بعض دوست یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا امام ابن تیمیہ وغیرہ صفت حقو کا بھی اثبات کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو تاویل تو وہ بھی کر رہے ہیں، اور اگر ہاں تو کیا یہ تجسیم یعنی اللہ کا جسم ماننے والی بات نہیں ہے؟ دیکھیں، امام ابن تیمیہ﷫ اور سلفی اہل علم مثلا حنابلہ وغیرہ کی ایک جماعت نصوص سے ثابت شدہ تمام صفات کا ویسے ہی اثبات کرتی ہے جیسا کہ وہ نصوص میں وارد ہوئی ہیں۔ تو حقو لغت عرب میں تہبند باندھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔

صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ اللہ عزوجل نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو رحم یعنی رشتہ داری کھڑی ہو گئی اور اس نے رحمن کے حقو کو پکڑ لیا۔ تو اللہ نے کہا کہ کیا مسئلہ ہے؟ اس نے کہا کہ یہی تو پناہ لینے کا مقام ہے اور میں قطع رحمی سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ تو اللہ عزوجل نے کہا کہ کیا تجھے یہ پسند ہے کہ جو تجھے جوڑے، میں اسے جوڑوں۔ اور جو تجھے توڑے، میں اسے توڑوں۔ تو اس نے کہا کہ ہاں، میں اس پر راضی ہوں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ صفت حقو کا اثبات رسول اللہ﷐ نے کیا ہے جیسا کہ حدیث کے الفاظ ہیں: خَلَقَ اللَّهُ الخَلْقَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْهُ قَامَتِ الرَّحِمُ، فَأَخَذَتْ بِحَقْوِ الرَّحْمَنِ۔ اب اگر تجسیم کا فتوی لگانا ہے تو پہلے رسول اللہ﷐ پر لگائیں۔ تو سلفی اپنی طرف سے کسی صفت کا اثبات کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ جس صفت کا قرآن نے اثبات کیا ہے اور جس صفت کا رسول اللہ﷐ نے اثبات کیا ہے، ہم اس کا اثبات کریں گے، چاہیں ہمیں وہ نہ بھی سمجھ آئے کیونکہ یہی تو عقل کا امتحان ہے کہ نقل کو مانے جیسا کہ وہ ہے اور تاویلیں نہ کرے۔

یہ ماننا بھی کوئی ماننا ہے کہ پہلے نقل کو اپنی عقل کے مطابق کر لیں یا ڈھال لیں اور پھر اس کو مان لیں۔ تو یہ تو آپ نے نقل کو نہیں اپنی عقل کو مانا ہے۔ پھر عقل بھی کس کی مانیں؟ جہمیہ کی عقل کہ جس کے مطابق ہر اسم اور ہر صفت کا اثبات توحید کے منافی ہے، معتزلہ کی عقل کہ جس کے مطابق کسی بھی صفت کا اثبات توحید کے منافی ہے، اشاعرہ کی عقل کہ جس کے مطابق سات صفات کے علاوہ کا اثبات توحید کے منافی ہے، یا ماتریدیہ کی عقل کہ جس کے مطابق آٹھ صفات کے علاوہ کا اثبات توحید کے منافی ہے۔ تو عقل تو صفات کے اثبات میں اختلاف کر رہی ہے کہ کہاں ایسے ہی ماننا ہے اور کہاں تاویل کرنی ہے۔ تو عقل کو حاکم بنانے کی صورت میں تصور خدا سب کا مختلف ہو جائے گا جبکہ نقل کو ایسے ہی مان لینے میں جیسا کہ وہ ہے، تصور خدا ایک ہی رہے گا جو کہ توحید کا حاصل ہے۔

تو امام احمد بن حنبل، ابن حامد، ابو حاتم الرازی اور ابن تیمیہ﷫ وغیرہ سے صفت”حَقو“ کا اثبات منقول ہیں لیکن ساتھ میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس کی کیفیت میں نہیں جاتے۔ اور بعض لوگوں کو جو اس جیسی صفات کے اثبات سے وحشت ہوتی ہے تو وہ اس لیے کہ اس صفت کے اثبات سے ان کے ذہن میں فورا انسان کا ”حَقو“ یعنی تہبند باندھنے کی جگہ آ جاتی ہے اور وہ یہ سوچ کر ہی وحشت میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ اللہ کے لیے اس کا اثبات کریں۔ تو اللہ کے لیے انسان کی صفت حقو یعنی انسان کے تہبند باندھنے کی جگہ کا اثبات تو سلفیہ بھی نہیں کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے لیے یہ صفت ثابت ہے، کما یلیق بجلالہ، جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ تو یہ بات بہت اہم ہے کہ سلفیہ کے نزدیک صفات معلوم المعنی تو ہیں لیکن متشابہ الکیفیہ ہیں لہذا وہ من وجہ یعنی ایک پہلو سے محکم ہیں کہ ان کا معنی روز روشن کی طرح واضح ہے، اور من وجہ یعنی دوسرے پہلو سے متشابہ ہیں کہ ان کا معنی کبھی بھی معلوم نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح صحیحین کی حدیث میں ہے:

خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ۔
ترجمہ: اللہ عزوجل نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔

امام ابن تیمیہ﷫ کہتے ہیں کہ پہلی تین صدیوں تک کسی کا بھی یہ قول نہیں رہا کہ اس حدیث میں ”ه“ ضمیر آدم کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اور ویسے بھی اس کا معنی نہیں بنتا کہ اللہ نے آدم کو آدم کی صورت پر پیدا کیا۔ اور بعض روایات میں “على صورة الرحمن“ کے الفاظ ہیں کہ جسے امام احمد وغیرہ نے صحیح کہا ہے اگرچہ اس حدیث کی تصحیح و تضعیف میں اختلاف ہے۔ تو اس روایت سے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ضمیر، اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ علاوہ ازیں احادیث کے اس بیان کی تصدیق سابقہ کتب سے بھی ہوتی ہے۔ تو امام ابن تیمیہ تو صفت ”صورت“ کو بھی مانتے ہیں جیسا کہ وہ اس حدیث میں وراد ہوئی ہے۔

امام صاحب اس میں صرف نقل سے استدلال نہیں کرتے بلکہ عقلی دلائل بھی بیان کرتے ہیں۔ امام صاحب کا کہنا ہے کہ کوئی چیز جو بذاتہ قائم ہو، اس کی صورت لازما ہو گی۔ عقل کے لیے یہ محال ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کا تصور بھی کر سکے کہ جو موجود تو ہو لیکن اس کی کوئی صورت نہ ہو۔ ایسا تو صرف معدوم کے لیے ہو سکتا ہے۔ باقی یہ جو صورت ہے، یہ کما یلیق بجلالہ ہے جیسا کہ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول﷐ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے نیند میں تمہارے رب کو ”احسن صورت“ میں دیکھا ہے۔ یہاں سے ہی ائمہ میں خواب میں اللہ عزوجل کو دیکھنے کے بارے اختلاف پیدا ہو اور امام احمد اس کے قائل ہیں کہ خواب میں اپنے رب کو دیکھا جا سکتا ہے۔ البتہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ جس کو اس نے دیکھا ہے، وہ اس کا رب نہیں ہے لیکن اس کا رب اسے اپنا آپ احسن صورت میں دکھا دیتا ہے لہذا یہ کہنا درست ہے کہ اس نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ یہ ذرا گہری بحث ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلفی اسکول آف تھاٹ کے اہل علم اس قسم کی صفات میں مجاز یا کنایہ مراد کیوں نہیں لے لیتے؟ دیکھیں، مسئلہ یہ ہے کہ کوئی دو چار صفات کی بات ہو تو بندہ مجاز اور کنایے کی بات کر لے۔ جب کتاب وسنت کی نصوص میں اللہ عزوجل کے لیے چہرے، آنکھوں، ہاتھوں، انگلیوں اور پاؤں تک کا اثبات کیا جا رہا ہے اور یہ اثبات اللہ اور اس کے رسول﷐ کر رہے ہیں تو کیا ان دونوں کو نہیں معلوم تھا کہ ان چیزوں کا اثبات کرنے سے مخاطب کے ذہن میں خدا کا کیا تصور آئے گا؟ تو خدا نے اپنے بندوں کو اپنا تعارف کروانا تھا جو اس نے اپنی کتاب کے ذریعے کروایا اور اس پر کوئی فٹ نوٹس یا حواشی لگا کر وضاحت نہیں کی، نہ خود اور نہ ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے، کہ میری مراد یہ ہے لہذا یہ یہ مراد نہ لینا۔

