اب تو سائنس وائنس کی برکت سے خیر مذہبی ذہن بھی یہ کہنا شروع ہو گیا ہے کہ انسان پر شیطان نہیں آ سکتا حالانکہ اس کے دلائل بیسیوں ہیں جو کتاب وسنت میں موجود ہیں۔ رہی یہ بات کہ مغرب جادو اور جنات کو نہیں مانتا تو یہ صرف غلط فہمی ہے جو کچھ پڑھے لکھے لوگوں کو لاحق ہے۔ان کا کہنا یہ ہے کہ جادو جنات اب یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ رہ گیا ہے اور جدید مغربی آدمی ان خرافات سے نکل چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جادو جنات کے حوالے سے سب سے کم یقین اگر کسی معاشرے میں پایا جاتا ہے یا پایا جا سکتا ہے، تو وہ مسلمان معاشرہ ہے۔ جس معاشرے نے خدا کا انکار کر دیا ہو، اس پر شیطان سوار نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے؟ تو جن معاشروں نے خدا کا انکار کیا ہے، ان میں سب سے زیادہ جادو جنات کو ماننے والے لوگ موجود ہیں۔

مغرب میں تو شیطان پرستی (satanism) بطور مذہب کے پھیل رہا ہے۔ اس مذہب میں شیطان کی باقاعدہ عبادت کی جاتی ہے، اسے خدا کی طرح پوجا جاتا ہے، گرجا گھر خرید کر شیطان کے عبادت خانے بنا دیے جاتے ہیں۔ اور یہ پجاری ان کے معاشروں کے عام لوگ نہیں، خاص الخواص ہیں۔ ابھی آپ یہ لکھ کر گوگل کریں کہ میجک اِن ہالی ووڈ موویز Magic in Hollywood movies تو آپ کے سامنے بیسیوں موویز ایسی آ جائیں گے جو پچھلی دو دہائیوں میں بنائی گئی ہیں اور ان کا موضوع جادو جنات ہے اور سپر ہِٹ super hit موویز ہیں۔تو ہیری پورٹر Harry Porter وہ بنائیں اور جادو جنات کے وہم کا طعنہ ہم سنیں! مغرب میں جادو جنات پر کس قدر یقین موجود ہے، اس کا اندازہ ہیری پورٹر کی مقبولیت سے لگا لیں، کسی سروے کی ضرورت نہیں ہے۔ سروے وغیرہ تو انہوں نے ہم جیسے توہم پرست معاشروں کے لیے رکھے ہوئے ہیں کہ آج بھی افریقہ میں اتنے لوگ جادو ٹونے پر ایمان رکھتے ہیں، اب اس پر تحقیق ہو رہی ہے۔ اور ہیری پورٹر محض انٹرٹینمنٹ نہیں ہے بلکہ ایسی انٹرٹینمنٹ ہے جو اُن کے اُن ایمانیات belief system کو تسکین پہنچاتی ہے جو ان کے بقول ہیں ہی نہیں۔

تو تم خود کہاں کھڑے ہو؟ ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں رہے کہ ریسرچ ہی کر سکو۔ اور اگر کسی سر پھرے نے کر بھی لی تو یہ نتیجہ نکال دکھایا کہ جادو پر ایمان انسانی دماغ کا پیدائشی مسئلہ ہے لہذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ سائنس کے زمانے میں بھی ہم مغربی لوگ جادو پر ایمان کیوں رکھتے ہیں! لینکاسٹر یونیورسٹی، برطانیہ کے سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ایک پروفیسر صاحب کی ریسرچ یہ کہتی ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا جادو جنات پر ایمان نہیں ہے، ان کا عمل بھی یہ بتلا رہا ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنے تحت الشعور (sub-consciousness) میں اس پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن خواہ مخواہ انکار کا تکلف کر رہے ہوتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جادو جنات کے حوالے سے آج کا مغربی معاشرہ بھی جن خرافات اور توہمات میں پڑا ہوا ہے، ہم مسلمان ان سے بہت امن میں ہیں۔ سائنسی دور کا مغربی انسان آج بھی دور تنویر (enlightenment) سے پہلے کے زمانے کے عقائد ونظریات میں جی آ رہا ہے یعنی ابھی تک اپنے دور جاہلیت میں سانس لے رہا ہے۔

جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اسلام کے مطابق جنات ایک ایسی مخلوق ہیں جنہیں آگ کی لَو invisible flame سے پیدا کیا گیا ہے، جو آگ کے شعلے کا سب سے اوپر کا حصہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں جنات کی پیدائش کا ذکر ہے بلکہ سورۃ الجن کے نام سے ایک پوری سورت موجود ہے۔ باقی جنات، انسانوں سے کمزور ہیں، انسان ان سے کئی گنا طاقتور ہے، اور اس کا اقرار جنات خود کرتے ہیں۔ جنات کا معاملہ اس سانپ کا سا ہے جو انسان سے ڈرتا ہے جبکہ انسان اس سے ڈر رہا ہوتا ہے۔ تو انسان اشرف المخلوقات ہیں، جنات کے جد امجد ابلیس کو حکم دیا گیا کہ انسانوں کے جد امجد آدم ﷤ کو سجدہ کرو تو یہ انسان کی جنات پر فوقیت (superiority) کی واضح علامت ہے ۔اور اسی وجہ سے تو شیطان کو انسان سے حسد ہے کہ یہ پیدا بعد میں ہوا لیکن مرتبے میں مجھ سے بہتر ہے۔

رہی یہ بات کہ شیطان کو انسان پر کس قدر تصرف حاصل ہے تو اس کے مختلف درجات ہیں۔ پہلا درجہ تو وسوسے کا ہے کہ شیطان انسان کو وسوسہ ڈال سکتا ہے اور یہ وسوسہ ڈالنے کی اجازت اسے خدا نے دی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ
ترجمہ: میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جو انسانوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا رہتا ہے۔

اور وسوسے کا علاج قرآن مجید میں تعوذ کی صورت بتلایا گیا ہے کہ جب بھی شیطان کوئی وسوسہ ڈالے تو فورا اعوذ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ پڑھ لے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ
ترجمہ: جب بھی شیطان تمہیں کوئی وسوسہ ڈالے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔

اور شیطان کا یہ وسوسہ خدا کے بارے بھی ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آ کر کہتا ہے کہ فلاں کو کس نے پیدا کیا، فلاں کو کس نے پیدا کیا، یہاں تک کہ تم سے کہتا ہے کہ خدا کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب تم یہاں پہنچو تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ تو یہ خیال شیطان کا پیدا کردہ ہوتا ہے نہ کہ انسان کا اپنا۔ تو شیطان کو یہ اختیار ہے کہ وہ ہمارے دماغ میں کوئی سوچ پیدا کر سکے جنہیں ہم شیطانی خیالات بھی کہہ دیتے ہیں۔ اور یہ شیطانی خیالات گناہ سے متعلق ہوتے ہیں جیسا کہ زنا کرنے، قتل کرنے یا کسی کا نقصان کرنے کی سوچ کا پیدا ہونا۔

بعض اوقات شیطانی وسوسہ طہارت اور وضو کے بارے بھی ہوتا ہے۔ مذہبی آدمی اور بعض اوقات غیر مذہبی کو بھی شیطان اس طرح بھی تنگ کرتا ہے۔ سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی ایک نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان اسے وسوسہ ڈالتا ہے کہ تمہارا وضو ٹوٹ گیا ہے۔ بس اس وسوسے پر اُسے جواب دو کہ تم جھوٹے ہو۔اب کوئی صاحب گھنٹوں واش روم میں ہاتھ دھوتے گزار دیتے ہیں، اور اسے نفسیاتی بیماری سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ شیطان کا وسوسہ ہے جو حد سے بڑھ جائے تو بیماری بن جاتی ہے اور اسے ماڈرن سائیکالوجی میں اوسیڈی Obsessive Compulsive Disorder کا نام دیا جاتا ہے۔بعض اوقات شیطان زیادہ طہارت کا وسوسہ ڈالتا ہے تو بعض اوقات طہارت کے فضول اور بے کار ہونے کا وسوسہ ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ طہارت کو غیر منطقی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور غسل جنابت تک نہیں کرتے۔ ان کو نفسیاتی مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔ جب یہ کسی سائیکالوجسٹ کے پاس جاتے ہیں تو وہ انہیں بتلاتا ہے کہ نجاست میں رہو تا کہ نجاست سے تمہارا خوف اور الجھن دور ہو اور اسے وہ تھیراپی کا نام دیتے ہیں۔ اس سے اس کے نفسیاتی مسائل اور بڑھ جاتے ہیں۔ اب ماڈرن سائیکالوجی کا قبلہ ہی درست نہیں ہے لہذا انہوں نے نفسیاتی مسائل کا علاج کیا کرنا ہے۔

