امام ابن تیمیہ﷫ کا کہنا ہے کہ متکلمین یعنی اشاعرہ نے ”قانون کلی“ فلاسفہ کی جماعت سے متاثر ہو کر اپنایا ہے بلکہ امام صاحب نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ امام غزالی﷫ ”الشفاء“ نے بیمار کر دیا اور ”الشفاء“ معروف فلسفی ابن سینا متوفی 428ھ کی کتاب ہے۔ اشاعرہ میں سے پہلے پہل قاضی ابو بکر الباقلانی متوفی 402ھ نے تعارض کی صورت میں عقل کو نقل پر ترجیح دینے کی بات کی۔ شوافع میں سے ابو حامد الاسفرائینی متوفی 406ھ اپنے معاصر شافعی عالم دین ابو بکر الباقلانی کے افکار کا رد کرتے تھے۔ اس کے بعد الباقلانی کے شاگرد خطیب بغدادی متوفی 463ھ نے یہی فکر پیش کیا کہ تعارض کی صورت میں عقل کو نقل پر ترجیح حاصل ہے۔ علاوہ ازیں امام الحرمین الجوینی متوفی 478ھ نے عقل و نقل کی کشمکش میں عقل کو ترجیح دینے کا مسلک اپنی کتاب الإرشاد إلى قواطع الأدلة في أصول الاعتقاد میں بیان کیا۔ ان کے بعد ان کے شاگرد امام غزالی متوفی 505ھ نے اپنی کتاب المستصفی اور قانون التاویل میں یہی موقف قدرے تفصیل سے پیش کیا۔ پھر اسے بہت ہی مرتب انداز میں امام رازی متوفی 606ھ نے اپنی کتاب أساس التقديس في علم الكلام میں پیش کیا اور اپنی چند دیگر کتب میں بھی اسے نقل کیا۔ امام ابن تیمیہ ﷫ نے اپنی کتاب درء تعارض العقل والنقل میں 44 اعتبارات سے اشاعرہ کے اس قانون یعنی ”قانون کلی“ کا رد کیا ہے۔ امام رازی ﷫ کا کہنا ہے کہ جب نقلی اور عقلی دلیل میں تعارض ہو جائے تو پھر چار صورتیں بنتی ہیں؛ پہلی صورت تو یہ ہے کہ آپ تعارض کی صورت میں دونوں دلیلوں کو ہی درست قرار دیں جو کہ تصدیق نقیضین ہے یعنی دو متضاد چیزوں کو سچ مان لینا ہے اور یہ عملا ممکن نہیں کہ دو متضاد چیزیں سچ ثابت ہو جائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ عقل اور نقل دونوں کو غلط کہہ دیں تو یہ تکذیب نقیضین ہے یعنی دو متضاد چیزوں کو جھوٹ قرار دینا تو یہ بھی ممکن نہیں ہے یعنی آپ کو ان میں سے ایک کو لینا پڑے گا کہ ان میں سے ایک سچ ہے اور دوسرا جھوٹ ہے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ آپ یہ کہیں کہ ہم نقلی دلیل کے ظاہری مفہوم کو لے لیتے ہیں جبکہ عقلی دلیل کے ظاہری مفہوم کو چھوڑ دیتے ہیں تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ اگر ہم عقل کو چھوڑ کر نقل کو لے لیتے ہیں تو عقل غلط ثابت ہو جائے گی۔ اور اسی عقل کی بنیاد پر ہی تو ہم نقل کو ثابت کر رہے ہیں جیسا کہ خالق کا اثبات اور نبی کے معجزات عقل ہی سے تو ثابت ہوتے ہیں۔ تو اگر آپ نے عقل کو غلط ثابت کر دیا تو نقل بھی غط ہو جائے گی کہ عقل، نقل کی اصل ہے۔ تو جب اصل غلط ہوئی تو فرع بھی غلط ہو گئی۔ اب چوتھی صورت ہی باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں میں تعارض کی صورت میں عقل کو نقل پر ترجیح دیں اور یہ کہیں کہ یا تو نقل صحیح نہیں ہے لہذا اس کا انکار کر دیں یا پھر اس نقل کا وہ مفہوم بیان کریں جو عقل کے مطابق ہو۔

امام ابن تیمیہ﷫ نے اس ”قانونی کلی“ یا ”قانون تاویل“ کا رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون تین مقدمات پر مشتمل ہے اور تینوں ہی باطل ہیں۔ اس قانون کا پہلا مقدمہ یہ ہے کہ نقل اور عقل میں تعارض ہوتا ہے۔ دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ تعارض کی صرف چار صورتیں ہی بنتی ہیں۔ تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ ان چار میں چوتھی صورت ہی قابل حل ہے۔ امام صاحب یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اس قانون کے پہلے مقدمے کی طرف آئیں کہ نقل اور عقل میں تعارض ہوتا ہے تو ہم یہ سوال کریں گے کہ پہلے یہ بتلائیں کہ آپ کی نقل اور عقل سے مراد کیا ہے؟ قطعی دلیل یا ظنی دلیل؟ تو عملا تین صورتیں بنتی ہیں۔

