امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ تاویل کے دو ہی معانی ہمیں کتاب وسنت میں ملتے ہیں؛ مخبر بہ (جس کی خبر دی گئی ہو) کا واقع ہو جانا اور مامور بہ (جس کا حکم دیا گیا ہو) پر عمل کرنا اور اسی معنی میں کتاب وسنت کی نصوص کی تاویل کے ہم قائل ہیں۔علاوہ ازیں تاویل کا ایک تیسرا معنی تفسیر بھی ہے جو ہمیں سنت میں ملتا ہے جیسا کہ رسول اللہ﷐ نے حضرت عبد اللہ بن عباس﷜ کے بارے دعا فرمائی تھی:

اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل۔
ترجمہ: اے اللہ، انہیں دین کی گہری سوجھ بوجھ اور تفسیر کا علم عطا فرما۔

اور اسی معنی میں امام طبری وغیرہ نے اپنی تفاسیر میں تاویل کا لفظ استعمال کیا ہے جیسا کہ وہ اکثر اپنی تفسیر میں کسی آیت کی تفسیر میں صحابہ یا تابعین کے اقوال بیان کرنے سے پہلے کہتے ہیں: القول في تاويل قوله تعالى یعنی اس آیت کی تفسیر میں یہ یہ اقوال ہیں۔ تو سلف بعض اوقات کسی لفظ کو اس کے ظاہر معنی سے پھیر دیتے ہیں کہ وہ مراد نہیں ہوتا تو اس کے لیے وہ تاویل کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اور تاویل سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ متکلم کا مقصود کیا ہے، وہ معلوم کیا جائے۔ اور بعض اوقات متکلم کا مقصود ظاہری معنی میں نہیں ہوتا ہے۔ لہذا اس معنی میں تاویل جائز ہے۔ تو تاویل دراصل متکلم کے مقصود تک پہنچنے کا نام بھی ہے۔ اور اس معنی میں تاویل سے مراد متکلم کے مقصود تک زبان کے معروف اسالیب میں سے کسی اسلوب کو اختیار کر کے پہنچنا ہے۔ یہ تاویل محمود ہے یعنی قابل ستائش ہے کہ اس کا مقصد اسماء وصفات کے معانی کا انکار نہیں بلکہ کلام الہی کے صحیح معانی کا تعین ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ سلف میں سے بعض نے آیت مبارکہ يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ یعنی جس دن پنڈلی سے پردہ اٹھا لیا جائے گا، کا معنی یہ کیا ہے کہ اس سے مراد اس دن کی ہولناکی اور شدت کو بیان کرنا ہے جیسا کہ یہ معنی عبد اللہ بن عباس﷜ سے تفسیر طبری وغیرہ میں منقول ہے۔ عبد اللہ بن عباس ﷜ نے یہاں اس آیت میں متکلم کے مقصود کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ یہ ہے کہ وہ دن بڑا سخت دن ہو گا۔ انہوں نے کسی صفت کی نفی نہیں کی ہے۔ اور قرآ ن مجید میں اس صفت یعنی صفت ساق کا بیان ہے بھی نہیں کیونکہ قرآن مجید میں تو محض ساق یعنی پنڈلی کا ذکر ہے اور اس کی اضافت اور نسبت رب کی طرف نہیں کی گئی ہے۔

اصل میں صفت ساق کا بیان حدیث مبارکہ میں ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے:

يكشف ربنا عن ساقه، فيسجد له كل مؤمن ومؤمنة
ترجمہ: قیامت والے دن ہمارا رب اپنی پنڈلی ظاہر کر دے گا تو ہر مومن مرد اور عورت اس کے سامنے سجدے میں گر جائے گا۔

اس معنی کی اور بھی روایات موجود ہیں۔ تو اس حدیث کی وجہ سے صفت ساق یعنی اللہ کی پنڈلی کا اثبات کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷐ نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے اس کا اثبات کیا ہے۔ اور یہی تفسیر اس آیت مبارکہ کے بیان میں عبد اللہ بن مسعود ﷜ سے مروی ہے کہ پنڈلی سے مراد اللہ کی پنڈلی ہے۔