مثلا خدا نے اپنی کتاب میں اپنے لیے دو ہاتھوں کا اثبات کیا تو اس کے رسول﷐ نے انگلیوں کا اثبات کر خدا کے اثبات کو پر مزید مہر تصدیق ثبت کر دی۔ تو یا تو خدا اور اس کے رسول کو چاہیے تھا کہ یہ الفاظ ہی استعمال نہ کرتے۔ یا اگر کرتے تو ان سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے علیحدہ سے بیان فرماتے۔ لیکن خدا یک صفت کو بیان کرتا ہے، رسول اس کے ظاہری معنی کی مزید تصدیق کر دیتا ہے، تو یہ سب کیا ہے؟ اسی طرح خدا نے ایک صفت کا اثبات کیا یعنی پنڈلی کا۔ رسول اللہ﷐ نے اپنے قول اس کی مزید تصدیق فرما دی کہ پنڈلی سے مراد تمہارے رب کی پنڈلی ہی ہے، مجاز کنایہ نہیں ہے۔ پھر فقہاء صحابہ نے اس کی تصدیق کر دی کہ پنڈلی سے مراد اللہ عزوجل کی پنڈلی ہی ہے جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود﷜ کا قول ہے۔

تو کس کس کی تاویل کریں گے؟ نہ خدا کو یہ سمجھ آئی کہ اس نے کیا الفاظ استعمال کر دیے ہیں، نہ رسول نے اس کی تصحیح فرمائی کہ خدا کی یہ مراد نہیں ہے، نہ صحابہ نے اس کی تصحیح کی کہ رسول کی یہ مراد نہیں ہے۔ اور صحابہ اور تابعین سادہ مزاج کے لوگ تھے بلکہ سب انبیاء ورسل بھی۔ لہذا سلفی تعبیر دین کی سادہ ترین تعبیر ہے۔ یہ عقل وفلسفہ تو تین صدیوں بعد شروع ہوا ہے۔ اس سے پہلے تو کسی کے تصور خدا میں ایسی کلامی بحثیں نہیں تھیں کہ وہ سلف کا مزاج ہی نہ تھا۔ تو خیر القرون میں لوگ کتاب وسنت کی نصوص کی تلاوت کرتے ہوئے ان نصوص سے کیا سمجھتے تھے؟ کیا قرآن مجید کی آیات تلاوت کرتے ہوئے صحابہ یا تابعین میں کسی کے ذہن میں یہ آتا ہو گا کہ موسی﷤ سے اللہ عزوجل نے کلام نفسی فرمایا ہے؟ نہ کہ وہ کلام جو انہیں لغت عرب سے سمجھ آتا ہے۔

تو جو بھی خدا کو مانتا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی تصور خدا ہے کہ اس کا خدا ایسا ایسا ہے۔ اگر آپ کتاب وسنت کے تصور خدا کو نہیں مانتے کہ اس سے آپ کو وحشت ہے تو پھر آپ کے تصور خدا کی علمی بنیاد کیا ہے؟ آپ کہیں گے کہ وہ کتاب وسنت ہے۔ لیکن آپ نے تو اس کتاب وسنت کی تاویل کر دی ہے کہ اس سے مراد مجاز اور کنایہ لے لیا لہذا اب آپ کا تصور خدا کیا ہے اور اس کا ماخذ کیا ہے؟ یا جو مجاز اور کنایہ آپ نے مراد لیا ہے، اس کی دلیل کیا ہے کہ یہی مجاز اور کنایہ خدا کی مراد ہے کیونکہ مجاز اور کنایہ تو ایک سے زائد ہو سکتے ہیں جبکہ حقیقت یعنی حقیقی معنی ایک ہی ہوتا ہے۔

اس کو یوں بھی سمجھیں کہ اشاعرہ نے سات اور ماتریدیہ نے آٹھ صفات کا اثبات کیا۔ اور ان سات یا آٹھ کا بھی جس طرح سے اثبات کیا ہے، وہ بھی اثبات نہ کرنے کے برابر ہی ہے۔ مثلا اشاعرہ کہتے ہیں کہ اللہ کی صفت کلام کا ہم اثبات کرتے ہیں کہ وہ متکلم ہے۔ لیکن اس کا کلام حروف اور اصوات میں نہیں ہے بلکہ کلام نفسی ہے کہ جسے ہم خود کلامی یعنی اپنے نفس میں اپنے آپ سے باتیں کرنا کہتے ہیں۔ وہ یہ اس لیے کہتے ہیں کہ اگر وہ اللہ کے لیے صفت کلام کو اس معنی میں مان لیں کہ وہ حروف اور اصوات ہیں جو اس کی ذات سے صادر ہوتے ہیں تو اس سے یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ کی ذات محل حوادث ہے یا اس کا کوئی منہ اور زبان بھی ہے کہ اس کے بغیر تو ایسے کلام کا تصور ممکن نہیں ہے۔