ایک ایک مریض کو اپنے مرض کے ساتھ گزارا کرتے تیس تیس سال ہو گئے ہیں، کبھی اس کو کاؤنسلنگ پر لگایا ہے تو کبھی تھیراپی پر، جب مسئلہ حل نہ ہوا تو دو تھیراپیز کو ملا کر ایک نئی تھیراپی بنا لی، اور جب اس سے بھی کچھ نہ ہوا تو اسے میڈیسن پر لگا دیا، پھر برین فوگنگ brain fogging شروع ہو گئی، مریض کے دماغ پر ہر وقت سوچوں کی یلغار ہونے لگی، وہ جذبات سے عاری ہو گیا، اپنے اندر خلا محسوس کرنے لگا، تو اب ان کے پاس کیا حل ہے، بس دوا کی مقدار بڑھا دو، اور اسے سلا دو۔ یعنی ان کے پاس کسی مسئلے کا آخری حل مریض کو سلا دینا کہ جیسے وہ سو کر اٹھے گا تو جادوئی دوا سے اس کے سارے مسائل حل ہو چکے ہوں گے، کمال ہے۔ لیکن زیادہ کمال تو ان مریضوں کا ہے کہ جنہیں انہوں نے بے وقوف بنا رکھا ہے۔ مسئلے کا آسان حل یہ تھا کہ آپ اسے طہارت کے اہتمام کا حکم دیتے اور پھر اس کی تھیراپی کرتے تو دیکھتے کیسے اس کے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں۔ رہا اسلام تو وہ اس قوم کے جینز (genes) میں ہے اور ان کے اجتماعی لا شعور collective unconsciousness میں ہے۔ تو ان کی بائیالوجی اور سائیکالوجی دونوں مذہب پر کھڑی ہیں تو آپ اسے نکال کر کیسے انہیں ٹھیک کر سکتے ہیں! تو شیطان وسوسہ ڈالتا ہے اور خواہش بھڑکاتا ہے یعنی اسلامی سائیکالوجی کے بیانیے کے مطابق وسوسہ اور خواہش desire and doubt ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ وسوسہ خواہش کو پورا کرتا ہے اور خواہش وسوسہ پیدا کرتی ہے۔اور شیطان ان دونوں میں ربط قائم کرتا ہے۔

دم اور جھاڑ پھونک سے یہ مرض جاتا رہتا ہے اگرچہ کاؤنسلنگ سے بھی اس کا علاج کبھی کبھار ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان ہماری کمزوری تلاش کرتا ہے۔ اگر طہارت اور نفاست ہماری کمزوری ہے تو وہ ہم پر یہاں سے حملہ کرے گا کیونکہ اس کا انسان پر بس چلنا آسان نہیں کہ انسان اس سے طاقتور ہے لہذا وہ ہماری کمزوری تلاش کرتا ہے اور اس پر حملہ کرتا ہے۔ تو شیطان ہمیں بیمار نہیں کرتا لیکن ہماری بیماری کے جراثیم یا جسم کے کمزور پہلو کو مَس کر کے چھیڑ دیتا ہے کہ جس سے وہ بیماری کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ تو میڈیکل سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ ہمارے جسم میں ہر وقت ہزاروں بیماریوں کے جراثیم موجود ہوتے ہیں تو شیطان ان میں سے بعض کو فعال (active) کر دیتا ہے اور اس کے فعال کرنے کے پیچھے وجوہات بھی مادی (material) ہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح اگر آپ اعصابی طور کمزور ہیں تو شیطان آپ کو ڈیپریشن کے مرض میں مبتلا کرنے کے لیے وسوسوں میں پھنسا دیتا ہے۔ تو ڈاکٹر یا سائیکالوجسٹ جسم کے اس کمزور حصے کو دوائی یا کاؤنسلنگ کے ذریعے مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جس پر شیطان حملہ آور ہوتا ہے۔