تو سلف میں سے جس نے محض قرآن مجید کو سامنے رکھ کر آیت کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے ساق کو صفت میں شمار نہ کیا لیکن اس کا انکار بھی نہیں کیا۔ تو یہ بھی درست ہے کہ قرآن مجید میں ساق کی نسبت رب کی طرف نہیں کی گئی ہے۔ اور سلف میں سے جنہوں نے احادیث کی روشنی میں آیت کا معنی متعین کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے ساق سے مراد صفت ساق لی ہے تو یہ بھی درست ہے۔ پہلا رستہ ابن عباس ﷜ کا ہے اور دوسرا ابن مسعود﷜ کا ہے۔ اور دونوں ہی فقہاء صحابہ میں سے ہیں۔

رہا تاویل کا چوتھا معنی کہ لفظ کو اس کے راجح معنی سے مرجوح معنی کی طرف پھیر دینا کسی قرینے کے سبب سے تو یہ معنی متاخرین میں رائج ہے، خاص طور متکلمین کی جماعت میں۔ سلف صالحین نے اس معنی میں تاویل کے لفظ کو استعمال نہیں کیا۔ اور اس معنی میں تاویل کا استعمال جائز بھی نہیں ہے کہ یہ متکلم کا مقصود نہیں ہے بلکہ اس معنی میں متاول یعنی تاویل کرنے والا ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ اللہ عزوجل کو خبر دے رہا ہوتا ہے کہ وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ۔
ترجمہ: آپ ان سے کہہ دیجیے کیا تم اللہ کو خبر دو گے اس کی جو وہ زمین و آسمان میں نہیں جانتا۔

تاویل کا ایک معنی یہ بھی مستعمل ہے کہ لفظ کو اس کے حقیقی اور راجح معنی سے بغیر کسی دلیل اور قرینے کے مرجوح معنی کی طرف پھیر دینا، تو تاویل اس معنی میں بھی ایک باطل فعل ہے اور اسی کو تحریف کہتے ہیں کہ تحریف، لفظی اور معنوی دونوں طرح سے ہوتی ہے۔

اس معنی میں تاویل سلف سے منقول نہیں ہے اور نہ ہی متقدمین اہل لغت میں معروف ہے بلکہ تاویل کا یہ معنی معتزلہ سے متکلمین نے لیا، وہاں سے متکلمین کی اصول فقہ میں آیا، اور پھر وہاں سے متاخرین اہل لغت نے لیا۔ امام ابن تیمیہ کے بقول اس معنی میں تاویل اس امت میں چوتھی صدی ہجری میں شروع ہوئی۔ اور اس سے پہلے تین صدیوں میں جو تاویل دکھلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اس معنی میں تاویل نہیں ہے، بس مخاطب کا وہم ہے۔ امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے مخالفین کو تین سال کی مہلت دی اور کہا کہ جس معنی میں تم تاویل کرتے ہوئے، اس معنی میں صفات باری تعالی میں تاویل، سلف میں کسی ایک سے کوئی ایک قول ثابت کر دو، میں مان جاؤں گا۔ تو امام ابن تیمیہ خود کہتے ہیں کہ یہ کہنے سے پہلے میں نے بہت مطالعہ کیا۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ میرے مخالفین خوش ہو کر کتابیں چھاننے لگ گئے۔

کچھ عرصے بعد ان میں سے ایک خوشی خوشی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ لیں سلف سے صفات میں تاویل کی سند لے آیا ہوں۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ مجھے پتہ ہے کہ تم کیا لے کر آئے ہو؟ اس نے جوابا کہا کہ کیا لایا ہوں؟ امام صاحب نے کہا کہ سنن البیہقی کی روایت ہے کہ امام شافعی نے کہا ہے کہ فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ میں وجه الله سے مراد قبلہ ہے۔ یعنی امام شافعی نے اللہ کا چہرہ مراد نہیں لیا۔ اس سے امام صاحب کے وسعت مطالعہ کا پتہ چلتا ہے کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ سلف سے صفات باری تعالی میں کوئی تاویل منقول نہیں ہے، تو اس کا یہ معنی نہیں کہ انہیں نہیں معلوم کہ سلف کے کون سے کون سے اقوال ایسے ہیں کہ جنہیں ان کا مخالف دلیل کے طور پیش کرسکتا ہے۔ وہ نہ صرف ان سب اقوال کو جانتے ہیں بلکہ ان کا جواب بھی تفصیل سے نقل کرتے ہیں۔

