت کی ہے کہ اس روایت سے مراد وہ افراد ہیں جو کہ قرآن کی تفسیر کی اہلیت نہیں رکھتے اور پھر بھی اس کی تفسیر کرتے ہیں ۔تو گویا یہ حضرات قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں۔اب اگر کوئی شخص ضروری علومِ اسلامیہ سے ناواقف ہواور وہ قرآنی آیات کی تطبیق اسلامی معاشروں پر شروع کر دے اورمسلمانوں کے سوادِ اعظم کوکافر مشرک اور منافق بنا دے توایسا شخص بھی اس حدیث کا مصداق ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کی اس قدر مذمت کی ہے کہ اگر اس کی رائے درست بھی ہو جائے تو پھر بھی وہ خطا کار ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تمام مختصر راستے ( short cuts) بند کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ علومِ اسلامیہ کو سیکھے بغیر قرآن کی تفسیر و تعبیر کی طرف لے جانے والے ہوں ۔
پس عامی اگر کسی پر کفر کا فتویٰ لگائے تو وہ درحقیقت اپنے اوپر کفر کا فتویٰ لگا رہا ہوتاہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مقصود یہ ہے اگر تو جس کو اس نے کافر کہا وہ واقعتا کافر ہوا تو یہ کہنے والا سچا ہے ‘اور اگرجس کو اس نے کافر کہا ہے وہ اللہ کے نزدیک کافر نہیں ہے توکہنے والا شخص خود کافر بن جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ علماء کفر کا فتویٰ لگانے میں بہت محتاط ہیں ۔
جہاں تک اُخروی نجات کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں اہل سنت کا متفق علیہ عقیدہ یہی ہے کہ ہم کسی بھی مسلمان پرکسی فرض کی ادائیگی کے ترک یا حرام کے ارتکاب کی وجہ سے یہ فتویٰ نہیں جاری کریں گے کہ اس کی نجات نہیں ہوگی ۔اہل سنت کے نزدیک ایسا فتویٰ جاری کرنا شرک ہے ۔مثلاً ایک صحیح روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ بنی اسرائیل میں دو دوست تھے ۔ان میں ایک بڑا متقی اور پر ہیز گارتھا جبکہ دوسرا عرصۂ دراز سے کسی گناہ کبیرہ میں مبتلا تھا۔اس متقی کا جب بھی اپنے گناہ گار بھائی کے پاس سے گزر ہوتا تو وہ اس کو اس گناہ سے منع کرتا تھا ۔اسی طرح سالہا سال گزر گئے ۔ایک دن وہ گناہ گار آدمی اپنے متقی بھائی کی تبلیغ کے جواب میں کہنے لگا :
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے [۳۷] ۔شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے بھی اس کی سندکو صحیح کہا ہے۔ [۳۸]
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی درجہ بندی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول ہمارے لیے شریعت ہے یانہیں،اور اگر ہے تو اس میں کوئی درجہ بندی بھی ہے یا نہیں؟ اس بات کی وضاحت اس لیے ازحد ضروری ہے کہ نا واقفیت کی بنا پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں دو ایسی انتہائیں وجود میں آجاتی ہیں جو سنت کی حیثیت کو افراط و تفریط کا شکار کر کے اہل سنت کے منہج سے دور لے جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک انتہا وہ ہے جسے منکرین سنت نے اختیار کیا کہ سنت کی آئینی حیثیت کا انکار کردیا جائے یا اسے چند مَن چاہی سنتوں تک محدود کردیا جائے، اور دوسری انتہا یہ نظریہ ہے کہ اقوالِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جانے والی تعلیمات میں تکلیف ِ شرعی کے اعتبار سے درجہ بندی کو یہ کہہ کر ردّ کردیا جائے کہ یہ تو فقہاء کی پیدا کردہ تقسیم ہے جس سے سنت کا استخفاف ہوتاہے لہذا سنت تو سنت ہے ، اس کی پیروی ہونی چاہیے، چاہے رفع الیدین کی سنت ہو یا عمامہ اور تہبند باندھنا ، دونوں کا درجہ ایک ہی ہے ۔ذیل میں ہم اس بحث کو سمجھنے کے لیے حدیث کی کتب سے چند اصول پیش کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ وضاحت کے لیے براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کے حوالے پیش کیے جائیں تاکہ کسی کو یہ اعتراض نہ ہو کہ اصول فقہ تو بہت بعد کی پیداوار ہے جس میں (معاذاللہ) سنت کی درجہ بندی کر کے استخفافِ سنت جیسے فتنوں کا راستہ پیدا کردیا گیا ہے ۔
پہلا اصول
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے بعض اوقات کسی فعل کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کوصحیح کہاہے۔ [۴۰] علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ [۴۱] اس حدیث میں آپ نے کسی اجنبی عورت پر اچانک نظر پڑ جانے کی صورت میں اس سے اپنی نظریں پھیرنے کا جو حکم دیا ہے یہ حکم فقہاء کے نزدیک وجوب کا فائدہ دے رہاہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کے اس حکم کا انکار کر دے تو اس شخص کا کسی اسلامی معاشرے میں حکم(status) کیاہے؟ کیاایسا شخص کافرہے؟
جمہور علمائے مالکیہ، شوافع، حنابلہ، اہل الظاہر اور اہل الحدیث کے نزدیک اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے کوئی ایسا حکم ثابت ہو جس کے کرنے کو لازم ٹھہرایا گیا ہو تو اسے فرض یا واجب کہتے ہیں۔ لہٰذافرض یا واجب وہ ہے جس کے کرنے کو شارع نے مکلف پر لازم ٹھہرایا ہو اور اس کو نہ کرنا باعث ملامت بھی ہو اور اس کا تارک آخرت میں سزا کا بھی مستحق ہو۔ جمہور علماء کے نزدیک فرض اور واجب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں ایک ہی شے ہیں ۔چاہے کسی حکم کا لزوم قرآن سے ثابت ہو یا سنت سے، دونوں ہی فرض ہیں۔ جبکہ احناف کے نزدیک فرض وہ ہے جو کہ قطعی ذریعہ مثلاً قرآن، متواتر حدیث یا اجماعِ اُمت سے ثابت ہواوراس کے کرنے کوشارع نے لازم ٹھہرایا ہو، جبکہ واجب وہ ہے جو کہ ظنی ذریعہ یعنی خبر واحد سے ثابت ہو اور اس کے کرنے کو شارع نے لازم ٹھہرایا ہو۔ جمہور ائمہ اہل سنت مالکیہ، احناف، شوافع، حنابلہ اور اہل الحدیث کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کسی فعل کی فرضیت یا وجوبیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (یعنی خبر واحد)سے ثابت ہو رہی ہواور کوئی شخص اس فرض یا واجب کو ماننے سے انکار کر دے تو اس کے منکر کو دنیا میں ملامت کی جائے گی اور وہ آخرت میں سزا کا بھی مستحق ہو گا ،لیکن اس کی تکفیرنہیں کی جائے گی۔الشیخ عاصم الحداد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایسی سنت کے منکر پر دنیا میں کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جائے گا لیکن اس کو سخت ملامت کی جائے گی اورآخرت میں بھی سزا کا مستحق ہو گا۔اسی طرح ایسی سنت کے تارک کو بھی دنیا میں ملامت اور آخرت میں سزا ہو گی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ خبر واحد سے ثابت ہونے والے کسی حکم کی فرضیت یا وجوبیت پر اگر علمائے اُمت کا اجماع ہوتو پھر اس سنت کے منکر کی اجماع کی خلاف ورزی کی وجہ سے تکفیر کی جائے گی۔