اسی طرح شیطان کا یہ وسوسہ میاں بیوی کے مابین بھی ہوتا ہے کہ ان میں لڑائی کروا سکے اور نوبت طلاق تک پہنچ جائے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ابلیس اپنا تخت سمندر پر بچھاتا ہے اور اپنے چیلوں کو دنیا میں بھیجتا ہے کہ فساد پھیلا کر آئیں۔ وہ چیلے واپس آ کر اسے رپورٹ کرتے ہیں کہ ہم نے دنیا میں یہ فساد پھیلایا۔ ان میں سے ایک آ کر یہ کہتا ہے کہ میں نے میاں بیوی میں لڑائی کروائی یہاں تک کہ ان میں علیحدگی ہو گئی۔ تو ابلیس اپنے تخت سے اٹھ کر اس شیطان کو گلے لگاتا ہے اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ ہے میرا اصل جانشین۔ اس کی وجہ سمجھ میں بھی آتی ہے کہ میاں بیوی کی علیحدگی (separation) دونوں کے لیے اور بچوں کے لیے بھی جس قسم کے ذہنی مسائل پیدا کر دیتی ہے، اس کا نتیجہ عموما ًانسان سے ایمان اور مذہب کے بھی جاتے رہنے کی صورت نکلتا ہے۔

صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷐ رات کو حضرت صفیہ ﷞ کے ساتھ نکلے تو رستے میں دو لوگ ملے۔ آپ نے ان سے کہا کہ یہ میری بیوی ہے۔ انہوں نے سبحان اللہ کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷐ ، یہ بتلانے کی بھلا کیا ضرورت تھی! آپ نے کہا کہ شیطان تمہارے دل میں وسوسہ ڈال سکتا تھا یعنی میں نے شیطان کا رستہ بند کر دیا ہے۔ تو شیطان کے اس قسم کے وسوسوں سے حفاظت کے لیے بات چیت اور باہمی گفت وشنید (communication) بہت ضروری ہے، خاص طور میاں بیوی اور قریبی رشتوں میں۔ اور کاؤنسلنگ میں بھی آپ مریض کے دماغ کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ وہ شیطان کے وسوسوں کو پیچھے دھکیل سکے۔ وسوسے کے علاوہ شیطان کے تصرف کی دوسری صورت انسان کو مَس (touch) کرنا ہے اور مَس کی بھی کئی ایک صورتیں ہوتی ہیں۔ کبھی وہ صرف مَس ہی کرتا ہے جیسا کہ بچوں کو اور اس کا اثر ہلکا ہوتا ہے جیسا کہ بچے کے عمومی رویے normal behavior میں کچھ تبدیلی آجاتی ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کو چھیڑتا ہے اور اس کے چھیڑنے سے وہ روتا ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷐ أُعِيذُكُمَا بِكَلِماتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ پڑھ کر حضرت حسن اور حسین ﷠ کو دم کرتے تھے۔ ترجمہ: میں تم دونوں کو اللہ کے مکمل ہونے والے کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں، ہر شیطان سے، ہر جادو ٹونے سے، اور ہر نظر بد سے۔

میں خود بھی اپنے بچوں میں جب ضرورت سے زیادہ ایٹی چیوڈ پرابلم دیکھتا ہوں تو انہیں ساتھ لگا کر منزل پڑھتا ہوں۔ اور اس سے بعض اوقات تو سو فی صد رویہ بدل جاتا ہے اور بعض اوقات کچھ بہتری آتی ہے۔ اب تو وہ اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ جب اپنا آپ سنبھال نہیں پا رہے ہوتے تو خود بھی میرے پاس آ جاتے ہیں کہ ہمیں دم کر دیں۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ اس کا اثر نفسیاتی زیادہ ہے یا دم کا اثر ہے لیکن مجھے دم کا اثر زیادہ لگتا ہے، واللہ اعلم

