پچھلے عنوان کا خلاصہ یہ ہے کہ جنات سے مباح امور میں تعاون لینے میں حرج نہیں اور نہ ہی یہ شرک ہے بلکہ یہ جائز ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ کی رائے ہے بشرطیکہ جنات کو حاضر بھی ایسے ذریعہ سے کیا جائے جو کہ مباح اور جائز ذریعہ ہو جیسا کہ جادو اور آسیب کے مریض پر قرآن مجید پڑھنے سے جنات حاضر ہو جاتے ہیں اور عامل سے گفتگو کر کے اسے جادو اور آسیب کے بارے تفصیل بتلاتے ہیں۔ البتہ جنات سے مدد لینے کی کچھ صورتیں واقعی میں شرک ہیں جیسا کہ ان کی مدد حاصل کرنے کے لیے اُن کے نام کے بکرے ذبح کیے جاتے ہیں، جنگلوں میں مرغے اڑائے جاتے ہیں، بکروں کی سِریاں پھینکی جاتی ہیں، اُن کے نام کے دِیے جلائے جاتے ہیں۔ اور عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اِس طرح اُن کی خوشنودی حاصل ہو گی تو وہ مدد کو پہنچیں گے۔ جنات کی مدد حاصل کرنے کے یہ طریقے جادوگر استعمال کرتے ہیں اور یہ صریح شرک کے زمرے میں داخل ہیں، یہ واضح رہے۔ اس لیے ہم نے کہا ہے کہ یہ کام کسی عام عامل کے لیے کرنا درست نہیں بلکہ وہ کرے جو فقیہ اور مجتہد ہو یعنی اس درجے کا دین کا علم رکھتا ہو۔
جنات کو حاضر کرنے کے لیے روحانی عامل اور سفلی جادوگر کے طریقے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جادوگر جنات کو کفریہ اور شرکیہ افعال کے ذریعے حاضر کرتا ہے مثلا ً قرآن مجید کو گٹر میں بہائے گا، حیض کے خون سے آیات لکھے گا، جنات کے نام پر جانور اور پرندے ذبح کرے گا، کفریہ اور شرکیہ جنتر منتر کا ورد کرے گا وغیرہ وغیرہ۔دوسری طرف جادوگروں کے مقابلے میں مارکیٹ میں عامل موجود ہیں جو پھر دو قسم پر ہیں؛ ایک وہ جو جنات کو قابو کرنے کے لیے قرآنی آیات کے چلے کاٹتے ہیں اور قابو میں آنے والے جنات کو موکل کا نام دیتے ہیں۔ اور یہ موکل کوئی چوتھی مخلوق نہیں ہے بلکہ جنات ہی کی قسم ہے۔ ہمارے نزدیک جنات کو اس طرح قابو کرنا شرعاً جائز نہیں ہے کہ ہمارے دین میں آزاد کو غلام بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ جنات کو حاضر کرنے کا ایک اور طریقہ جادو کے مریض پر قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کرنا ہے۔ تو اس طرح کی جنات کی حاضری لگوانے میں حرج نہیں ہے جبکہ مقصد جادو کا توڑ ہو اور ذریعہ قرآن مجید کی آیات کی تلاوت ہو۔ اور وہ بھی قرآن مجید کی آیات کی تلاوت سے از خود حاضر ہو جاتے ہیں یعنی تکلف نہیں کرنا پڑتا۔ البتہ بعض عامل یہ کرتے ہیں کہ مخصوص آیات پڑھتے ہیں تو ان سے وہ حاضر ہو جاتے ہیں تو ان آیات کے پڑھنے میں بھی حرج نہیں ہے جبکہ عامل کے ذہن میں یہ بھی موجود ہو کہ ان آیات کے پڑھنے سے اس کا مقصد اس ظالم جن کو حاضر کرنا ہے۔
کچھ لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے اور عموماً انکار کرنے والے وہ ہیں جنہیں نہ تو کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی کوئی مشاہدہ، بس دلیل دلیل کی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ اس کی دلیل کیا ہے۔ جادو، جنات اور عالم جن کے حوالے سے جو کتب لکھی گئی ہیں، ان میں عموماً دس بارہ حدیثیں ہیں، ہر دوسرا مصنف انہیں آگے پیچھے کر کے ترتیب الٹ کر بیان کر رہا ہوتا ہے۔ نہ کچھ علم استدلال سے مناسبت ہے کہ ظاہریت ہی اتنی چھائی ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ بندہ کوئی کام کی بات ہی بیان کر دے۔ البتہ کویت کے عالم دین، شیخ وحید عبد السلام بالی تجربہ کار آدمی ہیں اور ان کی کتاب ’’جادوگروں کا قلع قمع کرنے والی تلوار‘‘ واقعی میں پڑھنے کے لائق ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں جنات سے مکالمہ کے ذاتی تجربات بھی بیان کیے ہیں۔ یہ کتاب گوگل کی جا سکتی ہے۔ پھر اس حوالے سے ایک سعودی عالم دین شیخ خالد الحبشی کا کام بہت اچھا ہےاور انہوں نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے جو ان کی ویب سائیٹ پر موجود ہے۔
