خاتون کا سوال ہے کہ جن خواتین کی شادی نہ ہو سکی ہو، رشتہ نہ مل سکا کہ کبھی مناسب رشتہ نہیں تھا تو شادی نہیں ہوئی اور کبھی تو اپنے معیار سے کم تر بھی نہ ملا، تو ایسی صورت حال میں وہ پاکدامنی کی زندگی گزارنے کے لیے کیا کریں؟ اب اگر رشتہ ہی نہیں مل رہا تو ان کا کیا قصور ہے۔

جواب: شادی کا نہ ہونا ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے۔ اس کی وجوہات اور اسباب کئی ایک ہیں؛ مذہبی و نفسیاتی بھی، سماجی و معاشی بھی اور خاندانی و روایتی بھی۔ میں تو ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ شادی نہ ہونے سے بہتر ہے کہ اپنے معیار سے کم تر میں شادی کر لیں کہ اس میں خیر زیادہ ہے۔ اور شادی کو جتنا لیٹ کریں گے، اتنا ہی آپ کو اپنے معیار پر کمپرومائز کرنا پڑے گا، الا ما شاء اللہ کہ کسی کسی کو خال خال ہی تاخیر سے شادی میں کوئی رشتہ اچھا مل جاتا ہو تو ہو۔ تو شادی انسان کی صرف ازدواجی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کی نفسیاتی، معاشی اور معاشرتی ضرورت بھی ہے۔

مجھے تو یہی سمجھ آتی ہے کہ دنیا میں بہت سے مسائل کا حل صبر کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اللہ عزوجل نے ہر انسان کے لیے کچھ آزمائش رکھی ہے جو اسے مل کر رہنی ہے۔ بلاشبہ شادی کا نہ ہونا ایک بہت بڑی آزمائش ہے لیکن آزمائش میں صبر کے علاوہ کوئی ایسا رویہ ہمارے سامنے ہے نہیں کہ جس سے ہم اپنے نفس کو مطمئن کر سکیں۔ اگرچہ صبر کرنا آسان نہیں ہے۔ جس پر بیت رہی ہوتی ہے، وہ یہی کہہ رہا ہوتا ہے کہ آپ پر بیتتی تو دیکھتے صبر کیسے ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے پاس اس کے علاوہ آپشن ہی کیا ہے۔

اور صبر کرنے کے لیے ایک تو اپنے ارد گرد کے انسانوں کی آزمائشوں پر غور کرے، خاص طور پر وہ آزمائشیں جو اس پر نہیں ہیں۔ اور دوسرا قرآن مجید کی صبر سے متعلق آیات کو زبانی یاد کر لے اور انہیں دہراتا رہا کرے۔ تیسرا جن لوگوں کے بارے گمان ہو کہ وہ صبر کرنے میں اس سے اچھے ہیں تو کبھی کبھار ان کی صحبت میں بیٹھ کر ان کی باتیں سن لیا کرے۔ اس سب کچھ کے بعد بھی اگر اس سے کبھی کبھار کچھ کمی کوتاہی ہو جائے اور وہ اپنے نفس سے اپنی جبلی خواہش کی تکمیل کر لے تو اللہ عزوجل سے امید ہے کہ ان حالات میں وہ اس سے درگزر کا معاملہ فرمائیں گے، واللہ اعلم۔

البتہ ایسی صورت حال میں ہماری شریعت میں کچھ گنجائشیں موجود ہیں اگر تو ہمارا معاشرہ ان کو قبول کر لے۔ ان گنجائشوں میں سے ایک نکاح مسیار ہے۔ نکاح مسیار، وقتی نکاح ہر گز نہیں ہے جیسا کہ نکاح متعہ ہوتا ہے بلکہ یہ دائمی نکاح ہے۔ البتہ اس میں شوہر یہ شرط لگاتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو معین نفقے سے زیادہ خرچ یا متعین وقت سے زیادہ وقت نہیں دے گا۔ تو یہ نکاح کی کم تر صورت ہے جیسا کہ قرآن مجید نے کہا ہے کہ جن مومنین کو بد کاری میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو وہ اگر دوسرے کی لونڈی سے نکاح کر لیں تو جائز ہے لیکن ان کے لیے بھی صبر بہتر ہے۔ تو صبر بہتر ہونے کے باوجود صبر نہ کر سکنے والوں کے لیے یہ ایک رخصت ہے۔

شوہر اگر یہ شرط لگائے کہ میں بیوی کو مہینے کا تیس ہزار خرچ دوں گا، بھلے جتنا مرضی کماتا ہوں یا میں بیوی کو مہینے میں تین دن دوں گا، اس سے زیادہ نہیں اور بیوی اس شرط کو قبول کر لے تو اسے نکاح مسیار کہتے ہیں جو باہمی رضامندی سے ہوتا ہے کہ عورت عقد نکاح کے موقع پر اپنا کچھ حق اپنی مرضی سے چھوڑتی ہے۔ تو نکاح مسیار کو رواج دینا درست نہیں البتہ خاص کیسز میں اس کی اجازت دینے میں حرج نہیں جیسا کہ یہ کیس کہ شادی نہ ہونے سے بہتر ہے کہ شادی کسی طرح ہو جائے۔ ہمارے معاشرے میں تو لوگ گھر داماد بنا لیتے ہیں صرف اس لیے کہ بچی کی شادی ہو جائے تو یہ ان کی باہمی سیٹنگ ہے۔ عرب معاشرے میں اس نکاح کا رواج ہے، ہمارے ہاں نہیں ہے۔