اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب امام ابن تیمیہ فلاسفہ اور متکلمین کے قانون کلی یا قانون تاویل کا اس شدت سے رد کرتے ہیں تو وہ خود کیا تاویل کے قائل بھی ہیں یا نہیں؟ اور اگر وہ کسی قسم کی تاویل کے قائل ہیں تو وہ کیا ہے؟ یا وہ اس قانون کلی کے متبادل کے طور کون سا اصول اور قانون پیش کرتے ہیں کہ جس کی روشنی میں ہم نقل یا وحی کی خبر کے معانی کو سمجھ سکتے ہیں۔

جواب: امام ابن تیمیہ﷫ کا کہنا ہے کہ تاویل کے چار معانی ہیں؛ پہلا معنی تو یہ ہے کہ لفظ کو اس کے حقیقی اور وضعی معنی کی طرف پھیرا جائے کیونکہ تاویل کا لفظ ”اول“ سے نکلا ہے کہ جس کا بنیادی معنی ہی پھیرنا ہے۔ تو جب ہم کسی لفظ کو اس کے اصل معنی یعنی اس معنی کی طرف پھیر دیتے ہیں کہ جو اس کی حقیقت ہے یا جس معنی کے لیے اہل زبان نے اس لفظ کو وضع کیا ہے یا مختص کیا ہے تو وہی اس کی تاویل ہے۔ تو لفظ اگر خبر ہے تو اس کی تاویل مخبر بہ [جس کی خبر دی گئی ہو] کا واقع ہو جانا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

وَقَالَ يَا أَبَتِ هٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا۔
ترجمہ: اور حضرت یوسف ﷤ نے کہا کہ اے میرے ابا جان! یہی میرے خواب کی تاویل [حقیقت جو واقع ہو چکی ہو] ہے جو میں نے اس سے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے سچ ثابت کر دکھایا ہے۔

اور اگر لفظ انشاء ہو تو اس کی تاویل سے مراد مامور بہ [جس کا حکم دیا گیا ہو] پر عمل کرنا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ﷞ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول﷐ اکثر وبیشتر رکوع اور سجدے میں یہ دعا پڑھتے تھے: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي آگے الفاظ ہیں: يتأول القرآن یعنی آپ ﷐ قرآن مجید کی تاویل کرتے ہوئے ایسا کرتے تھے۔ اور حدیث میں ہی قرآن مجید سے مراد سورۃ النصر کی یہ آیات ہیں:

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ
ترجمہ: آپ اپنے رب کے نام کی تسبیح بیان کریں اور اس سے استغفار کریں۔

تو حدیث یہ کہہ رہی ہے کہ آپ ﷐ان آیات [یعنی ان پر عمل] کی تاویل کرتے ہوئے رکوع اور سجدے میں یہ دعا کثرت سے پڑھتے تھے۔ تو لفظ دو حال سے خالی نہیں ہے؛ یا تو اس میں خبر ہے یعنی وہ جملہ خبریہ ہے یا اس میں انشاء ہے یعنی جملہ انشائیہ ہے۔ پھر انشاء کی آگے دس قسمیں ہیں جو اہل علم کے ہاں معروف ہیں اور ان میں سے ایک امر یعنی حکم بھی ہے۔ تو لفظ اگر خبر ہے تو اس لفظ کی تاویل کا معنی یہ ہے کہ جیسا کہ خبر دی گئی ہے، ویسے ہی وہ واقع ہو جائے۔ اور لفظ اگر انشاء ہے مثلا امر ہے تو اس کی تاویل کا معنی یہ ہے کہ اس حکم پر عمل کیا جائے جیسا کہ وہ حکم دیا گیا ہے۔ تو دونوں صورتوں میں تاویل خارجی حقیقت کو کہتے ہیں۔ یہ بہت اہم لفظ ہے جو ابن تیمیہ ﷫ نے بیان کیا ہے یعنی تاویل “خارجی حقیقت” کا بیان ہے، یہاں بیان کا لفظ بمعنی تفصیل ہے۔ تو آیات کی تاویل کا مطلب ان کی خارجی حقیقت کا بیان ہے نہ کہ ذہنی معانی۔ اسی سے ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ آیت مبارکہ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ یعنی متشابہ آیات کی تاویل اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، میں تاویل سے مراد خارجی حقیقت ہے، اگر تو ہم وقف لفظ اللہ پر کریں۔ تو قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے کہ جس کا معنی معلوم نہ ہو، بھلے وہ محکم ہو یا متشابہ۔ اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں لغو کلام نہیں کیا ہے کہ جس کا معنی ہی اس کے بندوں کو معلوم نہ ہو سکے۔ البتہ متشابہ آیات وہ ہیں کہ ان کی خارجی حقیقت کا علم اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ تو ایک اعتبار سے ان آیات کا معنی معلوم ہے اور ایک اعتبار سے نہیں ہے۔

