اسماء وصفات باری تعالی میں تاویل کرنے والے فِرَق نے مجاز کی دلیل کا سہارا لیا تھا جبکہ امام ابن تیمیہ مجاز کے قائل نہیں ہیں۔ اہل علم کی ایک جماعت نے لفظ کو اس طرح تقسیم کیا ہے کہ اگر تو لفظ اپنے وضعی معنی میں استعمال ہو کہ جس معنی کے لیے اہل زبان نے اسے مختص کیا ہے، تو اسے حقیقت کہتے ہیں جیسا کہ شیر سے مراد درندہ اور چاند سے مراد جرم فلکی ہو تو یہ حقیقت ہے۔ اور اگر لفظ کو اس کے غیر وضعی معنی میں استعمال کیا جائے کہ جس معنی کے لیے وہ وضع نہیں ہوا تو اسے مجاز کہتے ہیں اور اس کے لیے کوئی قرینہ چاہیے جیسا کہ شیر سے مراد بہادر آدمی یعنی شیر پنجاب اور چاند سے مراد محبوب لینا مجاز ہے۔

مالکیہ میں ابن خویز منداد، شوافع میں سے ابن القاص، حنابلہ میں سے ابن حامد، ابو الحسن التمیمی، ابن تیمیہ، ابن قیم، ظاہریہ میں سے ان کے امام داود ظاہری﷫ نے قرآن مجید میں مجاز کا انکار کیا ہے کہ قرآن کل کا کل حق ہے اور حق وہی ہے جو حقیقت ہے۔ اور جو حقیقت نہیں ہے (یعنی مجاز ہے)، وہ حق نہیں ہو سکتا۔ امام ابن قیم نے تو مجاز کو طاغوت کا نام دیا ہے اور اس کے رد میں پچاس دلائل کا تذکرہ کیا ہے۔ شوافع میں سے ابو اسحاق اسفرائینی اور معروف لغوی نحوی ابو علی الفارسی نے تو لغت میں بھی مجاز کا انکار کیا ہے۔

متاخرین میں مالکیہ میں سے علامہ شنقیطی نے قرآن مجید میں مجاز کا انکار کیا ہے کہ اصطلاح میں مجاز اسے کہتے ہیں کہ جس کی نفی جائز ہو مثلا ”رأيت أسدا يأكل فريسته“ یعنی میں نے شیر کو اپنا شکار کھاتے دیکھا، میں شیر سے شیر کی نفی جائز نہیں ہے کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ شیر نہیں ہے۔ اس کے برعکس ”رأيت أسدا يخطب على المنبر“ کہ میں نے منبر پر ایک شیر کو خطاب کرتے دیکھا، میں شیر کی نفی جائز ہے کہ اس کے قائل سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شیر نہیں ہے، عالم دین ہے یا کچھ بھی ہے۔ تو قرآن مجید میں مجاز مان لینے کا مطلب ہے کہ قرآن میں وہ بھی ہے کہ جس کی نفی جائز ہو۔

امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اصل اختلاف اس میں ہے کہ زبان میں اصل توقیف ہے یا وضع۔ امام ابو الحسن الاشعری ﷫ کا کہنا تھا کہ زبان توقیف ہے اور امام ابن تیمیہ ﷫ بھی اسی کے قائل ہیں۔ لغویین میں سے ابن فارس کا موقف بھی یہی ہے۔ اس کے برعکس معتزلہ زبان کی وضع کے قائل ہیں۔ زبان کے توقیفی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زبان آدم ﷤ کو اللہ کی طرف سے سکھلائی گئی تھی، نہ کہ آدم ﷤ نے خود سے بنائی اور گھڑی تھی۔ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ عزوجل نے آدم ﷤ کو اسماء کا علم دیا تھا تو یہ زبان ہی کا علم تھا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ زبان ہے تو توقیفی لیکن الہام ہے یعنی اللہ عزوجل کی طرف سے آدم ﷤ کو الہام کی گئی کہ فلاں لفظ کا فلاں معنی ہے۔ یہ حضرت عبد اللہ بن عباس ﷜ کا موقف ہے۔

آدم﷤ کی یہی توقیفی زبان حضرت نوح﷤ تک پہنچی اور پھر طوفان نوح میں باقی رہ جانے والوں میں صرف نوح﷤ سے ہی آگے نسل چلی ہے لہذا تمام زبانوں کی اصل ایک ہی توقیفی زبان ہے۔ تو جب زبان ہے ہی توقیف تو مجاز کہاں سے آ گیا! تو اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اہل عرب نے کچھ الفاظ کو پہلے کچھ معانی کے لیے وضع کیا اور پھر ان الفاظ کو ان کے وضعی معانی کے علاوہ معانی میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ تو جو لوگ حقیقت ومجاز کی تقسیم کے قائل ہیں تو اس تقسیم کو ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ یہ مانیں کہ حقیقت یعنی حقیقی معنی تاریخی اعتبار سے پہلے ہوتا ہے اور مجاز یعنی مجازی معنی بعد میں ہوتا ہے کیونکہ وہ استعمالی معنی ہے۔