دوسرا اصول
بعض اوقات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے استحباب ثابت ہوتا ہے۔مستحب سے مراد یہ ہے کہ شارع نے کسی کام کے کرنے کا مطالبہ کیا ہو لیکن اس کو مکلف پر لازم قرار نہ دیا ہو۔بعض اوقات مستحب میں تاکید زیادہ ہوتی ہے اور بعض اوقات کم۔ اسی لیے فقہاء نے اس کی دوقسمیں کی ہیں’ یعنی مؤکدہ اور غیر مؤکدہ ۔آپ کے اقوال سے بعض اوقات سنت مؤکدہ ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
یہ ذہن میں رہے کہ جمہور فقہاء اور محققین اصولیین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن و سنت میں جہاں بھی امر کا صیغہ آئے گا اس سے مراد فرضیت یا وجوب ہو گا، لیکن اگر کچھ منصوص یا غیر منصوص قرائن ایسے ہوں جن سے معلوم ہو کہ یہ حکم یہاں لزوم کے لیے نہیں ہے تو پھر اس سے مراد استحبا ب لیا جائے گا۔بعض دوسری صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم یہاں وجوب کے لیے نہیں ہے۔ ان روایات کو اما م عبد الرحمن مبارکپوری نے سنن الترمذی کی شرح تحفة الاحوذی میں بیان کیا ہے ۔امام ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
لہٰذاتحیة المسجد کی دو رکعات سنت مؤکدہ ہے۔جہاں تک اس بات کا معاملہ ہے کہ یہ کیسے معلوم ہو گا کہ اگر آپ کا قول وجوب کے لیے نہیں ہے تو پھر سنت مؤکدہ ہے یا غیر مؤکدہ؟ اس کا تعین بھی قرائن سے ہوگا اور یہ قرائن منصوص بھی ہوسکتے ہیں، مثلاً دوسری احادیث مبارکہ، اور غیر منصوص بھی، مثلاً صحابہ کا عمل وغیرہ۔ امام عبد الرحمن مبارکپوری نے تحفة الاحوذی میں اس موضوع سے متعلق کافی روایات کو اکٹھا کیا ہے جن کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تحیة المسجد کی دو رکعات سنت مؤکدہ ہیں نہ کہ غیر مؤکدہ۔طوالت کے خوف سے ہم ان روایات کو یہاں بیان نہیں کر رہے۔
جہاں تک سنت مؤکدہ کے حکم کا تعلق ہے تو ہم پہلے بھی اسے بیان کر چکے ہیں کہ سنت مؤکدہ کے منکر کی تکفیر نہیں کی جائے گی ۔اس پر عمل کرنے والے کو ثواب ہو گا اور اس کے تارک کو دنیا میں ملامت کی جائے گی، لیکن آخرت میں عذاب نہیں ہو گا۔سنن مؤکدہ کے حکم کے بارے میں دو ابحاث بڑی اہم ہیں :
ا : اگر کوئی شخص کسی سنت مؤکدہ کو مستقل طور پر ترک کر دے تو یہ جائز نہیں ہے۔ مثلاً کوئی ساری زندگی صرف فرض نماز پڑھتا رہے اور سنن مؤکدہ ادا نہ کرے تو شرعاً گناہ گار ہو گا۔
ب: اگر کوئی معاشرہ، جماعت یا گروہ کسی سنت مؤکدہ کو کلی طور پر ترک کر دے تو یہ جائز نہیں ہے۔امام شاطبی نے اس بارے میں ‘الموافقات’ میں بڑی عمدہ بحث کی ہے کہ ایک سنت مؤکدہ فرد کے اعتبار سے تو سنت ہوتی ہے لیکن اجتماع یا معاشرے کے اعتبار سے فرض کفایہ ہوتی ہے ۔مثلاً نکاح کرنا جمہور علماء کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے۔ اگر کوئی شخص ذاتی طور پرنکاح کی ضرورت محسوس نہ کرے یا کسی اور وجہ سے نکاح نہ کرے تو دنیا میں تو اسے بغیر کسی شرعی عذر کے نکاح نہ کرنے پر ملامت کی جائے گی لیکن آخرت میں وہ عذاب کا مستحق نہ ہو گا لیکن کسی مسلمان معاشرے کے لیے یہ بالکل بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اجتماعی طور پر نکاح کی سنت کو ترک کر دے۔ایسی صورت میں سارا معاشرہ گناہ گار ہو گا اور آخرت میں عذابِ الٰہی کا مستحق ہوگا۔
بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے کسی فعل کے مستحب ہونے کا علم ہوتا ہے اور یہ فعل سنتِ غیرمؤکدہ ہوتا ہے نہ کہ سنت مؤکدہ۔مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان کے الفاظ ہیں:
یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے قرینے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس حدیث میں یہ حکم وجوب کے لیے ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حکم استحباب کے لیے ہے’ جیسا کہ صحابہ کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ حضر ت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ خضاب کرتے تھے جبکہ حضرت علی، حضرت انس، حضرت اُبی بن کعب اور حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہم وغیرہ خضاب نہیں کرتے تھے۔ [۴۶]
وہ روایات جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کاحکم دیاہے ان کا اسلوبِ بیان بھی ایسا ہی ہے کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرو یا مشرکین کی مخالفت کرو اور داڑھی بڑھاؤ ۔ان راویات میں داڑھی رکھنے کا حکم وجوب کے لیے ہے کیونکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل اس بات پر قرینہ ہے کہ یہ امر وجوب کے لیے ہے ۔
ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ المزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اس حدیث میں لِمَنْ شَاءَ کے الفاظ سے واضح ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم استحباب کے معنی میں ہے۔دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صحابہ سنت کا لفظ سنت مؤکدہ (یعنی ایسی سنت جس کا چھوڑنا باعث ملامت ہو) کے لیے بھی استعمال کرتے تھے؛ اسی لیے صحابی نے یہ وضاحت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لِمَنْ شَاءَ کے ذریعے واضح کیا کہ لوگ اس عمل کو سنت( مؤکدہ) نہ بنا لیں۔امام ابن حجر ا س حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
تیسرا اصول
بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مبارک کسی فعل کی اباحت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے۔مثلاً :
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید میں بنی اسرائیل سے متعلقہ مجمل واقعات کی تفصیل کے لیے بنی اسرائیل سے روایت کرنے کی اجازت دی ہے ۔اس حدیث میں حَدِّثُوْا امر کا صیغہ نہ ہی وجوب کے لیے ہے اور نہ ہی استحباب کے لیے، بلکہ یہ اباحت کے لیے ہے، یعنی بنی اسرائیل سے روایت کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ روایت احکامِ شرعیہ سے متعلق نہ ہو اور دوسرے یہ کہ وہ شریعتِ اسلامیہ کے بنیادی عقائد یا تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔امام ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
مباح کی تعریف اور حکم کے بارے میں الدکتور عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
فرض، واجب اور مستحب کی طرح مباح کے قواعد و ضوابط کے بارے میں بھی اصولیین نے اصول کی کتابوں میں تفصیلی بحثیں کی ہیں ۔مثلاً ایک بحث یہ ہے کہ کسی فعل کے مباح ہونے کے کیا قرائن اور دلائل ہوتے ہیں۔اس بارے میں الدکتور عبد الکریم زیدان نے ‘الوجیز’ میں عمدہ بحث کی ہے ۔امام شاطبی بھی ‘الموافقات’ میں مباح کے حوالے سے بڑی نفیس ابحاث لے کر آئے ہیں۔ مثلاًامام شاطبی فرماتے ہیں کہ بعض اوقات ایک مباح فعل فرض یا مستحب بھی بن جاتا ہے اور بعض اوقات مکروہ یا حرام بھی۔مثلاً قرآن میں کُلُوْا وَاشْرَبُوْا کا حکم ہے جو کہ اباحت کے لیے ہے، یعنی جو چاہے کھانا کھائے اور جو چاہے نہ کھائے، لیکن اگر کوئی شخص مستقل کھانا چھوڑ دے اور موت کے قریب پہنچ جائے، جیسا کہ بھوک ہڑتال میں ہوتا ہے، تو اب اس کے لیے یہی حکم(یعنی کھانا کھانے کا) فرضیت کے درجے میں ہوگا۔اسی طرح اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنا ایک مباح فعل ہے، لیکن اس مباح فعل پر مداومت اس فعل کوحرمت کے درجے تک پہنچا دے گی۔
قرآن و سنت میں امر کا صیغہ ہر وقت وجوب کے معنی میں نہیں ہوتا، جیسا کہ ناواقف لوگوں کا خیال ہے۔امام سبکی نے جمع الجوامع میں امر کے صیغے کے ٢٦ معانی کا تذکرہ کیا ہے ۔بعض اصولیین نے امر کے صیغے کے سترہ اور بعض نے سولہ معانی بھی بیان کیے ہیں ۔مثلاً وجوب، ندب، اباحت، تہدید، ارشاد، تأدیب، انذار، امتنان ، اکرام، امتہان، تکوین، تعجیز، اہانت، تسویہ، دعا، تمنی، احتقار، خبر، اعتبار، تعجب، تکذیب، مشورہ، ارادہ، امتثال، اذن، انعام اور تفویض وغیرہ۔اصولیین نے امر کے یہ تمام معانی قرآن و سنت کی نصوص سے ثابت کیے ہیں۔ طوالت کے خوف سے ہم ان تمام نصوص کو بیان نہیں کر رہے۔مثال کے طور پر اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں امر کا صیغہ دعا کے معنی میں ہے، ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ (الدُّخان) میں اہانت کے لیے ہے اور اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ (حٰم السجدة:٤٠) یعنی تم جو چاہو، عمل کرو،میں تہدید کے لیے ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنن جو کسی فعل کی اباحت سے متعلق ہیں، ان سنن پر عمل یا ان کی ترغیب و تشویق دین اسلام کا مطلوب و مقصود نہیں ہے، سوائے اس کے کہ وہ مباح استحباب یا وجوب کے درجے کو پہنچ جائے، جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔
چوتھا اصول
بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے کسی فعل کی کراہت ثابت ہوتی ہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آ پ کا فرمان ہے:
اس حدیث میں آپ نے ایک جوتا پہن کر چلنے سے منع فرمایا، لیکن ایک جوتا پہن کر چلنا حرام نہیں ہے بلکہ، مکروہ ہے۔ لہٰذااس حدیث میں نہی کا صیغہ کراہت کے لیے ہے۔امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو بیان کرنے کے لیے ما جاء فی کراھیة المشی فی النعل الواحدة کے الفاظ سے باب باندھ کر اس فعل کی کراہت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا:
اس حدیث میں دشمن سے ملاقات کی تمنا کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ تمنا کرنا مکروہ ہے۔جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمة الباب ‘کراھیة تمنی لقاء العدو’ میں اس کی کراہت کی طرف اشارہ کیاہے ۔اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ نے ‘صحیح مسلم ‘میں کراھیة تمنی لقاء العدو اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے سنن ابی داؤد میں فی کراھیة تمنی لقاء العدو کے عنوان سے باب باندھ کر ا س فعل کی کراہت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
اصولیین کی تعریف کے مطابق مکروہ سے مراد وہ فعل ہے جس کے نہ کرنے کا شارع نے حکم دیا ہو لیکن اس کے نہ کرنے کو لازم نہ ٹھہرایا ہو۔مکروہ کو ترک کرنا اولیٰ ہے۔الدکتور عبد لکریم زیدان مکروہ کے حکم کے بارے میں لکھتے ہیں :
احناف اس مکروہ کو مکروہ تنزیہی کہتے ہیں جبکہ جمہور علماء صرف مکروہ کہتے ہیں۔جمہور ائمۂ اہل سنت کے نزدیک اس کے منکر کی تکفیر نہیں ہو گی۔ عامة الناس کو مکروہات سے بچنے کی ترغیب و تشویق بھی دلائی جائے گی۔
پانچواں اصول
بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے کسی فعل کی حرمت معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
اگر کسی شخص نے بذریعہ ایجاب و قبول کوئی سودا مکمل کر لیا ہے تو اس کے اس سودے پر سودا کرنا حرام ہے۔اسی طرح ا گر کسی شخص کا کسی خاندان میں رشتہ طے ہو چکا ہو تو وہاں اپنے رشتے کی بات چلانا حرام ہے سوائے اس کے کہ پہلا شخص دوسرے کو اجازت دے دے یا وہ اس جگہ نکاح کا اردہ ترک کر دے۔ امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