مَس کرنے کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ شیطان انسان میں داخل ہو جائے۔ اب جب یہ داخل ہو جاتا ہے تو کبھی تو کچھ نقصان نہیں پہنچا پاتا سوائے وسوسہ اندازی کرنے کے۔ پہلی صورت کا ذکر صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کو نماز میں جماہی آئے تو اپنا منہ بند رکھے کہ شیطان اس میں داخل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سنن الترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ تو یہ صرف وسوسہ ڈال سکتا ہے، اور کچھ نہیں کر سکتا۔ اور اس کے وسوسوں سے بچنے کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے ورنہ تو ساری اخلاقیات بگڑ جائیں گی۔ جن کے اخلاقی مسائل زیادہ ہوں مثلا ًغصہ بہت زیادہ اور بلاوجہ آئے، غصہ اچانک آئے اور شدید آئے تو انہیں عموماً اس قسم کا شیطانی مَس لاحق ہوتا ہے۔ مَس کرنے کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ شیطان انسان کے اندر سکونت اختیار کر لے یعنی عارضی طور داخل نہ ہو بلکہ گھر بنا لے اور یہ تھوڑا تشویش ناک ہے۔ اس صورت میں بھی شیطان کو انسان کو نقصان پہنچانے کے لیے سالوں محنت درکار ہوتی ہے اور وہ یہ کرتا ہے کیونکہ جسم انسانی میں شیطان کی حیثیت ایک بیکٹیریا کی سی ہوتی ہے جو انفیکشن پھیلا کر انسان کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ البتہ شیطان بیکٹیریا نہیں ہے لیکن بیکٹیریا کی صورت اختیار کر لیتا ہے جیسا کہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ شیطان کوئی سی بھی صورت اختیار کر سکتا ہے اور یہ قدرت اسے اس کے خالق نے عطا کی ہے۔

اب اس میں دو صورتیں ہوتی ہیں کہ اگر تو آپ باعمل (practicing) ہیں یعنی دین پر ممکن حد تک عمل کر رہے ہیں تو وسوسہ بڑھ جاتا ہے جس سے سوشل ایشوز مثلاً تعلقات (relationships) کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ مجھے ایک مرتبہ احساس ہوا کہ ہم میاں بیوی کی لڑائی بہت بڑھ گئی ہے۔ میں نے اہلیہ محترمہ کو ساتھ لیا اور اپنے ایک عامل دوست قاری شفیق الرحمن صاحب کے پاس دم کروانے کے لیے چلے گئے۔ انہوں نے انتہائی توجہ سے دم کیا اور میں نے انتہائی توجہ سے سنا۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ میں دوران دم رونا شروع ہو گیا، ہچکیوں کے ساتھ۔ رونا بھی عجیب نہیں تھا کہ قرآن سن کر رونا آ ہی جاتا ہے، کوئی نئی بات نہیں ۔ عجیب یہ تھا کہ میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ میں نہیں رو رہا کیونکہ رونا حلق کے بھی اوپری حصے سے تھا اور جیسے جبری تھا۔ مجھے رونا آتا ہے، میں اپنے رونے کی کیفیات سے واقف ہوں، لیکن اس کیفیت سے میں واقف نہیں تھا اور نہ ہی یہ مجھے سمجھ آ رہی تھی۔ دم کے بعد قاری صاحب نے کہا کہ نظر کا جن ہے۔ تو مجھے سمجھ آ گئی کہ یہ جن کا رونا تھا، واللہ اعلم۔

اور اگر آپ نماز، تلاوت اور ذکر کا اہتمام نہیں کرتے تو یہ جنات آپ کے جسم میں کوئی بیماری پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ مثلا ًکچھ جنات کی خاصیت یہ ہے کہ اگر وہ آپ کے جسم میں کچھ عرصہ رہیں تو وہ لوہا پیدا کر دیتے ہیں مثلا ً لوہے کے کیل۔ اور یہ لوہا بیماری کا باعث بن جاتا ہے۔ جادو کے علاج میں مریض جب قرآن مجید پڑھنے اور دم والا پانی استعمال کرنے کے بعد قے کرتا ہے تو لوہے کے یہ کیل فزیکلی نکلتے ہیں۔ بعض جنات کی خاصیت ہے کہ جہاں کچھ عرصہ گزار لیں، وہاں لکڑی پیدا کر دیتے ہیں۔ اس کی کچھ سائنسی توجیہات بھی کی جا سکتی ہیں لیکن میرا یہ میدان نہیں ہے۔ ہاں! آپ نے اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو کر سکتے ہیں۔ تو یہ مَس کی دوسری صورت ہے کہ جس میں شیطان انسان پر چھا جائے لیکن انسان کے حواس باقی رہیں۔