لیکن معانی میں یہ تقدیم وتاخیر آپ کیسے ثابت کر سکتے ہیں! اس کی کوئی تاریخی دلیل موجود نہیں ہے کہ یہ لفظ پہلے اس معنی کے لیے وضع ہوا اور پھر اس معنی میں استعمال ہوا۔ حقیقت ومجاز کی تقسیم کی یہ ساری بحث صرف احتمال پر چل رہی ہے کہ احتمال یہی ہے کہ ایسا ہوا ہو گا۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا کہ اہل عرب نے کوئی اجتماع کر کے طے کیا ہو کہ ہم اس معنی کے لیے اس لفظ کو وضع کرتے ہیں اور یہ اس کا حقیقی معنی ہو گا۔ اور مجازی معنی صرف اسی صورت مراد لینا ممکن ہے جبکہ آپ زبان کو وضع سمجھتے ہوں لیکن شرعی اور تاریخی دلائل کی روشنی میں زبان وضع نہیں بلکہ توقیف ہے۔ تو قرآن مجید میں مجاز نہیں ہے۔ اور جو ہے، وہ حقیقت ہی ہے۔

امام صاحب کہتے ہیں کہ مجاز کی معروف ترین مثال قرآن مجید میں یہ بیان کی جاتی ہے: وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ (ترجمہ: آپ بستی سے پوچھ لیں۔) تو یہاں ”أهل“ محذوف نکالا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مجاز ہے کہ علاقہ محلیت کا ہے یعنی محل بول کر حال مراد ہے یعنی بستی سے مراد اہل بستی ہیں اور یہ مجازی معنی ہے۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ قرية کا لفظ قرى سے بنا ہے کہ جس کا بنیادی معنی جمع ہونا ہے لہذا قرية سے مراد وہ بستی ہے کہ جس میں لوگ جمع ہوں یعنی لغت میں قرية انسانوں سے آباد بستی کو کہتے ہیں۔ تو محذوف نکالنے کی ضروت ہی نہیں ہے کہ وضعی معنی میں ہی وہ معنی موجود ہے کہ جسے مجازی معنی کہا جا رہا ہے۔

اسی طرح امام صاحب کو کہا گیا کہ امام احمد نے اللہ عزوجل کے اس قول إنَّا مَعَكْمْ (ترجمہ: ہم تمہارے ساتھ ہیں) کو مجاز کہا ہے۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ امام احمد﷫ کی مراد اصطلاحی مجاز نہیں بلکہ لغوی مجاز ہے کہ لغت عرب میں اس آیت کا یہ معنی بھی جائز ہے یعنی لغت عرب کے مطابق یہاں معیت سے مراد علمی معیت لی جا سکتی ہے۔ معیت سے مراد علم لینا، یہ تاویل ہے یا نہیں؟ اس میں سلفی علماء، عرب کے ہوں یا عجم کے، بہت الجھے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس کوئی قابل اطمینان جواب نہیں ہے سوائے اس دعوی کے یہ تاویل نہیں ہے۔ اور ہمیں محسوس یہ ہوتا ہے کہ امام صاحب نے اس مسئلے کو جس طرح حل کیا ہے، اسے صحیح طور سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

امام صاحب کی تھیورائزیشن یہ ہے کہ سلف صالحین سیاق وسباق کی وجہ سے لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے جو پھیر دیتے ہیں تو یہ تفسیر ہے، اسے تاویل بھی کہہ سکتے ہیں جو کہ محمود تاویل ہے۔ لیکن یہ تاویل لفظ کو اس کے حقیقی اور وضعی معنی میں ہی استعمال کرنا ہے کہ اہل عرب نے محض مفردات کو وضع نہیں کیا بلکہ تراکیب (phrases) کو بھی وضع کیا ہے یا آسان الفاظ میں کہہ لیں کہ زبان کا محاورہ بھی اہل زبان کی وضع ہی ہوتا ہے۔ تو فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ میں عربی کے محاورے کے مطابق وَجْهُ اللَّهِ سے قبلہ مراد لینا جائز ہے لیکن یہ مراد لینے سے صفت وجہ کا انکار نہیں ہوتا، وہ دوسری نصوص سے اپنی جگہ ثابت رہتی ہے بلکہ اس نص سے بھی ثابت ہو رہی ہوتی ہے کہ مجاز مراد لینے سے حقیقت متعذر نہیں ہو جاتی۔ آسان الفاظ میں جب آپ مجازی معنی مراد لیتے ہیں تو حقیقت ختم نہیں ہوجاتی جو اس مجاز کی اصل ہے کیونکہ اسی حقیقت کے تصور پر ہی تو مجازی معنی قائم ہے۔

تو سلف نے جب وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ میں معیت کا معنی ”معیت علمی“ لیا ہے تو یہ مجاز نہیں بلکہ ”مشترک مقرون“ ہے یعنی ایسا مشترک لفظ ہے جو اپنے قرینے یعنی سیاق وسباق یا آسان الفاظ میں محاورہ عرب کے سبب ایک نیا وضعی معنی پیدا کرتا ہے۔ تو یہ تاویل نہیں بلکہ وضعی معنی میں ہی لفظ کا استعمال ہے۔ اور یہ آیت کی وہ تفسیر اور تاویل ہے جو متکلم کا مقصود ہے۔ لیکن یہ تفسیر اور تاویل کرنے کے ساتھ ”معیت حقیقی“ کا انکار ممکن نہیں کہ جس پر اس تفسیر اور تاویل کی بنا رکھی گئی ہے۔ تو اللہ عزوجل عرش پر ہوتے ہوئے ہمارے ساتھ ہے، حقیقی معنوں میں بھی، یعنی یہ معیت جہت علو سے ہے یعنی معیت ذاتیہ فوقیہ ہے، اس کا انکار جائز نہیں ہے۔ اور یہ معنی اپنی جگہ ثابت ہے، معیت علمی مراد لینے کے بعد بھی۔