تو یہاں ان کے مخاطب شاید شافعی عالم دین تھے تو امام صاحب نے اس نسبت سے امام شافعی کے قول کا تذکرہ کر دیا۔ ورنہ وہ صفات باری تعالی میں تاویل کے باب میں امام احمد کی طرف منسوب ایسے اقوال کا جواب بھی اسی طرح سے دیتے ہیں۔ تو امام صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس شخص سے کہا کہ یہ آیت۔ آیات صفات میں سے نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ اس آیت میں اللہ کے لیے وجہ یعنی چہرے کا اثبات ہے، کیا آپ نہیں دیکھ رہے۔ تو امام صاحب نے جواب دیا کہ نہیں، یہاں اس آیت میں اللہ کی کسی صفت کا اثبات نہیں ہے، اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو تا کہ تمہیں ہمارا موقف اچھی طرح سمجھ آ جائے۔ یہاں ہمارے نزدیک بھی مراد قبلہ ہی ہے۔

اب ہمارا مخالف یہ طعن کرتا ہے کہ ہم بھی تاویل کے قائل ہیں جبکہ ہم تاویل کے نہ تو قائل ہیں اور نہ ہی تاویل کر رہے ہیں اور نہ ہی سلف نے تاویل کی ہے۔ اس آیت کا یہ جو معنی ہم نے کیا ہے تو یہ اس آیت کا حقیقی معنی ہی ہے اور اہل عرب نے اس معنی میں اس لفظ کو استعمال کیا ہے۔ تو عرب وجه سے مراد چہرہ لیتے ہیں لیکن وجه الله ایک دوسرا لفظ ہے کہ جسے اہل عرب نے ایک دوسرے معنی کے لیے وضع کیا ہے۔ تو اہل عرب کبھی مفرد لفظ کو وضع کرتے ہیں اور کبھی مرکب لفظ کو وضع کرتے ہیں جیسا کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ قصدت هذا الوجه تو ان کی اس سے مراد جہت ہی ہوتی ہے۔

اس کی مثال لفظ رأس بھی ہے کہ جس کا معنی سر ہے۔ تو جب یہ لفظ اکیلا ہی وضع ہوا ہے تو اسی معنی میں وضع ہوا ہے یعنی سر۔ رأس المال کا لفظ الگ سے وضع کیا ہے کہ جس کے وضعی اور حقیقی معنی میں حیوان کے سر کا معنی شامل نہیں ہے۔ اسی طرح رأس الأمر ، رأس الماء اور رأس القوم کےالفاظ اہل عرب نے علیحدہ علیحدہ معانی کے لیے وضع کیے ہیں اور یہ مجاز نہیں ہیں۔ امام صاحب کے بقول صرف مفرد وضع نہیں ہوتا بلکہ تراکیب مثلا ترکیب اضافی وغیرہ بھی وضع ہوتی ہیں۔ اور کسی خاص ترکیب کو اس کے لیے مختص معانی میں استعمال کرنا بھی حقیقت ہی ہے۔ اور یہ قول غلط ہے کہ صرف مفردات کی وضع ہوئی ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ تو مفرد بھی وضع ہوا ہے اور مرکب بھی وضع ہوا ہے۔

امام صاحب کہتے ہیں کہ ذهبت معه ، ذهبت إليه اور ذهبت به تینوں کے معانی فرق ہیں اور یہ تینوں وضعی معانی ہی ہیں کہ اہل زبان نے ایک ہی لفظ کو مختلف حروف کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال کیا ہے کہ جسے اصطلاح میں یوں کہہ دیا جاتا ہے کہ صلہ بدل جانے سے فعل کے معانی بدل جاتے ہیں جیسا کہ انگریزی میں اس کی مثال پریپوزیشن کی ہے کہ جس کے بدلنے سے ورب کے معانی بدل جاتے ہیں۔ تو اب وہ مجازی معانی نہیں ہیں، بلکہ سب ہی وضعی معانی ہیں اور اہل زبان نے ان الفاظ کو ایسے ہی وضع کیا ہے۔