اس کے برعکس ابن تیمیہ یہ کہتے ہیں کہ اس طرح اللہ کی صفت کلام ماننے کا مطلب ہے کہ اللہ کو گونگا ماننا کہ جس نے کبھی کسی سے گفتگو کی ہی نہ ہو۔ اشاعرہ کا کہنا یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے کوہ طور پر موسی سے کلام نہیں کیا بلکہ اللہ نے اپنے ازلی کلام یعنی خود کلامی کا ادراک موسی کو کروا دیا تھا۔ اسی طرح ان کے نزدیک قرآن مجید جو ہمارے پاس ہے، یہ اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ کا کلام وہ ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔

اسی طرح اشاعرہ نے رات کے آخری پہر آسمان دنیا پر اللہ کے اترنے کی تاویل یوں کی ہے کہ اس سے مراد اللہ کی رحمت اترتی ہے جبکہ اللہ کے رسول﷐ کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل اترتے ہیں۔ تو اب کس کی مانیں؟ اشاعرہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل کے اترنے کو مان لینے سے یہ لازم آئے گا کہ اللہ عزوجل حرکت کرتے ہیں۔ اور جو چیز حرکت کرتی ہے، وہ محدود ہو جاتی ہے کہ حرکت دو نقطوں کے درمیان فاصلے کا نام ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ حرکت کا انکار کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ خدا جمود کا شکار ہے۔ اور جو جمود کا شکار ہو، وہ بت تو ہو سکتا ہے، خدا نہیں۔ اسی لیے ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ متحرک اور جامد خدا میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑے تو صاحب عقل متحرک کو ہی ترجیح دے گا۔

اب مخالفین کی طرف سے یہ اعتراض آتا ہے کہ اگر اس طرح سے اللہ کے لیے سب صفات کو مان لیا جائے تو اللہ کے لیے جسم لازم آتا ہے لہذا سلفیہ تو مجسمہ ہو گئے۔ تو واضح رہے کہ سلفیہ اپنے آپ کو مجسمہ نہیں کہتے اور نہ ہی اللہ کے لیے جسم کا اثبات کرتے ہیں۔ سلفیہ کی تو بنیاد ہی یہی ہے کہ اللہ کے لیے کسی ایسی صفت کا اثبات نہیں کرنا جو کتاب وسنت میں نہ آئی ہو۔ اور جو آ گئی ہو، اس کا انکار نہیں کرنا۔ اور وہ اپنے اس اصول پر سختی سے کاربند ہیں۔

ہاں، البتہ کچھ گروہوں نے اللہ کے لیے جب جسم کا اثبات کیا تو ابن تیمیہ نے اس پر گفتگو کی ہے۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ ہم یہ دیکھیں گے کہ ان کی جسم سے مراد کیا ہے۔ اگر تو ان کی مراد بدن ہے تو اللہ کے لیے جسم کا اثبات جائز نہیں ہے۔ اور اگر ان کی جسم سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی ایک ذات ہے کہ جس کی کچھ صفات ہیں تو اس معنی کا ہم انکار نہیں کرتے کہ کوئی وجود ایسا نہیں ہے کہ جو ذات کے بغیر ہو۔ اور ذات کے بغیر تو کسی کے موجود ہونے کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تو اشکال تو ہر حال میں باقی رہتا ہے، تاویل کے بعد بھی، اور اس کے بغیر بھی۔ تو تاویل کا مقصد اگر اشکال کو رفع کرنا تھا تو وہ تو تاویل سے بڑھ گیا ہے، کم نہیں ہوا۔ تو تاویل کا کیا فائدہ ہوا۔

تو ان سات قسطوں میں نقل و عقل میں کشمکش کے حوالے سے ہم نے اختصار کے ساتھ امام ابن تیمیہ کا موقف پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ ابھی بہت سی بنیادی مباحث ایسی ہیں جو بحث طلب ہیں جیسا کہ اللہ عزوجل کی ذات کا محل حوادث ہونا یا صفات کا ازل سے بالقوہ یا بالفعل ہونا وغیرہ لیکن ہم انہیں کسی اور وقت کے لیے موخر کیے دیتے ہیں۔