پاکستان میں مزرات دو قسم پر ہیں؛ ایک وہ جو محکمہ اوقاف کے تحت ہیں جو کہ کم ہیں اور دوسرے وہ نجی یعنی ذاتی ہیں اور یہ زیادہ ہیں۔ تو جو مزارات تو نجی ہیں، ان کی آمدن حضرت گدی نشین کی جیب میں جاتی ہے اور ملک کے اکثر وبیشتر، خاص طور پسماندہ علاقوں کے مزارات ایسے ہی ہیں۔ اور اس آمدن کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے، نہ ہی اس کا کبھی سوال کیا گیا ہے۔ یہ آمدن بھی اربوں میں ہے۔
دوسرا وہ مزارات جو محکمہ اوقاف کے تابع ہیں تو ان کی آمدن بھی اربوں میں ہے۔ ۲۰۱۶ء میں پنجاب بھر کے محکمہ اوقاف کے تابع تقریبا چار سو مزارات کی آمدن ایک ارب ستائیس کروڑ روپے تھی جبکہ محکمہ اوقاف ایک ارب انتیس کروڑ کا خرچ بنا کر دو کروڑ حکومت سے مانگ رہا تھا۔ اور ۲۰۱۸ء میں سپریم کورٹ محکمہ اوقاف سے یہ پوچھ رہی ہے کہ آپ کے بقول سال بھر میں ۸۵ کروڑ صرف مزارات کے چندہ باکس سے آمدن حاصل ہوئی اور مزارات کی حالت دیکھنے لائق بھی نہیں، تو یہ رقم کہاں خرچ ہوئی؟ اس کا آڈٹ کیوں نہیں ہوا؟ اور یہ امر واقعہ ہے کہ لاہور میں جس قدر گندگی آپ کو داتا دربار کے آس پاس ملے گی، شاید ہی کہیں اور نظر آئے۔
تو محکمہ اوقات کے تحت مزارات کی سالانہ اربوں کی آمدن کے آڈٹ کا رواج نہیں ہے۔ محکمہ اوقاف کا پاس بس یہ جواب ہوتا ہے کہ یہ آمدن مزارات کی مرمت، سیکورٹی اور ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہو جاتی ہے۔ لیکن صرف داتا دربار کی سالانہ آمدن ۲۸ کروڑ ہے جبکہ خرچ ۷ کروڑ ہے۔ تو باقی رقم کدھر جاتی ہے؟ اس کا حساب کتاب کہاں ہے؟ یہ پورا ایک استحصالی نظام ہے اور ہم اسے ایک استحصالی نظام کے تناظر میں ہی دیکھتے ہیں کہ جس میں لوگوں کے دین اور دنیا دونوں کا استحصال ہو رہا ہے۔ ٹیکس کا نظام بھی استحصالی ہے اگرچہ اس کا کچھ نظم موجود ہے کہ جس سے کچھ مفاد عامہ کے کام ہو جاتے ہیں۔ یہاں تو کوئی نظم اور آڈٹ ہی نہیں ہے۔
ہمارے جتنے بڑے بڑے گدی نشین ہیں، وہ سب بڑے بڑے سیاست دان بھی ہیں؛ مخدوم امین فہیم، مخدوم شاہ محمود قریشی، یوسف رضا گیلانی، پیر پگاڑو وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کے پاس مزاروں کی چندوں کی دولت نہیں ہے تو کس کی ہے؟ سب کو معلوم ہے کہ مزارات کے چندہ باکس کی آمدن کا بڑا حصہ محکمہ اوقاف کے اہلکاروں اور گدی نشینوں کی بندر بانٹ میں تقسیم ہو جاتا ہے اور بہت کم ہی مزار پر خرچ ہو پاتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی غریب اور مسکین اس چندہ باکس سے اپنی ضرورت کے بقدر کچھ رقم لے لیتا ہے کہ جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جائے تو ہماری رائے میں حرج نہیں ہے کیونکہ یہ بھیڑیوں کے ہاتھ میں جانے والی ہے۔ وہ بھیڑیے جو اس پورے نظام پر ایک مافیا بن کر مسلط ہیں۔ باقی ایسے فتووں سے گدی نشینوں یا مجاوروں کو تکلیف نہیں ہو گی تو اور کس کو ہو گی، وہ ہمیں سمجھ میں آتا ہے۔