دوست کا سوال ہے کہ کیا جادو کے علاج کے لیے جنات سے تعاون لینا جائز ہے؟
جواب: اکثر سلفی علماء اس کے قائل نہیں ، بعض تو اسے کفراور شرک قرار دیتے ہیں لیکن اس کی ہر صورت کو کفر اورشرک قرار دینا درست نہیں ہے، باقی آپ اس مسئلے میں اختلاف رکھیں، حرج نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جنات سے مباح امور میں تعاون لینا جائز ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ کا مجموع الفتاوی میں یہی موقف ہمارے سامنے آتا ہے۔ مباح امور سے مراد یہ ہے کہ جن امور میں انسانوں سے تعاون لینا جائز ہے اور وہ شرک میں نہیں آتا تو ویسے ہی امور میں جنات سے تعاون لینا بھی جائز ہے۔مثلا ً اگر آپ کے گھر چوری ہو جائے تو آپ چور کی تلاش کے لیے لوگوں سے پوچھ گچھ کر سکتے ہیں، کھرا اٹھوا سکتے ہیں، فنگر پرنٹس کے ماہرین اور پولیس کے تجربے سے رہنمائی لے سکتے ہیں، آلات جاسوسی اور کیمروں سے مدد لی جائی جا سکتی ہے، اور کسی خفیہ ایجنسی کے کارندوں کو چور کی تلاش پر لگایا جا سکتا ہے۔ تو تعاون کی یہ تمام صورتیں ایسی ہیں جو مباح ہیں۔ اور ایسا ہی تعاون جنات سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی شخص پر جادو ہوا ہے تو عامل اس شخص پر آیات پڑھ کر جادو میں ملوث جن کو حاضر کرے اور اس سے معلومات حاصل کرے کہ اس نے جادو کیسے، کب، کہاں اور کس چیز پر کیا ہے تا کہ اس جادو کو زائل کر سکے تو جنات کے ساتھ اس قسم کے انٹرایکشن اور تعاون لینے میں حرج نہیں ہے۔
اگر تو یہ شرک ہے تو سب سے بڑے مشرک تو سلیمان ہوئے، معاذ اللہ!اور اس سے بے سطحی توجیہ کیا ہو گی کہ یہ سلیمان کا خاصہ تھا، یعنی شرک کرنے کی اجازت صرف سلیمان کو تھی، باقیوں کو نہیں ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ کچھ سوچ سمجھ کر ہی کفر و شرک کے فتوے دینا چاہیے۔ حضرت سلیمان مباح امور میں شیاطین کو استعمال کیا کرتے تھے جیسا کہ سورۃ النمل میں ہے کہ عفریت یعنی ایک بہت بڑے قوی ہیکل جن نے آپ کو اتنی دیر میں ملکہ سبا کا تخت لانے کی پیشکش کی تھی کہ جتنی دیر میں آپ کی مجلس بر خواست نہ ہو جائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنات چیزوں کو فزیکلی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتے ہیں۔
یہ سوال بھی بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا جنات کو یہ استطاعت حاصل ہے کہ ہماری کوئی چیز ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیں یا چوری کر لیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنات کو یہ استطاعت حاصل ہے لیکن ایسا شاذو نادر ہوتا ہے کہ جنات عموماً ہماری دنیا میں مداخلت نہیں کرتے ہیں جیسا کہ ہم انسان عام طور جنات کی دنیا میں مداخلت نہیں کرتے کہ ہمیں اپنے مسائل سے فرصت ہی نہیں تو ہم کیا جنات کی دنیا میں جھانکیں۔ دنیا میں آٹھ ارب کے قریب انسان آباد ہیں لیکن کتنے ہیں جو جنات کی دنیا میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں؟ بہت ہی کم۔ تو یہی معاملہ جنات کا بھی ہے۔ تو ایسا ہو سکتا ہے لیکن شاذو نادر ہوتا ہے مثلا ً کسی کے ساتھ آسیب یا جادو کا معاملہ ہے تو ایسا ہونے کا امکان موجود ہوتا ہے۔
