امام ابن تیمیہ﷫ کا کہنا ہے کہ متکلمین کے ”قانون کلی“ کے تینوں مقدمات باطل ہیں۔ پہلا مقدمہ یہ کہ نقل اور عقل میں تعارض ہو سکتا ہے تو ہم نے واضح کر دیا ہے کہ یہ محال یعنی ناممکن ہے۔ اور اگر ایسا نظر آ رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو نقل صحیح نہیں ہے یعنی وہ ثابت شدہ ہی نہیں ہے یا پھر عقل صریح نہیں ہے یعنی اس کی وہ دلالت کہ جس سے نقل کا تعارض دکھلایا جا رہا ہے، صراحتا نہیں ہے۔ تو نقل صحیح اور عقل صریح میں کبھی تعارض نہیں ہوتا ہے۔

اور متکلمین کا دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ نقل اور عقل میں تعارض میں صورتیں چار بنتی ہیں، بھی غلط ہے۔ پہلی یہ کہ دونوں کی تصدیق کی جائے، دوسری یہ کہ دونوں کی تکذیب کی جائے، تیسری یہ کہ نقل کو ترجیح دی جائے اور چوتھی یہ کہ عقل کو ترجیح دی جائے۔ پانچویں صورت یہ بنتی ہے کہ قطعی کو ترجیح دی جائے جبکہ ان میں سے ایک قطعی ہو اور دوسری ظنی۔ چھٹی صورت یہ ہے کہ راجح کو ترجیح دی جائے جبکہ دونوں ظنی ہوں۔ ساتویں صورت یہ ہے کہ ان میں تعارض کو محال یعنی ناممکن قرار دیا جائے جبکہ یہ دونوں قطعی ہوں۔ تو ان تین صورتوں میں تعارض رفع ہو جاتا ہے یعنی ختم ہو جاتا ہے۔ اور ان کا تیسرا مقدمہ یہ تھا کہ نقل اور عقل میں تعارض کی صورت میں عقل کو ترجیح دیں گے تو یہ بھی باطل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہارا یہ کہنا ہے کہ اسی عقل نے ہماری رہنمائی کی ہے کہ ہم نقل کی تصدیق کریں یعنی رسول اللہ﷐ کی رسالت کی تصدیق کریں اور ان کی لائی ہوئی وحی کی خبر پر ایمان لائیں لہذا عقل، نقل کی اصل ہے۔ تو اگر ہم عقل اور نقل میں تعارض کی صورت میں عقل کو ترجیح دیں گے اور نقل کو باطل قرار دے دیں گے تو پھر عقل کی دلالت اور رہنمائی باطل قرار پائے گی کیونکہ عقل ہی نے تو نقل کی صحت پر دلالت کی تھی۔ تو اگر نقل باطل ہو گئی تو عقل کی دلالت باطل ہو گئی۔ اور جب عقل باطل ہو گئی تو وہ نقل کے معارض نہ رہی۔ تو عقل کو مقدم کرنے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عقل کو مقدم نہ کیا جائے کہ جس کی دلالت باطل ہے یعنی جو چیز دلیل نہیں بن سکتی، وہ مقدم کیسے کی جا سکتی ہے!

اسی طرح نقل اور عقل میں اگر تعارض ہو جائے تو خود عقل یہ کہتی ہے کہ نقل کو ترجیح دو۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی شخص نے کسی عامی (layman) سے مسئلہ پوچھا۔ تو عامی نے اسے کہا کہ فلاں مفتی صاحب سے پوچھ لو کہ وہ مجھ سے بڑے عالم ہیں، وہ صحیح جواب دیں گے۔ اب وہ عامی ان مفتی صاحب کے پاس جاتا ہے اور وہ اسے مسئلے کا حل بتلاتے ہیں۔ تو اس عامی کی اس شخص سے دوبارہ ملاقات ہوتی ہے تو وہ شخص یہ کہتا ہے کہ اس سوال کا جواب یہ نہیں یہ ہے۔ تو اب اس عامی پر یہ واجب ہے کہ وہ اس شخص سے کہے کہ تمہی نے تو مجھے مفتی کا بتلایا ہے اور تمہارے کہنے پر ہی میں نے اس کی طرف رجوع کیا ہے تو اب تمہارا اختلاف معتبر نہیں ہے۔ وہ شخص اگر عامی سے کہتا ہے کہ مفتی کے پاس جانے کے لیے تو تم نے میری بات مان لی لیکن اب کیوں نہیں مان رہے؟ تو عامی کہتا ہے کہ مفتی تک پہنچنے کے لیے میں تمہاری رہنمائی کا قائل ہوں لیکن جب مفتی تک پہنچ گیا کہ تمہارے بقول وہی تھا کہ جو تم سے بڑا عالم تھا لہذا تم نے مجھے اس کی طرف بھیجا، تو اب اس کے ملنے کے بعد تمہارا اس سے اختلاف معتبر نہیں ہے۔