پاکستان میں اس حوالے سے دو لوگ کافی معروف ہیں جو کتاب وسنت کے مطابق علاج کرتے ہیں؛ راولپنڈی میں شیخ اقبال سلفی صاحب کہ جن کا مرکز کشمیری بازار میں ہے [۱] اور پیغام ٹی۔وی پر بھی خود سے جادو کے علاج کے حوالے سے انہوں نے کافی لیکچرز ریکارڈ کروائے ہیں جو یوٹیوب پر دستیاب ہیں اور جن لوگوں کو جادو ٹونے کی شکایت ہو تو ان کے لیکچرز سنیں۔دوسرا لاہور میں قاری شفیق الرحمن صاحب کہ جو اپنے ادارے الحکمۃ انسٹی ٹیوٹ نزد پائپ اسٹاپ نیو ٹاؤن شپ لاہورمیں اتوار، سوموار اور بدھ کے روز ظہر سے مغرب تک علاج کے لیے بیٹھتے ہیں۔ [۲] تو کتاب وسنت کا عامل جب جادو کے مریض پر قرآن مجید پڑھتا ہے تو اکثر جن خود حاضر ہو جاتا ہے اور چیخنا چلانا یا گفتگو شروع کر دیتا ہے۔ عام حالات میں عامل کو اس کو حاضر کرنے یا گفتگو کرنے کے لیے کوئی تردد نہیں کرنا پڑتا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا جادو کے مریض پر جادو کے توڑ کی آیات پڑھنا جائز ہے؟ تو کون بے وقوف کہے گا کہ جائز نہیں ہے! اور جو ایسی بات کہے تو وہ اس قابل بھی نہیں کہ اس کی بات کی طرف توجہ کی جائے۔ تو پہلے بات کو سمجھیں کہ ہوتا کیا ہے، پھر اعتراض کریں۔ کوئی عامل جن کو حاضر کرنے کے لیے مریض کے گرد سات پھیرے نہیں لگاتا اور نہ ہی کسی قسم کا چلہ کاٹتا ہے۔ بس مریض کے علاج کے لیے جادو کے توڑ کی آیات پڑھتا ہے اور جن حاضر ہو جاتا ہے۔ پھر اسے اسلام کی دعوت دیتا ہے، جو کہ وہ اکثر قبول کر لیتا ہے۔ ورنہ اس کو عذاب کی آیات سناتا ہے کہ جس سے اس کی موت واقع ہو جاتی ہے یا بعض اوقات بھاگ بھی جاتا ہے۔
اہلیہ محترمہ کو کچھ ذہنی الجھنیں درپیش تھیں اور ان کی وجہ سےکافی زیادہ ڈسٹرب تھیں۔ میں نے کہا کہ سائیکالوجسٹ کے پاس چلتے ہیں، انکی بھی یہی رائے بنی۔ ہسپتال گئے، اتفاق سے سائیکالوجسٹ موجود نہ تھا، واپس گھر آ گئے۔ میں نے کہا کہ دم کر دیتا ہوں، وہ لیٹ گئیں اور میں نے منزل پڑھنا شروع کر دی جس سے وہ فورا ہی سو گئیں۔ منزل قرآن مجید کی توحید کے موضوع پر چند منتخب آیات کا مجموعہ ہے۔ جیسے ہی میں سورۃ الصافات پر پہنچا، ایک تو مجھے جھٹکا لگا اور دوسرا وہ چیختی چلاتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ کچھ اس کے جسم سے نکلا، اس کا احساس مجھے بھی تھا اور اسے بھی۔ لیکن یہ سب غیر متوقع تھا اور ہم اس کے لیے ذہناً تیار بھی نہ تھے۔ اب کوئی چیز گرم ہوا کی طرح ہمارے طرف آتی تھی جس سے ہم دونوں پر خوف کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ میں نے سورۃ البقرۃ کی تلاوت لگائی تو جہاں لگائی یعنی ڈرائنگ روم میں تو وہاں تو مسئلہ حل ہو گیا لیکن جیسے ہی واش روم کی طرف بڑھے تو پھر وہی خوف کی کیفیت محسوس ہوتی ۔ پھر ہم نے وہ رات گھر پرنہیں گزاری اور گھر میں اونچی آواز سے تلاوت لگا دی۔ اگلے دن سے معاملہ معمول پر آ گیا۔