احناف ایسے فعل کو حرام کی بجائے مکروہ تحریمی کہتے ہیں۔جمہوراوراحناف کے نزدیک اس کی تعریف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ حرام یامکروہ تحریمی سے مراد ایسا فعل ہے جس کے نہ کرنے کا شارع نے حکم دیا ہو اور اس کے نہ کرنے کو لازم بھی ٹھہرایا ہو۔اس کے مرتکب کو ملامت کی جائے گی اور اس کو آخرت میں عذاب بھی ہو گا ۔احناف کے نزدیک اگر اس کا علم قطعی ذریعے یعنی قرآن، خبر متواتر یا اجماع سے ہو گا تو یہ حرام ہے اور اگر اس کا علم ظنی ذریعے یعنی خبر واحد سے ہو گا تویہ مکروہ تحریمی ہے ۔جبکہ جمہور اسے حرام ہی کہتے ہیں چاہے قرآن سے اس کا علم حاصل ہو یا خبر واحد سے اور یہی بات راجح ہے ۔ائمہ جمہور اور احناف کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اگر کسی فعل کی حرمت بذریعہ سنت (یعنی خبر واحد) معلوم ہو اور اس سنت کا کوئی شخص انکار کر دے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی اگرچہ دنیا میں اس کوسخت ملامت کی جائے گی اور آخرت میں وہ عذابِ الٰہی کا مستحق ہو گا۔الشیخ عاصم الحداد لکھتے ہیں :
چھٹا اصول
بعض اوقات کسی مسئلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قول ہوتا ہے اور ایک شخص اس قول پر عمل کرنے کو سنت پر عمل سمجھ رہا ہوتاہے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب و تشویق دلا رہا ہوتا ہے جبکہ آپ کا وہ قول آپ ہی کے کسی دوسرے قول یا فعل سے منسوخ ہوتا ہے۔عام اشخاص یا اہل علم کی بات تو کجا بعض اوقات بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی آپ کی کسی سنت کے نسخ کا علم نہیں ہوتا تھا اور وہ منسوخ سنت پر خودبھی عمل کر رہے ہوتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب و تشویق دلا رہے ہوتے تھے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر صحابی ہر وقت آپ کی مجلس میں موجود نہیں ہوتا تھا اس لیے ہر صحابی کو ہر حدیث کا علم بھی نہیں ہوتا تھا۔حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اسی طرح حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
علامہ البانی نے اس روایت کو ’حسن‘ کہا ہے۔ [۶۱] شیخ احمد شاکر نے اس کی سند کو ’صحیح‘ کہا ہے۔ [۶۲]
اصل مسئلہ یہ ہے کہ شروع میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کا حکم دیا تھا۔ بعد میں آپ نے ہی اس کومنسوخ کر دیا اور اس نسخ کا علم بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو نہ ہوا،لہٰذا وہ اس منسوخ سنت پر خود بھی عمل کرتے رہے اوردوسروں کو بھی اس کا حکم جاری کرتے رہے۔حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
امام نووی نے اس حدیث کی سند کو ’صحیح‘ کہا ہے۔ [۶۴] امام ابن حجر نے اس کو ’حسن‘ کہا ہے۔ [۶۵] امام ابن الملقن نے اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے۔ [۶۶] امام طحاوی نے بھی ’صحیح‘ کہا ہے۔ [۶۷] امام ابن حزم نے اس کو ’قابل حجت‘ قرار دیا ہے۔ [۶۸] ابن قدامہ نے اس روایت کو ’ضعیف‘ کہا ہے۔ [۶۹]
یہ روایت صحیح ہے اور جمہور صحابہ، تابعین اور ائمہ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کے استعمال کے بعد وضوکرنا واجب نہیں ہے ۔صحابہ میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت ابوامامہ، حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم اور تابعین میں حضرت عبید اللہ السلمانی، حضرت سالم بن عبد اللہ، حضرت قاسم بن محمدرحمہم اللہ اور فقہائے اہل مدینہ اور ائمہ میں امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام ابو حنیفہ، امام اسحاق بن راہویہ، امام عبد اللہ بن مبارک، امام سفیان ثوری رحمہم اللہ اور اہل کوفہ اور اہل حجاز کا موقف یہی ہے۔ جبکہ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کے وجوب کی قائل ہے ۔تفصیل کے لیے امام نووی رحمہ اللہ کی ‘شر ح مسلم’ اور امام عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کی تحفة الاحوذی کا مطالعہ مفید رہے گا۔
ساتواں اصول
بعض اوقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم تدبیری امور سے متعلق ہوتا ہے ۔آپ کے ایسے اقوال بھی سنت شرعیہ نہیں ہیں ۔حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
یہ حدیث اس مسئلے میں نص صریح ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض احکامات تشریع کے لیے نہ تھے۔جیسے کسی مسئلے میں آپ نے بعض صحابہ کو دنیاوی امور میں کوئی مشورہ دے دیا ہو یا ان کی رہنمائی کر دی ہو۔
آٹھواں اصول
بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات سفارش کی قبیل سے ہوتے ہیں۔ یہ بھی اُمت کے لیے سنت شرعیہ نہیں ہوتے ہیں ۔مثلاً روایات میں آتا ہے کہ حضرت بریرہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہماکی لونڈی تھیں جو ایک غلام حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ بعدازاں ایک موقع پر حضرت عائشہ نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہما کو آزاد کر دیا۔ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ اگر عورت آزاد ہوجائے تو اسے یہ اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ اپنی غلامی کی حالت میں کیے ہوئے نکاح کو برقرار رکھے یا توڑ دے۔حضرت بریرہ نے اپنی آزادی کے بعد اپنے اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے حضرت مغیث کے نکاح میں رہنے سے انکار کر دیا۔اس پر حضرت مغیث اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے درخواست کی کہ آپ بریرہ کو سمجھائیں۔توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ کو بلوا کر کہا:
امام ابن حزم نے اس روایت کو ’قابل حجت‘ قرار دیا ہے۔ [۷۲] امام ابن تیمیہ نے اس کو’ صحیح’ کہا ہے۔ [۷۳] علامہ البانی نے اس کو ’صحیح‘ کہا ہے۔ [۷۴] شیخ احمد شاکر نے بھی اس کی سند کو ’صحیح‘ کہا ہے۔ [۷۵] اس حدیث سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرحکم ماننا واجب ہے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت بریرہ آپ سے یہ سوال نہ کرتیں کہ کیا آپ مجھے حکم دے رہے ہیں؟
