عورت کے کمیونیکیشن ٹولز میں سے اہم ترین ”جذبات“ ہیں۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ وہ پل بھر میں کیا سے کیا ہو جاتی ہے اور آپ حیران ہی رہ جاتے ہیں کہ لمحوں میں ہو کیا گیا ہے! اگر آپ کو اپنی بیوی سے اچھے طریقے سے چلنا ہے تو عورت کی کمیونیکیشن کے طریقے کو سمجھنا ہو گا۔پس لفظ، لاجک، ریزن، نصیحت، مکالمہ وغیرہ کو ایک طرف رکھو اور جذبات کو ہینڈل اور ڈیل کرنا سیکھو تو یہ تمہیں ہمیشہ تمہاری ہی بیوی لگے گی۔ تو بیوی سے جب اختلاف ہو، اسے سمجھانے کی بے وقوفی نہ کریں۔ اسٹیون ہاکنگ تک نے لکھا ہے کہ میں کائنات کے رازوں سے اتنا ہی نا واقف ہوں جتنا کہ ہم میں سے کوئی اپنی بیوی کے اگلے اور فوری رد عمل سے۔ لیکن اس کی وجہ سے بیوی کو طعن نہیں کرنا چاہیے کہ اس کی پیدائش ہی ایسے ہوئی ہے اور وہ اپنی اس تخلیق میں مجبور ہے کہ اس کے رب نے اسے اور اس کے ذریعے بہت سوں کو اسی رستے سے آزمانا تھا۔ آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے کون سے لفظ سے اس کا اچھا بھلا موڈ خراب ہو جائے لیکن کچھ الفاظ ہیں کہ جن سے آپ اس کا موڈ ایک منٹ میں ٹھیک کر سکتے ہیں، ان الفاظ کو سیکھیں۔ ان کا تعلق لاجک، ریزن اور نصیحت سے نہیں،بلکہ اس کے جذبات سے ہے۔ اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ ”غلطی میری تھی“۔
اب آپ کہیں گے کہ میں یہ سب کیوں کروں؟ میں نے اس کا کوئی ادھار دینا ہے کیا؟ یہ بات تو درست ہے کہ آپ نے اس کا ادھار نہیں دینا لیکن یہ سب کچھ کرنے کی ایک وجہ مذہب میں ہمارے پاس موجود ہے اور وہ یہ کہ عورت کو مرد کی نسبت زیادہ کمزور پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ عورت کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی ٹیڑھی ہوتی ہے۔ اور اگر تم پسلی کو سیدھا کرنا چاہو گے تو اس کو توڑ دو گے اور اگر اس کو اس کی حالت پر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی تو عورتوں کے بارے میں نصیحت حاصل کر لو۔ تو یہ روایت اس بارے واضح ہے کہ عورت کے مزاج میں پیدائشی طور پر پیچیدگی (complication) موجود ہے لہذا وہ اس بارے معذور ہے کہ یہ اس کی تقدیر ہے۔ اللہ عزوجل نے اسے اسی طرح پیدا کیاہےتا کہ اس کی آزمائش ہو اور اس کے ذریعے مرد کی آزمائش ہو۔تو آخر کو وہ عورت ہے لہذا عورت ہی رہے گی لیکن میں اس کی کمزوری کے مقابلے میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کر کے اپنی اصلاح کر سکتا ہوں۔
عظیم فلسفی سقراط کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس نے یونان کی بد تمیز ترین عورت سے شادی کی تھی کہ اس کا کہنا تھا کہ میں اس کے ذریعے صبر وتحمل سیکھنا چاہتا ہوں۔ پس اس کی بیوی لڑائی جھگڑے میں اس کو خوب لعن طعن کرتی، اس قدر کہ وہ خود مارےغصے کے بے ہوش ہو جاتی۔اور پھر سقراط اس کو پانی پلاتا اوروہ ہوش میں آ کر اس کا شکریہ ادا کرتی تھی۔خیر یہ تو ایک انتہاء ہے، ظاہری بات ہے کہ نہ سب مرد سقراط جیسے ہوتے ہیں اور نہ سب عورتیں اس کے بیوی جیسی لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مرد اگر چاہے تو بیوی کی فطری کمزوری کو اپنی اصلاح کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔اور اگر چاہے تو اس کی کمزوری کو گھر توڑنے کا بہانہ بنا لے۔ اور وہ کمزوری بھی ایسی کہ جو خود خدا نے اس میں رکھی ہے تا کہ مرد کی آزمائش ہو سکے۔ اوراس میں عورتکا کوئی قصور نہیں ہے کہ مرد اسے اس کا طعنہ دے۔مرد کے لیے واقعتاً یہ مشکل ہے کہ وہ باہمی لڑائی جھگڑے میں عورت کو کوئی جذباتی جملہ کہے کہ جس میں اپنی کمزوری اور غلطی کا اعتراف کرے یا بیوی کی تعریف اور تحسین کرے لیکن یہی ایک لمحہ ہے کہ جس میں مرد واقعتاًلمحے بھر میں ایک بہت بڑے جھگڑے کو ختم کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ کوئی جذباتی جملہ کہہ دے، بھلے تکلف سے کہہ دے، مصنوعی طور پر کہہ دے، اوپر سے کہہ دے۔ یہی وہ شوہر ہے کہ جسے بیوی اچھے لفظوں میں یاد رکھتی ہے، اور اسے دل سے اپنے حق میں اچھا شوہر سمجھتی ہے، چاہے زبان سے اس کی تعریف نہ بھی کرے۔ایسے ہی شوہر کے بارے بیوی کا خیال ہوتا ہے کہ وہ مشکل وقت میں اس کے کام آیا۔
اور بیوی کا مشکل ترین وقت وہی لڑائی کا وقت ہوتا ہے کہ جس میں وہ غلطی پر ہونے کے باوجود غلطی ماننا نہیں چاہتی بلکہ منوانا چاہتی ہے۔اسے عورت کی نفسیات کہہ لیں یا غلط فہمی کہہ لیں یا اپنے آپ سے جھوٹ کہہ لیں لیکن یہ بات طے ہے کہاسے اطمینان اسی سے ہوتا ہے اور اسے اندر تک سکون بھی اسی سے ملتا ہے کہ یہ ثابت ہو جائے کہ لڑائی میں مرد غلطی پر ہے اور یہ ثابت بھی مرد کی زبان یہی ہو۔اس کی نفسیاتی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ وہ مرد کی نسبت پیدائشی طور کمزور ہے لہذا کمزور کا اپنی کمزوری کو مان لینا اسے خوف میں مبتلا کر سکتا ہے یعنی اپنے جائز حقوق کے غصب ہو جانے کا خوف کیونکہ میاں بیوی کا تعلق عام طور مقابلے کا تعلق ہوتا ہے نہ کہ خیر خواہی کا۔ اگرچہ ان کاتعلق ہونا خیر خواہی کا چاہیے لیکن میں یہ بیان کر رہا ہوں کہ عملا ً ایسا نہیں ہوتا ہے۔