اسی طرح ایک مرتبہ ہمشیرہ کی طبیعت بہت خراب تھی، سر گویا کہ درد سے پھٹ رہا تھا، میں نے منزل کی تلاوت شروع کی، سورۃ الصافات پر ایک ہلکی سی ضرب جیسے دل پر پڑی ہو اور کچھ نکلنے کا احساس پیدا ہوا۔ میں نے ہمشیرہ سے کیفیت پوچھی تو کہنے لگی کہ اب سر میں درد بالکل بھی نہیں ہے۔ تو شیطان انسان کے جسم کو مَس (touch) کرتا ہے، کبھی پورے جسم پر حاوی ہو جاتا ہے، کبھی ایک عضو پر جبکہ عموماً دماغ پر چھا جاتا ہے۔ اکثر ذہنی بیماریاں، شیطانی وساوس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں اور شرعی دم سے فورا مسئلہ جاتا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ بڑی ہمشیرہ کا فون آیا کہ چھوٹی بہن کی سر درد سے جیسے جان نکل رہی ہے، اتنی تکلیف میں ہے۔ میں نے کہا کہ فون اس کے کان سے لگائیں۔ اللہ سے دعا کر کے موبائل کال کے ذریعے ہی منزل پڑھنا شروع کی۔ اس کے بعد پوچھا تو کہنے لگیں کہ ایسے ٹھیک ہے جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
تو ہم کہیں اور نکل گئے، اصل بحث یہ چل رہی تھی کہ جادو کی آیات پڑھنے سے مریض پر جن حاضر ہو جاتا ہے یا اس سے نکل جاتا ہے۔ البتہ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی جن محض جادو کے توڑ کی آیات سے حاضر نہیں ہوتا تو اس کے لیے یہ آیت پڑھی جاتی ہے: أَيْنَمَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿البقرة،۱۴۸﴾ اور اس سے جن فورا حاضر ہو جاتا ہے، تو اس میں بھی حرج نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عامل نے تو صرف آیت پڑھی ہے، حاضر تو اسے خدا نے کیا ہے۔ تو کیا عامل کا مریض پر کوئی آیت پڑھنا جائز نہیں ہے؟ اور آیت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ یا اللہ جہاں بھی وہ ہے، اسے یہاں حاضر کر دے، بے شک اس چیز پر تو قادر ہے۔ تو یہ تو خدا سے سیدھی سادی دعا ہے۔ اور اگر اس دعا کے نتیجے میں جن حاضر ہو جاتا ہے تو جن کی اس حاضری میں ایک بدعتی تو عامل ہوا اور دوسرا خدا ہوا۔ مطلب کیسی باتیں کرتے ہو، اب قرآن پڑھنا اور خدا سے مدد مانگنا بھی تم نے بدعت بنا دیا ہے!
اب رہی یہ بات کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ جن نہ ہو، مریض کی کوئی نفسیاتی کیفیت ہو یا ایکٹنگ ہو۔ تو پہلی صورت تو بہت ہی کم اور شاذ ونادر ہوتی ہے، البتہ دوسری کا امکان ہے۔ اور تجربہ کار عامل کو اس کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ جادو کے کسی مریض پر منزل کی آیات، خاص طور سورۃ الصافات کی پہلی دس آیات پڑھیں، جن آپ کو خود ہی بتلا دے گا کہ میرا وجود ہے ۔ باقی یہ بات درست ہے کہ عام آدمی جنات کو حاضر کرنے کا تجربہ نہ کرے کہ اس کی حاضری پر اسے ہینڈل کرنے کا تجربہ بھی ہونا چاہیے۔ ہاں البتہ کسی نے واقعتاً اس کو علمی مسئلے کے طور دیکھنا ہے، شریعت یا سائیکالوجی کے تناظر میں، تو ہمارے ایک فاضل عامل دوست قاری شفیق الرحمن صاحب کے ہاں ہر ہفتے میں تین دن مجلس ہوتی ہے، جہاں دسیوں کی حاضری ہوتی ہے اور مکالمہ بھی ہوتا ہے، اوراس سارے عمل کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ بعض کیسز میں خاص طور خواتین کے کیسز میں یہ نفسیاتی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ کسی خاتون کو یہ احساس ہو کہ اس پر جن حاضر ہوا ہے لیکن وہ اس کی نفسیاتی کیفیت ہو ،کوئی جن موجود نہ ہو۔ تو یہ بہت باریک مسائل ہیں جنہیں ایک صاحب بصیرت اچھے سے سمجھ سکتا ہے۔ اور وہ صاحب بصیرت آپ بھی ہو سکتے ہیں لیکن ایسا بننے کے لیے آپ کو اس پر کچھ وقت لگانا پڑے گا۔ اور یہ بات تو درست ہے کہ خبر اور تجربے میں فرق ہوتا ہے۔ جو چیز خبر سے آئے گی، آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ جس کا ذاتی تجربہ ہو جائے گا تو اسے جھٹلا نہیں پائیں گے۔ تو ذاتی تجربہ ہر شخص کو ہو سکتا ہے، یہ میں کہہ رہا ہوں۔