ہمارے خیال میں یہ استدلال درست نہیں ہے ‘‘بلکہ یہ صریح نصوص کے خلاف ہے’’ جیسا کہ تأبیر نخل والی روایت میں ہے۔ اسی طرح آپ نے جب ایک دفعہ صحابہ کو راستوں میں بیٹھنے سے منع کیا تو صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ حکم نہ مانا کیونکہ صحابہ کے نزدیک یہ کوئی شرعی حکم نہ تھا بلکہ اس حدیث سے تو اس کے برعکس حکم معلوم ہوتا ہے، کیونکہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ کو کہا کہ اللہ سے ڈرو تو حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اِتَّقِی اللہَ کے باوجود آپ سے سوال کرنا کہ کیا آپ مجھے حکم دے رہے ہیں، یہ واضح کرتا ہے کہ صحابہ ہر حکم کو شرعی حکم نہیں سمجھتے تھے ۔لہٰذا آپ کے ایسے احکامات جو کہ مشورے کی قبیل سے ہوں ‘‘ان کا انکار’’ انکارِ سنت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ایسی سنن کی اتباع واجب نہیں ہے، اگرچہ مستحسن امر ضرور ہے ۔
نواں اصول
بعض اوقات آپ کے احکامات قضاء یا فوری فیصلوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ آپ کے ایسے احکامات بھی بعض مخصوص صورتوں میں سنت یعنی مصدر شریعت نہیں ہوتے ہیں ۔آپ کا ارشاد ہے :
دسواں اصول
بعض اوقات آپ کے احکامات کسی ایک شخص کے بارے میں خاص ہوتے ہیں ‘لہٰذا تمام اُمت کے لیے وہ سنت نہیں ہوتے۔مثلاً ایک روایت کے الفاظ ہیں:
اسی طرح آپ کے بعض احکامات کے بارے میں صحابہ میں اختلاف بھی ہوجاتا تھا کہ وہ عام ہیں یا خاص۔مثلاً آپ کے ایک صحابی حضرت ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ان کے ساتھ ہی ان کے گھر میں رہتے تھے، لیکن یہ ابھی بالغ نہیں ہوئے تھے ۔جب یہ بالغ ہو گئے تو حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کو اُن کا اپنے گھر میں آنا جانا اور رہنا پسند نہ تھا اس پر ان کی بیوی حضرت سہلہ بنت سہیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مسئلے کا حل دریافت فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابیہ کو مشورہ دیا:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کے حکم کو صرف ان صحابیہ کے ساتھ خاص نہیں سمجھتی تھیں۔ایک روایت کے الفاظ ہیں :
علامہ البانی نے اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے۔ [۸۰] امام ابو داؤد کے نزدیک بھی یہ روایت ‘صالح’ ہے۔
گیارہواں اصول
بعض اوقات آپ کے احکامات سدًّا للذریعة ہوتے ہیں۔ یعنی آپ کوئی حکم بطور شریعت جاری نہیں کرتے بلکہ کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی کی طرف لے جانے والے کسی سبب اور ذریعے سے منع کرتے ہیں، حالانکہ وہ سبب اور ذریعہ بذاتہ شرعاً جائز ہوتا ہے۔ آپ کے ایسے احکامات کی اتباع بھی ضروری نہیں ہے۔مثلاً ایک دفعہ آپ نے صحابہ کو حکم دیا:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا تھااور اس کی وجہ یہ تھی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو معلوم تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ حکم کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کے انکار پر ان پر کوئی دباؤ نہ ڈالا، بلکہ ان کو جس سبب سے یہ حکم جاری کیا تھا اس کی وضاحت کر دی، یعنی راستوں میں بیٹھو لیکن ان کا حق ادا کرو۔گویا مطلق راستے میں بیٹھنے سے منع کرنا آپ کا مقصود نہ تھا، بلکہ آپ نے یہ حکم کسی سبب سے جاری کیا تھا اور وہ سبب یہ تھا کہ راستوں میں بیٹھنا لوگوں کو اذیت دینے اور بے حیائی کی طرف لے جانے کا باعث بن سکتا ہے ۔
بارہواں اصول
بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی وقتی ضرر کو دور کرنے اور جزئی مصلحت کے حصول کے لیے کوئی حکم جاری کرتے تھے ۔مثلاً اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عید الاضحی کے موقع پر صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ قربانی کے جانوروں کا گوشت تین دن سے زائد استعمال نہ کریں ۔بعض صحابہ نے اس حکم کو آپ کا ایک مستقل حکم سمجھ لیا ‘حالانکہ آپ نے یہ حکم ان غریب بدو صحابہ کی وجہ سے جاری کیا تھا جو اُس عید کے موقع پر آپ کے ساتھ حاضر تھے۔اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے اس حکم سے مقصود یہ تھا کہ لوگ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے کی بجائے ان بدو صحابہ پر صدقہ کر دیں۔حضرت سالم، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں:
حضرت علی کا بھی یہی موقف تھا، جیسا کہ امام نووی نے ‘شرح مسلم’ میں بیان کیاہے ۔جبکہ باقی صحابہ اس حکم کو ایک مستقل حکم نہیں مانتے اور جمہور علماء کا بھی یہی موقف ہے ۔اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب اس بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سال بدو صحابہ، کی وجہ سے تین دن سے زائد قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے سے منع کیا تھا تاکہ لوگ اس کو صدقہ کریں، لیکن اگلے سال آپ نے لوگوں کو تین دن سے زائد بھی قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے کی اجازت دے دی۔ روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا:
اسی طرح صحیحین میں ایک روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا اور صحابہ نے اس پر عمل بھی کیا، یہاں تک کہ حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ مدینہ کے قرب و جوار میں ہم نے کوئی کتا نہ چھوڑا۔اسی حدیث کی بنیاد پر مالکیہ کے نزدیک کتوں کو قتل کرنا ایک شرعی حکم ہے جو کہ اب بھی جاری ہے، جبکہ شوافع کے نزدیک یہ حکم منسوخ ہو چکا ہے اور اس کی دلیل صحیح مسلم میں حضرت جابرکی روایت ہے، جس کے مطابق آپ نے بعد میں کتوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا تھا۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص وقت میں مدینہ اور اس کے ارد گرد کے کتوں کو قتل کرنے کا جو حکم دیاوہ نہ تو کوئی شرعی حکم تھا اور نہ وہ منسوخ ہوا، بلکہ آپ کے زمانے میں پاگل کتوں کی تعداد بڑھ گئی جس کی وجہ سے آپ نے صحابہ، کو کتوں کو مارنے کا حکم دیا تا کہ مسلمانوں کو ضرر سے بچایا جا سکے۔بعد میں جب کافی تعداد میں کتے مار ے گئے تو آپ نے صحابہ، کو مزید کتوں کو مارنے سے منع کر دیا۔لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاا صل مقصود مسلمانوں کو ضرر سے بچانا تھا نہ کہ کوئی شرعی حکم جاری کرنا اور پھر اس کو منسوخ کرنا۔جیسا کہ ایک صحیح روایت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حدودِ حرم میں جن پانچ چیزوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے ان میں ایک الکلب العقور یعنی پاگل کتا بھی ہے ۔