مَس کی تیسری صورت یہ ہے کہ شیطان انسان کے حواس پر چھا جائے جیسا کہ سورہ البقرۃ میں ہے کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ قیامت والے دن اس شخص کی مانند کھڑے ہوں گے کہ جسے شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس کر دیا ہو۔ سنن النسائی کی روایت میں ہے کہ ہمیں آپ ﷐ نے یہ دعا سکھائی ہے کہ اے اللہ! میں آپ سے اس کی پناہ چاہتا ہوں کہ موت کے وقت شیطان مجھے مخبوط الحواس بنا دے۔

تو انسان کے کمزور لمحات میں شیطان اس کو مخبوط الحواس بنا سکتا ہے جیسا کہ بہت غصے کی حالت میں، یا سکرات الموت یعنی موت کی مدہوشی کے عالم میں، یا غلاظت اور نجاست کی حالت میں۔ ایک مرتبہ بچوں کے ساتھ گھر سے شاپنگ کے لیے نکلا، لنک روڈ پر ایک جگہ ہجوم تھا۔ آگے بڑھ کر دیکھا تو ایک خاتون اور اس کا بوڑھا باپ سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہیں، ساتھ ہی ان کی بائیک کھڑی ہے۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے خاتون تڑپتی ہے اور پھر سکون میں آ جاتی ہے، مدہوشی کے عالم میں ہے۔ باپ اس کے کپڑے سیدھا کر رہا ہے، اور کبھی اس کا سر گود میں لیے سہلا رہا ہے۔ پانچ سات لوگ جمع ہو گئے، ایک نے پوچھا کیا ہوا؟ باپ نے کہا کہ اسے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور یہ کیفیت ہو جاتی ہے۔ مجھے مسز نے کہا کہ اسے پانی لا دو۔ میں اسٹور میں گیا، منرل واٹر کی بوتل لی اور معلوم نہیں مجھے کیا سوجھی کہ میں نے اس پانی پر تین مرتبہ جلدی سے أُعِيذُكُمَا بِكَلِماتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ پڑھ کر پھونک مار دی۔

اتنی دیر میں مجھ سے پہلے ایک اور صاحب بھی پانی کی بوتل لے آئے تھے جو خاتون کے والد کے ہاتھ میں تھی اور وہ اس خاتون کے منہ پر چھینٹے مار ہے تھے۔ میں نے اپنی بوتل آگے کی، باپ نے بھی بغیر سوچے سمجھے پکڑی اور خاتون کے منہ پر اس دم کیے پانی کے چھینٹے مار دیے، وہ تڑپنا شروع ہو گئی اور بولنا بھی، یہ میرے ساتھ کیوں کر رہے ہو، مجھے چھوڑ دو؟ باپ بھی بولنا شروع ہو گیا، یہ پانی کس نے دیا ہے؟ میں ڈر گیا کہ شاید وہ ناراض ہو گا لیکن میں نے ہلکے سے کہہ دیا کہ اور کچھ نہیں بس تھوڑا سا دم کیا ہے۔ اس نے بوتل مجھے واپس پکڑائی اور کہا کہ اسے تھوڑا اور دم کر کے دو، یہی پانی اس کا علاج ہے۔ میں حیران تھا، بہر حال دوبارہ چند کلمات پڑھ کر دم کیا۔ وہ اس خاتون پر پانی چھڑک رہا تھا اور وہ سکون میں آ رہی تھی۔ میں نے اسے یہ کہہ کر اپنی راہ لی کہ اس پانی میں مزید پانی ملاتے رہو، یہ کام کرتا رہے گا ۔

شیطان کے مَس کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ہمارے کھانے میں بھی شریک ہو جاتا ہے اور میاں بیوی کے ازدواجی عمل (intercourse) میں بھی بلکہ ہمارے ہر کام میں بھی اگر تو ہم اسے اللہ کا نام لے کر شروع نہ کریں۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ شیطان تمہارے ہر کام میں حاضر ہو جاتا ہے، یعنی اسے خراب کرنے کے لیے۔ اسی طرح صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ جب تمہارے ہاتھ سے لقمہ گر جائے تو اٹھا کر صاف کر کے کھا لو، اسے شیطان کے لیے مت چھوڑ دو۔اسی طرح صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ جب تم اپنی اہلیہ کے پاس جانے سے پہلے یہ دعا پڑھ لو:

بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا
ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللہ! ہمیں بھی شیطان سے بچا اور جو ہمیں اولاد دے، اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ۔

تو جو تمہیں اولاد دی جائے گی، اس پر شیطان کبھی تسلط حاصل نہیں کر پائے گا۔تو شیطان انسان کے مال اور اولاد میں شریک ہو جاتا ہے یعنی حصہ دار بن جاتا ہے، یہ مضمون قرآن مجید میں بھی آیات

وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَاد ﴿الإسراء، ۶۴﴾
ترجمہ: اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہو جاؤ.

میں بیان ہوا ہے۔ لیکن اگر انسان کوئی کام اللہ کے نام سے شروع کرے تو پھر شیطان اس میں نہ تو شریک ہو پاتا ہے اور نہ ہی اس کو خراب کر سکتا ہے۔ تو شیطان کا تصرف بس اتنا ہے لہذا اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ اللہ عزوجل نے اس کے تصرف کو ختم کرنے کے وسائل اور ذرائع بھی ہمیں مہیا کر دیے ہیں۔ اور شیطان کا یہ تصرف ہمارے امتحان کے لیے رکھا گیا ہے تا کہ اس سے بچنے کے لیے ہم شریعت کو پریکٹس کریں اور اپنے امتحان میں کامیاب ہو جائیں۔

ایک مرتبہ قاری شفیق الرحمن صاحب کی اجتماعی دم کی مجلس میں شریک تھا تو پانچ سات خواتین کے جن حاضر تھے اور وہ گفتگو کر رہے تھے، اور آپس میں لڑ بھی رہے تھے، ایک دوسرے پر الزام لگا رہے تھے، ایک تو قاری صاحب کو گالیاں دے رہا تھا، حالانکہ یہ مہذب خواتین ہوتی ہیں، پڑھی لکھی، ان کا قاری صاحب سے کیا لینا دینا کہ محض قرآن مجید کی دو چار آیات پڑھنے سے وہ گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دیں کہ چپ کر، کبھی دھمکیاں دیں، کبھی منتیں کریں، اور مقصد ایک ہی ہے کہ قرآن نہ پڑھیں، ایک ہی جملہ کہ قرآن نہ پڑھیں۔ تو اب آپ کیا کہیں گے کہ یہ محض نفسیاتی کیفیت ہے؟ اسی طرح بعض جنات جو کہ ہندو ہوتے ہیں اور لمبی عمر کے ہیں تو وہ سنسکرت میں گفتگو کرتے ہیں، ایک ان پڑھ خاتون جس نے کبھی سنسکرت کا نام نہیں سنا اور وہ اس میں گفتگو کر رہی ہے، آپ ریکارڈ کر کے چیک کر لیں، تو یہ سب کیا ہے؟ تو بہر حال ایک خاتون کا جن دوسری خاتون کے جن پر خوش رہا تھا کہ قاری صاحب اس پر آیات پڑھ رہے تھے اور وہ قاری صاحب کو کہہ رہا تھا کہ قاری صاحب اس پر اور پڑھیں، اس نے پانچ ہزار عورتوں کے ساتھ زنا کیا ہے۔ میں نے قاری صاحب سے کہا کہ یہ بہت مبالغہ کر رہا ہے۔ لیکن اگر آپ اس کو اس تناظر میں سمجھیں کہ جس میں یہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر انسان دعا نہ پڑھے تو بیوی کے ساتھ تعلق قائم کرے گا تو شیطان شامل ہو جائے گا تو اس اعتبار سے اس خبیث کی بات ٹھیک معلوم ہوتی تھی۔