اسی طرح جنات حضرت سلیمان کے لیے بڑی بڑی دیگیں، پیالے اور مجسمے بناتے تھے جیسا کہ سورۃ سبا میں اس کا تذکرہ ہے۔ اب یہاں بھی ایک حدیث کا غلط مطلب نکال کر خلط مبحث پیدا کیا گیا ہے کہ حدیث میں ہے کہ سلیمان نے یہ دعا مانگی تھی کہ یا اللہ! میرے جیسی سلطنت اور بادشاہت کسی کو نہ دینا۔ تو سلیمان نے جو دعا کی تھی کہ اے پروردگار، ایسی بادشاہت کسی اور کو نہ دینا، جیسی مجھے دی ہے، اس سے مراد یہ نہیں کہ چونکہ جنات ان کے لیے مسخر کر دیے گیے تھے تو ان کے بعد کوئی جنات سے کام نہیں لے سکتا۔ ایسے تو ہوا بھی حضرت سلیمان کے لیے مسخر کر دی گئی تھی اور آج حضرت انسان ہوا میں اڑتا پھرتا ہے تو کسی کو اعتراض پیدا نہیں ہوتا کہ بھئی ہوا ئی جہاز میں سفر نہ کرو کہ اس سے حضرت سلیمان کی دعا متاثر ہو گی ، عجب استدلال ہے۔
ان کا خیال ہے کہ سلیمان نے یہ دعا خدا سے نہیں بلکہ انسانوں سے کی تھی کہ میری التجا ہے کہ مجھ جیسا بننے کی کوشش نہ کرنا۔ مطلب کن چکروں میں پڑے ہو! اگر یہ دعا خدا سے تھی تو قبول ہو چکی۔ اب اگر انسانوں میں سے بعض ایسے ہیں جو جنات سے تعاون لے لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان انسانوں سے التجا ہے کہ دعا پوری ہونے دیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو دعا کا معنی غلط سمجھ آیا تھا۔ جس معنی میں حضرت سلیمان نے دعا کی ہے، اس معنی میں یہ دعا قیامت تک کے لیے پوری ہو چکی کہ سلیمان جیسی جنات کو تسخیر کرنے والی قوت کسی کو نہیں ملے گی اور ایسا ہی ہے۔
باقی جنات کو غلام بنانا درست نہیں کہ ہمارے دین نے آزاد کو غلام بنانے سے منع کیا ہے۔ ہم تو جنات سے رضاکارانہ تعاون لینے کی بات کر رہے ہیں۔ یا پھر ظالم جن ، جو جادوگر کا چیلہ ہے، کو قید کر کے مظلوم یعنی مسحور شخص کہ جس پر جادو ہوا ہو، کی داد رسی کے لیے اس جن سے ٹھوک بجا کر معلومات لینے کے جواز کی بات کر رہے ہیں۔ تو ان دونوں صورتوں میں حرج نہیں ہے۔ تو کچھ چیزیں ہمارے لیے غیب ہیں لیکن جنات کے لیے حاضر ہیں یعنی وہ ان کا عالم حاضر ہے، ان کی دنیا کے فزیکل لاز یعنی طبعی قوانین کے مطابق۔ تو انسانوں اور جنات کی دنیا فرق ہے۔ جب دنیا اور عالم فرق ہے تو ان دونوں دنیاؤں کے طبعی قوانین physical laws کہ جن پر وہ چل رہی ہیں، وہ بھی مختلف ہیں۔ لہذا علم غیب والی دلیل بھی سطحی ہے کہ ہم جنات سے جو علم حاصل کرتے ہیں، وہ غیب کا علم ہوتا ہے لہذا لینا جائز نہیں ہے۔ تو بھئی جو علم ہم خفیہ ایجنسی کے کارندوں سے حاصل کرتے ہیں، وہ بھی تو ہمارے لیے تو علم غیب ہی ہوتا ہے تو وہ لینا کیسے جائز ہو گیا؟ تو غیب اور حاضر کا ایسا علم ایک اضافی (relative) چیز ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