تیرہواں اصول
بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات بظاہر مطلق ہوتے ہیں لیکن در حقیقت وہ مطلق نہیں ہوتے۔ایسے احکامات اپنے اطلاق میں سنت نہیں ہوں گے۔ مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمر رجی اللہ عنہ سے روایت ہے’ وہ فرماتے ہیں کہ:
اس روایت کو امام ترمذی نے ‘حسن صحیح’ کہا ہے۔ [۸۵] امام ابن العربی نے ’صحیح‘ اور ‘ثابت’ کہا ہے۔ [۸۶] علامہ البانی نے ’حسن‘ کہا ہے۔ [۸۷] شیخ احمد شاکر نے اس کی سند کو ’صحیح‘ کہا ہے۔ [۸۸] ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ اس بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر کو کہا: أَطِعْ أَبَاکَ [۸۹] یعنی اپنے باپ کی اطاعت کر۔ اب اس روایت سے یہ مسئلہ نکالنا کہ اگر باپ اپنے بیٹے کو یہ حکم دے کہ اپنی بیوی کو طلاق دو تو اس مسئلے میں باپ کی اطاعت مطلقاً واجب ہے درست نہیں ہے۔
تحفة الاحوذی اور نیل الاوطار کے مصنفین نے اس حدیث کو دلیل بناتے ہوئے لکھا ہے کہ باپ کے حکم پر بیٹے کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے چاہے کوئی شرعی عذر ہو یا نہ ہو اور اگر ماں بیوی کو طلاق کا حکم دے تو تین گنا زیادہ واجب ہے ‘کیونکہ حدیث میں ماں کا حق تین گنا زیادہ بیان کیا گیا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ موقف درست نہیں ہے اور اگر ماں کی طرف سے طلاق کے حکم میں بیٹے کو پابند کیا جائے گا تو شاید یہاں کوئی بھی گھر آباد نہیں رہے گا کیونکہ ساس اور بہو کے اختلافات تو فطری ہیں۔ علاوہ ازیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس دو بدو آئے۔ان میں سے ایک نے کہا کہ میں اپنے اونٹ کی تلاش میں ایک قبیلے میں جا نکالا اور وہاں ایک لڑکی مجھے پسند آگئی تو میں نے اس سے شادی کر لی ‘لیکن میرے والدین نے قسم اٹھا کر یہ بات کی ہے کہ وہ اس لڑکی کو اپنے خاندان میں شامل نہیں کریں گے۔اس پر حضرت عبد اللہ بن عباس نے اس بدو سے کہا:
اسی طرح حضرت ابودردا ضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میر اباپ پہلے مجھے ایک لڑکی کے ساتھ شادی پر مجبور کرتا رہا اور جب میں نے اس سے شادی کر لی تو اب مجھے حکم دیتا ہے کہ میں اسے طلا ق دے دوں۔تو حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ نے کہا:
علامہ البانی نے اس حدیث کو ’صحیح‘ کہا ہے۔ [۹۲] اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے جب اس مسئلے کے بارے میں سوال ہو تو آپ نے سائل سے کہا: اپنی بیوی کو طلا ق مت دے ۔اس پر سائل نے جواباًحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ والامذکورہ بالا واقعہ سنا دیا تو امام احمد نے جواب دیا:
سعودی علماء کی کمیٹی فتاوی اللجنة الدائمة سے جب اس بارے میں سوال ہوا تو علماء نے یہ جواب دیا:
اسی طرح داڑھی کے بارے میں بعض روایات میں أَعْفُوا اللِّحٰی اور وَفِّرُوا اللِّحٰی اور أَرْخُوا اللِّحٰی کے جوا لفاظ آئے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ امر مطلق ہے؟ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ان احادیث میں امر کا صیغہ وجوب کے لیے ہے، لیکن کیامطلق طور پر داڑھی کو چھوڑنا واجب ہے یا کسی حد تک چھوڑنا واجب ہے؟بعض علماء کے نزدیک داڑھی کو اس کی حالت پر چھوڑنا واجب ہے اور اس میں سے کچھ بھی کتربیونت جائز نہیں ہے ۔علماء کی یہ جماعت آپ کے حکم کو اس کے اطلاق پر باقی رکھتی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تویہی معلوم ہوتاہے کہ آپ نے اپنی داڑھی کی کبھی تراش خراش نہیں کی لیکن بعض صحابہ سے ملتا ہے کہ انہوں نے ایک مشت سے زائداپنی داڑھی کی تراش خراش کی ہے، جس سے ثابت ہوا کہ ان صحابہ کے نزدیک آپ کا داڑھی رکھنے کا حکم تو وجوب کے لیے تھا لیکن وہ حکم اپنے اطلاق میں واجب نہ تھا۔حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مطلقاً واجب نہ سمجھتے تھے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے ایک اور شخص کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کیا، یعنی اس کی داڑھی کی تراش خراش کی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی داڑھی کی تراش خراش ثابت ہے۔ اس کی تفصیل، فتح الباری میں موجود ہے۔ سنن ابی داؤد کی ایک ’حسن‘ روایت کے مطابق حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ہم (یعنی صحابہ) حج اور عمرہ کے علاوہ داڑھی چھوڑے رکھتے تھے، یعنی حج اور عمرہ کے موقع پر ہم داڑھی کی تراش خراش کر لیتے تھے۔اہل الحدیث علماء میں سے حافظ عبد اللہ محدث روپڑی، حافظ ثناء اللہ مدنی اور حافظ عبد الرحمن مدنی وغیرہم ایک متعین مقدار سے زائد ڈاڑھی کے بال لینے کے قائل ہیں۔واللہ اعلم بالصواب
چودہواں اصول
بعض اوقات بعض مخصوص حالات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے میں کسی فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے جس کہ وجہ سے بعض علماء کے نزدیک ان حالات میں آپ کے اس حکم پر عمل کرنا سنت پر عمل شمار نہیں ہوتا۔مثلاً آپ کا حکم ہے:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کے مسجد جانے کو ناپسند کرتے تھے اور بعض اوقات اس کا اظہار بھی کر دیتے تھے ۔ایک روایت میں ہے کہ ان کی بیوی سے کہا گیا :
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے جب اپنے زمانے کے فتن کو دیکھا تو کہا:
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جب اپنے بیٹے بلال کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ روایت سنائی کہ اپنی بیویوں کو مسجد میں جانے سے نہ روکو توحضرت بلال نے جواباً کہا:
بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت بلال نے اپنے والد کوکہا کہ ہمارے زمانے میں عورتیں اگر مسجد میں جائیں گی تو فتنے میں مبتلا ہو جائیں گے لہٰذا ہم انہیں مسجد میں جانے سے روکیں گے۔با وجودیکہ حضرت عبد اللہ بن عمر نے حضرت بلال کو ان کے اس جواب پر سرزنش کی٭ لیکن خود حضرت عبد اللہ بن عمر بھی شرعی احکام پر عمل پیرا ہونے کے لیے اس اصول(یعنی سد الذرائع) کو مدنظر رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کے بیٹے نے اس حدیث پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے اپنے دورِ خلافت میں حجاج بن یوسف ثقفی کو حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حجاز میں قائم شدہ خلافت کو ختم کرنے کے لیے بھیجا ۔اس وقت دو افراد حضرت عبد اللہ بن عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے :
صحیح بخاری ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر نے آکر کہاکہ آپ ہر سال حج و عمرہ تو کرتے ہیں لیکن اللہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے ۔تو حضرت عبد اللہ بن عمرنے کہا : ارکان اسلام پانچ ہی ہیں، یعنی جہاد ان میں شامل نہیں ہے ۔تو اس شخص نے کہا اللہ تعالیٰ نے تو یہ حکم دیا کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراو اور اگر پھر ان میں کوئی ایک زیادتی کرے تو اس کے خلاف لڑو ۔یہ شخص دراصل حضرت عبد اللہ بن عمر کو کہہ رہا تھا کہ فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ(الحُجُرٰت:٩) کی نص کے تحت آپ پر ظالم گروہ کے ساتھ قتال واجب ہے۔اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر نے اسے وہ جواب دیا جو اوپر مذکور ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کو وہ روایت بیان کرنے سے زبردستی روک دیا تھا جس میں کلمہ پڑھنے والے کے لیے جنت کی بشارت تھی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل کی تائید کی تھی۔
سولہواں اصول
بعض اوقات کوئی امتی آپ کے حکم کے ظاہر کی بجائے آپ کے مقصود و منشا کو ملحوظ رکھتا ہے جس کی وجہ سے آپ کے ظاہری حکم پر عمل نہیں ہوتا۔اس صورت میں آپ کے ظاہری حکم پر عمل نہ کرنا ہی افضل ہوتا ہے اگرچہ ظاہری حکم پر عمل بھی درست ہوتا ہے۔مثلاً غزوہ احزاب کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ سے ان کی بد عہدی کا بدلہ لینے کے لیے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ بنو قریظہ کی طرف کوچ کریں۔ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ نے مسلمانوں میں یہ منادی کرائی کہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ کے ظاہری حکم کی جن صحابہ نے یہ تأویل کی تھی کہ آپ کا اس حکم سے اصل مقصود یہ تھا کہ بنو قریظہ تک جلدی پہنچو یہاں تک کہ ظہر کی نماز وہاں جا کر پڑھو، وہ تأویل درست تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فعل کی اپنی تقریر کے ذریعے تصویب فرمائی۔علاوہ ازیں راستے میں نماز پڑھنے والا گروہ اس لیے افضل ہے کہ اس نے قرآن کے حکم اِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا پر بھی عمل کیا۔
سترہواں اصول
بعض اوقات کوئی عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی یہ تأویل کرتا ہے کہ وہ لازمی حکم نہیں ہے لہٰذا وہ اس حکم پر عمل نہیں کرتا۔ مثلاً حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت علی بن ابی طالب نے مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ لکھا اور اس میں مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللہ کے الفاظ لکھے تو اس پر مشرکین نے اعتراض کیاکہ یہ الفاظ معاہدے میں نہ لکھے جائیں، کیونکہ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کارسول مانتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ نہ کرتے ۔اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس مسئلے میں آپ کے حکم کی تعمیل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اپنے ایمان کے منافی سمجھا لہٰذا انہوں نے اس پر عمل نہ کیااور آپ کے حکم کی یہ تأویل کی کہ وہ کوئی لازمی حکم نہیں ہے۔ امام نووی نے ‘شرح مسلم’ میں اس حدیث کی یہی تأویل بیان کی ہے۔ اس طرح کی اور بھی بیسیوں روایات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ و تابعین نے آپ کے ہر حکم کی اتباع کو لازم نہیں سمجھااور نہ ہی وہ آپ کے ہر قول کو شریعت سمجھتے تھے۔
لیکن یہ فرق کرنا کہ آپ کے کون سے اقوال کا تعلق تشریع سے ہے اور کون سے اقوال ہمارے لیے شریعت نہیں ہیں، یہ کسی عام آدمی کا کام نہیں ہے، بلکہ یہ ان علماء کا کام ہے جن کی زندگیاں حدیث پڑھنے اور پڑھانے میں گزرتی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ائمہ سلف میں شارحین حدیث اور فقہاء و محدثین نے یہ کام بحسن و خوبی کیا ہے اور حدیث کی شرح میں جا بجا یہ واضح کیا ہے کہ آپ کا یہ حکم وجوب کے لیے ہے یا استحباب کے لیے، اباحت کے لیے ہے یا منسوخ ہے عام ہے یا خاص، مستقل ہے یا عارضی، مطلق ہے یا مقید، وغیر ہ۔
اس مضمون کی اگلی قسط میں ہم اِن شاء اللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال اور اتباع کے حوالے سے بحث کریں گے۔ (جاری ہے)
حواشی
[٢] اقتضاء الصراط المستقیم: جلد١، ص ٣٢٧۔
[٣] المجموع: جلد٨، ص١٧١۔
[٤] صحیح النسائی: ٣٠٥٧۔
[٥] صحیح البخاری، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم۔
[٦] لسان العرب:باب س۔ن۔ن۔
[٧] تاج العروس: باب س۔ن۔ن۔
[٨] النھایة فی غریب الحدیث: باب السین مع النون۔
[٩] المفردات:باب س۔ن۔ن۔
[١٠] معجم مقاییس اللغة: باب س۔ن۔ن۔
[١١] اصول الفقہ السلامی: ص٤٥٠۔
[١٢] اصول الفقہ الاسلامی:ص٤٥٠۔
[١٣] الوجیز:ص٣٩۔
[١٤] الوجیز:ص٣٩۔
[١٥] اصول الفقہ الاسلامی:٧٨۔
