دوست کا سوال ہے کہ تقدیر، قضاء ہے یا علم یعنی اللہ کا فیصلہ ہے جو اس کی مخلوق میں، مخلوق کی مرضی کے بغیر جاری ہوتا ہے یا مخلوق کے بارے اللہ کا یقینی علم ہے۔
جواب: یہ سوال بہت اہم ہے اور بنیادی ہے۔ میں نے اس موضوع پر جس قدر سوچ بچار کی ہے تو مجھے یہ معلوم پڑتا ہے کہ تقدیر کہیں قضاء ہے اور کہیں علم، کہیں اللہ کا فیصلہ ہے اور کہیں اس کا یقینی علم۔
اصل میں چیزیں دو ہیں؛ ایک انسان کی موت اور حیات، آزمائش اور نعمت وغیرہ تو ان میں تو انسان مجبور محض ہے اور یہ اللہ کا فیصلہ ہیں۔ آپ اور میں اس دنیا میں نہ تو اپنی مرضی سے آئے ہیں اور نہ ہی جائیں گے، اگر کوئی بچہ پیدائشی طور معذور، بدصورت پیدا ہوتا ہے، یا کسی کو اللہ نے بے پناہ صحت اور حسن سے نوازا ہے تو اس میں انسان کو ذرا برابر بھی اختیار نہیں ہے۔ آپ اور مجھ پر جو نعمت ہوتی ہے یا بیماری آتی ہے تو ہمارے نہ چاہتے ہوئے آتی ہے، نہ ہمارا ارادہ ہوتا ہے اور نہ ہی فعل لیکن ہم نعمت اور آزمائش دونوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پس ایک ڈومین تو وہ ہے کہ جس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے، کل اختیار اور فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اور دوسری ڈومین انسان کے افعال کی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے؛ اچھا یا برا، تو یہ سب ہم اپنے اختیار سے کرتے ہیں۔ اس میں انسان کی طرف سے دو چیزیں شامل ہوتی ہے؛ ایک ارادہ اور دوسرا قدرت۔ اگر انسان کسی کام کا ارادہ کر لے لیکن اس کی قدرت نہ رکھتا ہو تو وہ کام نہیں ہو سکتا۔ اور اگر انسان کسی کام کی قدرت رکھتا ہو لیکن اس کا ارادہ نہ کرے تو بھی وہ کام نہیں ہوتا۔ یہ بات ہم عمومی ضابطے کے طور بیان کر رہے ہیں۔ اب انسان جب کوئی کام کرتا ہے اور اس کے کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس نے پہلے اس کام کا ارادہ کیا اور پھر اس کو بالفعل کیا تو اللہ عزوجل اس کام کو وجود عطا فرما دیتے ہیں۔ پس انسان کا فعل اور اللہ کا اس کے فعل کو پیدا کرنا، اس سے ایک فعل اس دنیا میں وجود میں آ جاتا ہے۔
جس طرح اللہ عزوجل نے انسان کو پیدا کیا ہے، اسی طرح اس کے افعال کو بھی پیدا کیا ہے۔ اگر اللہ عزوجل انسان کے فعل کو پیدا نہ کریں تو وہ فعل وجود میں نہیں آ سکتا۔ حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کے لیے چھری چلا دی لیکن اللہ عزوجل نے ان کے فعل کو اپنی قدرت سے پیدا نہیں کیا تو حضرت اسماعیل ذبح نہیں ہوئے۔ تو ایک انسان کی قدرت ہے اور ایک اللہ کی قدرت۔ انسان اپنی قدرت سے ”فاعل“ بنتا ہے اور اللہ عزوجل اپنی قدرت سے ”خالق“ بنتے ہیں۔ تو ان دونوں قدرتوں سے ایک فعل کو وجود مل جاتا ہے۔ پس انسان کی نیکی اور گناہ میں فاعل انسان ہی ہے اور فاعل ہونے میں انسان کا اختیار مکمل ہے لیکن اس کی نیکی اور گناہ کی تخلیق اللہ عزوجل کی قدرت سے ہوتی ہے کہ اللہ عزوجل ہی ہر چیز کے خالق ہیں اور انسان اپنے افعال کا فاعل تو ہے لیکن خالق ہر گز نہیں ہے۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ عزوجل نے اپنی خلق کے لیے انسان کے فعل کو سبب بنا دیا ہے، پس جب سبب پایا جائے گا تو خلق بھی موجود ہو جائے گی۔