تو وہ شخص اس مثال میں عقل ہے جبکہ عامی سے مراد عام آدمی ہے اور مفتی سے مراد رسول ہے۔ تو اگر عقل نے انسان کی اس طرف رہنمائی کی ہے کہ وہ رسول کی تصدیق کرے اور اس کی وحی کی خبر پر ایمان لائے تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ اگر عقل جو کہ انسان کی رہنما ہے، اس کا رسول سے اختلاف ہو جائے تو عقل کی بات ہی مانی جائے۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ کسی نے خوب کہا ہے کہ عقل متولی ہے یعنی عقل نے رسول تک رہنمائی کرنے کے بعد اپنی سیٹ رسول کے لیے خالی کر دی ہے اور رسول کو اس سیٹ پر بٹھا دیا ہے۔ اب عقل نے جس کو خود اپنی سیٹ پر اس لیے بٹھایا ہے کہ وہ اس سے زیادہ اس سیٹ کا حقدار ہے تو بعد ازاں کسی اختلاف کی صورت میں اسے کیسے وہاں سے اٹھا سکتی ہے! اور ایسا کرنے کی صورت میں عقل کا پہلا فیصلہ باطل ٹھہرے گا۔ لہذا جب اس کا پہلا فیصلہ باطل ٹھہرے گا تو وہ دلیل نہ رہی یعنی دلالت کے قابل نہ رہی۔

پھر تعارض کی صورت میں اگر عقل کو نقل پر ترجیح دیں گے تو اختلاف ختم نہ ہو گا کیونکہ عقل ایک نہیں ہے بلکہ اضافی ہے کہ ہر کسی کی اپنی عقل ہے لہذا ہر کسی کا حکم بھی اپنا ہو گا تو خود عقل، عقل کے متعارض ہو جائے گی۔ اس طرح تعارض باقی رہے گا اور مقصد حاصل نہ ہو گا۔ رہی نقل یعنی شریعت اور وحی کی خبر تو اگر وہ صحیح ثابت ہو جائے تو ایک ہی ہے لہذا اس کو ترجیح دینے کی صورت میں عقل اور نقل کا تعارض واقعی میں رفع ہو جائے گا۔ یہ بات یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ آدم﷤ سے محمد﷐ تک تمام انبیاء﷩ کی دعوت کا خلاصہ ایک ہی ہے یعنی توحید کا اہتمام اورشرک سے اجتناب وغیرہ۔ لیکن دوسری طرف سقراط سے لے کر ہائیڈیگر تک سب کی فلاسفی اپنی اپنی ہے۔

اسی طرح نقل کو عقل پر اس لیے ترجیح دی جائے گی کہ عقل تمام نقل کی تصدیق کرتی ہے یعنی عقل یہ کہتی ہے کہ رسول نے جو بھی خبر دی ہے، اس پر ایمان لاؤ، بس صرف اتنا دیکھ لو کہ وہ رسول ہی نے دی ہے۔ لیکن نقل، تمام عقل کی تصدیق نہیں کرتی ہے کہ ان میں سے جو ضروری علوم ہیں، انہیں مانتی ہے جیسا کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں وغیرہ، لیکن جو عقلی علوم نظری ہیں تو ان کی تصدیق نقل نہیں کرتی ہے بلکہ نظری علوم تو خود عقلاء کے ہاں مختلف فیہ ہیں۔