دوست کا سوال ہے کہ جرابوں پر مسح کرنے کے بارے فقہاء کا موقف کیا ہے؟
جواب: جرابوں پر مسح کرنے کے سب فقہاء قائل ہیں جیسا کہ اہل علم نے بیان کیا ہے۔ اور ہم اگر فقہاء سے بھی پیچھے چلیں جائیں یعنی صحابہ کرام تک تو امام ابن حزم اور امام ابن قدامہ نے تو اس بارے صحابہ کا اجماع نقل کیا ہے کہ صحابہ میں سے کسی کا بھی جرابوں پر مسح کے حوالے سے اختلاف نقل نہیں ہوا ہے۔
البتہ فقہاء میں اس بارے میں اختلاف ہو گیا کہ کون سی جرابوں پر مسح ہو گا اور کون سی جرابوں پر نہیں ہو گا؟ تو دو قسم کی جرابوں کے بارے ان کا اتفاق ہے کہ ان پر مسح جائز ہے؛ ایک وہ جراب کہ جو جوتے میں ہو یعنی جوتوں سمیت جرابوں پر مسح کرنا اور دوسرا وہ جراب جس کے اوپر اور نیچے چمڑا لگا ہو۔ اس میں اور موزوں میں کچھ فرق ہے کہ موزے کل چمڑے کے ہوتے ہیں جبکہ یہ کل چمڑے کی نہیں ہوتی ہے۔
رہی عام جرابیں جیسا کہ اون وغیرہ کی جرابیں ہیں تو اس بارے حنفیہ اور حنابلہ کا موقف یہ ہے کہ اگر وہ جرابیں موٹی ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز ہے جبکہ دوسرا قول مالکیہ اور شافعیہ کا ہے کہ ایسی جرابوں پر بھی مسح جائز نہیں ہے الا یہ کہ وہ جرابیں جوتوں کے ساتھ ہوں یا ان کے اوپر اور نیچے چمڑا لگا ہو۔ تیسرا قول ظاہریہ، امام ابن تیمیہ، محدثین کی ایک جماعت، بعض معاصر حنبلی علماء اور اہل الحدیث کی ایک جماعت کا ہے کہ جرابوں پر مسح جائز ہے، بھلے پتلی ہوں یا موٹی، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ہماری رائے یہی تیسری ہے۔
اختلاف کی وجوہات تین ہیں؛ ایک تو متواتر قراءت، دوسرا روایات اور صحابہ کے آثار اور تیسرا قیاس کا اصول۔ قرآن مجید کے الفاظ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ میں ایک متواتر قراءت أَرْجُلِكم یعنی جر کے ساتھ بھی ہے۔ اگرچہ اس کے جوابات دیے گئے ہیں کہ جر کے ساتھ قراءت مراد لینے سے بھی مسح کا حکم لازم نہیں آتا ہے لیکن اس جواب کے بھی جوابات موجود ہیں۔ بہرحال عبد اللہ بن عباس، انس بن مالک، عکرمہ، شعبی، قتادہ، ابو جعفر صادق وغیرہ سے یہی مروی ہے کہ اصل حکم مسح کا ہے نہ کہ دھونے کا۔ لیکن ہماری نظر میں اصل حکم دھونے کا ہے جیسا کہ سنت سے ثابت ہے۔
جہاں تک جرابوں پر مسح کرنے والی روایات کی بات ہے تو ان کی صحت اور معانی میں محدثین اور فقہاء سے اختلاف مروی ہے۔ ہمیں ان روایات کی صحت پر اعتماد ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان روایات کی تصدیق صحابہ کرام کے عمل سے بھی ہوتی ہے۔ تقریبا تیرہ صحابہ کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ جرابوں پر مسح کرتے تھے بغیر اس کی تفریق کیے کہ وہ موٹی ہوں یا پتلی۔ روایات اور آثار کی تحقیق اور تصدیق کے لیے علامہ جمال الدین قاسمی کی کتاب المسح علی الجوربین دیکھی جا سکتی ہے کہ جس پر شیخ احمد شاکر کا مقدمہ اور علامہ البانی کا ضمیمہ بھی دیکھنے کے لائق ہے۔
زیادہ تر فقہاء کے نزدیک حدیث مغیرہ کے معانی میں اختلاف ہوا ہے۔ حدیث مغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ نے جوتوں اور جرابوں پر مسح کیا۔ اب شوافع نے اس کا معنی یہ بیان کیا کہ جوتوں سمیت جرابوں پر مسح کیا لہذا محض جرابوں پر مسح درست نہیں ہے جبکہ حنابلہ اور حنفیہ نے کہا کہ یہ استدلال درست نہیں ہے اور حدیث کا معنی یہ ہے کہ آپ نے جوتوں پر مسح کیا اور جرابوں پر بھی مسح کیا۔ لیکن ان دونوں نے جرابوں کے موٹا ہونے کی شرط لگا دی جبکہ روایت میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں ہے، اس میں مطلقا جرابوں کا تذکرہ ہے۔ تو ہمارے نزدیک جرابوں پر مسح کرنے کے حکم کی حکمت رفع حرج یعنی تنگی کو دور کرنا ہے نہ کہ ان کا موٹا یا پتلا ہونا کہ موٹا یا پتلا ہونے کا وصف، حکم کی علت بننے کے لیے مناسب وصف نہیں ہے جبکہ خود جراب ہونا حکم کے لیے ایک مناسب وصف ہے۔