یہاں ایک گہری بحث ہے کہ ارادہ کرنا بھی ایک فعل ہے، اور یہ افعال القلوب میں سے ہے۔ ارادے کا فاعل انسان ہے جبکہ خالق اللہ تعالی ہے۔یہ فرق ملحوظ رہنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ ارادے کا وجود اور شیء ہے اور ارادے کی رضا اور شیء ہے۔ بعض اوقات ارادہ موجود ہوتا ہے لیکن رضا نہیں ہوتی۔ ارادے کے خلق میں جبر ہے جبکہ ارادے پر عمل میں اختیار ہے۔ دوست کا کہنا ہے کہ وقت ایک مستقل چادر کی مانند ہے جو ماضی سے لے کر مستقبل تک تنی ہوئی ہے، پس ماضی، حال اور مستقبل بیک وقت موجود ہیں۔ علامہ اقبال اس سوچ کو رد کرتے ہیں کیونکہ اس میں بہت سے مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر Grandfather Paradox کو ہی لے لیجیے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ماضی ، حال اور مستقبل بیک وقت موجود ہیں تو وقت میں سفر Time Travel کیا جا سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ماضی میں جا کر اپنے دادا کو قتل کر دیتا ہے تو پھر اس کا وجود ہی نہیں رہنا چاہیے ۔ اور اگر وہ موجود ہی نہیں تو پھر ماضی میں جا کر دادا کو کیسے قتل کر سکتا ہے؟ اسی طرح یہ مسئلہ بھی ہے کہ اگر ماضی حال اور مستقبل بیک وقت موجود ہیں تو پھر ان گنت کائناتوں کا وجود، جو وقت کے ہر لمحے پر موجود ہیں ،ماننا پڑے گا جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل اس تصور ِوقت کے ساتھ ملحق ہیں ۔علامہ اقبال اس کے برعکس وقت کا ایک اور تصور پروفیسر وائٹ ہیڈ (Prof. Whitehead) کے توسط سے پیش کرتے ہیں ۔ اس تصور کے تحت وقت مستقل نہیں ہے بلکہ دریا کی طرح بہتا ہوا (Flowing) ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وقت کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ تخلیق کر رہے ہیں اور یہ عمل ہر آن جاری ہے۔
اس تصور کو پیش کرنے کے بعد علامہ تقدیر کے پیچیدہ مسئلے کی وضاحت کرتے ہیں کیونکہ ہر لمحہ تخلیق ہو رہا ہے لہذا علامہ کے نزدیک انسان کو اختیار ایک بہت ہی محدود حیثیت میں اور بہت مختصر وقت کے لیے کسی لمحے اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔ اور جب یہ عطا ہوتا ہے تو اس لمحے اللہ تعالیٰ اپنے مستقبل کے علم کو محدود کر لیتے ہیں، اور مستقبل کو ایک امکان (Possibility) کی بجائے امکانات (Possibilities) کی صورت میں چھوڑ دیتے ہیں ، تاکہ انسان اپنے اختیار کو استعمال کر کے ان امکانات میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے۔
اس بارے ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ وقت اللہ کے علم میں ایک چادر کی مانند ہی ہے جبکہ انسان کی پوزیشن سے دریا کا بہاؤ ہے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ علامہ کا یہ تصور تقدیر خدا کو مجبور بنانے کے مترادف ہے اور جو مجبور ہو، وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ اور اگر آپ یہ کہیں کہ یہ شرط خدا نے اپنے اوپر خود عائد کی ہے لہذا یہ جبر نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا نے اپنے اوپر کوئی شرط عائد کی ہے یا نہیں، اسے معلوم کرنے کا صرف ایک ہی مصدر اور ذریعہ ہے اور وہ وحی الہی ہے۔ اور وحی الہی سے ہمیں کچھ ایسا معلوم نہیں ہوا کہ خدا نے اپنے اوپر کچھ ایسی شرط عائد کر کے اپنے آپ کو مجبور بنا رکھا ہے لہذا جب تک وحی سے دلیل نہیں آ جاتی تو ایسی شرط انسانوں کی طرف سے خدا پر عائد ہو گی نہ کہ خود خدا کی طرف سے کیونکہ خدا کی طرف سے تو وہ ایک امکان کے درجے میں زیر بحث ہے جب تک کہ ثابت نہ ہو جائے۔