کتاب وسنت کی انہی نصوص سے ہی ابن تیمیہ﷫ اپنا قانون تاویل اخذ کرتے ہیں اور اسے یوں بیان کرتے ہیں کہ تاویل یہ ہے کہ معنی معلوم ہے لیکن کیفیت مجہول ہے۔ تو تاویل کا معنی نہ تو تعطیل ہے یعنی ہم لفظ کا اصل اور حقیقی معنی ہی معطل کر دیں۔ اور نہ ہی تاویل کا معنی تحریف ہے کہ ہم لفظ کا حقیقی معنی چھوڑ کر کوئی اور معنی مراد لے لیں یعنی لفظ کو اس کے اصل معنی سے پھیر دیں۔ اور نہ ہی تاویل کا معنی تکییف ہے کہ ہم لفظ کے معنی کی کیفیت بیان کرنے لگ جائیں۔ اور نہ ہی تاویل کا معنی تمثیل ہے کہ ہم لفظ کے معنی کی وضاحت کے لیے مثال کا سہارا لیں۔ اور نہ ہی تاویل کا معنی تفویض ہے کہ ہم لفظ کا معنی متکلم کے سپرد کر دیں کہ وہی جانے کہ کیا معنی ہے۔

تو تاویل نہ تعطیل ہے، نہ تحریف، نہ تکییف، نہ تمثیل اور نہ ہی تفویض۔ تو تاویل کیا ہے؟ تاویل لفظ کا حقیقی اور اصلی معنی بیان کرنا، اس کی کیفیت سے اعراض کرتے ہوئے۔ تاویل کا مطلب ہے کہ لفظ معلوم المعنی ہے اور متشابہ الکیفیہ ہے۔ یعنی لفظ کا معنی معلوم ہے جبکہ کیفیت متشابہ ہے۔ تو متشابہ آیات کا معنی معلوم ہے لیکن ان معانی کی کیفیات یعنی خارجی حقیقت متشابہ ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ عزوجل نے ابلیس سے کہا تھا :

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ۔
ترجمہ: اے ابلیس، تجھے اس کو سجدہ کرنے سے کس نے منع کیا کہ جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ عزوجل کی طرف ”ید“ یعنی ہاتھ کی نسبت کی گئی ہے۔ تو کیا اللہ عزوجل کے لیے ”ید“ یعنی ہاتھ کا اثبات کیا جائے گا؟ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ”ید“ کا اثبات تو خود قرآن مجید نے کیا لہذا اس کا انکار کفر ہے۔ البتہ ”ید“ کے معانی میں اختلاف ہو گیا کہ وہ کیا ہیں۔ اب لغت میں ”ید“ کا اصلی یا حقیقی معنی ہاتھ ہی نقل ہوا ہے کہ اہل زبان نے اسی معنی کے لیے اسے وضع کیا تھا۔ تو امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ تاویل یہ ہے کہ آپ یہ کہیں کہ اللہ عزوجل کے ہاتھ ہیں لیکن ہم ان کی کیفیت بیان نہیں کرتے۔ تو اس معنی میں سلف صالحین آیات کی تاویل کرتے تھے اور ہم بھی اس معنی میں تاویل کے قائل ہیں۔

اگر آپ نے ”ید“ کا معنی ہاتھ نہ لیا تو آپ نے تعطیل کی یعنی لفظ کا اصل معنی معطل کر دیا۔ اور اگر آپ نے ”ید“ سے مراد قدرت لی تو آپ نے تحریف کی کہ لفظ کا اصل معنی چھوڑ کر دوسرا معنی مراد لے لیا کہ جسے مجاز کہہ دیا جاتا ہے کہ جس پر تفصیل سے آگے گفتگو آئے گی کہ امام ابن تیمیہ قرآن مجید میں مجاز کے قائل نہیں ہیں۔ اور اگر آپ نے یہ کہا کہ اللہ کا ”ید“ یعنی ہاتھ ہے اور اس میں ایک انگوٹھا، پانچ انگلیاں اور ایک ہتھیلی ہے تو یہ ”تکییف“ ہے اور یہ بھی جائز نہیں کہ آیات متشابہات کی خارجی حقیقت کوئی نہیں جانتا۔ اور اگر آپ نے اللہ عزوجل کی صفت ”ید“ کو سمجھانے کے لیے کوئی مثال بیان کی کہ وہ ہاتھ انسان کے جیسا ہے تو یہ تمثیل ہے اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اللہ عزوجل کے لیے مثالین بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور اگر آپ نے یہ کہا کہ ”ید“ کے معنی خدا ہی جانے تو یہ تفویض ہے اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اللہ عزوجل نے انسانوں کو اپنا تعارف کروایا ہے تو اس طرح نہیں کروایا کہ انہیں سمجھ ہی نہ آئے ورنہ تو کلام کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