بہت ضروری ہے کہ مرد اور عورت دونوں نظام آزمائش اور فلسفہ امتحان کو سمجھیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کا دین اور ایمان ایک دوسرے کے رد عمل میں ہی بنتا بگڑتا رہے گا۔ اور وہ ایمانی اور دینی اعتبار سے کیا ہیں یا کہاں کھڑے ہیں، یہ ان کے پارٹنر کا رویہ طے کر رہا ہو گا ۔ اور یہ بہت ہی خطرناک صورت حال ہے کہ جس میں انسان کا ایمان داؤ پر لگ جاتا ہے۔ خاتون کا سوال ہے کہ رسول اللہ کی ایک حدیث میں ہے کہ سجدہ تعظیمی اگر جائز ہوتا تو میں بیویوں سے کہتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کریں۔ تو ان کا کہنا ہے کہ میں کوئی لبرل فیمینسٹ نہیں ہوں لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ نبی محترم نے شوہر کو اتنا زیادہ مقام کیوں دینے کا کہا جبکہ وہ بھی تو ایک مخلوق ہی ہے تو ایک مخلوق کو دوسری مخلوق پر ایسی ترجیح کیوں؟ محض اس لیے کہ شوہر عورت کو رہنے کے لیے گھر دیتا ہے اور اس کا خرچ اٹھاتا ہے؟ لیکن ایسا تو کوئی بھی کر سکتا ہے جیسا کہ بعض اوقات بیوہ ماں اپنے بچوں کے لیے کرتی ہے، بڑی بہن اپنے چھوٹے بھائیوں کے لیے کرتی ہے۔ تو مرد اپنی عورت کا نگران اور حاکم کی طرح ہے یہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اتنا درجہ کس بات پر کہ نبی کریم نے عورت کو اسے سجدہ بھی کرنا جائز سمجھ لیا؟
جواب: بہت اچھا سوال ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ رسول اللہ نے بیوی کو یہ حکم دیا نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے بلکہ یہ کہا کہ اگر سجدہ جائز ہوتا تو میں بیوی کو کہتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ ایک دوسری روایت میں مِنْ عِظَمِ حَقِّهِ عَلَيْهَا کے الفاظ ہیں یعنی شوہر کو اللہ نے عورت پر جو فضیلت دی ہے، یہ سجدہ کرنے کے حکم کی وجہ ہوتی۔ یہی بات قرآن مجید نے ان الفاظ میں کہی ہے:
تو یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ عزوجل نے اس دنیا میں ہر انسان کی آزمائش مختلف رکھی ہے۔ تو عورت کی آزمائش اور امتحان وہ نہیں ہے جو مرد کی آزمائش اور امتحان ہے۔ عورت سے اس کی آزمائش اور امتحان میں یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی آزمائش اور امتحان میں کامیاب ہو کر دکھائے۔ اور مرد سے اس کی آزمائش اور امتحان میں یہ مطلوب ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہو کر دکھائے۔ تو عورت کا امتحان ہی یہی ہے کہ اس نے اپنے جیسے مرد کی اطاعت کر کے دکھانا ہے۔ اللہ نے اسے آزمائش ہی یہی ڈالی ہے۔ اور اسی امتحان اور آزمائش کو اس کی کامیابی کا معیار قرار دیا ہے جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ جو عورت پانچ وقت نماز پڑھ لے، تیس روزے رکھ لے، اپنی عزت کی حفاظت کر لے اور اپنے شوہر کی اطاعت کر لے تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے، جنت میں داخل ہو جائے۔ اور یہ بہت بڑی خوشخبری ہے جو عورت کو دی گئی ہے۔
تو عورت کا یہ امتحان یا آزمائش کم نہیں ہے، یہ ماننا پڑتا ہے لیکن اللہ عزوجل اس امتحان میں کامیابی پر جو کچھ آخرت میں دے رہے ہیں، وہ بھی کم نہیں ہے، یہ بھی ماننا پڑے گا۔ عورت سے تو امتحان میں کامیابی کے لیے مطلوب ہی دو چار کام ہیں جبکہ مردوں سے تو بہت کچھ مطلوب ہے۔ تو آپ کا شوہر جیسا بھی ہے، آپ کا امتحان ہے۔ آپ کا خاوند جیسا بھی ہے، آپ کی آزمائش ہے۔ اور دنیا میں اللہ نے آپ کو امتحان اور آزمائش کے لیے ہی تو بھیجا ہے۔ باقی اب یہ نہ سوچیں کہ شوہر تو ہمارے لیے آزمائش ہیں تو ان شوہروں کی آزمائش کیا ہے؟ وہ آپ ان سے پوچھ لیں، میں اس بارے کچھ نہیں کہنا چاہتا،ان کے پاس بہت کچھ بتلانے کو ہے۔
بہر حال اللہ عزوجل نے ہم سب کو ایک دوسرے سے آزمایا ہے۔ ابھی اولاد کو دیکھ لیں کہ انہیں یہ بات ہضم ہی نہیں ہوتی کہ سارے حقوق والدین کے رکھ دیے ہیں تو ہمارے لیے بھی کچھ ہے یا نہیں۔ بلاشبہ اولاد کے بھی حقوق ہیں اور والدین کو چاہیے کہ ان کے حقوق ادا کریں لیکن بہرحال والدین کے حقوق، اولاد کی حقوق کی نسبت زیادہ ہیں اور زیادہ بیان ہوئے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اولاد کی آزمائش اور امتحان ان کے والدین کو بنا دیا گیا ہے اور ساتھ یہ کہہ دیا گیا کہ اب اس امتحان میں کامیاب ہو کر دکھاؤ۔ تو والدین کی آزمائش کیا ہے؟ تو ان کی آزمائش ان کے والدین تھے۔ انہوں نے اپنے حصے کی آزمائش بھگت لی اور اب تمہاری باری ہے۔ تو نظام امتحان اور فلسفہ آزمائش پر تھوڑا غور کریں تو یہ شبہ جاتا رہے گا۔ اب یہ شکوہ کہ اللہ عزوجل نے امتحان میں عورتوں کو بہت مشکل سوال ڈالا ہے کہ شوہر کی اطاعت کریں تو شانت رہیے، مردوں کو بھی اللہ نے کوئی آسان سوال نہیں ڈالے ہیں۔