پہلی صورت یہ ہے کہ نقلی اور عقلی دونوں دلیلیں قطعی ہوں تو دونوں میں تعارض ممکن نہیں اور اس پر اہل عقل کا اتفاق ہے۔ اہل عقل کا کہنا یہ ہے کہ قطعی دلیل کبھی بھی قطعی دلیل کے متعارض نہیں ہو سکتی، چاہے دونوں نقلی ہوں، یا دونوں عقلی ہوں، یا ایک نقلی اور دوسری عقلی ہو۔ اور اگر کسی کو دو قطعی دلیلوں میں تعارض نظر آ رہا ہے تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں؛ ایک یہ کہ ان میں سے کوئی ایک دلیل قطعی نہ ہو اور دوسری یہ کہ اس کی نظر کمزور ہو۔

دوسری صورت یہ ہے کہ نقل وعقل میں تعارض کی صورت میں ایک دلیل قطعی ہو اور دوسری ظنی ہو تو تمام اہل عقل کا اتفاق ہے کہ قطعی دلیل کو ظنی دلیل پر ترجیح حاصل ہو گی، چاہے وہ قطعی دلیل نقلی ہو یا عقلی ہو۔ تو یہاں ترجیح کی وجہ قطعی ہونا ہے نہ کہ عقلی ہونا لہذا قطعیت کو ترجیح ملی نہ کہ عقل کو۔ تو تعارض کی صورت میں عقل کی ترجیح کا قاعدہ کہاں سے لے آئے ہو! تیسری صورت یہ ہے کہ دونوں دلیلیں یعنی نقلی دلیل بھی اور عقلی دلیل بھی ظنی ہوں تو اس صورت میں وجہ ترجیح کو دیکھیں گے اور اس کے مطابق فیصلہ کریں گے، چاہے وہ نقلی دلیل کے حق میں ہو یا عقلی دلیل کے حق میں۔ اور اس پر بھی عقلاء کا اتفاق ہے۔

امام صاحب کہتے ہیں کہ اب ان کے پاس ایک ہی جواب ہو سکتا ہے کہ نقلی دلیل کبھی قطعی ہو ہی نہیں سکتی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دعوی ہی باطل ہے لیکن اگر ہم ان کے اس دعوے کو مان بھی لیں تو پھر بھی ان کا مقدمہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اگر نقلی دلیل کو ظنی مان لیں گے تو عقلی دلیل کو عقلی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ قطعی ہونے کی وجہ سے ترجیح دیں گے۔ لہذا اس صورت میں بھی ترجیح عقل کو نہیں قطعیت کو حاصل ہوئی ہے۔ امام صاحب کا کہنا ہے کہ اور جہاں تک ان کا یہ دعوی ہے کہ عقل، نقل کی اصل ہے۔ تو اس جملے کے دو معانی ہو سکتے ہیں؛ ایک یہ کہ عقل کے بغیر نقل ثابت ہی نہیں ہوتی تو ایسی بات تو کوئی صاحب عقل نہیں کرے گا۔ عقل ہو یا نہ ہو، نقل اگر ہے تو ہے۔ یعنی نقل کا ہونا یا نہ ہونا عقل کے مرہون منت نہیں ہے۔ تو عقل، نقل کے لیے ایسا سبب یا وجہ نہیں ہے کہ وہ ہو گی تو نقل ہو گی اور اگر وہ نہیں ہو گی تو نقل کا وجود بھی نہ ہو گا۔ تو عقل کا نقل کے فی نفسہ ثبوت میں کوئی کردار نہیں ہے۔ اور یہ بات عقلا ثابت ہے۔

اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ نقل کے علم اور معرفت یعنی نقل کے جان لینے میں عقل کا مقام اصل کا ہے۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوا کہ عقل سے تمہاری مراد کیا ہے؟ اگر تو عقل سے مراد آلہ عقل یعنی دماغ ہے تو یہ علم نہیں ہے بلکہ ہم اسے علم کے حصول کا ذریعہ یا شرط کہہ سکتے ہیں۔ تو جب یہ عقل علم ہی نہیں ہے تو اس کا نقل سے تعارض کا کیا معنی! تعارض تو ایک جیسی دو چیزوں میں ہوتا ہے۔ سوچ اور سوچ کا تعارض تو ہو سکتا ہے، دماغ اور سوچ کا کیا تعارض!

اور اگر عقل سے تمہاری مراد علوم عقلیہ ہیں تو واضح رہے کہ نقل کے صحیح ہونے کا دارومدار اس پر ہے کہ اس کی نسبت رسول اللہ﷐ سے سچ ثابت ہو جائے۔ اور نقل کی یہ صحت بعض اوقات علوم عقلیہ کے ساتھ حاصل ہوتی ہے اور بعض اوقات ان کے بغیر بھی حاصل ہو جاتی ہے لہذا نقل اپنے صحیح ہونے میں، ہر حال میں عقل کی محتاج نہیں ہے۔ اسی طرح کل علوم عقلیہ، نقل کی صحت معلوم کرنے میں اصل نہیں ہیں بلکہ بعض علوم عقلیہ ایسے ہیں کہ جن پر نقل کی صحت کا دارومدار ہے۔ لہذا بعض علوم عقلیہ کو غلط ثابت کرنے سے نقل غلط ثابت نہیں ہو گی کیونکہ وہ نقل کی صحت معلوم کرنے کے لیے اصل ہی نہیں ہیں تو تمہارا مقدمہ جاتا رہا کہ عقل کو باطل ثابت کرنے سے نقل بھی باطل ہو جائے گی۔