بہرحال مقصد اس وقت تین ہیں؛ ایک تو یہ ہے کہ شیطان کا عمل دخل ہماری زندگی میں ایک نارمل چیز ہے، اس سے گھبرانا نہیں ہے کہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان لگا ہوا ہے جو کم از کم وسوسہ ڈالنے کا کام تو ہر کسی سے کر ہی رہا ہے۔ تو یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اسے قبول کر کے اس کے اثرات سے بچنے کی شعوری کوشش کرنی چاہیے۔ دوسرا یہ کہ ان سے ڈرنا نہیں ہے اور نہ ہی یہ ڈرنے کی چیز ہیں۔ یہ تو خود ہم سے ڈرتے ہیں۔ ایک جن نے قاری صاحب کو کہا کہ جب آپ لوگ آیت الکرسی پڑھ لیتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک مضبوط دیوار آ جاتی ہے اور ہم آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اب اس کے بعد آپ کا نفسیاتی خوف باقی رہ جاتا ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ تو صورتیں دو ہی ہیں کہ ڈراؤ یا ڈر جاؤ، تیسری کوئی نہیں ۔ تو آپ اس خبیث کو ڈرانے کی پوزیشن میں آئیں جو پہلے ہی آپ سے ڈر رہا ہے۔ صرف اسے یہ فائدہ (edge) حاصل ہے کہ وہ ہمیں دیکھ سکتا ہے لیکن ہم اسے نہیں دیکھ سکتے لیکن وہ ہے ہم سے بہت کمزور۔ ہم تو اس کے باپ کے مسجود کی اولاد ہیں، اس پر ذرا غور کریں۔

تیسرا یہ کہ جادو وادو کا زیادہ وہم نہ پالیں اور نہ ہی جنات کو ذہن پر سوار کریں۔ بس جیسے اس دنیا میں چور موجود ہیں تو کیا میں ساری رات ان کے انتظار میں جاگ کر گزار دوں؟ تو یہ تو ایبنارمل ایٹی چیوڈ ہو گا. بہت سوں کو میں کہتا ہوں کہ آپ کو کچھ نہیں لیکن جن کو ہوتا ہے، انہیں پھریہی کہتا ہوں کہ آپ سنجیدہ ہو کر علاج کروائیں۔ میں کوئی پروفیشنل نہیں ہوں لیکن ایک ہی مرتبہ کی گفتگو یا بات چیت سے اندازہ لگا لیتا ہوں کہ کچھ ہے یا صرف وہم ہے۔ اور عموماً اندازہ درست نکلتا ہے۔ تو وہم نہ پالیں، اور اگر کچھ ہے بھی تو علاج کروا لیں، پریشانی کی کیا بات ہے۔ ویسے تو بھی انسان بیمار ہو جاتا ہے، اور یہ بھی ایک بیماری ہی ہے، بس اتنی سی بات ہے۔ کچھ توجہ اور علاج سے جاتی رہے گی۔

تو جادو ہو گیا ہے، جادو ہو گیا ہے، یہ کہہ کہہ کر شیطان کو چوڑا نہ کریں، یہ میں اکثر دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں۔ تو کیا ہو گیا بھئی، اگر جادو ہو بھی گیا ہے تو۔ ہو گیا ہے تو چلا جائے گا۔ انسان بیمار بھی تو ہو جاتا ہے ناں۔ اور بیماری علاج کرواتے رہنے سے جاتی بھی رہتی ہے۔ جتنا زیادہ جادو کو بڑا سمجھیں گے، شیطان اتنا چوڑا ہو گا اور حدیث میں ہے کہ ایسی باتیں نہ کرو کہ جس سے شیطان پھیل جائے۔ بعض دوستوں کو تو میں ہنستے ہوئے یہ تک کہہ دیتا ہوں کہ ٹھیک ہے آپ کو جادو ہے لیکن اس کو یوں ہی سمجھیں کہ جیسے بچے آپس میں کھیلتے ہوئے ایک دوسرے سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میں نے تم پر جادو کر دیا ناں۔ تو جادوکا نام سن کر مزیدپریشان نہیں ہونا۔ بس علاج کی طرف توجہ ہے تو بیماری کو بڑا نہ سمجھیں کہ اللہ کے کلام کے مقابلے میں کچھ بھی تو بڑا نہیں ہے۔ اگر کبھی یہ وسوسہ زیادہ تنگ کرنا شروع ہو جائے کہ معلوم نہیں مجھ پر کتنا بڑا اور سخت جادو ہو گیا ہے تو اللہ اکبر پڑھ لیا کریں تو اس سے شیطان دبک جائے گا اور چھوٹا پڑ جائے گا۔