[١٦] اصول الفقہ الاسلامی:٧٩۔
[١٧] الوجیز:ص٣٩۔
[١٨] علوم الحدیث فی ضوء تطبیقات المحدثین النقاد:ص١٥، ١٦۔
[١٩] الوجیز: ص١٦١، ١٦٢۔
[٢٠] سنن ابی داود، کتاب العلم، باب فی کتاب العلم۔
[٢١] فتح الباری، جلد١، س٢٥٠۔
[٢٢] صحیح ابی داود:٣٦٤٦۔
[٢٣] الوجیز:ص١٦٤، ١٦٥۔
[٢٤] المعجم الطبرانی، جلد ٥، ص١٤٠۔
[٢٥] مجمع الزوائد: جلد٩، ص٢٠۔
[٢٦] ھدایة الرواة:جلد ٥ ص٢٨٦۔
[٢٧] الشمائل المحمدیة:٢٩٤۔
[٢٨] صحیح البخاری، کتاب العلم،باب الانصات للعلمائ۔
[٢٩] شرح عقیدة طحاویة لابن ابی العز الحنفی متوفی ٩٧٢ھ، ص٣٠٣،٣٠٤۔
[٣٠] سنن الترمذی، کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ، باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن برأیہ۔
[٣١] ھدایة الرواة: جلد١،ص ١٥٨۔
[٣٢] فتاوی ابن الصلاح:٢٦۔
[٣٣] عمدة التفسیر: جلد١، ص٤٥۔
[٣٤] ضعیف الترمذی:٢٩٥٢۔
[٣٥] صحیح البخاری، کتاب الادب، باب من کفر أخاہ بغیر تأویل فھو کما قال۔
[٣٦] سنن ابی داود، کتاب الأدب، باب فی النھی عن البغی۔
[٣٧] صحیح ابی داود:٤٤٠١۔
[٣٨] عمدة التفسیر:جلد١، ص٥٢٢۔
[٣٩] سنن أبی داود، کتاب النکاح، باب ما یؤمر بہ من غض البصر۔
[٤٠] مجموع الفتاوی:جلد٢٢، ص١٢٨ ۔
[٤١] صحیح ابی داود:٢١٤٨۔
[٤٢] اصول فقہ پر ایک نظر:ص٢٠۔
[٤٣] صحیح البخاری، کتاب الصلاة، باب ذا دخل أحدکم المسجد فلیرکع رکعتین قبل أن یجلس۔
[٤٤] فتح الباری مع صحیح البخاری، کتاب الصلاة، باب ذا دخل أحدکم المسجد فلیرکع رکعتین قبل أن یجلس۔
[٤٥] صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب الخضاب۔
[٤٦] فتح الباری مع صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب الخضاب۔
[٤٧] صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب نھی النبی علی التحریم لا ما تعرف اباحتہ۔
[٤٨] فتح الباری مع صحیح البخاری۔
[٤٩] صحیح البخاری،کتاب أحادیث الأنبیائ، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل۔
[٥٠] فتح الباری مع صحیح البخاری،کتاب أحادیث الأنبیائ، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل۔
[٥١] الوجیز: ص٤٨۔
[٥٢] صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینة، باب استحباب لبس النعل فی الیمنی اولاً والخلع من الیسریٰ۔
[٥٣] شرح النووی مع صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینة، باب استحباب لبس النعل فی الیمنی اولاً۔
[٥٤] صحیح البخاری، کتاب التمنی، باب کراھیة التمنی لقاء العدو۔
[٥٥] الوجیز:ص٥٤۔
[٥٦] صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم الخطبة علی خطبة اخیہ حتی یاذن او یترک۔
[٥٧] شرح النووی مع صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم الخطبة علی خطبة اخیہ حتی یاذن او یترک۔
[٥٨] اصول فقہ پر ایک نظر، ص ٢٩۔
[٥٩] صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب الوضوء مما مست النار۔
[٦٠] سنن الترمذی، کتاب الطھارة عن رسول اللہۖ، باب ما جاء فی الوضوء مما غیرت النار۔
[٦١] صحیح الترمذی: ٧٩۔
[٦٢] شرح سنن الترمذی، ج١، ص ١٤٤۔
[٦٣] سنن النسائی، کتاب الطھارة، باب ترک الوضوء مما غیرت النار۔
[٦٤] المجموع، ج٢، ص ٥٦۔
[٦٥] موافقة الخبر الخبر: جلد٢، ص٢٧٣۔
[٦٦] البدر المنیر:جلد٢، ص٤١٢۔
[٦٧] شرح معانی الآثار: جلد١، ص٦٧۔
[٦٨] المحلی: جلد١، ص٢٤٣۔
[٦٩] المغنی: جلد١، ص٢٥۔
[٧٠] صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب وجوب امتثال ما قالہ شرعا دون ما ذکرہ من معایش۔
[٧١] سنن ابی داود، کتاب الطلاق، باب فی المملوکة تعتق وھی تحت حر او عبد۔
[٧٢] المحلی: جلد٩، ص٢٣٤۔
[٧٣] مجموع الفتاویٰ : جلد١، ص٣١٧۔
[٧٤] صحیح ابی داود:٢٢٣١۔
[٧٥] مسند احمد، جلد٣، ص٢٥٤۔
[٧٦] صحیح البخاری، کتاب الشھادات، باب من اقام البینة بعد الیمین۔وصحیح مسلم، کتاب الاقضیة، باب الحکم بالظاھر واللحن بالحجة۔
[٧٧] صحیح البخاری، کتاب الاضاحی، باب قول النبیؐ لابی بردة ضح بالجذع من المعز۔وصحیح مسلم، کتاب الاضاحی، باب وقتھا۔
[٧٨] صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب رضاعة الکبیر۔
[٧٩] سنن ابی داود، کتاب النکاح، باب فیمن حرم بہ ۔
[٨٠] صحیح ابی داود: ٢٠٦١۔
[٨١] صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینة، باب النھی عن الجلوس فی الطرقات واعطاء الطریق حقہ۔
[٨٢] صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، باب بیان ما کان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی۔
[٨٣] صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، باب بیان ما کان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی۔
[٨٤] سنن الترمذی، کتاب الطلاق واللعان عن رسول اللہۖ، باب ماجاء فی الرجل یسالہ ابوہ ان یطلق زوجتہ۔
[٨٥] سنن الترمذی: ١١٨٩۔
[٨٦] عارضة الاحوذی، ج٣، ص ١٣٥۔
[٨٧] صحیح الترمذی: ١١٨٩۔
[٨٨] مسند احمد، ج٧، ص ١٣٢۔
[٨٩] مسند احمد: ٤٤٨١۔
[٩٠] مصنف ابن ابی شیبة،ج٤، ص ١٧٣۔
[٩١] صحیح ابن حبان، جلد٢، ص١٦٧۔
[٩٢] صحیح الترغیب:٢٤٨٦۔
[٩٣] فتاوی الأزھر، جلد ٩، ص٤٣٩۔
[٩٤] فتاوی الجنة الدائمة، جلد٢٠، ص٣٢۔
[٩٥] صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب تقلیم الأظافر۔
[٩٦] صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب خروج النساء الی المساجد اذا لم یترتب علیہ الفتنة۔
[٩٧] صحیح البخاری، کتاب الجمعة، باب ھل علی من لم یشھد الجمعة غسل من النساء والصبیان۔
[٩٨] صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب خروج النساء الی المساجد باللیل والغلس۔
[٩٩] صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب خروج النساء الی المساجد اذا لم یترتب علی الفتنة۔
[١٠٠] صحیح البخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین للّٰہ۔
[١٠١] صحیح مسلم، کتاب الجھاد والسیر، باب المبادرة بالغزو وتقدیم اھم الامرین المتعارضین۔
[١٠٢] صحیح البخاری، کتاب الصلح، باب کیف یکتب ھذا ما صالح فلان بن فلان وفلان بن فلان۔